وجہ کیا ہے
پچھلے برس تو اتنی شدید گرمی تھی کہ نہ پوچھو، ہمارے یہاں تو سب نے کنڈے لے رکھے تھے
ISLAMABAD:
پچھلے برس تو اتنی شدید گرمی تھی کہ نہ پوچھو، ہمارے یہاں تو سب نے کنڈے لے رکھے تھے، ہماری امی نے بھی، بھائی نے اور سب خوب اے سی چلاتے بڑے مزے تھے ان کے۔ مجھے بھی سب نے بہت کہا کہ تم بھی لے لو۔ میں ڈر گئی اور کہا ناں بھئی ناں، مجھے ڈر لگتا ہے۔
خیر سب کے ہمت دلانے پر ہم نے بھی لے لیا، اسی ہفتے یقین کرو بجلی والے آگئے، انھوں نے ہمارا کنڈا پکڑ لیا۔ ہمیں موقع ہی نہ ملا کنڈا نکالنے کا، اتنا غصہ آیا مجھے، جیسے تیسے کرکے پیسے دیے، انھوں نے کہا کہ ابھی کے ابھی دس ہزار دو۔ لو جی پندرہ ہزار کا بل اور دس ہزار اوپر سے۔ میں نے فوراً امی کو بھائی کو فون کیا، انھوں نے جھٹ کنڈے نکال لیے۔
بس میں پکڑی گئی۔ دراصل ہمارے پڑوس میں ہی بجلی والا رہتا ہے ناں۔ اسی نے شکایت لگائی ہوگی۔ اب تو بہن میں کہتی ہوں ہاتھ سے پنکھا جھل لو، پر کنڈا نہ لو۔ گھر کا بھیدی ہی راز کھولتا ہے۔ دوسری خاتون نے اپنی رائے دی، تو اور کیا... کسی کو کیا پتہ۔ تیسری نے بھی اسی طرح کہا۔ وہاں پانچ چھ خواتین بیٹھی تھیں، انھیں افسوس تھا کہ پچھلے برس رمضان میں ان خاتون کے گھر بجلی کا کنڈا پکڑا گیا، دس ہزار روپے اوپر سے دیے گئے دوسرے لفظوں میں رشوت دی گئی۔
ورنہ کنڈا پکڑنے کی چوری کی سزا تو سب ٹی وی اور اخبارات میں دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں، ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ایسی چوری کا کیا فائدہ۔ رمضان میں چوری یا یوں بھی کہ ایسی چوری کا کیا کہ دل میں دھڑکا ہی لگا رہے۔ کسی ایک نے بھی چوری یا کنڈے کی شان میں گستاخی نہ کی۔ وجہ کیا ہے؟وہ ملک کی ایک بہت بڑی این جی او ہے۔
جو پسماندہ علاقوں میں بچوں کو تعلیم کی مفت سہولت فراہم کرتی ہے ان کے اسکولز کسی سرکاری اسکول کے مقابلے میں خاصے مضبوط وسیع اور صاف ستھرے ہوتے ہیں، ان کے اساتذہ تعلیمی معیار سے بظاہر خاصے اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں، این ٹی ایس ٹیسٹ میں جانے والی خاصی استانیوں کا تعلق بھی یہیں سے ہے، یہ انھیں اسکول سے گھر لانے لے جانے کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں، اس کے پیسے ان کی تنخواہ سے کٹتے ہیں، دوسرے عام پرائیویٹ اسکولز کے مقابلے میں ان کی تنخواہیں ذرا بہتر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کسی جاننے والی کے توسط سے اس این جی او کے لیے نئی استانیوں کے ٹیسٹ کے سلسلے میں جانا ہوا، وہ محترمہ ان راستوں سے ناواقف تھیں۔
وہ اسکول خاصے پسماندہ علاقے میں تھا۔ اس کے نزدیک ہی ایک اور این جی کے اسکول کی بہترین عمارت تھی۔ بہرحال اچھی شہرت کے باعث بڑی بڑی ڈگریاں تھامے خواتین قطار در قطار اپنی باری کی منتظر تھیں۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور انتظار تھا کہ ختم نہیں ہو رہا تھا۔ سخت دھوپ اور ٹینشن کا سماں تھا کیونکہ راستہ بھی ڈھیر ساری گاڑیوں کے لحاظ سے ذرا تنگ تھا۔ یار! بچی ذرا پاکستان ٹور پر گئی ہوئی ہے۔ ابھی ہے نہیں... کوئی جگاڑ نکال۔ وہ شخص فون پر بات کرتا نزدیک آگیا تھا۔
