پلان بی بھی موجود ہے
اب وہ حلف اٹھانے کے بعد اپنے دفتر پہنچیں گے تو ان کے سامنے عرضیوں...
اگر آپ پاک فوج کے سربراہ یا بنیادی طور پر ''قابل، ایماندار اور محب وطن ٹیکنوکریٹ'' نہ ہوں تو اقتدار میں آنے کا ایک ہی طریقہ رہ جاتا ہے، کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جائیے، وہ آپ کو قومی یا صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دے کر جتوا دے اور اگر خود بھی اکثریت حاصل کر لے تو آپ کو وزیر وغیرہ بنا دے۔ ''پڑھے لکھے صاف ستھرے لوگوں'' کے لیے ایک راستہ سینیٹ سے ہوتے ہوئے بھی اقتدار کے ایوانوں تک لے جاتا ہے۔ خاندانی طور پر تگڑے یا اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر ''ککھ'' سے ''لکھ'' بنے لوگ آزاد امیدوار ہوتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں پہنچ سکتے ہیں۔
میں نے جو تمہید باندھی ہے آپ کو بے وقوفی کی حد تک سادہ اور بودی لگے گی۔ مگر میں اسے لکھنے پر مجبور ہوا تو صرف اس لیے کہ میرے کالم کے لکھتے وقت ملتان کے ایک حلقے میں الیکشن کا نتیجہ آچکا ہے۔ وہاں قومی اسمبلی کی ایک نشست خالی ہوئی تھی۔ یہ خلاء اس لیے پیدا ہوا کہ یوسف رضا گیلانی نام کا آدمی اس حلقے سے منتخب ہوکر پاکستان کا وزیر ا عظم بن گیا تھا۔ اسے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار قومی اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں نے اعتماد کا ووٹ بھی دیا۔ اس سب کے باوجود موصوف بڑے خوار ہو کر ایوان وزیر اعظم سے نکال دیے گئے۔ انھیں سپریم کورٹ کہتی رہی کہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھ کر پتہ کرو کہ وہاں کے بینکوں میں آصف علی زرداری نام کے ایک پاکستانی نے کتنے کروڑ ڈالر چھپارکھے ہیں۔ گیلانی نے انکار کر دیا۔ توہین ِعدالت کے مجرم قرار پا کر فارغ کر دیے گئے۔
اپنی فراغت کے بعد قومی اسمبلی کی خالی ہو جانے والی نشست پر انھوں نے اپنے بیٹے کو کھڑا کر دیا۔ عبدالقادر گیلانی کو سامنے لانے کا فیصلہ باپ کی جگہ بیٹے کو دینے کے مقصد کے تحت نہیں کیا گیا تھا۔ اس کا واضح مقصد تو یہ سیاسی پیغام دینا تھا کہ سپریم کورٹ جو چاہے قرار دیتی رہے، ملتان کے عوام کی اکثریت گیلانیوں کے ساتھ ہے۔ اگر تو نواز شریف اور عمران خان سنجیدگی سے سیاست کر رہے ہیں تو انھیں عبدالقادر گیلانی کے مقابلے پر اپنی جماعتوں کے امیدوار کھڑے کرنا چاہیے تھے۔ نواز شریف نے نیم دلانہ کوششیں کی۔ اسحق بُچہّ خواہش مند تھے۔
مسلم لیگ نواز کا دل بوسنوں میں اٹکا رہا۔ اگرچہ سکندر بوسن جنہوں نے ایک نہیں دو مرتبہ اسی نشست پر گیلانیوں کو شکست دی تھی، تحریک انصاف میں جا چکے ہیں پھر بھی نواز والوں نے بڑی کوشش کی کہ وہ ان کے امیدوار بن جائیں۔ سکندر صاحب نہ مانے۔ مگر ''حلقہ'' خالی بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ اپنے بھائی شوکت کو ''آزاد امیدوار'' کے طور پر کھڑا کر دیا۔ کہنے کو شوکت ''آزاد امیدوار'' تھے مگر ان کے بینروں اور پوسٹروں پر نواز شریف اور عمران خان کے پرستاروں نے اپنے لیڈروں کی تصویروں کے ساتھ اپنے اپنے نام لکھوا کر ان کی حمایت کا اعلان کیا۔
