بچوں کا ادبی رواج تیسرا حصہ
اسے قاری پر تھوپا نہیں جاسکتا۔ اس حوالے سے ہر قاری معنویت کے سوال کا الگ جواب متعین کرسکتا ہے
بچوں کے لیے لکھنے کی معنویت پر تفصیلی گفتگو ہوچکی ہے لیکن اس کی سطح داخلی نوعیت کی تھی، یعنی معنویت کا ایک ایسا سوال جو لکھاری پہلے قدم پر اپنے سامنے رکھتا ہے۔ اس کی خارجی سطح کا تعلق ان بچوں سے ہے جو ادیبوں کی تحاریر کے قاری ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر ادیب لکھنے کی معنویت کا سوال اپنے سامنے رکھ سکتا ہے تو قاری بھی اس حوالے سے پوری طرح آزاد ہے کہ وہ اپنے لیے تحریر کی معنویت کا سوال اٹھائے۔ معنویت کا وہ جواب جو لکھاری متعین کرتا ہے۔
اسے قاری پر تھوپا نہیں جاسکتا۔ اس حوالے سے ہر قاری معنویت کے سوال کا الگ جواب متعین کرسکتا ہے۔ یعنی وہ تحریر کس تناظر میں پڑھے گا، اس کی اُس کو مکمل آزادی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے بطور معاشرہ بچوں سے یہ آزادی سلب کی ہوئی ہے اور ہم انھیں مجبور کرتے ہیں کہ انھیں تحریر کس لیے پڑھنی چاہیے یا یہ کہ تحریر کی معنویت کیا ہوتی ہے، چنانچہ ہم انھیں کہانی سنانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے کیا سبق حاصل ہوا۔ ایک وقت آتا ہے جب بچے لاشعوری طور پر ادب سے گریز کرنے لگتے ہیں کیوں کہ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہوتی ہے کہ ادب انھیں کوئی نہ کوئی سبق پڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔
ادب کی طاقت خود اس کے اندر ہوتی ہے۔ یعنی ادب اپنا مافی الضمیر خود ادا کرسکتا ہے۔ راوی (Narrator) جب اس میں مداخلت کرتا ہے تو اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ادب اتنے ضعف کا شکار ہے کہ وہ جو بتانا چاہتا ہے، بتانے سے قاصر رہا ہے اور راوی کو تحریر کے باہر سے اپنی طاقت بھی شامل کرنی پڑ رہی ہے۔ بالکل ابتدائی سطح پر بھی تربیت کی غرض سے ایسا کرنا مفید نہیں رہتا، کیوں کہ بچہ اگر کہانی سے جڑتا ہے تو وہ حیرت انگیز واقعات ہوتے ہیں جو اسے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
بچوں کو یہ احساس دلانا کہ کہانی دراصل ان کو نصیحت کرنے کے لیے گھڑی گئی ہے، انھیں ادب سے متنفر کرنے کی ایک پُرخلوص کوشش ہے۔ ادب کی طاقت کو خود اپنا اظہار کرنے دینا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہوتا رہے کہ اس میں کتنی قوت ہے۔ بچوں کے ادیبوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ادب ایک طاقتور اوزار ہے، اس کا استعمال مہارت اور ذہانت چاہتا ہے۔ ضعف کا شکار ادب کسی بھی لمحے مرسکتا ہے یا پڑے پڑے سسکتا رہے گا اور کبھی اپنے لیے قاری پیدا نہیں کرسکے گا۔
ادب کے اندر اس کی طاقت کا ہونا ایک اور مظہر سے معلوم کیا جاسکتا ہے، اور وہ ہے قارئین کی پیداوار۔ بچوں کے ادب کے سلسلے میں یہ غلط فہمی عام طور پر ذہنوں میں پائی جاتی ہے کہ والدین، دادا، دادی یا دوسرے رشتے دار یا خود ادیب کسی قاری کو پیدا کرتا ہے۔ یہ سوچ دراصل ادب کی اپنی داخلی طاقت سے ناواقفیت کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ یہ سب مل کر کوشش کرتے ہیں کہ بچوں کو ادب کے قارئین میں تبدیل کردیں۔ اس سلسلے میں وہ بچوں کو سبق دینے اور کوئی فن پارہ سمجھانے کی کوشش کرنے جیسے غلط اقدامات کربیٹھتے ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فن پارہ یا کہانی (بچے کی عمر کے مطابق) اپنی طاقت کے بل پر بچے کو اپنی دنیا میں کھینچ سکتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے اچھے اور برے کردار کے درمیان امتیاز کرنے کے قابل بھی بناسکتی ہے۔ جب بچہ سامنے ہو تو راوی کے لیے بہتر یہی ہوتا ہے کہ وہ کہانی سمجھانے کی بجائے کہانی ایک طرف رکھ دے، اور کوئی ایسی کہانی سنائے جسے بچہ خود کافی حد تک سمجھ سکے۔
یہ نکتہ صرف راوی ہی کے لیے نہیں بلکہ کہانی کار کے لیے بھی ہے یعنی وہ ایسی کہانی لکھے جس میں اسے کہانی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ وضاحت نہ کرنی پڑ رہی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہانی کار نہ تو ادب کی طاقت سے واقف ہے نہ ہی وہ ادب کی پیداوار کرنے کی صلاحیت سے لیس ہے۔
بچوں کا ایک اچھا ادیب اس امر سے واقف ہوتا ہے کہ ادب اپنا قاری خود پیدا کرے گا اور اسے محض ادب پیدا کرنا ہے قاری نہیں۔ یہی نکتہ راوی یعنی ان رشتے داروں کو جن سے بچے شوق سے کہانی سنتے ہیں، مدنظر رکھنی چاہیے کیوں کہ وہ اس وقت عارضی طور پر ادیب کے منصب پر فائز ہوتے ہیں۔ ادب کا اپنا قاری خود پیدا کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سماجی رشتے اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔ بچے کو ادب کے قاری میں بدلنے کے لیے پہلی ذمے داری یہی سماجی رشتے ادا کرتے ہیں۔ ابتدا میں انھیں خود راوی بننا پڑتا ہے اور اس کے بعد ترغیب دلانے والے کا کردار سنبھالنا ہوتا ہے۔
اس کی ایک چھوٹی اور مشہور مثال یہ ہے کہ والدین یا اساتذہ بچوں کو یا دوست احباب ایک دوسرے کو کتاب کا تحفہ دیں۔ لیکن ان کا کام بس یہیں تک ہے، اس کے بعد ادب کو اپنی طاقت کا اظہار خود کرنا ہوتا ہے۔ یہ نوخیز ذہن کو جس پہلی چیز سے ضرب لگاتا ہے وہ ہے تحیر۔ یہ بچے کو حیران کرنے کے فوراً بعد اسے تجسس میں مبتلا کردیتا ہے۔
ان دو عناصر سے بچے کے ذہن کی تختی روشن اور وسیع ہونے لگتی ہے۔ اس تختی پر بغیر کسی کے بتائے اس کے اپنے مختلف اور متضاد رویوں والے کردار ابھرنے لگتے ہیں۔ ان کرداروں کے مابین کشمکش چلتی ہے اور بچے خود سے اچھے اور برے کرداروں کی خصوصیات میں امتیاز کرنے لگتے ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب بچے کا ادب سے فطری لگاؤ پروان چڑھنے لگتا ہے۔ بڑا ہوکر وہ کسی بھی معاشی، سماجی یا سیاسی شعبے میں چلا جائے، ادب اس کے ساتھ ساتھ جاتا ہے۔
بچوں کے لیے ادب کی اس معنویت کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ تحیر اور تجسس کے ذریعے بچے کا ذہن کھولتا ہے اور اسے اپنے طور سے یعنی اپنی صلاحیت کے بل پر سوچنے اور سمجھنے اور عمل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اسے توازن اور خوبصورتی کا فلسفہ سمجھاتا ہے اس لیے بچے کو ادب کے ساتھ روبرو کرنے کے بعد ان دونوں کو آپس میں معاملہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دینا چاہیے لیکن ضروری یہ ہے کہ اسے واقعی ایسے ادب سے روبرو کیا جائے جو اس کے ذہن میں تحیر اور تجسس کو بیدار کرسکنے کی طاقت رکھتا ہو۔
