پانامہ لیکس اِن سے یہی امید تھی
پانامہ لیکس کو سادہ اور عام فہم لفظوں میں واضح کرنے کے لیے آپ کو ایک شرارتی بچے کی تمثیل بیان کرتے ہیں
پانامہ لیکس کو سادہ اور عام فہم لفظوں میں واضح کرنے کے لیے آپ کو ایک شرارتی بچے کی تمثیل بیان کرتے ہیں جسے پڑھ کر دوسری جماعت کا طالب علم بھی آف شور سرمایہ کاری کے تصور سے آشنا ہو جائے گا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ''آسٹن '' نامی ایک بچہ پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا، اس کی ماں نے اسے بچت کی عادت ڈالنے کے لیے ایک سیونگ باکس لے کر دیا کہ وہ اپنی روزانہ کی پاکٹ منی سے کچھ نہ کچھ بچا کر اس گلّے میں رکھ دیا کرے۔
آسٹن کو روزانہ گھر سے پاکٹ منی کی مد میں ایک پاؤنڈ ملتا تھا۔ مہینے کے آخر میں آسٹن کی ماں نے بچے کے کپڑوں کی الماری میں رکھے ہوئے گلّے کی تلاشی لی، آسٹن اسکول گیا ہوا تھا، اُسے اس بات پر بے انتہاء حیرت ہوئی کہ آسٹن کو اس نے ایک پاؤنڈ یومیہ کے حساب سے مہینے 30پاؤنڈ دیے تھے مگر گلّے میں سے 50 پاؤنڈ برآمد ہوئے، باوجود اس کے کہ آسٹن روزانہ اسکول کے بریک ٹائم میں کھاتاپیتا بھی رہا تھا، یہ ایک غیرمعمولی صورتحال تھی۔ آسٹن گھر آیا تو ماں نے نہایت پیار سے پوچھا کہ آپ کے گلّے میں اتنے زیادہ پیسے کیوں ہیں؟ آسٹن بہت ہوشیار تھا، اس نے اپنی ماں کو چکر دے دیا اور کہا کہ اس میں آدھے پیسے اس کے دوست پال کے ہیں۔
بات وقتی طور پر ٹل گئی مگر آسٹن ایک چالاک بچہ تھا، اُس نے اپنے ایک اور دوست پیٹر کو کہا کہ وہ اپنا سیونگ باکس یا گلّہ اس کے گھر میں اس کے کپڑوں کی الماری میں رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اپنے گھر میں اس کی سیونگ محفوظ نہیں۔ پیٹر نے کہا کہ تم مجھے 5 پاؤنڈ ماہانہ دے دیا کرو تو میں آپ کا یہ کام کرنے کو تیار ہوں۔ اگلے دن آسٹن کا گلّہ پیٹر کے گھر پہنچ گیا۔ دوسرے مہینے کے آخر میں آسٹن کی ماں ایک دفعہ پھر اس کے کپڑوں کی الماری میں سے گلّہ تلاش کررہی تھیں مگر اُسے ناکامی ہوئی جس پر اس کی تشویش میں مزید اضافہ ہوگیا۔
اگلے دن آسٹن کے اسکول سے اس کی ماں کو فون آگیا کہ آپ کا بچہ اپنی کلاس کے بچوں کے بیگ میں سے ان کی پاکٹ منی چوری کرتا ہوا پکڑا گیا ہے لہٰذا آپ اس کو سمجھائیں کہ وہ یہ کام چھوڑ دے۔ آسٹن کی ماں سخت پریشان تھی کہ وہ اس بچے کی بُری عادت کا کیا کرے۔ اسی اثناء میں اس کے دروازے پر دستک ہوئی تو باہر ساتھ والے گھر میں رہنے والے آسٹن کے دوست پیٹر کی ماں کھڑی تھی۔ اس نے آسٹن کی ماں کو بتایا کہ آسٹن کے گلّے میں اس دفعہ مزید پیسوں کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ وہ بھر چکا ہے، میں اس لیے آئی ہوں کہ اس کے لیے ایک نیا گلّہ خرید کر بھیج دیں تاکہ اس کی بچت کو محفوظ کیا جاسکے۔ آسٹن کی ماں نے اُسے کہا کہ آپ وہ گلّہ ہمیں واپس کردیںِ جس پر پیٹر کی ماں نے کہا کہ وہ تو ہمارے پاس آسٹن نے رکھا ہے، اسے واپس لینے کے لیے آپ آسٹن کے اسکول سے آنے کا انتظار کریں، جب وہ ہمیں کہے گا تو ہم وہ آپ کو واپس کردیں گے۔
