بریڈ بٹر کیک
تکبر ایک ایسا کینسر ہے جو لاعلاج ہے اور اس کا تعلق زر اور زمین سے تو ہے ہی کہیں کہیں تیسری چیز سے بھی ہوجاتا ہے۔
RAWALPINDI:
بعض چیزیں اورلوگ طے شدہ سے ہوتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہوں گے اور ان پر تبصرہ کرنا شاید اپنے اور دوسروں کے وقت کا ضیاع ہی ہے مگر عوام قارئین کی دلچسپی کے لیے ان چیزوں، باتوں، لوگوں پر لکھنا ہی پڑتا ہے کہ وہ بھی اس سے یا ان سے واقف تو رہیں! واقف حال تو یہ کبھی آپ کو ہونے نہیں دیں گے اور اگرکوشش کریں بھی تو پھر آپ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اس ملک کا قانون اور اقتدار ہر قسم کا اعلیٰ و بالا کن لوگوں کی جیب میں رکھا رہتا ہے۔ سارے نہیں تو اکثریت وزرا، بیورو کریٹ، سرمایہ دار، زمیندار یا وڈیرہ یا ملک جو بھی جہاں جوکہلاتا ہے قانون وہاں اس کا غلام یا لونڈی ہے۔
تکبر ایک ایسا کینسر ہے جو لاعلاج ہے اور اس کا تعلق زر اور زمین سے تو ہے ہی کہیں کہیں تیسری چیز سے بھی ہوجاتا ہے جیساکہ بعض سیاستدانوں کے ساتھ ہوا۔ سوئٹزر لینڈ یا آف شور معاملات کی جانب کوئی اشارہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کی صدارت کے منصب کا حصول اور قدرتی امداد کا ذکر ہے۔
آف شور پر یاد آیا کہ جب یہ کالم آپ پڑھ رہے ہوں گے تو اس معاملے کو ایک ڈیڑھ ماہ ہوچکا ہوگا مگر دلچسپ بات اور لطیفے کا کوئی وقت مخصوص نہیں ہے وہ ہر وقت کی جاسکتی ہے یا کیے جاسکتے ہیں جوکہ آپ کو اچھا لگے۔ تو آف شور کمپنیز کے بارے میں ایک نوجوان نے فرمایا ایک ٹی وی انٹرویو میں کہ یہ سب میری ملکیت ہیں، ان کے کہنے کا غالباً مقصد یہ تھا کہ ان سے سینئر حضرات کاکوئی تعلق نہیں ہے۔ شاید احتساب کے بڑھتے ہوئے قدموں کے راستے میں Speed Breaker کے طور پر یہ بات استعمال کی گئی ہے۔
عام طور پر جو کچھ پڑھا دیکھا جائز ذرایع کے بارے میں ان سے یہ معلوم ہوا کہ خاندانی جائیداد جب کہ خاندان ''کثیر'' بھی ہو۔ اور رشتے دار اتنے ہوں کہ محکمے تعیناتی کے لیے کم پڑجائیں تو ان کی جائیداد کے بڑھنے کے امکانات کم ہوتے ہیں اگر افراد کاروبار یا کام نہ کر رہے ہوں اور جائیداد میں اپنے اپنے طور پر اضافہ نہ کر رہے ہوں یعنی ٹکڑے ''سالم'' کی صورت اختیار کر رہے ہوں مگر اس کے لیے جان توڑ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔
لفٹ پانچ منٹ اگر لائٹ جانے سے بند ہوجائے اور اگر لفٹ میں بند شخص خوف وہراس میں مبتلا ہوجائے اور باہرآنے پر ناراضگی کا اظہار یوں کرے کہ حق حاصل ہے کہ حکمران کے فرزند ہیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ کس قدر ''محنتی'' ہیں یہ لوگ۔ اگر بڑے صاحب حیات ہوتے تو جو ان کے بارے میں راوی نے بیان کیا ہے وہ پوتے کو ضرورکہتے ''میاں ابتدا پر نظر رکھا کرو تاکہ محنت اور صبر کے خیالات قائم رہیں۔'' یہ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ ہم ان کو ایک بے حد محنتی شخص گردانتے ہیں کہ انھوں نے یہاں ایک معمولی پیمانے پر کاروبار کیا اور دن رات محنت سے انھوں نیفیکٹری کی بنیاد رکھی اور اس کا خوبصورت لفظ رکھا۔ اپنے حساب سے اگر ہم یہ نام رکھیں ایک تو "By Chance" کے معنی نکلتے ہیں اور دوسرا "Unity" بزرگ نے یقیناً دوسرے لفظ کو سامنے رکھ کر یہ کام کیا ہوگا کیونکہ جس زمانے میں انھوں نے یہ کام کیا وہ زمانہ "Unity, Faith, Discipline" کا تھا اور اس کا شہرہ تھا۔ اب تو اس کا ''چل چلاؤ'' ہے۔
