کراچی میں نجی یونیورسٹی کے طالبعلم کی خودسوزی معمہ بن گئی
بیٹے نے خودسوزی نہیں کی بلکہ اسے زندہ جلایا گیا ہے جس کی موت کے ذمہ دار پرنسپل اور پروفیسر ہیں،والد کاالزام
آگ لگنے سے جھلس کر جاں بحق ہونے والے نجی یونیورسٹی کے طالبعلم عبدالباسط کی موت معمہ بن گئی جب کہ عبدالباسط کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ اس نے خودسوزی نہیں کی بلکہ اسے زندہ جلایا گیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کی نجی میڈیکل یونیورسٹی کے طالبعلم عبدالباسط کی ہلاکت معمہ بن گئی جب کہ ان کے اہلخانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے عبدالباسط کو جلایا جس میں کیمپس کا سیکیورٹی گارڈ بھی ملوث ہے جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے نارتھ ناظم آباد میں واقع ڈینٹل اسپتال میں جائے وقوعہ کا معائنہ کیا جارہا ہے تاہم اب تک مقدمہ درج نہیں کیا اور واقعے کی ہر پہلو سے تفتیش کی جارہی ہے۔
جھلس کر ہلاک ہونے والے طالبعلم عبدالباسط کے والد کا کہنا ہے کہ انہیں نامعلوم نمبر سے فون آیا کہ وہ فوری عباسی شہید اسپتال پہنچ جائیں جہاں وہ گئے تو ان کا بیٹا عبدالباسط جھلسا ہوا تھا جس کے بعد اسے سول اسپتال کے برن وارڈ منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج چل بسا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ بیٹے کی موت کے ذمہ دار پرنسپل اور پروفیسر ہیں اور عبدالباسط نے خودسوزی نہیں کی بلکہ اسے زندہ جلایا گیا ہے۔
عبدالباسط کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہمدرد یونیورسٹی میں کام کرنے والے سارے ڈاکٹر ایک جیسے نہیں لیکن ڈاکٹر ندیم کھوکھر بچوں کو پاس کرنے کے لئے لاکھوں روپوں کا مطالبہ کرتے ہیں، ڈاکٹرفرحت، ڈاکٹر ندیم کھوکھر،ڈاکٹرابرار اور ڈاکٹرفرقان میرے بیٹے کی موت کے ذمہ دارہیں اورانہی لوگوں نے اسے مارا ہے جب کہ کیمپس کا سیکیورٹی گارڈ بھی آگ لگانے میں ملوث ہے۔
عبدالباسط کے بھائی کے مطابق وہ گھر میں سب سے چھوٹا اور لاڈلہ تھا جسے آئندہ سال آسٹریلیا جانا تھا اور اسے ماڈلنگ کا بھی بہت شوق تھا اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ سیلفیاں لیتا رہتا تھا۔ عبدالباسط کے بھائی کا نے اعلی حکام سے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خودسوزی نہیں قتل ہے، بھائی سے یونیورسٹی ملازم ندیم نے امتحان میں بٹھانے کے بدلے رشوت مانگی تھی اگر اس کے بھائی نے خود کو آگ لگائی تھی تو کسی نے اسے بچایا کیوں نہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کی نجی میڈیکل یونیورسٹی کے طالبعلم عبدالباسط کی ہلاکت معمہ بن گئی جب کہ ان کے اہلخانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے عبدالباسط کو جلایا جس میں کیمپس کا سیکیورٹی گارڈ بھی ملوث ہے جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے نارتھ ناظم آباد میں واقع ڈینٹل اسپتال میں جائے وقوعہ کا معائنہ کیا جارہا ہے تاہم اب تک مقدمہ درج نہیں کیا اور واقعے کی ہر پہلو سے تفتیش کی جارہی ہے۔
جھلس کر ہلاک ہونے والے طالبعلم عبدالباسط کے والد کا کہنا ہے کہ انہیں نامعلوم نمبر سے فون آیا کہ وہ فوری عباسی شہید اسپتال پہنچ جائیں جہاں وہ گئے تو ان کا بیٹا عبدالباسط جھلسا ہوا تھا جس کے بعد اسے سول اسپتال کے برن وارڈ منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج چل بسا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ بیٹے کی موت کے ذمہ دار پرنسپل اور پروفیسر ہیں اور عبدالباسط نے خودسوزی نہیں کی بلکہ اسے زندہ جلایا گیا ہے۔
عبدالباسط کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہمدرد یونیورسٹی میں کام کرنے والے سارے ڈاکٹر ایک جیسے نہیں لیکن ڈاکٹر ندیم کھوکھر بچوں کو پاس کرنے کے لئے لاکھوں روپوں کا مطالبہ کرتے ہیں، ڈاکٹرفرحت، ڈاکٹر ندیم کھوکھر،ڈاکٹرابرار اور ڈاکٹرفرقان میرے بیٹے کی موت کے ذمہ دارہیں اورانہی لوگوں نے اسے مارا ہے جب کہ کیمپس کا سیکیورٹی گارڈ بھی آگ لگانے میں ملوث ہے۔
عبدالباسط کے بھائی کے مطابق وہ گھر میں سب سے چھوٹا اور لاڈلہ تھا جسے آئندہ سال آسٹریلیا جانا تھا اور اسے ماڈلنگ کا بھی بہت شوق تھا اور وہ اپنی فیملی کے ساتھ سیلفیاں لیتا رہتا تھا۔ عبدالباسط کے بھائی کا نے اعلی حکام سے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خودسوزی نہیں قتل ہے، بھائی سے یونیورسٹی ملازم ندیم نے امتحان میں بٹھانے کے بدلے رشوت مانگی تھی اگر اس کے بھائی نے خود کو آگ لگائی تھی تو کسی نے اسے بچایا کیوں نہیں۔