پانامہ لیکس تین ہدف 1

انیسویں، بیسویں اور اکیسویں صدی میں ہم جب عظیم ریاستوں کی تاریخ کے ورق الٹتے ہیں

zahedahina@gmail.com

SUKKUR/HYDERABAD:
انیسویں، بیسویں اور اکیسویں صدی میں ہم جب عظیم ریاستوں کی تاریخ کے ورق الٹتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی اثر و رسوخ، استحکام اور معاشی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے انھوں نے اپنی حکمت عملی میں بہت سی تبدیلیاں کیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج معاشی اور فوجی طور پر طاقتور ترین ریاستوں کے انداز اور اطوار پسماندہ یا کم ترقی یافتہ ریاستوں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ طاقت ور ریاستیں ایک دوسرے سے بیک وقت تعاون، مسابقت اور مقابلے کی صورتحال میں رہتی ہیں۔

ان میں بظاہر دوستی نظر آتی ہے لیکن اپنے مفادات کے لیے وہ ایک دوسرے کے خلاف کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار رہتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑی طاقتوں کی باہمی کشمکش باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور پوری دنیا اس جنگ میں گھسیٹ لی جاتی ہے۔ پہلی اور دوسری عظیم جنگیں اس کی سامنے کی مثال ہیں۔ عام حالات میں کمزور اور کم ترقی یافتہ لیکن دانش مند ملک خود کو بڑی قوتوں کی باہمی لڑائی سے الگ تھلگ رکھتے ہیں، گویا وہ ہاتھیوں کی جنگ میں شامل نہیں ہوتے کہ خود روند نہ دیے جائیں۔

ہمارا شمار بدنصیبی سے دنیا کے ان چند گنے چنے ملکوں میں ہوتا ہے جو خود کو بڑی طاقتوں کی باہمی آویزش میں کسی نہ کسی طرح سے ملوث کرلینے کی خطرناک عادت میں مبتلا ہیں۔کسی مسئلے کا تعلق اگر ہم سے براہ راست نہ ہو تب بھی ہم اسے اپنا مسئلہ بنا لینے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ اس عادت کے ہاتھوں ہم اپنا بے پناہ نقصان کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ عادت ہماری انفرادی اور اجتماعی نفسیات کا غالب جزو بن چکی ہے اور جس سے نجات پانا ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔

68 برس پہلے آزاد ہونے کے فوراً بعد ہم نے عالمی سیاست میں غیر جانبدار رہنے کے بجائے اس کا فعال حصہ بننے کو ترجیح دی۔ کسی ضرورت کے بغیر ہم، ایک جست لگا کر امریکی کیمپ کا حصہ بن گئے اور پورے سوویت بلاک کو اپنا دشمن بنا لیا۔ ہم نے امریکا سے سیٹو، سینٹو کے علاوہ متعدد دیگر معاہدے کیے، اپنے فضائی اڈے ان کے سپرد کردیے، جہاں سے امریکی جاسوس طیاروں نے سوویت یونین کی جاسوسی شروع کردی اور جب سوویت فضائیہ نے یوٹو طیارہ مار گرایا اور خروشیف نے بڈبیر کے خفیہ ہوائی اڈے پر سرخ دائرہ بناکر یہ دھمکی دی کہ آیندہ ایسی کوئی حرکت ہوئی تو پشاور کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا۔ اس خوفناک دھمکی کے بعد ہم قدرے ہوش میں آئے۔

اپنے خطے میں امریکی مفادات کا آلہ کار بن کر ہم اپنے ملک میں جمہوریت اور معیشت کو مستحکم نہ کرسکے۔ ہمارے حکمران سوویت یونین کو للکارتے رہے لیکن اپنا ملک نہ بچا سکے جس کے لیے صرف اتنا کرنا تھا کہ 1970 کے عام انتخابات کے بعد اقتدار کو، نو منتخب پارلیمنٹ کے حوالے کردیا جائے۔ پارلیمنٹ کی بے توقیری اور عوام کی اکثریت کا مینڈیٹ رکھنے والے سیاسی رہنما کو غدار قرار دے کر ایک الگ ملک بنوا دیا گیا جو آج کئی شعبوں میں ہم سے آگے ہے اور باقی چند میں بس آگے نکلنے ہی والا ہے۔ اتنے بھیانک تجربے کے بعد بھی ہم نے اپنی عادت نہیں بدلی اور عالمی محاذ آرائی کا حصہ نہ صرف بنے رہے بلکہ اس پر اتراتے بھی رہے۔

