ایم کیو ایم کے لیے مشکل ترین وقت
1992 کے موسم گرما میںایم کیو ایم کو دفن کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی ناکام کوشش کے بھی حوالے دیے جاتے ہیں،
ISLAMABAD:
متحدہ قومی موومنٹ(MQM) ایک بار پھر طوفان کی زد میں ہے۔ ٹیلیویژن چینلزکے پرائم ٹائم ٹاک شوز میں سیاسی پنڈتوں کی رونق رہتی ہے جو اندازے لگاتے رہتے ہیں کہ یہ متنازع ترین سیاسی جماعت اس طوفان سے نکل آئے گی یا بڑی حد تک کمزور ہوجائے گی۔
1992 کے موسم گرما میںایم کیو ایم کو دفن کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی ناکام کوشش کے بھی حوالے دیے جاتے ہیں، مگر24 سال قبل کی جانے والی اس کوشش کے بعد بہت سے محرکات تبدیل ہو چکے ہیں۔ مثلا حال ہی میں جو نیا گروپ سامنے آیا ہے اس کی قیادت مصطفیٰ کمال کر رہے ہیں،1992 کے مقابلے میں جب دو عسکریت پسند لیڈروں... آفاق احمد اور عامر خان کو سامنے لایا گیا تھا، یہ گروپ ایم کیو ایم کا لطیف چہرہ ہے، سندھ میں جاری آپریشن سے ایم کیو ایم کو بڑی حد تک بے اثرکیا جاچکا ہے،اس لیے اب اس کا خوف نہیں رہا، الطاف حسین کی خراب صحت نے پارٹی پر ان کی گرفت کوکمزورکردیا ہے، رائے عامہ بنانے میں اب 24/7 ٹیلیویژن اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس الزام کے خلاف ایم کیو ایم کا کمزور دفاع بھی کہ بھارتی خفیہ ایجنسی '' را'' کی طرف سے اسے پیسے ملتے رہے،اس کے خلاف جا رہا ہے۔
پارٹی کے زیادہ تر لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ عدالت میں یہ بات ثابت کی جاسکے گی کہ ایم کیو ایم کا لندن سیکریٹریٹ بھارت سے فنڈ لیتا رہا اور اس کے عسکریت پسندوں کو بھارت میں تربیت دی گئی۔ بھارت سے فنڈنگ کے بارے میں الزامات برطانوی عدالتوں میں منی لانڈرنگ کیس کا حصہ ہیں۔ یہ امکان بہت کم ہے کہ برطانیہ اس معاملے کو آگے لے کر چلے گا۔ برطانیہ یہ ثابت کر کے اپنے دوست بھارت کو پریشان نہیں کرے گا کہ وہ پاکستان کی ایک جماعت کو پیسہ دیتا رہا ہے۔
بھارت برطانوی حکومت پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کررہا ہے کہ ایم کیو ایم کے منی لانڈرنگ پاکستان میں جن لوگوں کو اپنے ملک کی سیاسی تاریخ یاد ہے، وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جس کسی نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے بیانیہ سے اختلاف کیا،اس پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا ٹھپہ لگایا جاتا رہا ہے۔ بھارتی انٹیلیجنس کی طرف سے پاکستان کے نامطمئن سیاسی اورعسکریت پسند عناصر کی حمایت خریدنے کا امکان اتنا ہی مضبوط ہے جتنا یہ امکان کہ ایجنسیاں سرحد پار اسی قسم کے عناصرکی حمایت کرتی ہیں، یا اسرائیل یا امریکا میں اپنی حمایت کے لیے خطیر رقم خرچ کرتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ ، تقسیم کرو اور حکومت کرو کی تاریخ ہے۔ برطانیہ نے نو آبادیاتی حکمرانی کے خلاف تحریک کوکمزورکرنے کے لیے بھارت میں گروہی سیاست کو بڑی مہارت کے ساتھ پروان چڑھایا۔جنرل ایوب خان نے اپنی آمرانہ حکمرانی کے لیے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے1962 میںپاکستان مسلم لیگ کو تقسیم کیا۔ان کی ایڈمنسٹریشن نے 1960 کے عشرے میں سندھ کے عوام کو بھی مہاجروں اور سندھیوں میں تقسیم کیا۔