نواز شریف یا عمران خان نے اتنی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ ٹیلی وژن اسکرینوں پر قطعیت کے ساتھ اعلان کر دیں کہ شوکت کا ان کی ذات یا پارٹی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ بڑے ہی افسوس اور معذرت کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہ بہت ہی منافقانہ طرز عمل تھا۔ جس کے پیچھے محض یہ چالاکی چھپی تھی کہ اگر شوکت جیت گئے تو ان کی فتح کو نواز شریف یا عمران خان کی فتح نہ سہی البتہ یہ بنا کرلوگوں کے سامنے پیش کیا جائے کہ یوسف رضا گیلانی کے اپنے شہر والوں نے بھی انھیں اور ان کے خاندان کو حقارت سے ٹھکرا دیا ہے ۔
کسی کی ہار یا جیت میرے اس کالم کا موضوع نہیں۔ میرا گلہ تو صرف اتنا ہے کہ اچھی طرح یہ بات جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ یوسف رضا گیلانی نے کون سا سیاسی پیغام دینے کے لیے اپنے بیٹے کو کھڑا کیا ہے، نواز شریف اور عمران خان کی جماعتوں نے اس ضمنی انتخاب کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
نواز شریف سے کہیں زیادہ ملتان کا ضمنی انتخاب عمران خان کو یہ تاریخی موقعہ فراہم کر رہا تھا کہ وہ دُنیا کو دکھادیتے کہ پاکستان کے عوام زرداری اور نواز شریف کی ''باریوں'' سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ تبدیلی چاہتے ہیں اور عمران خان اس تبدیلی کا نشان ہیں۔ سکندر بوسن کو عبدالقادر گیلانی کے مقابلے میں کھڑا کیا جاتا۔ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی جیسے قد آور رہ نمائوں کا تعلق بھی ملتان سے ہے۔ وہ دونوں عمران خان کی قیادت میں ایک کانٹے کی مہم چلا کر پوری دُنیا کو دکھاسکتے تھے کہ پاکستان کے عوام کی بے تحاشہ اکثریت کیا چاہتی ہے۔ مگر انھوں نے دلچسپی نہ لی۔ ان کی عدم دلچسپی آگے چل کر جو نتائج پیدا کرے گی میں اس وقت ان کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا۔
مجھے فی الوقت تو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ ملتان کے ضمنی انتخاب میں نواز شریف اور عمران خان کی عدم دلچسپی نے ایک بار پھر ان لوگوں کو بھرپور تقویت پہنچائی ہے جو آیندہ آنے والے کچھ مہینوں میں نئے انتخابات کے بجائے ''قابل، ایماندار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت کے منتظر ہیں جو کم از کم دو سے تین سال تک بدعنوان لوگوں کا کڑا احتساب کرے۔ ''قوم کی لوٹی ہوئی دولت'' واپس پاکستان لائے اور اس ملک میں معیشت کا احیاء کرے۔
زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر صرف یہ اطلاع دینا ہی کافی ہو گا کہ فخر الدین جی ابراہیم، جن کے متفقہ طور پر چیف الیکشن کمشنر نامزد ہونے پر ہم سارے بہت خوش ہوئے، میرے اس کالم کو لکھنے تک اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھا پائے تھے۔ زیادہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ ملتان کا یہ ضمنی انتخاب حلف لینے کے بعد اپنی نگرانی میں کروا کر ساری قوم کو بتا دیتے کہ ان کے ہوتے ہوئے آیندہ انتخابات کتنے صاف اور شفاف ہوں گے؟ میری ٹھوس اطلاع ہے کہ وہ تو بالکل تیار تھے۔ مگر کوئی اور ''اہم شخصیت'' بڑی مصروف تھی۔ جمعرات کے الیکشن سے پہلے فخر الدین جی ابراہیم کی حلف برادری کی تقریب نہ ہو سکی۔ اب وہ حلف اٹھانے کے بعد اپنے دفتر پہنچیں گے تو ان کے سامنے عرضیوں کی ٹوکری بھری رکھی ہو گی۔
