نور جہاں نے کراچی میں بھی کبوتر اڑا دیا
مسلمان مغلوں نے تلوار کے زور سے بھی حکومت کی اور رشتے داریوں کے ذریعہ بھی حکمران رہے
KARACHI:
کراچی میں ایک عدالت نے ملکہ عالم نور جہاں کی جوانی دیوانی کی یاد تازہ کر دی۔ شہزادہ سلیم (جہانگیر) نے اپنی ایک دلکش کنیز نور جہاں کو کبوتر تھمائے اور خود کھیل کود میں لگ گیا۔ کچھ دیر بعد جب اسے یہ کبوتر یاد آئے تو اس نے کنیز سے کہا کہ میرے کبوتر لاؤ لیکن اس کنیز نے ایک کبوتر تو اڑا دیا تھا۔ ناراض شہزادے نے ڈانٹ کر پوچھا کہ دوسرا کہاں ہے۔
کنیز نے کہا وہ تو اڑ گیا ہے۔ اس پر برہم ہو کر سلیم نے پوچھا مگر وہ کیسے اور نور جہاں نے دوسرا کبوتر جو اس کے ہاتھ میں تھا اسے بھی اڑا کر کہا کہ صاحب عالم وہ ایسے۔ کنیز کی یہ ادا سلطنت مغلیہ کے وارث کے دل کو تہہ و بالا کر گئی اور پھر ایک وقت آیا کہ یہی کنیز ملکہ عالم نور جہاں کے لقب سے شہزادے کے حجلہ عروسی کو آراستہ کر گئی اور پھر زندگی بھر مغل بادشاہ کی زندگی میں رنگ بکھیرتی رہی۔ یہ کنیز نور جہاں یا انار کلی جو بھی تھی اس کی کبوتروں والی کہانی مغل شاہی خاندان کی ایک ناقابل فراموش داستان بن گئی۔
مغل کنیز کی اس ادا نے ایک زندہ کہانی کو جنم دیا۔ آج صدیوں بعد کراچی کی ایک عدالت کے جج صاحب نے اس شاہی کہانی کو زندہ کر دیا۔ ان کی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوا جس کی سماعت کے دوران مغل کنیز نور جہاں کی یاد تازہ ہو گئی۔ مال مقدمہ میں ایک دستی بم بھی تھا جو ملزم کے قبضہ سے برآمد کیا گیا تھا۔ سماعت کے دوران وکیل نے اس کیس پراپرٹی کو جو کپڑے میں سیل تھی کھولنے کی اجازت چاہی۔ عدالت نے اس کی اجازت دے دی۔ پولیس افسر نے غیرذمہ داری سے بم کو ڈی فیوز کیے بغیر عدالت میں پیش کر دیا اور جیسے ہی بم کی سیل کھولی تو اس کا زور دار دھماکا ہوا۔ جج صاحب کو معمولی زخم آئے لیکن ان کے عملے کے دو ارکان شدید زخمی ہو گئے۔
دھماکے کے بعد بھگدڑ مچ گئی اور تفتیشی افسر کو بھی لاپرواہی کی وجہ سے حراست میں لے لیا گیا۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جج صاحب نے تفتیشی افسر سے پوچھا کہ کیا یہ چلتا ہے تو اس نے بم کی پن نکالی اور ساتھ ہی دھماکا ہو گیا اور ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ جج صاحب کو کیا پڑی تھی کہ انھوں نے یہ پوچھا کہ کیا یہ چلتا ہے یا نہیں یا کیسے چلتا ہے اور تفتیشی افسر کی حماقت کہ بم کی پن نکالے بغیر پیش کر دیا اور جب جج صاحب نے پوچھا کہ یہ چلتا بھی ہے یا نہیں تو تفتیشی افسر نے چلا کر دکھا دیا جس سے جج صاحب بھی زخمی ہو گئے۔ یہ ایک انوکھی فرمائش تھی اور پولیس افسر نے بم چلا کر دکھا دیا کہ 'ایسے' یعنی دوسرا کبوتر 'ایسے' اڑ گیا۔