جب وہ ادب کے سلسلے میں اپنے لیے فیصلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرے گا تو اسے اپنے لیے اس انتخاب کی بھی آزادی ہونی چاہیے کہ وہ کیا پڑھے اور کیا نظر انداز کردے۔ بچوں کے ادب کا رواج پروان چڑھانے کے لیے سماجی سطح پر ادب کی اس معنویت کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔
اسے قاری پر تھوپا نہیں جاسکتا۔ اس حوالے سے ہر قاری معنویت کے سوال کا الگ جواب متعین کرسکتا ہے۔ یعنی وہ تحریر کس تناظر میں پڑھے گا، اس کی اُس کو مکمل آزادی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے بطور معاشرہ بچوں سے یہ آزادی سلب کی ہوئی ہے اور ہم انھیں مجبور کرتے ہیں کہ انھیں تحریر کس لیے پڑھنی چاہیے یا یہ کہ تحریر کی معنویت کیا ہوتی ہے، چنانچہ ہم انھیں کہانی سنانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے کیا سبق حاصل ہوا۔ ایک وقت آتا ہے جب بچے لاشعوری طور پر ادب سے گریز کرنے لگتے ہیں کیوں کہ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہوتی ہے کہ ادب انھیں کوئی نہ کوئی سبق پڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔
ادب کی طاقت خود اس کے اندر ہوتی ہے۔ یعنی ادب اپنا مافی الضمیر خود ادا کرسکتا ہے۔ راوی (Narrator) جب اس میں مداخلت کرتا ہے تو اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ادب اتنے ضعف کا شکار ہے کہ وہ جو بتانا چاہتا ہے، بتانے سے قاصر رہا ہے اور راوی کو تحریر کے باہر سے اپنی طاقت بھی شامل کرنی پڑ رہی ہے۔ بالکل ابتدائی سطح پر بھی تربیت کی غرض سے ایسا کرنا مفید نہیں رہتا، کیوں کہ بچہ اگر کہانی سے جڑتا ہے تو وہ حیرت انگیز واقعات ہوتے ہیں جو اسے اپنی طرف کھینچتے ہیں۔
بچوں کو یہ احساس دلانا کہ کہانی دراصل ان کو نصیحت کرنے کے لیے گھڑی گئی ہے، انھیں ادب سے متنفر کرنے کی ایک پُرخلوص کوشش ہے۔ ادب کی طاقت کو خود اپنا اظہار کرنے دینا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہوتا رہے کہ اس میں کتنی قوت ہے۔ بچوں کے ادیبوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ادب ایک طاقتور اوزار ہے، اس کا استعمال مہارت اور ذہانت چاہتا ہے۔ ضعف کا شکار ادب کسی بھی لمحے مرسکتا ہے یا پڑے پڑے سسکتا رہے گا اور کبھی اپنے لیے قاری پیدا نہیں کرسکے گا۔
ادب کے اندر اس کی طاقت کا ہونا ایک اور مظہر سے معلوم کیا جاسکتا ہے، اور وہ ہے قارئین کی پیداوار۔ بچوں کے ادب کے سلسلے میں یہ غلط فہمی عام طور پر ذہنوں میں پائی جاتی ہے کہ والدین، دادا، دادی یا دوسرے رشتے دار یا خود ادیب کسی قاری کو پیدا کرتا ہے۔ یہ سوچ دراصل ادب کی اپنی داخلی طاقت سے ناواقفیت کی وجہ سے جنم لیتی ہے۔ یہ سب مل کر کوشش کرتے ہیں کہ بچوں کو ادب کے قارئین میں تبدیل کردیں۔ اس سلسلے میں وہ بچوں کو سبق دینے اور کوئی فن پارہ سمجھانے کی کوشش کرنے جیسے غلط اقدامات کربیٹھتے ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ فن پارہ یا کہانی (بچے کی عمر کے مطابق) اپنی طاقت کے بل پر بچے کو اپنی دنیا میں کھینچ سکتی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اسے اچھے اور برے کردار کے درمیان امتیاز کرنے کے قابل بھی بناسکتی ہے۔ جب بچہ سامنے ہو تو راوی کے لیے بہتر یہی ہوتا ہے کہ وہ کہانی سمجھانے کی بجائے کہانی ایک طرف رکھ دے، اور کوئی ایسی کہانی سنائے جسے بچہ خود کافی حد تک سمجھ سکے۔