پھر کیا ہوا۔ بات بنی۔ اس کے ساتھ دوسرے شخص نے پوچھا جو اسے فون پر بات کرتا سن رہا تھا۔ ہاں بات تو بن جائے گی۔ بس بچی آجائے ذرا۔ بظاہر دیکھنے میں وہ دونوں شخص محکمے کے چپڑاسی لگ رہے تھے لیکن اگر ان دونوں کی گفتگو تفصیل سے لکھی جائے تو بھی... خیر تو بات ہو رہی تھی اس شفاف اعلیٰ معیار کی این جی او کی جس کے لیے شہر بھر سے نجانے کتنے اعلیٰ معیار کی استانیاں آئی ہوئی تھیں۔ لیکن ان میں سے کتنی ''جگاڑ'' قسم کی پالیسی کے تحت رد کی جاتی ہیں، خدا جانے۔ ان دونوں صاحبان کی بدولت ہی ہماری نالج میں بھی اضافہ ہوا کہ امتحان پاس کرکے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد بھی ڈی گریڈ کو بی گریڈ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
اس قسم کے چپڑاسیوں کی پہنچ کتنی ہوتی ہے یہ ان دنوں ہونے والے ایچ ایس سی کے امتحانات میں دیکھ لیا جائے جہاں بوریوں کی بوریاں فوٹو کاپیز تیار ہوتی ہیں، دو سو روپے فی پرچہ نقل تیار ہے، صرف یہی نہیں اعلیٰ درجے کی کارکردگی تو یہ ہے کہ پرائیویٹ طور پر سائنس کے پرچے بھی دیے جارہے ہیں۔ قصہ صرف یہ کہ نوکری پکی ہے صرف میٹرک سائنس چاہیے اور اس کے لیے ڈگری تو ضروری ہے۔
بلاوجہ ہی شور مچایا گیا تھا کہ ایک میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے ایک اہم عدالتی شخص کی بیٹیوں کی سفارش کی گئی تھی، یہ چند برس پہلے کی بات ہوگی۔ ذرا غور کریں کہاں ایک بڑا عدالتی شخص اور کہاں ایک چپڑاسی۔ وجہ کیا ہے؟این ٹی ایس ٹیسٹوں کا بڑا شور ہے، لیکن اس کا طریقہ کار کچھ شریر ہے جس مضمون کے لیے آپ کو ٹیسٹ دینا ہے اس کے لیے آپ کو اس طرح کی مہارت چاہیے کہ قرعہ فال آپ کے نام نکلا تو خیر ہے ورنہ سب برا ہی ہے۔ لیکن جس مضمون میں مہارت چاہیے اس کے لیے کچھ کچھ اور باقی کے لیے بہت کچھ چاہیے، شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے مضمون کے ماہر حیران نگاہوں سے تکتے ہیں اور غیر ماہر نوکر بھرتی ہو رہے ہیں، یہ شکایت حال ہی میں بہت سنی گئی ہے۔ وجہ کیا ہے؟
سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ کچھ اسی طرح کے ٹیسٹوں سے نمٹتی اساتذہ چند ہی سال میں اعلیٰ ترین گریڈوں پر فائز ہوگئی، جن کا انتظار عام طور پر بیس بیس برس کیا جاتا ہے اس میں ان کی اعلیٰ کارکردگی، قابلیت یا اہلیت نہیں بلکہ خدا جانے کیا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ ہمیں بہت سے سوالوں کے جواب معلوم ہیں لیکن بزدل ہیں اسی لیے کہہ نہیں پاتے۔ ہم سب کو ایک دوسرے کو احساس دلانا چاہیے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ وہ قوم ترقی نہیں کرسکتی جو بددیانت، بے انصافی اور جھوٹ کو اپنی سوسائٹی کا معیار بنالے۔ بس وجہ یہ ہے!
