بلند معیار زندگی اور ہماری قدریں
بلند معیار زندگی کا یہ سراب ایک انسان کو دن رات زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر میں مبتلا رکھتا ہے
PESHAWAR:
راقم کا گزشتہ کالم میڈیا کے سحر سے متعلق تھا جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ آج ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ خوب سے خوب ترکی تلاش میں زیادہ سے زیادہ کمانا چاہتے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میڈیا آج کے انسان کو معیار زندگی کا وہ روپ دکھاتا ہے جو کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ یعنی ہر منزل پر محسوس ہوتا ہے کہ ابھی معیار زندگی حاصل نہیں ہوا ، ابھی منزل اور آگے ہے۔
بلند معیار زندگی کا یہ سراب ایک انسان کو دن رات زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر میں مبتلا رکھتا ہے اس عمل میں ایک بڑی خرابی یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ انسان ہر جائزوناجائز ذرایع اور شارٹ کٹ کو اپنے لیے جائز اوردرست سمجھ لیتا ہے،چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے سے صبر، توکل اورقناعت کی جگہ جھوٹ، منافقت اور بے ایمانی نے لے لی ہے۔ روز مرہ کا لین دین ، خریدوفروخت ہو یا کہ آپس کے تعلقات، سب میں ہم ایک دوسرے کو دھوکا دیتے، جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں صرف اور صر ف اس لیے کہ ہم چند پیسے یا کوئی اور مفاد حاصل کرلیں، یوں زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو وہاں بدتر صورتحال نظر آتی ہے۔
مثلاً آپ کواگر اپنی گاڑی درست کرانی ہو اور صحت کے معاملے میں کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہو تو ہم سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ کوئی ایسا ایماندار مکینک یا ڈاکٹرکہاں ملے گاجس پر آنکھ بند کرکے اعتماد کیا جا سکے۔ باتیں تو سب ایمانداری کی کرتے نظر آئیں گے مگر تجربہ بتاتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہمیں آسانی سے کوئی باکردار اور ایماندار شخص نہیں ملتا۔
اسی تناظر میں راقم کے ایک قاری نے ایک ای میل بھیجی ہے کہ جس میں انھوں نے اس معاشرے میں ڈاکٹروں کے کردار سے سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ '' کچھ عرصے پہلے جب دل کی تکلیف ہوئی اور مجبوراً دل کے اسپتال جانے پڑا تو مجھے ایسا تلخ تجربہ ہوا کہ میں آپ کو ای میل کرنے پر مجبور ہوگیا ، آپ کیونکہ عوامی مسائل پر لکھتے ہیں۔
اس لیے آپ کو لکھ رہا ہوں کہ اس اہم مسئلے کو بھی منظر عام پر لائیں۔میں اپنی بیماری سے پہلے طب کے پیشے یا شعبے کو بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھتا تھا، بلاشبہ اس شعبے سے وابستہ بیشمار لوگ حقیقی طور پر مسیحا ہیں مگر جس طرح اس ملک کے مختلف شعبوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں ویسے ہی اس شعبے میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں۔