تو ایک "Foundry" یا بھٹی سے کیا کیا "Found" کیا جا سکتا ہے یہ پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک مثال ہے ۔ وہ محنت سے کام کرنے والے اور رزق حلال کمانے والے فرد تھے،ان کے بچے بھی ان دنوں ان کے ساتھ اس کام میں شریک تھے اور غالباً اس وقت شاید کسی نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ''یہ سب کچھ ہوگا۔'' اس ''سب کچھ'' کی جگہ بڑے صاحب کا ذکر میں ہمیشہ بے حد احترام سے کرتا ہوں۔ مجھے محنت سے کمانے والے بہت اچھے لگتے ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ میں بھی ایک محنت کش کا بیٹا ہوں اور خود بھی محنت کش ہوں''قلم اور آواز مزدور۔''
خیر تو جب یہ سب کچھ سنا دیکھا تو حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ دونوں قابل تشریح ہیں۔ حیرت اس بات پر کہ انگریز نے ابھی تک پرانی عمارتوں کو نیا کرکے فروخت کرنے کا فن نہیں سیکھا؟ یہ کام بھی ہمارے حصے میں آیا ہے۔ حیرت ہے انگریز نے تو مٹی فروخت کرنے کا ہنر ہمیں سکھایا ہے۔ جو ہم آنکھوں میں بھی ڈال دیتے ہیں ایک دوسرے کے اور اس نے چیزوں کو سلیقے سے ''ہڑپ'' کرنا بھی سکھایا ہے ''کوہ نور'' ابھی تک ملکہ کے تاج میں لگا ہوا ہے اور اب ہم ان کو یہ گر سکھا رہے ہیں کہ عمارتوں کو نیا کیسے کیا جاسکتا ہے اور ان کو فروخت کرکے آمدنی کیسے پیدا کی جاسکتی ہے۔ حیرت ہے بھئی! حیرت ہے۔
افسوس اس بات پر ہوا کہ بجلی کے محکمے میں بھانجا لگا ہوا ہے جس کا کوئی تعلق اس Trade سے نہیں ہے نہ کوئی ایسی کوالیفکیشن کہ وہ اس کام کے اہل ہیں۔ مشیر اور مشاورت ایسا ہی جیسے ہم کہیں کہ ہرن نے مشاورت کے لیے ''شیر'' کو مشیر مقررکیا ہے کہ جانوروں کے غذائی بحران کا حل کیسے نکالا جائے۔ پاکستان میں یہ ایک سیاسی مذاق ہے جو بہت سنجیدگی سے کیا جاتا ہے اور اس کی تنخواہ اور الاؤنس ملتے ہیں۔
سوال یہ ہے اور یہ سوال ہر اس فرزند سے کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی سیاسی لیڈر کی وراثت کا دعویدار ہے کہ آپ کا اپنا اس میں کیا ہے؟ اور کہاں سے آیا؟ اگر والد نے عنایت کی ہے تو اس ''شریفانہ عنایت'' کا راستہ کیا ہے اور یہ کہاں سے میسر ہوا سب کچھ۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر محکمہ ایک غریب سے جوکچھ بھی محنت سے بنا لے پوچھتا ہے کہ آپ کے ذرایع آمدنی کیا ہیں؟ کہاں سے ہیں؟ اور اب تو پوچھ تاچھ میں موڈرن رشوت کا طریقہ ہے کہ اتنا ہمیں دے دو باقی آپ کاLegal ہوجائے گا۔ یہ سوال ان صاحبزادوں یا صاحبزادیوں سے بادشاہوں کے نہیں پوچھا جاتا کہ وہ عوام نہیں ہیں اور ان کے لیے یہ سوال نہیں ہے ان کے لیے بریڈ نہیں ہے تو کیک موجود ہے۔
پتا نہیں کیا وصف ہے ان لوگوں کا یہ ڈرتے نہیں ہیں سانس کے چلے جانے سے کہ جس کے بعد آپ کو چند گھنٹے بھی زمین کے اوپر برداشت نہیں کیا جائے گا اور جب آپ زمین کے نیچے ہوں گے تو نہ آف شور کمپنیاں ہوں گی، نہ سرے محل ہوگا، نہ کچھ اور ہوگا۔ کسی کو اس کے قد سے زیادہ قبر میں جگہ آج تک نہیں ملی چاہے وہ بادشاہ ہو یا غریب۔ وہی تو ایک مملکت ہے قبرستان جہاں سب برابر ہیں زمین کے اندر اوپر چاہے تاج محل تعمیرکرلوکچھ نہیں ہوتا۔