پچھلے برس تو اتنی شدید گرمی تھی کہ نہ پوچھو، ہمارے یہاں تو سب نے کنڈے لے رکھے تھے، ہماری امی نے بھی، بھائی نے اور سب خوب اے سی چلاتے بڑے مزے تھے ان کے۔ مجھے بھی سب نے بہت کہا کہ تم بھی لے لو۔ میں ڈر گئی اور کہا ناں بھئی ناں، مجھے ڈر لگتا ہے۔
خیر سب کے ہمت دلانے پر ہم نے بھی لے لیا، اسی ہفتے یقین کرو بجلی والے آگئے، انھوں نے ہمارا کنڈا پکڑ لیا۔ ہمیں موقع ہی نہ ملا کنڈا نکالنے کا، اتنا غصہ آیا مجھے، جیسے تیسے کرکے پیسے دیے، انھوں نے کہا کہ ابھی کے ابھی دس ہزار دو۔ لو جی پندرہ ہزار کا بل اور دس ہزار اوپر سے۔ میں نے فوراً امی کو بھائی کو فون کیا، انھوں نے جھٹ کنڈے نکال لیے۔
بس میں پکڑی گئی۔ دراصل ہمارے پڑوس میں ہی بجلی والا رہتا ہے ناں۔ اسی نے شکایت لگائی ہوگی۔ اب تو بہن میں کہتی ہوں ہاتھ سے پنکھا جھل لو، پر کنڈا نہ لو۔ گھر کا بھیدی ہی راز کھولتا ہے۔ دوسری خاتون نے اپنی رائے دی، تو اور کیا... کسی کو کیا پتہ۔ تیسری نے بھی اسی طرح کہا۔ وہاں پانچ چھ خواتین بیٹھی تھیں، انھیں افسوس تھا کہ پچھلے برس رمضان میں ان خاتون کے گھر بجلی کا کنڈا پکڑا گیا، دس ہزار روپے اوپر سے دیے گئے دوسرے لفظوں میں رشوت دی گئی۔
ورنہ کنڈا پکڑنے کی چوری کی سزا تو سب ٹی وی اور اخبارات میں دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں، ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ایسی چوری کا کیا فائدہ۔ رمضان میں چوری یا یوں بھی کہ ایسی چوری کا کیا کہ دل میں دھڑکا ہی لگا رہے۔ کسی ایک نے بھی چوری یا کنڈے کی شان میں گستاخی نہ کی۔ وجہ کیا ہے؟وہ ملک کی ایک بہت بڑی این جی او ہے۔
جو پسماندہ علاقوں میں بچوں کو تعلیم کی مفت سہولت فراہم کرتی ہے ان کے اسکولز کسی سرکاری اسکول کے مقابلے میں خاصے مضبوط وسیع اور صاف ستھرے ہوتے ہیں، ان کے اساتذہ تعلیمی معیار سے بظاہر خاصے اعلیٰ درجے کے ہوتے ہیں، این ٹی ایس ٹیسٹ میں جانے والی خاصی استانیوں کا تعلق بھی یہیں سے ہے، یہ انھیں اسکول سے گھر لانے لے جانے کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں، اس کے پیسے ان کی تنخواہ سے کٹتے ہیں، دوسرے عام پرائیویٹ اسکولز کے مقابلے میں ان کی تنخواہیں ذرا بہتر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کسی جاننے والی کے توسط سے اس این جی او کے لیے نئی استانیوں کے ٹیسٹ کے سلسلے میں جانا ہوا، وہ محترمہ ان راستوں سے ناواقف تھیں۔
وہ اسکول خاصے پسماندہ علاقے میں تھا۔ اس کے نزدیک ہی ایک اور این جی کے اسکول کی بہترین عمارت تھی۔ بہرحال اچھی شہرت کے باعث بڑی بڑی ڈگریاں تھامے خواتین قطار در قطار اپنی باری کی منتظر تھیں۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور انتظار تھا کہ ختم نہیں ہو رہا تھا۔ سخت دھوپ اور ٹینشن کا سماں تھا کیونکہ راستہ بھی ڈھیر ساری گاڑیوں کے لحاظ سے ذرا تنگ تھا۔ یار! بچی ذرا پاکستان ٹور پر گئی ہوئی ہے۔ ابھی ہے نہیں... کوئی جگاڑ نکال۔ وہ شخص فون پر بات کرتا نزدیک آگیا تھا۔
