پی سی بی میں تبدیلیوں کی نئی لہر
چہرے نہیں نظام بدلنے سے تبدیلی آئے گی
وہ آئے اور بلندو بانگ دعوے کرنا شروع کر دیئے، میں یہ کروں گا، وہ کروں گا، میرے ذہن میں یہ پلان یہ آئیڈیاز ہیں، کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی، کسی کا حق نہیں مارا جائے گا۔
وہ صاحب قذافی سٹیڈیم کے ٹھنڈے ہال نما کمرے میں پرہجوم پریس کانفرنس کر چکے تو میں ان کے پاس گیا اورکہا کہ آپ نے یہ عہدہ قبول کر کے بڑی غلطی کی ہے، دو عشروں سے ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ نوکری کر رہے ہیں،کمنٹری کر کے بھی اچھا خاصا کما لیتے ہیں، کیا ضرورت تھی بورڈ کی اس سرکاری نوکری پر لات مارنے کی، وہ سب کو نظر انداز کرتے ہوئے میری جانب متوجہ ہوئے، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا کہ مجھے خود پر پورا اعتماد ہے۔
میں نے کہا کہ جناب مجھے آپ پر تو پورا اعتماد ہے لیکن اس بے اعتبار ٹیم کے بے اعتبار کھلاڑیوں پر بالکل بھی اعتبار نہیں ہے، ایک دن آپ کو خود اپنے فیصلے پر ندامت ہو گی، وہ صاحب پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی کے سربراہ ہارون رشید تھے جنہیں ایشیا کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد بورڈ سے فارغ کر دیا گیا ہے، اب وہ خود کہہ رہے ہیں کہ والدہ بیمار ہیں، مکان بھی کرائے کا ہے، بے روزگاری میں گھرکیسے چلے گا؟
ہارون رشید ہی نہیں ، مختصر طرز کے عالمی ایونٹ میں گرین شرٹس کی شرمناک شکستوں کے بعد پی سی بی میں تبدیلیوں کی ایسی لہر چلی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، شاہد آفریدی کو کپتانی اور وقار یونس کو ہیڈ کوچ کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا، بورڈ میں ہو کا عالم ہے، عہدیداروں کی راتوں کی نیندیں اور دن کا سکون ختم ہو کر رہ گیا ہے، ہر کوئی ملازمتیں بچانے کے لئے فکر مند ہے،چیئرمین پی سی بی شہریار خان اور ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کی عہدے بھی خطرے میں ہیں، سابق ٹیسٹ کرکٹر ماجد خان کو کرکٹ بورڈ کو نیا سربراہ بنائے جانے کے باتیں ہو رہی ہیں، اگر کوئی بے فکر ہے تو وہ ہماری قومی ٹیم کے کھلاڑی ہیں جن کا کوئی ماضی میں بال بیکا کر سکا ہے اور نہ ہی آئندہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی جرأت کرے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی سی بی میں تبدیلیاں کرنے اور کپتان، کوچ اور چیف سلیکٹر کو گھر بھجوانے سے پاکستانی ٹیم پرفارم کرنا شروع کر دے گی؟ گراؤنڈ کے اندر کھیلنے والے کھلاڑی تو وہی رہیں گے، کوئی بھی نیا کوچ، سلیکٹر یا کپتان خود تو جا کر گراؤنڈ میں کھیلنے سے رہا، ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ ہم نے کم از کم 2 دہائیوں سے کوئی اعلیٰ پائے کا ون ڈے بیٹسمین پیدا نہیں کیا ہے، اگر کوئی اکا دکا کھلاڑی کسی میچ میں اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے تو اس کا موازنہ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کر کے اس کا دماغ خراب کر دیتے ہیں۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سینئرکرکٹرزکی جگہ لینے والے نوجوان کھلاڑیوں کی کھیپ اس معیار کی نہیں ہے جو بین الاقوامی کرکٹ کے لیے ضروری ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم خراب کارکردگی کے باوجود یرغمال بن جاتے ہیں اور بلیک میل ہوجاتے ہیں اور ہم سینئر کرکٹروں پر ہاتھ نہیں ڈالتے، نتیجہ کے طور پر یہ کھلاڑی من مانیاں کرتے ہیں اور ٹیم میں گروپ بندی کا سبب بنتے ہیں۔
یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑیوں کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے رہا ہے لیکن جب یہ کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بنتے ہیں تو دولت ان پر فدا ہو جاتی ہے، مختصر سے عرصے میں یہ پلیئرز پسماندہ علاقوں سے نکل کر پوش ایریاز میں شفٹ ہو جاتے ہیں، محل نما گھروں میں رہتے ہیں، دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں میں پھرتے ہیں،کروڑوں روپے کے پلاٹس اور پلازوں کے مالک ہوتے ہیں۔کینیڈا، آسٹریلیا، انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں انہیں وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے، یہ جہاں جاتے ہیں ان کے پرستاران کی ایک جھلک دیکھنے اور پرتعیش دعوتیں کرنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔
اس صورتحال کے بعد تو انہیں ظاہری نمود ونمائش اور دولت کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنے کھیل کی طرف توجہ دینی چاہیے اور ایسی کارکردگی پیش کرنا چاہیے جس سے اس کے ملک کا نام روشن ہو، لیکن اس کے باوجود ان کھلاڑیوں کی ہوس ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے تو ہر طرح کا جائز و ناجائزکام کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، ایسی حرکتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے سپاٹ فکسنگ سکینڈل بنتے ہیں، میچ فکسنگ جیسے شرمناک واقعات منظر عام پر آتے ہیں، بین الاقوامی ایئرپورٹس پر منشیات کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں، ڈوپ ٹیسٹ مثبت آتے ہیں، جنسی سکینڈل بنتے ہیں، بیچوں پر رنگ رلیاں مناتے ہیں اور نائٹ کلبوں میں جا کر دل بہلاتے ہیں۔
انڈین پریمیئر لیگ ہو، بنگلہ دیشی یا سری لنکن لیگ ہو، آسٹریلوی بگ بیش ہویاجنوبی افریقہ، انگلینڈ میں کوئی لیگ، بکنے کے لئے اس طرح تیار رہتے ہیں، ان کھلاڑیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آئی پی ایل ، بی پی ایل اور ایس پی ایل یا دنیا کی کسی اور لیگ میں ان کو کس طرح اور کن شرائط پر بیچا جائے گا بلکہ انہیں تو بس یہ سروکار ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھ کتنے لاکھ ڈالر لگیں گے، ان کھلاڑیوں کی مختلف سرکاری اداروں میں پکی نوکریاں ہیں تو بورڈ سے بھی سنٹرل کنٹریکٹ کی مد میں انہیں ماہانہ لاکھوں روپے ملتے ہیں، سپانسر اداروں اورماڈلنگ سے بھی لاکھوں کی دیہاڑیاں الگ سے لگتی ہیں۔
سابق کپتان رمیز راجہ کے مطابق ایک سینئر کرکٹر سال میں کرکٹ بورڈ سے9کروڑ روپے کماتا ہے اور اگر پانچ، چھ کرکٹر اتنی بڑی رقم لے رہے ہیں اور پاکستانی ٹیم عالمی ٹی 20 رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ یہ کرکٹر اس پیسے کے اہل ہی نہیں ہیں اور اگر اہل نہیں ہیں تو انھیں تبدیل کر دینا چاہیے۔
رمیز راجہ کی بات اپنی جگہ درست ہے لیکن ہمیں یہ پہلو بھی کسی طرح بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستانی ٹیم کی انتظامیہ سمیت کھیلنے اور کھلانے والے اسی قوم سے ہیں، عوامی غم و غصے کو دیکھتے ہوئے آفیشلزکی چھٹی کروا دینا شاید زخم پر عارضی مرہم تو ہوسکتا ہے، لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے، مسئلے کا مستقل حل ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جس کے تحت ٹیلنٹ کو تلاش کر کے نکھارا جائے پھر اسے ٹیم میں بھیجا جائے، اگر ہم نے ایک بار پھر نظام بدلنے کی بجائے صرف چہرے ہی بدلے تو اس سے کچھ نہیں ہوگا،زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا ہم پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے ذمہ داروں کے خلاف بھی ایکشن میں ہوں گے،ان کیخلاف نعرے لگا رہے ہوں گے، اخبارات اور ٹی وی پر انٹرویوز دے رہے ہوں گے اور عہدیداروں کو ہٹانے کے مطالبے کر رہے ہوں گے۔