مگر جج صاحب اور دوسرے حاضرین کی بدقسمتی کہ یہاں کوئی نور جہاں نہیں تھی۔ ایک پولیس افسر تھا جس نے جج صاحب کی فرمائش پوری کر دی۔ لگتا یوں ہے کہ پولیس کی اکثر کارروائیاں جعلی ہوا کرتی ہیں اس لیے جج صاحب نے پوچھ لیا کہ کیا یہ بم چلتا بھی ہے یا نہیں لیکن یہ اصلی بم تھا۔ اس کی پن نکالی گئی تو وہ پھٹ گیا اور جج صاحب کا شوق پورا ہو گیا اور اس خبر کے قارئین کو نورجہاں یاد آ گئی جس نے دوسرا کبوتر اڑا کر شہزادہ سلیم کو خوش کر دیا تھا۔ اس نے بھی شہزادے کی فرمائش پر دوسرا کبوتر بھی اڑا کر اس مغل شہزادے کو وہیں ختم کر دیا جو زندگی بھر اس کا غلام رہا کہ سلطنت تو نور جہاں کے پاس ہے۔ ہماری قسمت میں تو شراب کے چند گھونٹ ہیں جو اس سلطنت سے ہمارے نصیب میں ہیں۔
مغل بادشاہوں کی ایک تاریخ تو ان کی حکمرانی کی تاریخ ہے۔ انھوں نے ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک پر صدیوں تک حکومت کی۔ جنگیں لڑیں، فتوحات کیں اور بھارت کے مہاراجوں کے ہاں رشتے کیے۔ اکثر مغل بادشاہ ان ہندو راجوں مہاراجوں کی اولاد تھے۔ مغلیہ شاہوں کے سلسلے کے ابتدائی کچھ رشتے باہر ہو گئے لیکن مغلوں کو ہندو دیویاں اس قدر پسند آئیں کہ پھر ان کا ہر رشتہ مسلمانوں سے باہر ہندو گھرانوں میں ہوا اور کامیاب رہا۔ ہمارا مجاہد بادشاہ اورنگزیب عالمگیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ مسلمان مغلوں نے تلوار کے زور سے بھی حکومت کی اور رشتے داریوں کے ذریعہ بھی حکمران رہے۔ بس انھوں نے ایک غلطی کر دی کہ اپنی حکمرانی میں وقفہ نہیں آنے دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ایک ہندو رانی کہتی ہے کہ سقوط ڈھاکا ہم پر مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کا انتقام تھا۔
جو بھی تھا یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان جب ہندوستان پر قابض ہوئے تو وہ اس ملک سے جی بھر کر لطف اندوز ہوئے اور انھوں نے اپنی حکمرانی میں وقفے کا نام تک نہیں لیا اور مسلسل حکمرانی جاری رکھی۔ وہ تو مغلوں کے مقامی پسماندگان نے اپنی حکومت کو اپنی غداری سے اس قدر کمزور کر دیا کہ دور سمندر پار سے آنیوالے انگریز مسلمانوں کی ان غداریوں سے فائدہ اٹھا کر یہاں کے حکمران بن گئے اور اپنی حکمرانی قائم کی کہ انگریز اب تک ہم پر حکمران ہیں۔
برطانوی کلچر ہماری رگ و پے میں سرایت کر گیا اور تعجب ہے کہ ہماری پاکستان کی مقامی سیاست کے فیصلے بھی لندن ہوتے ہیں اور ہمارے لیڈر کسی بیماری کے علاج کے لیے اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ اب جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو ہمارے لیڈر لندن میں ہیں یا لندن کے لیے پابہ رکاب ہیں۔ ہم اگرچہ آزاد ہیں مگر کتنے آزاد ہیں اس کا پتہ ہماری روزمرہ کی زندگی سے چلتا ہے۔