بعض چیزیں اورلوگ طے شدہ سے ہوتے ہیں کہ یہ ایسے ہی ہوں گے اور ان پر تبصرہ کرنا شاید اپنے اور دوسروں کے وقت کا ضیاع ہی ہے مگر عوام قارئین کی دلچسپی کے لیے ان چیزوں، باتوں، لوگوں پر لکھنا ہی پڑتا ہے کہ وہ بھی اس سے یا ان سے واقف تو رہیں! واقف حال تو یہ کبھی آپ کو ہونے نہیں دیں گے اور اگرکوشش کریں بھی تو پھر آپ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اس ملک کا قانون اور اقتدار ہر قسم کا اعلیٰ و بالا کن لوگوں کی جیب میں رکھا رہتا ہے۔ سارے نہیں تو اکثریت وزرا، بیورو کریٹ، سرمایہ دار، زمیندار یا وڈیرہ یا ملک جو بھی جہاں جوکہلاتا ہے قانون وہاں اس کا غلام یا لونڈی ہے۔
تکبر ایک ایسا کینسر ہے جو لاعلاج ہے اور اس کا تعلق زر اور زمین سے تو ہے ہی کہیں کہیں تیسری چیز سے بھی ہوجاتا ہے جیساکہ بعض سیاستدانوں کے ساتھ ہوا۔ سوئٹزر لینڈ یا آف شور معاملات کی جانب کوئی اشارہ نہیں ہے بلکہ پاکستان کی صدارت کے منصب کا حصول اور قدرتی امداد کا ذکر ہے۔
آف شور پر یاد آیا کہ جب یہ کالم آپ پڑھ رہے ہوں گے تو اس معاملے کو ایک ڈیڑھ ماہ ہوچکا ہوگا مگر دلچسپ بات اور لطیفے کا کوئی وقت مخصوص نہیں ہے وہ ہر وقت کی جاسکتی ہے یا کیے جاسکتے ہیں جوکہ آپ کو اچھا لگے۔ تو آف شور کمپنیز کے بارے میں ایک نوجوان نے فرمایا ایک ٹی وی انٹرویو میں کہ یہ سب میری ملکیت ہیں، ان کے کہنے کا غالباً مقصد یہ تھا کہ ان سے سینئر حضرات کاکوئی تعلق نہیں ہے۔ شاید احتساب کے بڑھتے ہوئے قدموں کے راستے میں Speed Breaker کے طور پر یہ بات استعمال کی گئی ہے۔
عام طور پر جو کچھ پڑھا دیکھا جائز ذرایع کے بارے میں ان سے یہ معلوم ہوا کہ خاندانی جائیداد جب کہ خاندان ''کثیر'' بھی ہو۔ اور رشتے دار اتنے ہوں کہ محکمے تعیناتی کے لیے کم پڑجائیں تو ان کی جائیداد کے بڑھنے کے امکانات کم ہوتے ہیں اگر افراد کاروبار یا کام نہ کر رہے ہوں اور جائیداد میں اپنے اپنے طور پر اضافہ نہ کر رہے ہوں یعنی ٹکڑے ''سالم'' کی صورت اختیار کر رہے ہوں مگر اس کے لیے جان توڑ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔
لفٹ پانچ منٹ اگر لائٹ جانے سے بند ہوجائے اور اگر لفٹ میں بند شخص خوف وہراس میں مبتلا ہوجائے اور باہرآنے پر ناراضگی کا اظہار یوں کرے کہ حق حاصل ہے کہ حکمران کے فرزند ہیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ کس قدر ''محنتی'' ہیں یہ لوگ۔ اگر بڑے صاحب حیات ہوتے تو جو ان کے بارے میں راوی نے بیان کیا ہے وہ پوتے کو ضرورکہتے ''میاں ابتدا پر نظر رکھا کرو تاکہ محنت اور صبر کے خیالات قائم رہیں۔'' یہ ہمارا ذاتی خیال ہے کہ ہم ان کو ایک بے حد محنتی شخص گردانتے ہیں کہ انھوں نے یہاں ایک معمولی پیمانے پر کاروبار کیا اور دن رات محنت سے انھوں نیفیکٹری کی بنیاد رکھی اور اس کا خوبصورت لفظ رکھا۔ اپنے حساب سے اگر ہم یہ نام رکھیں ایک تو "By Chance" کے معنی نکلتے ہیں اور دوسرا "Unity" بزرگ نے یقیناً دوسرے لفظ کو سامنے رکھ کر یہ کام کیا ہوگا کیونکہ جس زمانے میں انھوں نے یہ کام کیا وہ زمانہ "Unity, Faith, Discipline" کا تھا اور اس کا شہرہ تھا۔ اب تو اس کا ''چل چلاؤ'' ہے۔