یہ کالی بھیڑیں مسیحا کے روپ میں تقدس کا نقاب پہن کرنہایت ظالم اورانتہائی سفاک، انسان دشمن کردار ادا کر رہے ہیں۔ مخصوص ڈاکٹروں کا یہ طبقہ سفید پوش جرائم میں بری طرح ملوث ہے، ان کا ایک طریقہ واردات ہے جس کے مطابق بڑے بڑے سرکاری اسپتالوں میں تعینات ڈاکٹر آنے والے مریضوں کا جسمانی معائنہ بعد میں کرتے ہیں پہلے ان کی مالی حیثیت کا معائنہ کرتے ہیں۔جب یہ اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ ان تلوں میں تیل ہے تو پھر ایک شکاری کی طرح ان کا شکارکیا جاتا ہے۔ان مریضوں کو اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ سرکاری اسپتال سے علا ج کرانے کے بجائے ان پرائیویٹ اسپتال سے علاج کرائیں کہ جہاں یہ سرکاری ڈاکٹر پارٹ ٹائم مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں مریضوں کو راغب کرنے کے لیے سرکاری اسپتال میں علاج کرانے کا ایک ایسا برا نقشہ کھینچا جاتا ہے کہ مریض اور اس کے اہل خانہ خود اس بات پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ان کے نجی اسپتال جاکر علا ج کرائیں۔ پھر اس کے بعد مریض ایسے حالات سے دوچار ہوجاتا ہے کہ وہ اچھا ہو بھی جائے توبھی پوری زندگی مقروض بن جاتا ہے اور اس قرض کو اتار تے اتارتے وہ ذہنی مریض بن جاتا ہے۔ بحیثیت مریض میں نے جو کچھ دیکھا اس کے تحت دل کے ایک مریض سے انجیوپلاسٹی کے نام پر تین لاکھ اور اسے بھی کہیں زیادہ ( مریض کی مالی حیثیت کے مطابق) وصول کیے جارہے ہیں حالانکہ میرے مشاہدے اور معلومات کے مطابق اس بیماری کا علاج ساٹھ سے ستر ہزار روپے میں باآسانی ہو جانا چاہیے۔
اسی طرح ڈاکٹروں کی فیس اور اسپتال میں داخل ہونے کے اخراجات اپنی جگہ، مریض کو جو ادویات لکھ کر دی جاتی ہیں اس میں بھی ان کا کمیشن شامل ہوتا ہے۔ بازار میں موجود اس مرض سے متعلق سستی دوائیں موجود ہونے کے باوجود مہنگی دوائیں لکھ کر دی جاتی ہیں، اس طرح ان ادویات میں بھی ان ڈاکٹروں کا حصہ ہوتا ہے۔
پھر وٹامین کی ادویات کو غیرضروری طور پر نسخے میں شامل کردیا جاتا ہے۔ ان سب کے علاوہ ان کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ لیبارٹری کی ٹیسٹ رپورٹ میں ہے۔اس لیے مریضوں کو اکثر بلا ضرورت یہ ٹیسٹ لکھ کردے دیے جاتے ہیں۔ بعض سفاک ڈاکٹر تو محض کمانے کے لیے مریض کے آپریشن کو ناگزیر قرار دے دیتے ہیں کہ اگر آپریشن نہ کرایا تو ان کوخطرہ ہے۔
کسی زمانے میں دل کا آپریشن تکلیف دہ ہوتا تھا لہذا مریض آپریشن سے اجتناب کرتا تھا لیکن نئی ٹیکنالوجی کی آمد سے اب دل کی انجیوگرافی کا آپریشن بغیر تکلیف کے ہوجاتا ہے۔ لہذا ڈاکٹروں کا ایک مفاد پرست گروہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود بہت سے مریضوں کو آپریشن کرانے کے لیے با آسانی رضامند کرلیتا ہے۔ میری یہ باتیں ہوسکتا ہے کہ آپ کو پروپیگنڈا لگیں مگر آپ میڈیا والے سروے کراکے دیکھ لیںایسے ڈاکٹروں کے اثاثے بہت سے بڑے بزنس مین سے کہیں زیادہ ملیں گے۔
میڈیا عطائی ڈاکٹروں کے گورکھ دھندے تو بہت بے نقاب کرتا ہے، میڈیا کے ررپوٹرز اور کیمرہ مین سبزی اور پھل فروشوں سے نرخنامے تو پوچھتے دکھائی دیتے ہیں مگر انھیں چاہیے کہ ایک نظر اس طرف بھی دیکھیںکہ کس طرح گردے کی پتھری جیسے چھوٹے آپریشن کے بھی پچاس ہزارسے لاکھ روپے تک وصول کیے جارہے ہیں۔ اس قسم کا عمل آج تک قانون کے دائرے میں نہیں آیا نہ ہی کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی۔ خدارا میڈیا والے اس طرف بھی توجہ دیں۔