پھر کیا ہوا۔ بات بنی۔ اس کے ساتھ دوسرے شخص نے پوچھا جو اسے فون پر بات کرتا سن رہا تھا۔ ہاں بات تو بن جائے گی۔ بس بچی آجائے ذرا۔ بظاہر دیکھنے میں وہ دونوں شخص محکمے کے چپڑاسی لگ رہے تھے لیکن اگر ان دونوں کی گفتگو تفصیل سے لکھی جائے تو بھی... خیر تو بات ہو رہی تھی اس شفاف اعلیٰ معیار کی این جی او کی جس کے لیے شہر بھر سے نجانے کتنے اعلیٰ معیار کی استانیاں آئی ہوئی تھیں۔ لیکن ان میں سے کتنی ''جگاڑ'' قسم کی پالیسی کے تحت رد کی جاتی ہیں، خدا جانے۔ ان دونوں صاحبان کی بدولت ہی ہماری نالج میں بھی اضافہ ہوا کہ امتحان پاس کرکے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد بھی ڈی گریڈ کو بی گریڈ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
اس قسم کے چپڑاسیوں کی پہنچ کتنی ہوتی ہے یہ ان دنوں ہونے والے ایچ ایس سی کے امتحانات میں دیکھ لیا جائے جہاں بوریوں کی بوریاں فوٹو کاپیز تیار ہوتی ہیں، دو سو روپے فی پرچہ نقل تیار ہے، صرف یہی نہیں اعلیٰ درجے کی کارکردگی تو یہ ہے کہ پرائیویٹ طور پر سائنس کے پرچے بھی دیے جارہے ہیں۔ قصہ صرف یہ کہ نوکری پکی ہے صرف میٹرک سائنس چاہیے اور اس کے لیے ڈگری تو ضروری ہے۔
بلاوجہ ہی شور مچایا گیا تھا کہ ایک میڈیکل کالج میں داخلے کے لیے ایک اہم عدالتی شخص کی بیٹیوں کی سفارش کی گئی تھی، یہ چند برس پہلے کی بات ہوگی۔ ذرا غور کریں کہاں ایک بڑا عدالتی شخص اور کہاں ایک چپڑاسی۔ وجہ کیا ہے؟این ٹی ایس ٹیسٹوں کا بڑا شور ہے، لیکن اس کا طریقہ کار کچھ شریر ہے جس مضمون کے لیے آپ کو ٹیسٹ دینا ہے اس کے لیے آپ کو اس طرح کی مہارت چاہیے کہ قرعہ فال آپ کے نام نکلا تو خیر ہے ورنہ سب برا ہی ہے۔ لیکن جس مضمون میں مہارت چاہیے اس کے لیے کچھ کچھ اور باقی کے لیے بہت کچھ چاہیے، شاید یہی وجہ ہے کہ اپنے اپنے مضمون کے ماہر حیران نگاہوں سے تکتے ہیں اور غیر ماہر نوکر بھرتی ہو رہے ہیں، یہ شکایت حال ہی میں بہت سنی گئی ہے۔ وجہ کیا ہے؟
سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ کچھ اسی طرح کے ٹیسٹوں سے نمٹتی اساتذہ چند ہی سال میں اعلیٰ ترین گریڈوں پر فائز ہوگئی، جن کا انتظار عام طور پر بیس بیس برس کیا جاتا ہے اس میں ان کی اعلیٰ کارکردگی، قابلیت یا اہلیت نہیں بلکہ خدا جانے کیا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ ہمیں بہت سے سوالوں کے جواب معلوم ہیں لیکن بزدل ہیں اسی لیے کہہ نہیں پاتے۔ ہم سب کو ایک دوسرے کو احساس دلانا چاہیے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ وہ قوم ترقی نہیں کرسکتی جو بددیانت، بے انصافی اور جھوٹ کو اپنی سوسائٹی کا معیار بنالے۔ بس وجہ یہ ہے!