mian.asghar@express.com.pk
وہ صاحب قذافی سٹیڈیم کے ٹھنڈے ہال نما کمرے میں پرہجوم پریس کانفرنس کر چکے تو میں ان کے پاس گیا اورکہا کہ آپ نے یہ عہدہ قبول کر کے بڑی غلطی کی ہے، دو عشروں سے ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ نوکری کر رہے ہیں،کمنٹری کر کے بھی اچھا خاصا کما لیتے ہیں، کیا ضرورت تھی بورڈ کی اس سرکاری نوکری پر لات مارنے کی، وہ سب کو نظر انداز کرتے ہوئے میری جانب متوجہ ہوئے، میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے کہا کہ مجھے خود پر پورا اعتماد ہے۔
میں نے کہا کہ جناب مجھے آپ پر تو پورا اعتماد ہے لیکن اس بے اعتبار ٹیم کے بے اعتبار کھلاڑیوں پر بالکل بھی اعتبار نہیں ہے، ایک دن آپ کو خود اپنے فیصلے پر ندامت ہو گی، وہ صاحب پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی کے سربراہ ہارون رشید تھے جنہیں ایشیا کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد بورڈ سے فارغ کر دیا گیا ہے، اب وہ خود کہہ رہے ہیں کہ والدہ بیمار ہیں، مکان بھی کرائے کا ہے، بے روزگاری میں گھرکیسے چلے گا؟
ہارون رشید ہی نہیں ، مختصر طرز کے عالمی ایونٹ میں گرین شرٹس کی شرمناک شکستوں کے بعد پی سی بی میں تبدیلیوں کی ایسی لہر چلی ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، شاہد آفریدی کو کپتانی اور وقار یونس کو ہیڈ کوچ کے عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا، بورڈ میں ہو کا عالم ہے، عہدیداروں کی راتوں کی نیندیں اور دن کا سکون ختم ہو کر رہ گیا ہے، ہر کوئی ملازمتیں بچانے کے لئے فکر مند ہے،چیئرمین پی سی بی شہریار خان اور ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کی عہدے بھی خطرے میں ہیں، سابق ٹیسٹ کرکٹر ماجد خان کو کرکٹ بورڈ کو نیا سربراہ بنائے جانے کے باتیں ہو رہی ہیں، اگر کوئی بے فکر ہے تو وہ ہماری قومی ٹیم کے کھلاڑی ہیں جن کا کوئی ماضی میں بال بیکا کر سکا ہے اور نہ ہی آئندہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی جرأت کرے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی سی بی میں تبدیلیاں کرنے اور کپتان، کوچ اور چیف سلیکٹر کو گھر بھجوانے سے پاکستانی ٹیم پرفارم کرنا شروع کر دے گی؟ گراؤنڈ کے اندر کھیلنے والے کھلاڑی تو وہی رہیں گے، کوئی بھی نیا کوچ، سلیکٹر یا کپتان خود تو جا کر گراؤنڈ میں کھیلنے سے رہا، ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ ہم نے کم از کم 2 دہائیوں سے کوئی اعلیٰ پائے کا ون ڈے بیٹسمین پیدا نہیں کیا ہے، اگر کوئی اکا دکا کھلاڑی کسی میچ میں اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے تو اس کا موازنہ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کر کے اس کا دماغ خراب کر دیتے ہیں۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سینئرکرکٹرزکی جگہ لینے والے نوجوان کھلاڑیوں کی کھیپ اس معیار کی نہیں ہے جو بین الاقوامی کرکٹ کے لیے ضروری ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم خراب کارکردگی کے باوجود یرغمال بن جاتے ہیں اور بلیک میل ہوجاتے ہیں اور ہم سینئر کرکٹروں پر ہاتھ نہیں ڈالتے، نتیجہ کے طور پر یہ کھلاڑی من مانیاں کرتے ہیں اور ٹیم میں گروپ بندی کا سبب بنتے ہیں۔