والسلام
مندرجہ بالا خط اس ملک میں عام مریضوں کی حالت زار بھی بیان کر رہا ہے اور اس پیشے سے وابستہ کالی بھیڑوں کی کہانی بھی بیان کررہا ہے۔ اس طرح کے بہت سے لوگ ہیں کہ جن کے پاس اس سے بھی بری اور درد ناک داستانیں ہونگیں، خود مجھے یاد آرہا ہے کہ چند برس پہلے میں اپنی زوجہ کو ایک معروف ترین ڈاکٹر کے پاس گیا ، ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کہا کہ آیندہ جب آئیں گے تو ان ان کی خون کی شریانوں میں رنگ بھی ڈال دیں گے، میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ جناب میری زوجہ کو تو السر کی شکایت ہے ۔
اس سے خون کی شریانوں کا کیا تعلق بنتا ہے؟ ڈاکٹر کہنے لگا کہ جی ہاں ہم اس سلسلے میں اینڈوکوپسی کریں گے جس میں حلق سے کیمرہ اندر جائے گا اس وقت ہمیں پتہ چلے گا کہ شریانوں کی کیا پوزیشن ہے اگر ضرورت پڑی تو فوراً رنگ ڈال دیں گے ورنہ نہیں ڈالیں گے، فی الحال آپ یہ ٹیسٹ کرالیں، جب میں ٹیسٹ کراکے کچھ عرصے بعد دوبارہ اس ڈاکٹر کے پاس گیا تو وہ شاید پچھلی بات بھول گئے تھے انھوں نے شریانوں میں رنگ ڈالنے کی بات نہیں کی اور جب میں نے اس سلسلے میں ان سے پوچھا تو انھوں نے وہی بات کی جو پہلے وزٹ میں ڈاکٹر سے میں نے کہی تھی کہ '' السر کے مرض میں بھلا شریانوں میں رنگ ڈالنے کی کیا ضرورت؟''
بہر کیف جب کبھی مجھے بھی کسی ڈاکٹرکے پاس جانے کی ضرورت پڑتی ہے تو میں بہت سوچتا ہوں کہ کوئی با اعتماد، باکردار ڈاکٹر کہاں مل سکتا ہے؟ معیار زندگی کی دوڑ میں ہم اپنی اخلاقی قدروں کوگنوا بیٹھے ہیں ،آئیے انھیں تلاش کریں۔
راقم کا گزشتہ کالم میڈیا کے سحر سے متعلق تھا جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ آج ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ خوب سے خوب ترکی تلاش میں زیادہ سے زیادہ کمانا چاہتے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میڈیا آج کے انسان کو معیار زندگی کا وہ روپ دکھاتا ہے جو کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ یعنی ہر منزل پر محسوس ہوتا ہے کہ ابھی معیار زندگی حاصل نہیں ہوا ، ابھی منزل اور آگے ہے۔
بلند معیار زندگی کا یہ سراب ایک انسان کو دن رات زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر میں مبتلا رکھتا ہے اس عمل میں ایک بڑی خرابی یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ انسان ہر جائزوناجائز ذرایع اور شارٹ کٹ کو اپنے لیے جائز اوردرست سمجھ لیتا ہے،چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے سے صبر، توکل اورقناعت کی جگہ جھوٹ، منافقت اور بے ایمانی نے لے لی ہے۔ روز مرہ کا لین دین ، خریدوفروخت ہو یا کہ آپس کے تعلقات، سب میں ہم ایک دوسرے کو دھوکا دیتے، جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں صرف اور صر ف اس لیے کہ ہم چند پیسے یا کوئی اور مفاد حاصل کرلیں، یوں زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو وہاں بدتر صورتحال نظر آتی ہے۔