جنرل ضیاء الحق نے بھٹوکا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متوازی پاکستان پیپلزپارٹی قائم کرنے کی کوشش کی۔ سندھ میں بحالی ِ جمہوریت کے لیے ایک مضبوط تحریک چلنے کے بعد ، ضیاء کی حکومت نے الطاف حسین کی قیادت میں نئی نئی قائم ہونے والی مہاجر قومی موومنٹ کی حمایت کی۔ جنرل مشرف نے پاکستان مسلم لیگ(ق) اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی جوڑ توڑکی ان تمام کوششوں نے ان لوگوں کو صرف وقتی طور پر فائدہ دیا ، مگر بالآخر یہ نقصان دہ ثابت ہوئیں۔
ایم کیو ایم ، الطاف حسین کی پرستش کرنے والوں کا ایک منظم گروہ ہے۔ پجاری اپنے دیوتا کو ایک فاصلے سے دیکھتے ہیں اور اس کی شخصیت کی پرستش کرتے ہیں، وہ لوگ جو ان کے ارد گرد ہیں اور پجاریوں کے گروہ کو چلاتے ہیں ، عام طور سے معبد کے ذریعے جھانکتے ہیں مگر اپنے پوشیدہ مفادات کے لیے خدمت کرتے رہتے ہیں اور جب دیوتا نہیں رہتا تو اس قسم کے گروہ متعدد دھڑوں میں بٹ جاتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے ساتھ جو مسئلہ ہے وہ اس جماعت کے بنیادی سیاسی اجزائے ترکیبی میں ہے۔اس کی بنیاد برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان سے نقل مکانی کرنے والوں کے ساتھ مفروضہ نا انصافیوں پر ہے۔ جب یہ جماعت قائم کی گئی تو اس کے رہنماؤں نے لفظ مہاجرکی تشریح اس طرح کی'' وہ لوگ جنھوں نے ہندوستان سے نقل مکانی کی اور ان کے صوبے کا کوئی حصہ پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا ۔'' اس میں نقل مکانی کرنے والے ان لوگوں کی اس بڑی تعداد کو خارج کردیا گیا جو مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب آئے تھے۔
پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں سے نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر لوگ اردو بولنے والے تھے جو سندھ کے تین شہروں میں آباد ہوگئے۔تقسیم کے بعد پہلی دہائی کے دوران انھوں نے حکمران اشرافیہ کا حصہ بن کر خوب مزے کیے۔ پہلے مارشل لا کے بعد رفتہ رفتہ ان کا اثرورسوخ کم ہونے لگا اور اُن کی پنجاب کے حکمران طبقات کے جونیئر پارٹنرز کی حیثیت پشتونوں نے لے لی۔اس کے باوجود حکومتی اور پرائیویٹ سیکٹرکی ملازمتوں میں ان کا حصہ ، پاکستان کی آبادی میں ان کے تناسب سے کئی گنا زیادہ تھا۔
ون یونٹ کی لعنت سے نجات پانے کے بعد سندھ کے باسیوں نے پہلی بارکراچی میں اختیار حاصل کیا۔ قیام پاکستان کے فورا بعد انھیں ان کے اس اہم شہر سے باہرکردیا گیا تھا،کیونکہ اس شہر کو وفاقی دارالحکومت قرار دے دیا گیا تھا اور صوبائی حکومت کو یہاں سے منتقل کردیا گیا تھا۔اس طرح اردو بولنے والوں نے جو ملکی آبادی کا7.5 فیصد تھے، اپنے اختیارات میں کمی اور سندھی حکمران اور متوسط طبقات کے ابھارکے خلاف غم وغصے کا اظہار شروع کردیا۔ یہ تنازع آگے کی طرف بڑھتا رہا اور شہروں پرکنٹرول حاصل کرنے کی کشمکش نے کراچی کو مصائب میں مبتلا کر دیا ۔