یہ تلخ حقیقت اور کڑوا سچ ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے زیادہ تر کھلاڑیوں کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے رہا ہے لیکن جب یہ کھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بنتے ہیں تو دولت ان پر فدا ہو جاتی ہے، مختصر سے عرصے میں یہ پلیئرز پسماندہ علاقوں سے نکل کر پوش ایریاز میں شفٹ ہو جاتے ہیں، محل نما گھروں میں رہتے ہیں، دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں میں پھرتے ہیں،کروڑوں روپے کے پلاٹس اور پلازوں کے مالک ہوتے ہیں۔کینیڈا، آسٹریلیا، انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں انہیں وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے، یہ جہاں جاتے ہیں ان کے پرستاران کی ایک جھلک دیکھنے اور پرتعیش دعوتیں کرنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں۔
اس صورتحال کے بعد تو انہیں ظاہری نمود ونمائش اور دولت کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنے کھیل کی طرف توجہ دینی چاہیے اور ایسی کارکردگی پیش کرنا چاہیے جس سے اس کے ملک کا نام روشن ہو، لیکن اس کے باوجود ان کھلاڑیوں کی ہوس ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی، اپنی تجوریاں بھرنے کے لیے تو ہر طرح کا جائز و ناجائزکام کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، ایسی حرکتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے سپاٹ فکسنگ سکینڈل بنتے ہیں، میچ فکسنگ جیسے شرمناک واقعات منظر عام پر آتے ہیں، بین الاقوامی ایئرپورٹس پر منشیات کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں، ڈوپ ٹیسٹ مثبت آتے ہیں، جنسی سکینڈل بنتے ہیں، بیچوں پر رنگ رلیاں مناتے ہیں اور نائٹ کلبوں میں جا کر دل بہلاتے ہیں۔
انڈین پریمیئر لیگ ہو، بنگلہ دیشی یا سری لنکن لیگ ہو، آسٹریلوی بگ بیش ہویاجنوبی افریقہ، انگلینڈ میں کوئی لیگ، بکنے کے لئے اس طرح تیار رہتے ہیں، ان کھلاڑیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آئی پی ایل ، بی پی ایل اور ایس پی ایل یا دنیا کی کسی اور لیگ میں ان کو کس طرح اور کن شرائط پر بیچا جائے گا بلکہ انہیں تو بس یہ سروکار ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھ کتنے لاکھ ڈالر لگیں گے، ان کھلاڑیوں کی مختلف سرکاری اداروں میں پکی نوکریاں ہیں تو بورڈ سے بھی سنٹرل کنٹریکٹ کی مد میں انہیں ماہانہ لاکھوں روپے ملتے ہیں، سپانسر اداروں اورماڈلنگ سے بھی لاکھوں کی دیہاڑیاں الگ سے لگتی ہیں۔
سابق کپتان رمیز راجہ کے مطابق ایک سینئر کرکٹر سال میں کرکٹ بورڈ سے9کروڑ روپے کماتا ہے اور اگر پانچ، چھ کرکٹر اتنی بڑی رقم لے رہے ہیں اور پاکستانی ٹیم عالمی ٹی 20 رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہے تو اس کا مطلب صاف ہے کہ یہ کرکٹر اس پیسے کے اہل ہی نہیں ہیں اور اگر اہل نہیں ہیں تو انھیں تبدیل کر دینا چاہیے۔
رمیز راجہ کی بات اپنی جگہ درست ہے لیکن ہمیں یہ پہلو بھی کسی طرح بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ پاکستانی ٹیم کی انتظامیہ سمیت کھیلنے اور کھلانے والے اسی قوم سے ہیں، عوامی غم و غصے کو دیکھتے ہوئے آفیشلزکی چھٹی کروا دینا شاید زخم پر عارضی مرہم تو ہوسکتا ہے، لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے، مسئلے کا مستقل حل ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جس کے تحت ٹیلنٹ کو تلاش کر کے نکھارا جائے پھر اسے ٹیم میں بھیجا جائے، اگر ہم نے ایک بار پھر نظام بدلنے کی بجائے صرف چہرے ہی بدلے تو اس سے کچھ نہیں ہوگا،زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا ہم پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے ذمہ داروں کے خلاف بھی ایکشن میں ہوں گے،ان کیخلاف نعرے لگا رہے ہوں گے، اخبارات اور ٹی وی پر انٹرویوز دے رہے ہوں گے اور عہدیداروں کو ہٹانے کے مطالبے کر رہے ہوں گے۔
mian.asghar@express.com.pk