یہ نکتہ صرف راوی ہی کے لیے نہیں بلکہ کہانی کار کے لیے بھی ہے یعنی وہ ایسی کہانی لکھے جس میں اسے کہانی بیان کرنے کے ساتھ ساتھ وضاحت نہ کرنی پڑ رہی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کہانی کار نہ تو ادب کی طاقت سے واقف ہے نہ ہی وہ ادب کی پیداوار کرنے کی صلاحیت سے لیس ہے۔
بچوں کا ایک اچھا ادیب اس امر سے واقف ہوتا ہے کہ ادب اپنا قاری خود پیدا کرے گا اور اسے محض ادب پیدا کرنا ہے قاری نہیں۔ یہی نکتہ راوی یعنی ان رشتے داروں کو جن سے بچے شوق سے کہانی سنتے ہیں، مدنظر رکھنی چاہیے کیوں کہ وہ اس وقت عارضی طور پر ادیب کے منصب پر فائز ہوتے ہیں۔ ادب کا اپنا قاری خود پیدا کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سماجی رشتے اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔ بچے کو ادب کے قاری میں بدلنے کے لیے پہلی ذمے داری یہی سماجی رشتے ادا کرتے ہیں۔ ابتدا میں انھیں خود راوی بننا پڑتا ہے اور اس کے بعد ترغیب دلانے والے کا کردار سنبھالنا ہوتا ہے۔
اس کی ایک چھوٹی اور مشہور مثال یہ ہے کہ والدین یا اساتذہ بچوں کو یا دوست احباب ایک دوسرے کو کتاب کا تحفہ دیں۔ لیکن ان کا کام بس یہیں تک ہے، اس کے بعد ادب کو اپنی طاقت کا اظہار خود کرنا ہوتا ہے۔ یہ نوخیز ذہن کو جس پہلی چیز سے ضرب لگاتا ہے وہ ہے تحیر۔ یہ بچے کو حیران کرنے کے فوراً بعد اسے تجسس میں مبتلا کردیتا ہے۔
ان دو عناصر سے بچے کے ذہن کی تختی روشن اور وسیع ہونے لگتی ہے۔ اس تختی پر بغیر کسی کے بتائے اس کے اپنے مختلف اور متضاد رویوں والے کردار ابھرنے لگتے ہیں۔ ان کرداروں کے مابین کشمکش چلتی ہے اور بچے خود سے اچھے اور برے کرداروں کی خصوصیات میں امتیاز کرنے لگتے ہیں۔ یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جب بچے کا ادب سے فطری لگاؤ پروان چڑھنے لگتا ہے۔ بڑا ہوکر وہ کسی بھی معاشی، سماجی یا سیاسی شعبے میں چلا جائے، ادب اس کے ساتھ ساتھ جاتا ہے۔
بچوں کے لیے ادب کی اس معنویت کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ یہ تحیر اور تجسس کے ذریعے بچے کا ذہن کھولتا ہے اور اسے اپنے طور سے یعنی اپنی صلاحیت کے بل پر سوچنے اور سمجھنے اور عمل کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اسے توازن اور خوبصورتی کا فلسفہ سمجھاتا ہے اس لیے بچے کو ادب کے ساتھ روبرو کرنے کے بعد ان دونوں کو آپس میں معاملہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دینا چاہیے لیکن ضروری یہ ہے کہ اسے واقعی ایسے ادب سے روبرو کیا جائے جو اس کے ذہن میں تحیر اور تجسس کو بیدار کرسکنے کی طاقت رکھتا ہو۔
جب وہ ادب کے سلسلے میں اپنے لیے فیصلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرے گا تو اسے اپنے لیے اس انتخاب کی بھی آزادی ہونی چاہیے کہ وہ کیا پڑھے اور کیا نظر انداز کردے۔ بچوں کے ادب کا رواج پروان چڑھانے کے لیے سماجی سطح پر ادب کی اس معنویت کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