ایم کیو ایم نے بڑی کامیابی کے ساتھ اردو بولنے والوں کی حمایت حاصل کی جو بعض حقیقی اور بعض مفروضہ ناانصافیوں کی وجہ سے خفا ہیں۔ شہری سندھ پرکنٹرول حاصل کرنے کی لڑائی میں وہ شہری سندھ میں رہنے والی تمام بڑی نسلی برادریوں سے لڑچکے ہیں۔اس صورت حال نے اس جماعت کو الگ تھلگ کردیا ہے اوراسے ان سب کا ہدف بنا دیا ہے۔
1988 میں انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا مگر چندماہ کے اندر ہی ایم کیو ایم ،اُس حصے سے کہیں زیادہ مانگتے ہوئے جو حقیقت کے اعتبار سے ممکن تھا،اس اتحاد سے الگ ہو گئی۔1990 میں وہ نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ جا ملی ، مگر1992 میں اس سے بھی الگ ہوگئی ۔سمجھداری کا فقدان ،اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایک بڑے آپریشن پر منتج ہوا۔ یہ جماعت کسی بھی منتخب حکومت کی بااعتماد اور مستقل مزاج شراکت دار بننے میں ناکام رہی ہے۔اس کی واحد طویل المدت شراکت داری جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے ساتھ رہی۔
زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ایم کیو ایم موجودہ طوفان سے بچ نکلے گی، مگر اسے بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔اب ایم کیو ایم کے لیے مناسب وقت ہے کہ وہ عسکریت پسندوں سے اپنی جان چھڑائے اور اس حقیقت کو قبول کرے کہ کراچی کثیر النسلی شہر ہے جس میں اردو بولنے والوں کی آبادی45 فیصدکے قریب ہے۔اس لیے اختیار جمہوری طریقے سے تقسیم کرنا ہوگا۔ مقامی آبادی کے خلاف صف آرا ہونے کی بجائے انھیں خود کو'' سندھی'' قراردینا چاہیے۔
(کالم نگار فری لانس صحافی اور مصنف ہے، رسائی کے لیےayazbabar&gmail.com )
متحدہ قومی موومنٹ(MQM) ایک بار پھر طوفان کی زد میں ہے۔ ٹیلیویژن چینلزکے پرائم ٹائم ٹاک شوز میں سیاسی پنڈتوں کی رونق رہتی ہے جو اندازے لگاتے رہتے ہیں کہ یہ متنازع ترین سیاسی جماعت اس طوفان سے نکل آئے گی یا بڑی حد تک کمزور ہوجائے گی۔
1992 کے موسم گرما میںایم کیو ایم کو دفن کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی ناکام کوشش کے بھی حوالے دیے جاتے ہیں، مگر24 سال قبل کی جانے والی اس کوشش کے بعد بہت سے محرکات تبدیل ہو چکے ہیں۔ مثلا حال ہی میں جو نیا گروپ سامنے آیا ہے اس کی قیادت مصطفیٰ کمال کر رہے ہیں،1992 کے مقابلے میں جب دو عسکریت پسند لیڈروں... آفاق احمد اور عامر خان کو سامنے لایا گیا تھا، یہ گروپ ایم کیو ایم کا لطیف چہرہ ہے، سندھ میں جاری آپریشن سے ایم کیو ایم کو بڑی حد تک بے اثرکیا جاچکا ہے،اس لیے اب اس کا خوف نہیں رہا، الطاف حسین کی خراب صحت نے پارٹی پر ان کی گرفت کوکمزورکردیا ہے، رائے عامہ بنانے میں اب 24/7 ٹیلیویژن اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس الزام کے خلاف ایم کیو ایم کا کمزور دفاع بھی کہ بھارتی خفیہ ایجنسی '' را'' کی طرف سے اسے پیسے ملتے رہے،اس کے خلاف جا رہا ہے۔