ہماری خوش فہمی کی انتہا اس وقت سامنے آئی جب ہمارے بہت سے جرنیلوں، سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں نے یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ سوویت یونین کو اس کے مخالفوں نے نہیں بلکہ ہم نے ختم کیا ہے۔ یہ سوچ آج بھی آپ کو نظر آئے گی۔ ہم یہ بھول گئے کہ عالمی طاقتوں کی اس لڑائی میں ہم محض ایک پیادہ تھے۔ سوویت یونین اور امریکا دونوں، آپس کی اس لڑائی میں ہار گئے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ جمہوریت کی عدم موجودگی کے باعث سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا جب کہ امریکا ٹوٹنے سے بچ گیا لیکن ایک ایسے مہیب معاشی بحران میں گرفتار ہوگیا جس سے آج کی تاریخ تک وہ خود کو باہر نہیں نکال سکا ہے۔


بڑی طاقتوں کی آپس کی لڑائی میں خود کو ملوث کرلینے کی تازہ ترین مثال پانامہ سے لیک ہونے والی دستاویزات ہیں جن کی کل تعداد ایک کروڑ پندرہ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اپنی پرانی نفسیاتی کیفیت کی وجہ سے ہم پورے ملک میں یہ ماحول پیدا کررہے ہیں کہ گویا ایک کروڑ سے زیادہ ان دستاویزات کا تعلق صرف وزیراعظم نواز شریف سے ہے جب کہ ان کا نام درحقیقت کسی بھی دستاویز میں شامل نہیں ہے اور سندھ ہائی کورٹ بھی ایک درخواست کی سماعت کے دوران یہی کہہ چکی ہے اور اس درخواست کو خارج کرچکی ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ہم بڑی طاقتوں کی اس معاشی اور سیاسی جنگ کو خود اپنے ملک میں لے آئے ہیں یا لانے کی کوشش کررہے ہیں۔

کیا اسے محض ایک اتفاق کہا جائے گا کہ ان دستاویزات کے ذریعے چین کے کاروباری لوگوں کو نہیں بلکہ خود چینی صدر کے قریبی رشتے داروں اور پولٹ بیورو کے ارکان کو ملوث کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ چین کے صدر پر یہ حملہ اتنا زبردست تھا کہ چین کی وزارت خارجہ کو براہ راست میدان میں آکر یہ اعلان کرنا پڑا کہ ان رپورٹوں میں ''بے بنیاد الزامات'' کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ بات بھی واضح کردی گئی ہے کہ آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں ہوتیں اور چین کے صدر پر لگائے گئے الزامات سراسر غلط ہیں۔ پانامہ پیپرز کو افشا کر کے چین، روس اور پاکستان کو بطور خاص نشانہ بنایا گیا ہے۔ پہلے ہم اس سوال کا تجزیہ کرتے ہیں کہ چین کو پہلا ہدف کیوں بنایا گیا ہے۔

بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ امریکا آج سے نہیں بلکہ 1870 یعنی 145 سال سے بھی زیادہ سے دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا درجہ رکھتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکا دنیا کی نہ صرف سب سے بڑی معاشی بلکہ فوجی طاقت بھی ہے۔ یہ اندازہ باآسانی کیا جاسکتا ہے کہ جو ملک تقریباً ڈیڑھ صدی سے دنیا پر معاشی بالادستی رکھتا ہو، اس کا یہ مقام اگر خطرے میں پڑنے لگے تو اس کا ردعمل کیا اور کیسا ہونا چاہیے؟