ساری کی ساری جمعرات کو ملتان میں ہونے والی ''دھاندلیوں'' کی شکایت پر مبنی ہوں گی۔ ان کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی جائے گی۔ مقصد اس تشہیر کا صرف اتنا ہو گا کہ دُنیا کو سمجھایا جائے کہ فخر الدین جی ابراہیم ایک ایماندار آدمی ضرور ہوں گے۔ مگر ''بوڑھے'' ہو چکے ہیں۔ ان کے اعصاب اتنے توانا نہیں رہے کہ وہ ''بولڈ'' اور ''تاریخ ساز'' فیصلے کر سکیں۔ فخرو بھائی کے مزاج کو سمجھتے ہوئے یہ اُمید کی جا رہی ہے کہ اگر ان کے بارے میں بے جواز گند ضرورت سے زیادہ اُچھالا گیا تو وہ غصے میں آ کر استعفیٰ دے دیں گے اور اگر انھوں نے یہ نہ کیا تو پلان۔ بی بھی موجود ہے۔ اس کا ذکر پھر کبھی سہی۔
میں نے جو تمہید باندھی ہے آپ کو بے وقوفی کی حد تک سادہ اور بودی لگے گی۔ مگر میں اسے لکھنے پر مجبور ہوا تو صرف اس لیے کہ میرے کالم کے لکھتے وقت ملتان کے ایک حلقے میں الیکشن کا نتیجہ آچکا ہے۔ وہاں قومی اسمبلی کی ایک نشست خالی ہوئی تھی۔ یہ خلاء اس لیے پیدا ہوا کہ یوسف رضا گیلانی نام کا آدمی اس حلقے سے منتخب ہوکر پاکستان کا وزیر ا عظم بن گیا تھا۔ اسے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار قومی اسمبلی میں موجود تمام جماعتوں نے اعتماد کا ووٹ بھی دیا۔ اس سب کے باوجود موصوف بڑے خوار ہو کر ایوان وزیر اعظم سے نکال دیے گئے۔ انھیں سپریم کورٹ کہتی رہی کہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو خط لکھ کر پتہ کرو کہ وہاں کے بینکوں میں آصف علی زرداری نام کے ایک پاکستانی نے کتنے کروڑ ڈالر چھپارکھے ہیں۔ گیلانی نے انکار کر دیا۔ توہین ِعدالت کے مجرم قرار پا کر فارغ کر دیے گئے۔
اپنی فراغت کے بعد قومی اسمبلی کی خالی ہو جانے والی نشست پر انھوں نے اپنے بیٹے کو کھڑا کر دیا۔ عبدالقادر گیلانی کو سامنے لانے کا فیصلہ باپ کی جگہ بیٹے کو دینے کے مقصد کے تحت نہیں کیا گیا تھا۔ اس کا واضح مقصد تو یہ سیاسی پیغام دینا تھا کہ سپریم کورٹ جو چاہے قرار دیتی رہے، ملتان کے عوام کی اکثریت گیلانیوں کے ساتھ ہے۔ اگر تو نواز شریف اور عمران خان سنجیدگی سے سیاست کر رہے ہیں تو انھیں عبدالقادر گیلانی کے مقابلے پر اپنی جماعتوں کے امیدوار کھڑے کرنا چاہیے تھے۔ نواز شریف نے نیم دلانہ کوششیں کی۔ اسحق بُچہّ خواہش مند تھے۔
مسلم لیگ نواز کا دل بوسنوں میں اٹکا رہا۔ اگرچہ سکندر بوسن جنہوں نے ایک نہیں دو مرتبہ اسی نشست پر گیلانیوں کو شکست دی تھی، تحریک انصاف میں جا چکے ہیں پھر بھی نواز والوں نے بڑی کوشش کی کہ وہ ان کے امیدوار بن جائیں۔ سکندر صاحب نہ مانے۔ مگر ''حلقہ'' خالی بھی نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ اپنے بھائی شوکت کو ''آزاد امیدوار'' کے طور پر کھڑا کر دیا۔ کہنے کو شوکت ''آزاد امیدوار'' تھے مگر ان کے بینروں اور پوسٹروں پر نواز شریف اور عمران خان کے پرستاروں نے اپنے لیڈروں کی تصویروں کے ساتھ اپنے اپنے نام لکھوا کر ان کی حمایت کا اعلان کیا۔
نواز شریف یا عمران خان نے اتنی زحمت بھی گوارا نہ کی کہ ٹیلی وژن اسکرینوں پر قطعیت کے ساتھ اعلان کر دیں کہ شوکت کا ان کی ذات یا پارٹی سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ بڑے ہی افسوس اور معذرت کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہ بہت ہی منافقانہ طرز عمل تھا۔ جس کے پیچھے محض یہ چالاکی چھپی تھی کہ اگر شوکت جیت گئے تو ان کی فتح کو نواز شریف یا عمران خان کی فتح نہ سہی البتہ یہ بنا کرلوگوں کے سامنے پیش کیا جائے کہ یوسف رضا گیلانی کے اپنے شہر والوں نے بھی انھیں اور ان کے خاندان کو حقارت سے ٹھکرا دیا ہے ۔