کراچی میں ایک عدالت نے ملکہ عالم نور جہاں کی جوانی دیوانی کی یاد تازہ کر دی۔ شہزادہ سلیم (جہانگیر) نے اپنی ایک دلکش کنیز نور جہاں کو کبوتر تھمائے اور خود کھیل کود میں لگ گیا۔ کچھ دیر بعد جب اسے یہ کبوتر یاد آئے تو اس نے کنیز سے کہا کہ میرے کبوتر لاؤ لیکن اس کنیز نے ایک کبوتر تو اڑا دیا تھا۔ ناراض شہزادے نے ڈانٹ کر پوچھا کہ دوسرا کہاں ہے۔
کنیز نے کہا وہ تو اڑ گیا ہے۔ اس پر برہم ہو کر سلیم نے پوچھا مگر وہ کیسے اور نور جہاں نے دوسرا کبوتر جو اس کے ہاتھ میں تھا اسے بھی اڑا کر کہا کہ صاحب عالم وہ ایسے۔ کنیز کی یہ ادا سلطنت مغلیہ کے وارث کے دل کو تہہ و بالا کر گئی اور پھر ایک وقت آیا کہ یہی کنیز ملکہ عالم نور جہاں کے لقب سے شہزادے کے حجلہ عروسی کو آراستہ کر گئی اور پھر زندگی بھر مغل بادشاہ کی زندگی میں رنگ بکھیرتی رہی۔ یہ کنیز نور جہاں یا انار کلی جو بھی تھی اس کی کبوتروں والی کہانی مغل شاہی خاندان کی ایک ناقابل فراموش داستان بن گئی۔
مغل کنیز کی اس ادا نے ایک زندہ کہانی کو جنم دیا۔ آج صدیوں بعد کراچی کی ایک عدالت کے جج صاحب نے اس شاہی کہانی کو زندہ کر دیا۔ ان کی عدالت میں ایک مقدمہ پیش ہوا جس کی سماعت کے دوران مغل کنیز نور جہاں کی یاد تازہ ہو گئی۔ مال مقدمہ میں ایک دستی بم بھی تھا جو ملزم کے قبضہ سے برآمد کیا گیا تھا۔ سماعت کے دوران وکیل نے اس کیس پراپرٹی کو جو کپڑے میں سیل تھی کھولنے کی اجازت چاہی۔ عدالت نے اس کی اجازت دے دی۔ پولیس افسر نے غیرذمہ داری سے بم کو ڈی فیوز کیے بغیر عدالت میں پیش کر دیا اور جیسے ہی بم کی سیل کھولی تو اس کا زور دار دھماکا ہوا۔ جج صاحب کو معمولی زخم آئے لیکن ان کے عملے کے دو ارکان شدید زخمی ہو گئے۔
دھماکے کے بعد بھگدڑ مچ گئی اور تفتیشی افسر کو بھی لاپرواہی کی وجہ سے حراست میں لے لیا گیا۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جج صاحب نے تفتیشی افسر سے پوچھا کہ کیا یہ چلتا ہے تو اس نے بم کی پن نکالی اور ساتھ ہی دھماکا ہو گیا اور ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ جج صاحب کو کیا پڑی تھی کہ انھوں نے یہ پوچھا کہ کیا یہ چلتا ہے یا نہیں یا کیسے چلتا ہے اور تفتیشی افسر کی حماقت کہ بم کی پن نکالے بغیر پیش کر دیا اور جب جج صاحب نے پوچھا کہ یہ چلتا بھی ہے یا نہیں تو تفتیشی افسر نے چلا کر دکھا دیا جس سے جج صاحب بھی زخمی ہو گئے۔ یہ ایک انوکھی فرمائش تھی اور پولیس افسر نے بم چلا کر دکھا دیا کہ 'ایسے' یعنی دوسرا کبوتر 'ایسے' اڑ گیا۔