اس کہانی کو آپ پانامہ لیکس کے کسی بھی ایک کردار پر اپلائی کر کے دیکھیں تو آپ کو آف شور سرمایہ کاری، اس کے پس پردہ مقاصد اور اس میں نیک نیتی کا لیول سارا کچھ بہت شفاف طریقے سے نظر آجائے گا۔ ایک جمہوری ملک میں رہتے ہوئے کیا ہم اپنے آسٹن سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ جب آپ اپنے والدین کے ہمراہ 16 سال کی عمر میں اپنا گیند بلاپکڑے جدہ روانہ ہورہے تھے تو آپ کے سیونگ باکس میں کتنے پیسے تھے، اس کے بعد 16سال میں آپ کے پاس کون سی جادو کی چھڑی ہے۔
جس کے ذریعے آپ کی آف شور کمپنیاں راتوں رات سونا اُگل دیتی ہیں جس سے آپ دُنیا کے مہنگے ترین ملک انگلینڈ کے مہنگے ترین علاقے پارک لین میں عالی شان گھروں کی لمبی قطاریں کھڑی کرتے جارہے ہیں جیسے یہ کسی بچے کے کھلونے ہوں۔ کہیںآپ نے بھی ہماری کہانی والے آسٹن والی حرکت تو نہیں کی۔ آپ اپنے ذرایع آمدن تو ظاہر کریں۔ جتنی بے پناہ دولت کے آپ مالک ہیں یہ تو آپ کے بزرگوں کی عمر بھر کی ساری کمائیوں کو سامنے رکھیں تو آپ کی دولت کا وہ عشر عشیر بھی نہیں ۔
یہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آنا چاہیے کہ اپنے ملک سے جلاوطن ہونے والی ایک فیملی نے دربدری کے دوران اتنی بڑی بزنس امپائر کی بنیاد رکھ دی ورنہ تاریخ نے تو بہادرشاہ ظفر کی جلاوطنی دیکھی ہے، جس نے رنگون کی قید میں لکھا کہ
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
کیا پانامہ میں کی جانے والی ساری خفیہ سرمایہ کاری چیریٹی مقاصد کے لیے الگ رکھی ہوئی تھی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ جائز اور قانونی ہے، اگر ٹیکس سے بچنے کی نیت سے پیسہ باہر منتقل کیا جائے تو کیا یہ قانونی ہے۔
کیا یہ Conflict of Interest نہیں کہ ملک کے حکمران کے افرادِخانہ کاروبار کے لیے اخلاقی ساکھ کو اولیت نہ دیں۔ آف شور سرمایہ کاری کے قانونی اور جائز ہونے کے ضمن میں ہم آپ کو یورپ کی مثال دیتے ہیں۔ یورپی ممالک میں بعض ایسے پیشے یا کاروبار قانونی ہیں جنھیں اخلاقی اعتبار سے غلط سمجھا جاتا ہے۔ اب یورپ کے کسی ملک کی حکومت کے سربراہ کے خاندان کا کوئی فرد ایسا کاروبار کرے اور کہے کہ یہ تو قانونی ہے، تو آپ خود ہی سوچیں اس ملک کی عوام کیا ردعمل دے گی؟ (جاری ہے
آسٹن کو روزانہ گھر سے پاکٹ منی کی مد میں ایک پاؤنڈ ملتا تھا۔ مہینے کے آخر میں آسٹن کی ماں نے بچے کے کپڑوں کی الماری میں رکھے ہوئے گلّے کی تلاشی لی، آسٹن اسکول گیا ہوا تھا، اُسے اس بات پر بے انتہاء حیرت ہوئی کہ آسٹن کو اس نے ایک پاؤنڈ یومیہ کے حساب سے مہینے 30پاؤنڈ دیے تھے مگر گلّے میں سے 50 پاؤنڈ برآمد ہوئے، باوجود اس کے کہ آسٹن روزانہ اسکول کے بریک ٹائم میں کھاتاپیتا بھی رہا تھا، یہ ایک غیرمعمولی صورتحال تھی۔ آسٹن گھر آیا تو ماں نے نہایت پیار سے پوچھا کہ آپ کے گلّے میں اتنے زیادہ پیسے کیوں ہیں؟ آسٹن بہت ہوشیار تھا، اس نے اپنی ماں کو چکر دے دیا اور کہا کہ اس میں آدھے پیسے اس کے دوست پال کے ہیں۔
بات وقتی طور پر ٹل گئی مگر آسٹن ایک چالاک بچہ تھا، اُس نے اپنے ایک اور دوست پیٹر کو کہا کہ وہ اپنا سیونگ باکس یا گلّہ اس کے گھر میں اس کے کپڑوں کی الماری میں رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اپنے گھر میں اس کی سیونگ محفوظ نہیں۔ پیٹر نے کہا کہ تم مجھے 5 پاؤنڈ ماہانہ دے دیا کرو تو میں آپ کا یہ کام کرنے کو تیار ہوں۔ اگلے دن آسٹن کا گلّہ پیٹر کے گھر پہنچ گیا۔ دوسرے مہینے کے آخر میں آسٹن کی ماں ایک دفعہ پھر اس کے کپڑوں کی الماری میں سے گلّہ تلاش کررہی تھیں مگر اُسے ناکامی ہوئی جس پر اس کی تشویش میں مزید اضافہ ہوگیا۔