پارٹی کے زیادہ تر لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ عدالت میں یہ بات ثابت کی جاسکے گی کہ ایم کیو ایم کا لندن سیکریٹریٹ بھارت سے فنڈ لیتا رہا اور اس کے عسکریت پسندوں کو بھارت میں تربیت دی گئی۔ بھارت سے فنڈنگ کے بارے میں الزامات برطانوی عدالتوں میں منی لانڈرنگ کیس کا حصہ ہیں۔ یہ امکان بہت کم ہے کہ برطانیہ اس معاملے کو آگے لے کر چلے گا۔ برطانیہ یہ ثابت کر کے اپنے دوست بھارت کو پریشان نہیں کرے گا کہ وہ پاکستان کی ایک جماعت کو پیسہ دیتا رہا ہے۔
بھارت برطانوی حکومت پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کررہا ہے کہ ایم کیو ایم کے منی لانڈرنگ پاکستان میں جن لوگوں کو اپنے ملک کی سیاسی تاریخ یاد ہے، وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جس کسی نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے بیانیہ سے اختلاف کیا،اس پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا ٹھپہ لگایا جاتا رہا ہے۔ بھارتی انٹیلیجنس کی طرف سے پاکستان کے نامطمئن سیاسی اورعسکریت پسند عناصر کی حمایت خریدنے کا امکان اتنا ہی مضبوط ہے جتنا یہ امکان کہ ایجنسیاں سرحد پار اسی قسم کے عناصرکی حمایت کرتی ہیں، یا اسرائیل یا امریکا میں اپنی حمایت کے لیے خطیر رقم خرچ کرتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ ، تقسیم کرو اور حکومت کرو کی تاریخ ہے۔ برطانیہ نے نو آبادیاتی حکمرانی کے خلاف تحریک کوکمزورکرنے کے لیے بھارت میں گروہی سیاست کو بڑی مہارت کے ساتھ پروان چڑھایا۔جنرل ایوب خان نے اپنی آمرانہ حکمرانی کے لیے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے1962 میںپاکستان مسلم لیگ کو تقسیم کیا۔ان کی ایڈمنسٹریشن نے 1960 کے عشرے میں سندھ کے عوام کو بھی مہاجروں اور سندھیوں میں تقسیم کیا۔
جنرل ضیاء الحق نے بھٹوکا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متوازی پاکستان پیپلزپارٹی قائم کرنے کی کوشش کی۔ سندھ میں بحالی ِ جمہوریت کے لیے ایک مضبوط تحریک چلنے کے بعد ، ضیاء کی حکومت نے الطاف حسین کی قیادت میں نئی نئی قائم ہونے والی مہاجر قومی موومنٹ کی حمایت کی۔ جنرل مشرف نے پاکستان مسلم لیگ(ق) اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی جوڑ توڑکی ان تمام کوششوں نے ان لوگوں کو صرف وقتی طور پر فائدہ دیا ، مگر بالآخر یہ نقصان دہ ثابت ہوئیں۔
ایم کیو ایم ، الطاف حسین کی پرستش کرنے والوں کا ایک منظم گروہ ہے۔ پجاری اپنے دیوتا کو ایک فاصلے سے دیکھتے ہیں اور اس کی شخصیت کی پرستش کرتے ہیں، وہ لوگ جو ان کے ارد گرد ہیں اور پجاریوں کے گروہ کو چلاتے ہیں ، عام طور سے معبد کے ذریعے جھانکتے ہیں مگر اپنے پوشیدہ مفادات کے لیے خدمت کرتے رہتے ہیں اور جب دیوتا نہیں رہتا تو اس قسم کے گروہ متعدد دھڑوں میں بٹ جاتے ہیں۔
ایم کیو ایم کے ساتھ جو مسئلہ ہے وہ اس جماعت کے بنیادی سیاسی اجزائے ترکیبی میں ہے۔اس کی بنیاد برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان سے نقل مکانی کرنے والوں کے ساتھ مفروضہ نا انصافیوں پر ہے۔ جب یہ جماعت قائم کی گئی تو اس کے رہنماؤں نے لفظ مہاجرکی تشریح اس طرح کی'' وہ لوگ جنھوں نے ہندوستان سے نقل مکانی کی اور ان کے صوبے کا کوئی حصہ پاکستان میں شامل نہیں کیا گیا ۔'' اس میں نقل مکانی کرنے والے ان لوگوں کی اس بڑی تعداد کو خارج کردیا گیا جو مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب آئے تھے۔
پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں سے نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر لوگ اردو بولنے والے تھے جو سندھ کے تین شہروں میں آباد ہوگئے۔تقسیم کے بعد پہلی دہائی کے دوران انھوں نے حکمران اشرافیہ کا حصہ بن کر خوب مزے کیے۔ پہلے مارشل لا کے بعد رفتہ رفتہ ان کا اثرورسوخ کم ہونے لگا اور اُن کی پنجاب کے حکمران طبقات کے جونیئر پارٹنرز کی حیثیت پشتونوں نے لے لی۔اس کے باوجود حکومتی اور پرائیویٹ سیکٹرکی ملازمتوں میں ان کا حصہ ، پاکستان کی آبادی میں ان کے تناسب سے کئی گنا زیادہ تھا۔
ون یونٹ کی لعنت سے نجات پانے کے بعد سندھ کے باسیوں نے پہلی بارکراچی میں اختیار حاصل کیا۔ قیام پاکستان کے فورا بعد انھیں ان کے اس اہم شہر سے باہرکردیا گیا تھا،کیونکہ اس شہر کو وفاقی دارالحکومت قرار دے دیا گیا تھا اور صوبائی حکومت کو یہاں سے منتقل کردیا گیا تھا۔اس طرح اردو بولنے والوں نے جو ملکی آبادی کا7.5 فیصد تھے، اپنے اختیارات میں کمی اور سندھی حکمران اور متوسط طبقات کے ابھارکے خلاف غم وغصے کا اظہار شروع کردیا۔ یہ تنازع آگے کی طرف بڑھتا رہا اور شہروں پرکنٹرول حاصل کرنے کی کشمکش نے کراچی کو مصائب میں مبتلا کر دیا ۔
ایم کیو ایم نے بڑی کامیابی کے ساتھ اردو بولنے والوں کی حمایت حاصل کی جو بعض حقیقی اور بعض مفروضہ ناانصافیوں کی وجہ سے خفا ہیں۔ شہری سندھ پرکنٹرول حاصل کرنے کی لڑائی میں وہ شہری سندھ میں رہنے والی تمام بڑی نسلی برادریوں سے لڑچکے ہیں۔اس صورت حال نے اس جماعت کو الگ تھلگ کردیا ہے اوراسے ان سب کا ہدف بنا دیا ہے۔
1988 میں انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا مگر چندماہ کے اندر ہی ایم کیو ایم ،اُس حصے سے کہیں زیادہ مانگتے ہوئے جو حقیقت کے اعتبار سے ممکن تھا،اس اتحاد سے الگ ہو گئی۔1990 میں وہ نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ جا ملی ، مگر1992 میں اس سے بھی الگ ہوگئی ۔سمجھداری کا فقدان ،اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایک بڑے آپریشن پر منتج ہوا۔ یہ جماعت کسی بھی منتخب حکومت کی بااعتماد اور مستقل مزاج شراکت دار بننے میں ناکام رہی ہے۔اس کی واحد طویل المدت شراکت داری جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے ساتھ رہی۔
زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ایم کیو ایم موجودہ طوفان سے بچ نکلے گی، مگر اسے بہت نقصان اٹھانا پڑے گا۔اب ایم کیو ایم کے لیے مناسب وقت ہے کہ وہ عسکریت پسندوں سے اپنی جان چھڑائے اور اس حقیقت کو قبول کرے کہ کراچی کثیر النسلی شہر ہے جس میں اردو بولنے والوں کی آبادی45 فیصدکے قریب ہے۔اس لیے اختیار جمہوری طریقے سے تقسیم کرنا ہوگا۔ مقامی آبادی کے خلاف صف آرا ہونے کی بجائے انھیں خود کو'' سندھی'' قراردینا چاہیے۔
(کالم نگار فری لانس صحافی اور مصنف ہے، رسائی کے لیےayazbabar&gmail.com )