مگر جج صاحب اور دوسرے حاضرین کی بدقسمتی کہ یہاں کوئی نور جہاں نہیں تھی۔ ایک پولیس افسر تھا جس نے جج صاحب کی فرمائش پوری کر دی۔ لگتا یوں ہے کہ پولیس کی اکثر کارروائیاں جعلی ہوا کرتی ہیں اس لیے جج صاحب نے پوچھ لیا کہ کیا یہ بم چلتا بھی ہے یا نہیں لیکن یہ اصلی بم تھا۔ اس کی پن نکالی گئی تو وہ پھٹ گیا اور جج صاحب کا شوق پورا ہو گیا اور اس خبر کے قارئین کو نورجہاں یاد آ گئی جس نے دوسرا کبوتر اڑا کر شہزادہ سلیم کو خوش کر دیا تھا۔ اس نے بھی شہزادے کی فرمائش پر دوسرا کبوتر بھی اڑا کر اس مغل شہزادے کو وہیں ختم کر دیا جو زندگی بھر اس کا غلام رہا کہ سلطنت تو نور جہاں کے پاس ہے۔ ہماری قسمت میں تو شراب کے چند گھونٹ ہیں جو اس سلطنت سے ہمارے نصیب میں ہیں۔
مغل بادشاہوں کی ایک تاریخ تو ان کی حکمرانی کی تاریخ ہے۔ انھوں نے ہندوستان جیسے وسیع و عریض ملک پر صدیوں تک حکومت کی۔ جنگیں لڑیں، فتوحات کیں اور بھارت کے مہاراجوں کے ہاں رشتے کیے۔ اکثر مغل بادشاہ ان ہندو راجوں مہاراجوں کی اولاد تھے۔ مغلیہ شاہوں کے سلسلے کے ابتدائی کچھ رشتے باہر ہو گئے لیکن مغلوں کو ہندو دیویاں اس قدر پسند آئیں کہ پھر ان کا ہر رشتہ مسلمانوں سے باہر ہندو گھرانوں میں ہوا اور کامیاب رہا۔ ہمارا مجاہد بادشاہ اورنگزیب عالمگیر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ مسلمان مغلوں نے تلوار کے زور سے بھی حکومت کی اور رشتے داریوں کے ذریعہ بھی حکمران رہے۔ بس انھوں نے ایک غلطی کر دی کہ اپنی حکمرانی میں وقفہ نہیں آنے دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ایک ہندو رانی کہتی ہے کہ سقوط ڈھاکا ہم پر مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کا انتقام تھا۔
جو بھی تھا یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمان جب ہندوستان پر قابض ہوئے تو وہ اس ملک سے جی بھر کر لطف اندوز ہوئے اور انھوں نے اپنی حکمرانی میں وقفے کا نام تک نہیں لیا اور مسلسل حکمرانی جاری رکھی۔ وہ تو مغلوں کے مقامی پسماندگان نے اپنی حکومت کو اپنی غداری سے اس قدر کمزور کر دیا کہ دور سمندر پار سے آنیوالے انگریز مسلمانوں کی ان غداریوں سے فائدہ اٹھا کر یہاں کے حکمران بن گئے اور اپنی حکمرانی قائم کی کہ انگریز اب تک ہم پر حکمران ہیں۔
برطانوی کلچر ہماری رگ و پے میں سرایت کر گیا اور تعجب ہے کہ ہماری پاکستان کی مقامی سیاست کے فیصلے بھی لندن ہوتے ہیں اور ہمارے لیڈر کسی بیماری کے علاج کے لیے اس شہر کا رخ کرتے ہیں۔ اب جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو ہمارے لیڈر لندن میں ہیں یا لندن کے لیے پابہ رکاب ہیں۔ ہم اگرچہ آزاد ہیں مگر کتنے آزاد ہیں اس کا پتہ ہماری روزمرہ کی زندگی سے چلتا ہے۔