کسی کی ہار یا جیت میرے اس کالم کا موضوع نہیں۔ میرا گلہ تو صرف اتنا ہے کہ اچھی طرح یہ بات جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ یوسف رضا گیلانی نے کون سا سیاسی پیغام دینے کے لیے اپنے بیٹے کو کھڑا کیا ہے، نواز شریف اور عمران خان کی جماعتوں نے اس ضمنی انتخاب کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔
نواز شریف سے کہیں زیادہ ملتان کا ضمنی انتخاب عمران خان کو یہ تاریخی موقعہ فراہم کر رہا تھا کہ وہ دُنیا کو دکھادیتے کہ پاکستان کے عوام زرداری اور نواز شریف کی ''باریوں'' سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ تبدیلی چاہتے ہیں اور عمران خان اس تبدیلی کا نشان ہیں۔ سکندر بوسن کو عبدالقادر گیلانی کے مقابلے میں کھڑا کیا جاتا۔ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی جیسے قد آور رہ نمائوں کا تعلق بھی ملتان سے ہے۔ وہ دونوں عمران خان کی قیادت میں ایک کانٹے کی مہم چلا کر پوری دُنیا کو دکھاسکتے تھے کہ پاکستان کے عوام کی بے تحاشہ اکثریت کیا چاہتی ہے۔ مگر انھوں نے دلچسپی نہ لی۔ ان کی عدم دلچسپی آگے چل کر جو نتائج پیدا کرے گی میں اس وقت ان کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا۔
مجھے فی الوقت تو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ ملتان کے ضمنی انتخاب میں نواز شریف اور عمران خان کی عدم دلچسپی نے ایک بار پھر ان لوگوں کو بھرپور تقویت پہنچائی ہے جو آیندہ آنے والے کچھ مہینوں میں نئے انتخابات کے بجائے ''قابل، ایماندار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت کے منتظر ہیں جو کم از کم دو سے تین سال تک بدعنوان لوگوں کا کڑا احتساب کرے۔ ''قوم کی لوٹی ہوئی دولت'' واپس پاکستان لائے اور اس ملک میں معیشت کا احیاء کرے۔
زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر صرف یہ اطلاع دینا ہی کافی ہو گا کہ فخر الدین جی ابراہیم، جن کے متفقہ طور پر چیف الیکشن کمشنر نامزد ہونے پر ہم سارے بہت خوش ہوئے، میرے اس کالم کو لکھنے تک اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھا پائے تھے۔ زیادہ بہتر نہ ہوتا کہ وہ ملتان کا یہ ضمنی انتخاب حلف لینے کے بعد اپنی نگرانی میں کروا کر ساری قوم کو بتا دیتے کہ ان کے ہوتے ہوئے آیندہ انتخابات کتنے صاف اور شفاف ہوں گے؟ میری ٹھوس اطلاع ہے کہ وہ تو بالکل تیار تھے۔ مگر کوئی اور ''اہم شخصیت'' بڑی مصروف تھی۔ جمعرات کے الیکشن سے پہلے فخر الدین جی ابراہیم کی حلف برادری کی تقریب نہ ہو سکی۔ اب وہ حلف اٹھانے کے بعد اپنے دفتر پہنچیں گے تو ان کے سامنے عرضیوں کی ٹوکری بھری رکھی ہو گی۔
ساری کی ساری جمعرات کو ملتان میں ہونے والی ''دھاندلیوں'' کی شکایت پر مبنی ہوں گی۔ ان کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی جائے گی۔ مقصد اس تشہیر کا صرف اتنا ہو گا کہ دُنیا کو سمجھایا جائے کہ فخر الدین جی ابراہیم ایک ایماندار آدمی ضرور ہوں گے۔ مگر ''بوڑھے'' ہو چکے ہیں۔ ان کے اعصاب اتنے توانا نہیں رہے کہ وہ ''بولڈ'' اور ''تاریخ ساز'' فیصلے کر سکیں۔ فخرو بھائی کے مزاج کو سمجھتے ہوئے یہ اُمید کی جا رہی ہے کہ اگر ان کے بارے میں بے جواز گند ضرورت سے زیادہ اُچھالا گیا تو وہ غصے میں آ کر استعفیٰ دے دیں گے اور اگر انھوں نے یہ نہ کیا تو پلان۔ بی بھی موجود ہے۔ اس کا ذکر پھر کبھی سہی۔