حامد میر حملے کا آئی ایس آئی پر الزام مفروضہ تھا جوڈیشل کمیشن
سینئرصحافی پر19اپریل2014کو کراچی میں حملے کے بعد جیونے آئی ایس آئی پرالزام لگایا
حامدمیرپر19اپریل 2014کوکراچی میں ہونے والے قاتلانہ حملے کی جوڈیشل انکوائری کرنے والے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کے الزام کومفروضہ قراردیا ہے۔
جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں جسٹس اعجازافضل خان اورجسٹس اقبال حمیدالرحمان پرمشتمل 3رکنی کمیشن نے 41 صفحات پرمشتمل رپورٹ دی جس میں کہا گیاکہ خفیہ ادارے پرملوث ہونے کاالزام صرف شک وشبے اورمفروضے پرمبنی تھاجس کی نوعیت سنی سنائی شہادت جیسی تھی۔ انکوائری کمیشن نے تحقیقات میں9ماہ لگائے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون نافذکرنے والے ادارے واقعے کی تفتیش میں مکمل ناکام رہے،کمیشن کی بندکمرے میں سماعت کے دوران سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئی جس میں نظر آتا ہے کہ 2افرادکراچی ایئرپورٹ پر حامدمیرکے پہنچنے کے وقت مشکوک اندازمیں نظر آرہے ہیں لیکن قانون نافذکرنے والے ادارے مجرموں تک نہیں پہنچ سکے۔رپورٹ میں کہا گیاکہ آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آرنے واقعے سے مکمل لاتعلقی کااظہارکیا لیکن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد نے خفیہ ادارے پرہی انگلیاں اٹھائیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا حق کئی معقول پابندیوں کے ساتھ ہوتاہے جو ملکی وحدت، سلامتی اوردفاع، دوست ممالک سے خارجہ تعلقات اورامن وامان کو متاثر نہ کرے، بریکنگ نیوز کی دوڑنے بھی چیزوں کو زیادہ خراب کیاہے اور کئی جھوٹ دیدہ دلیری سے بولے جاتے ہیں جس سے سچ چھپ جاتا ہے۔ کمیشن نے کہاہے تمام فریقین کو چاہیے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہوئے محتاط رہیں کیونکہ غیر ذمے دارانہ رویوں، افعال اورردعمل سے پہنچنے والا نقصان ناقابل تلافی ہوتاہے۔
واضح رہے کہ19 اپریل 2014 کوکراچی ایئرپورٹ سے جاتے ہوئے شارع فیصل پر حامدمیرکونامعلوم افرادنے فائرنگ کرکے زخمی کردیاتھا،حملے کے بعدجیو ٹی وی نے آئی ایس آئی کے خلاف پراپیگنڈا شروع کردیا اور کئی گھنٹے تک اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کی تصویر دکھا کر ان پر الزام لگاتا رہا،اس پر وزارت دفاع نے جیوکے خلاف پیمراکو ریفرنس بھیجا جس پر جیو کا لائسنس 15روزکے لئے معطل ہوا اور اس پر جرمانہ بھی کیا گیا۔
جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں جسٹس اعجازافضل خان اورجسٹس اقبال حمیدالرحمان پرمشتمل 3رکنی کمیشن نے 41 صفحات پرمشتمل رپورٹ دی جس میں کہا گیاکہ خفیہ ادارے پرملوث ہونے کاالزام صرف شک وشبے اورمفروضے پرمبنی تھاجس کی نوعیت سنی سنائی شہادت جیسی تھی۔ انکوائری کمیشن نے تحقیقات میں9ماہ لگائے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ قانون نافذکرنے والے ادارے واقعے کی تفتیش میں مکمل ناکام رہے،کمیشن کی بندکمرے میں سماعت کے دوران سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئی جس میں نظر آتا ہے کہ 2افرادکراچی ایئرپورٹ پر حامدمیرکے پہنچنے کے وقت مشکوک اندازمیں نظر آرہے ہیں لیکن قانون نافذکرنے والے ادارے مجرموں تک نہیں پہنچ سکے۔رپورٹ میں کہا گیاکہ آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آرنے واقعے سے مکمل لاتعلقی کااظہارکیا لیکن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد نے خفیہ ادارے پرہی انگلیاں اٹھائیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا حق کئی معقول پابندیوں کے ساتھ ہوتاہے جو ملکی وحدت، سلامتی اوردفاع، دوست ممالک سے خارجہ تعلقات اورامن وامان کو متاثر نہ کرے، بریکنگ نیوز کی دوڑنے بھی چیزوں کو زیادہ خراب کیاہے اور کئی جھوٹ دیدہ دلیری سے بولے جاتے ہیں جس سے سچ چھپ جاتا ہے۔ کمیشن نے کہاہے تمام فریقین کو چاہیے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرتے ہوئے محتاط رہیں کیونکہ غیر ذمے دارانہ رویوں، افعال اورردعمل سے پہنچنے والا نقصان ناقابل تلافی ہوتاہے۔
واضح رہے کہ19 اپریل 2014 کوکراچی ایئرپورٹ سے جاتے ہوئے شارع فیصل پر حامدمیرکونامعلوم افرادنے فائرنگ کرکے زخمی کردیاتھا،حملے کے بعدجیو ٹی وی نے آئی ایس آئی کے خلاف پراپیگنڈا شروع کردیا اور کئی گھنٹے تک اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام کی تصویر دکھا کر ان پر الزام لگاتا رہا،اس پر وزارت دفاع نے جیوکے خلاف پیمراکو ریفرنس بھیجا جس پر جیو کا لائسنس 15روزکے لئے معطل ہوا اور اس پر جرمانہ بھی کیا گیا۔