مثلاً آپ کواگر اپنی گاڑی درست کرانی ہو اور صحت کے معاملے میں کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہو تو ہم سوچ میں پڑجاتے ہیں کہ کوئی ایسا ایماندار مکینک یا ڈاکٹرکہاں ملے گاجس پر آنکھ بند کرکے اعتماد کیا جا سکے۔ باتیں تو سب ایمانداری کی کرتے نظر آئیں گے مگر تجربہ بتاتا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہمیں آسانی سے کوئی باکردار اور ایماندار شخص نہیں ملتا۔
اسی تناظر میں راقم کے ایک قاری نے ایک ای میل بھیجی ہے کہ جس میں انھوں نے اس معاشرے میں ڈاکٹروں کے کردار سے سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ '' کچھ عرصے پہلے جب دل کی تکلیف ہوئی اور مجبوراً دل کے اسپتال جانے پڑا تو مجھے ایسا تلخ تجربہ ہوا کہ میں آپ کو ای میل کرنے پر مجبور ہوگیا ، آپ کیونکہ عوامی مسائل پر لکھتے ہیں۔
اس لیے آپ کو لکھ رہا ہوں کہ اس اہم مسئلے کو بھی منظر عام پر لائیں۔میں اپنی بیماری سے پہلے طب کے پیشے یا شعبے کو بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھتا تھا، بلاشبہ اس شعبے سے وابستہ بیشمار لوگ حقیقی طور پر مسیحا ہیں مگر جس طرح اس ملک کے مختلف شعبوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں ویسے ہی اس شعبے میں بھی کالی بھیڑیں موجود ہیں۔
یہ کالی بھیڑیں مسیحا کے روپ میں تقدس کا نقاب پہن کرنہایت ظالم اورانتہائی سفاک، انسان دشمن کردار ادا کر رہے ہیں۔ مخصوص ڈاکٹروں کا یہ طبقہ سفید پوش جرائم میں بری طرح ملوث ہے، ان کا ایک طریقہ واردات ہے جس کے مطابق بڑے بڑے سرکاری اسپتالوں میں تعینات ڈاکٹر آنے والے مریضوں کا جسمانی معائنہ بعد میں کرتے ہیں پہلے ان کی مالی حیثیت کا معائنہ کرتے ہیں۔جب یہ اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ ان تلوں میں تیل ہے تو پھر ایک شکاری کی طرح ان کا شکارکیا جاتا ہے۔ان مریضوں کو اس بات پر آمادہ کیا جاتا ہے کہ وہ سرکاری اسپتال سے علا ج کرانے کے بجائے ان پرائیویٹ اسپتال سے علاج کرائیں کہ جہاں یہ سرکاری ڈاکٹر پارٹ ٹائم مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں مریضوں کو راغب کرنے کے لیے سرکاری اسپتال میں علاج کرانے کا ایک ایسا برا نقشہ کھینچا جاتا ہے کہ مریض اور اس کے اہل خانہ خود اس بات پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ان کے نجی اسپتال جاکر علا ج کرائیں۔ پھر اس کے بعد مریض ایسے حالات سے دوچار ہوجاتا ہے کہ وہ اچھا ہو بھی جائے توبھی پوری زندگی مقروض بن جاتا ہے اور اس قرض کو اتار تے اتارتے وہ ذہنی مریض بن جاتا ہے۔ بحیثیت مریض میں نے جو کچھ دیکھا اس کے تحت دل کے ایک مریض سے انجیوپلاسٹی کے نام پر تین لاکھ اور اسے بھی کہیں زیادہ ( مریض کی مالی حیثیت کے مطابق) وصول کیے جارہے ہیں حالانکہ میرے مشاہدے اور معلومات کے مطابق اس بیماری کا علاج ساٹھ سے ستر ہزار روپے میں باآسانی ہو جانا چاہیے۔
اسی طرح ڈاکٹروں کی فیس اور اسپتال میں داخل ہونے کے اخراجات اپنی جگہ، مریض کو جو ادویات لکھ کر دی جاتی ہیں اس میں بھی ان کا کمیشن شامل ہوتا ہے۔ بازار میں موجود اس مرض سے متعلق سستی دوائیں موجود ہونے کے باوجود مہنگی دوائیں لکھ کر دی جاتی ہیں، اس طرح ان ادویات میں بھی ان ڈاکٹروں کا حصہ ہوتا ہے۔