اگلے دن آسٹن کے اسکول سے اس کی ماں کو فون آگیا کہ آپ کا بچہ اپنی کلاس کے بچوں کے بیگ میں سے ان کی پاکٹ منی چوری کرتا ہوا پکڑا گیا ہے لہٰذا آپ اس کو سمجھائیں کہ وہ یہ کام چھوڑ دے۔ آسٹن کی ماں سخت پریشان تھی کہ وہ اس بچے کی بُری عادت کا کیا کرے۔ اسی اثناء میں اس کے دروازے پر دستک ہوئی تو باہر ساتھ والے گھر میں رہنے والے آسٹن کے دوست پیٹر کی ماں کھڑی تھی۔ اس نے آسٹن کی ماں کو بتایا کہ آسٹن کے گلّے میں اس دفعہ مزید پیسوں کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ وہ بھر چکا ہے، میں اس لیے آئی ہوں کہ اس کے لیے ایک نیا گلّہ خرید کر بھیج دیں تاکہ اس کی بچت کو محفوظ کیا جاسکے۔ آسٹن کی ماں نے اُسے کہا کہ آپ وہ گلّہ ہمیں واپس کردیںِ جس پر پیٹر کی ماں نے کہا کہ وہ تو ہمارے پاس آسٹن نے رکھا ہے، اسے واپس لینے کے لیے آپ آسٹن کے اسکول سے آنے کا انتظار کریں، جب وہ ہمیں کہے گا تو ہم وہ آپ کو واپس کردیں گے۔
اس کہانی کو آپ پانامہ لیکس کے کسی بھی ایک کردار پر اپلائی کر کے دیکھیں تو آپ کو آف شور سرمایہ کاری، اس کے پس پردہ مقاصد اور اس میں نیک نیتی کا لیول سارا کچھ بہت شفاف طریقے سے نظر آجائے گا۔ ایک جمہوری ملک میں رہتے ہوئے کیا ہم اپنے آسٹن سے یہ نہیں پوچھ سکتے کہ جب آپ اپنے والدین کے ہمراہ 16 سال کی عمر میں اپنا گیند بلاپکڑے جدہ روانہ ہورہے تھے تو آپ کے سیونگ باکس میں کتنے پیسے تھے، اس کے بعد 16سال میں آپ کے پاس کون سی جادو کی چھڑی ہے۔
جس کے ذریعے آپ کی آف شور کمپنیاں راتوں رات سونا اُگل دیتی ہیں جس سے آپ دُنیا کے مہنگے ترین ملک انگلینڈ کے مہنگے ترین علاقے پارک لین میں عالی شان گھروں کی لمبی قطاریں کھڑی کرتے جارہے ہیں جیسے یہ کسی بچے کے کھلونے ہوں۔ کہیںآپ نے بھی ہماری کہانی والے آسٹن والی حرکت تو نہیں کی۔ آپ اپنے ذرایع آمدن تو ظاہر کریں۔ جتنی بے پناہ دولت کے آپ مالک ہیں یہ تو آپ کے بزرگوں کی عمر بھر کی ساری کمائیوں کو سامنے رکھیں تو آپ کی دولت کا وہ عشر عشیر بھی نہیں ۔
یہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں آنا چاہیے کہ اپنے ملک سے جلاوطن ہونے والی ایک فیملی نے دربدری کے دوران اتنی بڑی بزنس امپائر کی بنیاد رکھ دی ورنہ تاریخ نے تو بہادرشاہ ظفر کی جلاوطنی دیکھی ہے، جس نے رنگون کی قید میں لکھا کہ
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
کیا پانامہ میں کی جانے والی ساری خفیہ سرمایہ کاری چیریٹی مقاصد کے لیے الگ رکھی ہوئی تھی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ جائز اور قانونی ہے، اگر ٹیکس سے بچنے کی نیت سے پیسہ باہر منتقل کیا جائے تو کیا یہ قانونی ہے۔
کیا یہ Conflict of Interest نہیں کہ ملک کے حکمران کے افرادِخانہ کاروبار کے لیے اخلاقی ساکھ کو اولیت نہ دیں۔ آف شور سرمایہ کاری کے قانونی اور جائز ہونے کے ضمن میں ہم آپ کو یورپ کی مثال دیتے ہیں۔ یورپی ممالک میں بعض ایسے پیشے یا کاروبار قانونی ہیں جنھیں اخلاقی اعتبار سے غلط سمجھا جاتا ہے۔ اب یورپ کے کسی ملک کی حکومت کے سربراہ کے خاندان کا کوئی فرد ایسا کاروبار کرے اور کہے کہ یہ تو قانونی ہے، تو آپ خود ہی سوچیں اس ملک کی عوام کیا ردعمل دے گی؟ (جاری ہے