تو ایک "Foundry" یا بھٹی سے کیا کیا "Found" کیا جا سکتا ہے یہ پاکستان کے لوگوں کے لیے ایک مثال ہے ۔ وہ محنت سے کام کرنے والے اور رزق حلال کمانے والے فرد تھے،ان کے بچے بھی ان دنوں ان کے ساتھ اس کام میں شریک تھے اور غالباً اس وقت شاید کسی نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ''یہ سب کچھ ہوگا۔'' اس ''سب کچھ'' کی جگہ بڑے صاحب کا ذکر میں ہمیشہ بے حد احترام سے کرتا ہوں۔ مجھے محنت سے کمانے والے بہت اچھے لگتے ہیں شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ میں بھی ایک محنت کش کا بیٹا ہوں اور خود بھی محنت کش ہوں''قلم اور آواز مزدور۔''
خیر تو جب یہ سب کچھ سنا دیکھا تو حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ دونوں قابل تشریح ہیں۔ حیرت اس بات پر کہ انگریز نے ابھی تک پرانی عمارتوں کو نیا کرکے فروخت کرنے کا فن نہیں سیکھا؟ یہ کام بھی ہمارے حصے میں آیا ہے۔ حیرت ہے انگریز نے تو مٹی فروخت کرنے کا ہنر ہمیں سکھایا ہے۔ جو ہم آنکھوں میں بھی ڈال دیتے ہیں ایک دوسرے کے اور اس نے چیزوں کو سلیقے سے ''ہڑپ'' کرنا بھی سکھایا ہے ''کوہ نور'' ابھی تک ملکہ کے تاج میں لگا ہوا ہے اور اب ہم ان کو یہ گر سکھا رہے ہیں کہ عمارتوں کو نیا کیسے کیا جاسکتا ہے اور ان کو فروخت کرکے آمدنی کیسے پیدا کی جاسکتی ہے۔ حیرت ہے بھئی! حیرت ہے۔
افسوس اس بات پر ہوا کہ بجلی کے محکمے میں بھانجا لگا ہوا ہے جس کا کوئی تعلق اس Trade سے نہیں ہے نہ کوئی ایسی کوالیفکیشن کہ وہ اس کام کے اہل ہیں۔ مشیر اور مشاورت ایسا ہی جیسے ہم کہیں کہ ہرن نے مشاورت کے لیے ''شیر'' کو مشیر مقررکیا ہے کہ جانوروں کے غذائی بحران کا حل کیسے نکالا جائے۔ پاکستان میں یہ ایک سیاسی مذاق ہے جو بہت سنجیدگی سے کیا جاتا ہے اور اس کی تنخواہ اور الاؤنس ملتے ہیں۔
سوال یہ ہے اور یہ سوال ہر اس فرزند سے کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی سیاسی لیڈر کی وراثت کا دعویدار ہے کہ آپ کا اپنا اس میں کیا ہے؟ اور کہاں سے آیا؟ اگر والد نے عنایت کی ہے تو اس ''شریفانہ عنایت'' کا راستہ کیا ہے اور یہ کہاں سے میسر ہوا سب کچھ۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر محکمہ ایک غریب سے جوکچھ بھی محنت سے بنا لے پوچھتا ہے کہ آپ کے ذرایع آمدنی کیا ہیں؟ کہاں سے ہیں؟ اور اب تو پوچھ تاچھ میں موڈرن رشوت کا طریقہ ہے کہ اتنا ہمیں دے دو باقی آپ کاLegal ہوجائے گا۔ یہ سوال ان صاحبزادوں یا صاحبزادیوں سے بادشاہوں کے نہیں پوچھا جاتا کہ وہ عوام نہیں ہیں اور ان کے لیے یہ سوال نہیں ہے ان کے لیے بریڈ نہیں ہے تو کیک موجود ہے۔
پتا نہیں کیا وصف ہے ان لوگوں کا یہ ڈرتے نہیں ہیں سانس کے چلے جانے سے کہ جس کے بعد آپ کو چند گھنٹے بھی زمین کے اوپر برداشت نہیں کیا جائے گا اور جب آپ زمین کے نیچے ہوں گے تو نہ آف شور کمپنیاں ہوں گی، نہ سرے محل ہوگا، نہ کچھ اور ہوگا۔ کسی کو اس کے قد سے زیادہ قبر میں جگہ آج تک نہیں ملی چاہے وہ بادشاہ ہو یا غریب۔ وہی تو ایک مملکت ہے قبرستان جہاں سب برابر ہیں زمین کے اندر اوپر چاہے تاج محل تعمیرکرلوکچھ نہیں ہوتا۔