پھر وٹامین کی ادویات کو غیرضروری طور پر نسخے میں شامل کردیا جاتا ہے۔ ان سب کے علاوہ ان کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ لیبارٹری کی ٹیسٹ رپورٹ میں ہے۔اس لیے مریضوں کو اکثر بلا ضرورت یہ ٹیسٹ لکھ کردے دیے جاتے ہیں۔ بعض سفاک ڈاکٹر تو محض کمانے کے لیے مریض کے آپریشن کو ناگزیر قرار دے دیتے ہیں کہ اگر آپریشن نہ کرایا تو ان کوخطرہ ہے۔
کسی زمانے میں دل کا آپریشن تکلیف دہ ہوتا تھا لہذا مریض آپریشن سے اجتناب کرتا تھا لیکن نئی ٹیکنالوجی کی آمد سے اب دل کی انجیوگرافی کا آپریشن بغیر تکلیف کے ہوجاتا ہے۔ لہذا ڈاکٹروں کا ایک مفاد پرست گروہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود بہت سے مریضوں کو آپریشن کرانے کے لیے با آسانی رضامند کرلیتا ہے۔ میری یہ باتیں ہوسکتا ہے کہ آپ کو پروپیگنڈا لگیں مگر آپ میڈیا والے سروے کراکے دیکھ لیںایسے ڈاکٹروں کے اثاثے بہت سے بڑے بزنس مین سے کہیں زیادہ ملیں گے۔
میڈیا عطائی ڈاکٹروں کے گورکھ دھندے تو بہت بے نقاب کرتا ہے، میڈیا کے ررپوٹرز اور کیمرہ مین سبزی اور پھل فروشوں سے نرخنامے تو پوچھتے دکھائی دیتے ہیں مگر انھیں چاہیے کہ ایک نظر اس طرف بھی دیکھیںکہ کس طرح گردے کی پتھری جیسے چھوٹے آپریشن کے بھی پچاس ہزارسے لاکھ روپے تک وصول کیے جارہے ہیں۔ اس قسم کا عمل آج تک قانون کے دائرے میں نہیں آیا نہ ہی کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی۔ خدارا میڈیا والے اس طرف بھی توجہ دیں۔
والسلام
مندرجہ بالا خط اس ملک میں عام مریضوں کی حالت زار بھی بیان کر رہا ہے اور اس پیشے سے وابستہ کالی بھیڑوں کی کہانی بھی بیان کررہا ہے۔ اس طرح کے بہت سے لوگ ہیں کہ جن کے پاس اس سے بھی بری اور درد ناک داستانیں ہونگیں، خود مجھے یاد آرہا ہے کہ چند برس پہلے میں اپنی زوجہ کو ایک معروف ترین ڈاکٹر کے پاس گیا ، ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کہا کہ آیندہ جب آئیں گے تو ان ان کی خون کی شریانوں میں رنگ بھی ڈال دیں گے، میں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ جناب میری زوجہ کو تو السر کی شکایت ہے ۔
اس سے خون کی شریانوں کا کیا تعلق بنتا ہے؟ ڈاکٹر کہنے لگا کہ جی ہاں ہم اس سلسلے میں اینڈوکوپسی کریں گے جس میں حلق سے کیمرہ اندر جائے گا اس وقت ہمیں پتہ چلے گا کہ شریانوں کی کیا پوزیشن ہے اگر ضرورت پڑی تو فوراً رنگ ڈال دیں گے ورنہ نہیں ڈالیں گے، فی الحال آپ یہ ٹیسٹ کرالیں، جب میں ٹیسٹ کراکے کچھ عرصے بعد دوبارہ اس ڈاکٹر کے پاس گیا تو وہ شاید پچھلی بات بھول گئے تھے انھوں نے شریانوں میں رنگ ڈالنے کی بات نہیں کی اور جب میں نے اس سلسلے میں ان سے پوچھا تو انھوں نے وہی بات کی جو پہلے وزٹ میں ڈاکٹر سے میں نے کہی تھی کہ '' السر کے مرض میں بھلا شریانوں میں رنگ ڈالنے کی کیا ضرورت؟''
بہر کیف جب کبھی مجھے بھی کسی ڈاکٹرکے پاس جانے کی ضرورت پڑتی ہے تو میں بہت سوچتا ہوں کہ کوئی با اعتماد، باکردار ڈاکٹر کہاں مل سکتا ہے؟ معیار زندگی کی دوڑ میں ہم اپنی اخلاقی قدروں کوگنوا بیٹھے ہیں ،آئیے انھیں تلاش کریں۔