چین نے جس تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں اس پر بھی ایک نظر ڈالنی ضروری ہے تاکہ صورتحال کی سنگینی کا درست ادراک کیا جاسکے۔ ماؤزے ننگ کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی نے جب چین کی قومی آزادی کی جدوجہد کو کامیاب سوشلسٹ انقلاب میں تبدیل کردیا تو اس سے ذرا پہلے چین کو افیونیوں کی قوم ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ انقلاب کے بعد چین کی کایا پلٹ گئی۔ چینی قیادت نے دو نکات پر توجہ مرکوز رکھی۔ پہلی ترجیح چین میں بنیادی معاشی اور سماجی انفرااسٹرکچر کی تعمیر قرار دی گئی اور دوسری حکمت عملی یہ اپنائی گئی کہ چین ساری توجہ اپنی ترقی پر مرکوز رکھے گا اور کسی بھی بیرونی تنازعے میں فوجی اعتبار سے ملوث نہیں ہوگا اور کسی ہمسائے یا دور پرے کے ملک کے اندرونی معاملات میں بھی ہر گز کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ چین سے ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند ، بحر ہند سے گہری اور شہد سے زیادہ شیریں ضرور ہے لیکن ہم نے اس کے ان دو بنیادی اصولوں پر عمل کرنا تو کجا، ان اصولوں کی خلاف ورزی کا کوئی موقع ہاتھوں سے نہیں جانے دیا۔

چین کی اس دانش مندانہ پالیسی کو ماؤزے ننگ کے بعد ڈنگ زیاؤ پنگ نے ایک نئی جہت عطا کی۔ انھوں نے ایک نئے چین کی بنیاد ڈالی اور ان کو بلاشبہ جدید چین کا معمار قرار دیا جاسکتا ہے۔ ڈنگ زیاؤ پنگ نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ دنیا روایتی طرز کے صنعتی دور سے بہت آگے بڑھ چکی ہے، جدید ترین ٹیکنالوجی کے اس دور میں ایک نیا انقلاب برپا ہوچکا ہے جس کے تقاضے ماضی کے تقاضوں سے بہت مختلف ہیں۔ انھوں نے چین کے بند دروازوں کو غیر ملکی سرمایہ کاروں، صنعت کاروں اور تاجروں کے لیے کھول دیا۔ ڈنگ زیاؤ پنگ نے سرمایہ کاری کی نئی پالیسی متعارف کرائی، نج کاری کے عمل کو شروع کیا، پرانی ٹیکنالوجی میں جدت اور اختراع پیدا کی، بیرونی تجارت اور سرمایہ کاری کو اولین ترجیح دی۔

مضبوط معاشی ڈھانچے کی موجودگی میں ان اصلاحات نے تیزی سے اپنا رنگ دکھلانا شروع کیا اور معاشی تاریخ کے حیرت انگیز معجزے چین میں جنم لینے لگے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے یہ حقیقت ناقابل فہم تھی کہ چین کی معیشت 30 سال تک مسلسل 10 فیصد سالانہ کی شرح سے زیادہ کس طرح ترقی کرتی رہی۔ یہ شرح نمو ایک خواب تھا جسے چین نے ممکن کر دکھایا۔ سوچئے اور سرتھام کر بیٹھ جائیے کہ 30 سال سے زیادہ عرصے تک اس شرح نمو سے ترقی کرنے کے نتیجے میں چین کی معیشت میں 7600 گنا اضافہ ہوگیا۔

ہم اور آپ ایک طرف چین کی دوستی کے گُن گاتے رہے اور دوسری جانب امریکا کی چاپلوسی بھی کرتے رہے لیکن یہ حقیقت نہ سمجھ سکے کہ امریکا کی 145 برس پرانی معاشی بالادستی کو چین سے کتنے خطرناک چیلنج لاحق ہوچکے ہیں۔ اس معجز نما تبدیلی پر غور کرنے کے بجائے ہم پہلے جنرل ضیاالحق اور بعدازاں، ہر تنقید اور قانون سے ماورا جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں امریکی مفادات کی نیابتی جنگ افغانستان میں لڑتے ہوئے خود کو تباہ، و برباد کرتے رہے اور اس جنگ کے مالی جانی، نفسیاتی اور سیاسی نقصانات ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ چین نے خود کو سرد جنگ سے بڑی حد تک لا تعلق رکھتے ہوئے معاشی ترقی کا پائیدار عمل جاری رکھا۔ (جاری ہے)
Load Next Story