پانامہ لیکس اِن سے یہی امید تھی آخری حصہ
اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ اسٹیل ملز اور پراپرٹی کے کاروبار سے سب کچھ کمایا گیا ہے
اس معاملے میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں، اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ہمارے اور دیگر عالمی سیاستدانوں نے آف شور کمپنیوں میں کوئی غیر قانونی اقدام نہیں کیا تو بتایا جائے کہ ان کمپنیوں کو بنانے کی ضرورت کیا تھی؟یہ بھی مان لیا جائے کہ اس میں کوئی بات غیر قانونی بات نہیں ہے تو یہ غیر اخلاقی بھی تو ہے ناں۔ اب اگر ایک بندہ کرائے کا قاتل ساتھ لے کر پھرتا ہے لوگ اسے پوچھیں گے تو سہی کہ آیا اس کو کرائے کا قاتل ساتھ رکھنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ غیرقانونی نہیں ہیں تو حکمران براہ کرم یہ بھی وضاحت فرما دیں کہ اس وقت پوری دنیا میں جو شور بپا ہے اس کی کیا وجوہات ہیں۔ یورپ میں استعفے، احتجاج اور معافیاں سامنے آرہی ہیں وہ ایسا کیوں ہے؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ اسٹیل ملز اور پراپرٹی کے کاروبار سے سب کچھ کمایا گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ دنیا کا واحد کاروبار ہے جس میں روزانہ کی بنیاد پر رقم دوگنا ہو رہی تھی۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہی ہے کہ یہاں چیف منسٹر ہاؤس، پارلیمنٹ ہاؤس،سیکرٹیریٹ، پرائم منسٹر ہاؤس اور پریذیڈنٹ ہاؤس میں ایسے ایسے قیصر، کسریٰ، خاقان، چنگیز، ہلاکو، ظل سبحانی، عالم پناہ، سلطان نواب، مہابلی، مہاراجے اور ڈیوک اختیار کے جام اچھالتے اور اقتدار کے ساغر چھلکاتے رہے ہیں، جن پر کسی انسانی یا آسمانی آئین اور قانون کی کسی شق اور ضابطے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جو ملکی آئین و قانون کی ہر گرفت سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔تبھی تو نوٹوں کی کشتیاں بھر بھر کر بیرون ملک بھیجی جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا۔ انھیں پیسہ اپنا باہر لے جاتے وقت ان غریبوں کا خیال کیوں نہیں آتا جو بھوکوں مر رہے ہیں ۔ بقول شاعر
دریدہ پیرہنوں کا خیال کیا آتا
امیر شہر کی اپنی ضرورتیں تھیں بہت
درحقیقت پانامہ کی آف شور کمپنیوں پر پلنے والے ہمارے یہ وہ ازلی اور ابدی حاکم ہیں جن کے اسلام آباد سے مری تک کے معمولی سفر پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے سرکاری خزانہ سے لاکھوں روپے کا پٹرول پھونک دیا جاتا ہے۔ یہ وہ درویش، اللہ لوک اور سیدھے سادے حکمران ہیں کہ مرکزی دارالحکومت میں ان کی سرکاری کٹیا (وزیراعظم ہاؤس) کی تعمیر پر اربوں روپے کی لاگت آتی ہے۔ ان تسبیح بدست اور طلسماتی عصابکف مہارانیوں کی کفایت شعاری کا عالم یہ ہے کہ ان کی جھونپڑیوں کی جھاڑ پونچھ اور لیپا پوتی پر صرف کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔
اور مہارانیوں کی بلیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے چارٹرڈ طیاروں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ اپنے بچوںکی فیسیں کروڑوں میں ادا کرتے ہیں۔ برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ جہاز کی اکانومی کلاس میں سفر کرتی ہیں لیکن یہ وہ مہاراجے اور مہارانیاں ہیں جن کے سفر کے لیے سرکاری جہاز مختص کر دیے جاتے ہیں۔ عام بیروزگار شہری کے لیے نوکریوں پر اس لیے پابندی ہے کہ لٹے پٹے خزانے میں اتنی گنجائش بھی نہیں ہے کہ اسے ماہانہ دس بارہ ہزار روپے تنخواہ ادا کی جا سکے لیکن ان مہابلیوں کے حاضر باش خوشامدی درباریوں کے لیے تجوریوں کے منہ کھلے ہیں اور وہ ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ سرکاری گاڑی بمعہ ڈرائیور اور سیکڑوںلیٹر پٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔
غریبوں کو لوٹنے والے ان طبقات کو اس مقام پر پہنچانے میں مغرب بھی برابر کا قصور وار ہے جو انھیں محفوظ راستے فراہم کرتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مغرب کا دوہرا معیار ہے جس نے سب ممالک کے لیے ایک سا قانون نہیں بنایا۔ پانامہ کی طرح دنیا بھر میں ایسے اور بھی کئی چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں جہاں آف شور کمپنیاں کھولنے کی اجازت دی جاتی ہے اور یہ ممالک دنیا کے بدنام ترین ممالک ہیں جہاں آپ جتنا مرضی پیسہ لے جائیں کوئی بینک یا ملک آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ یہ رقم آپ کہاں سے لائے ہیں، یا یہ رقم بلیک منی ہے یا وائٹ؟ ان ممالک میں برمودا، کیمین آئس لینڈ(Cayman Iceland) ، برٹش ورجن آئس لینڈ (British Virgin Islands)، بہاماس(Bahamas)، نمایاں ہیں۔ابھی ابتدائی طور پر پانامہ پیپرز ہی سامنے آئے ہیں جب ان ممالک میں موجود آف شور کمپنیوں کے پیپرز منظر عام پر آئے تو بہت سے انکشافات ہو سکتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ ہم دنیا کے اور بہت سے امیر ترین افراد ہیں جو اس لسٹ میں سرے سے موجود ہی نہیں ۔
ہماری لسٹوں میں میڈیا کے لوگ بھی شامل ہیں ، ججز بھی شامل ہیں سیاستدان اور کاروباری شخصیات بھی شامل ہیں جب کہ خوشی اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ کوئی جرنیل اس لسٹ میں شامل نہیں ہے۔اور پاکستان میں جن سیاستدانوںکی آف شور کمپنیاں بے نقاب ہوئی ہیں وہ سب ضیاء کی باقیات کی ہیں یعنی 1977ء سے پہلے کا کوئی سیاستدان شامل نہیں ہے۔
آخر میں ورلڈ بینک کے ایک سربراہ کا حوالہ دوں گا جس نے ایشیا میں کرپشن اور غربت کا براہ راست تعلق جوڑتے ہوئے کہا تھا کہ ریاستی خزانے سے چوری کیا جانے والا ایک ایک ڈالر ایسے ہی ہے جیسے آپ نے دوائی نہ ملنے پر ایک بے سہارا غریب کو مار ڈالا یا غریبوں کی آنے والی نسلوں کو تعلیم سے محروم رکھا یا عوام کو صاف پانی کے لیے دستیاب وسائل چوری کر کے انھیں موذی امراض میں مبتلا کر دیا ۔ مجھ سمیت ہر پاکستانی اس وقت یہی خواہش رکھتا ہے کہ کاش کوئی محب وطن اور محب عوام ایسی قیادت سامنے آئے جو خونیں بھیڑیوں کے اس گروہ کو منتشر کر کے ان کے دانت توڑ سکے اور ان کے پنجے جھاڑ سکے۔کاش کوئی ایسا آئے جو ان زہریلے سانپوں کے ڈنک نکال سکے!جن کی شہادت دینے والا ہی کوئی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی انھیں پوچھنے والا ہے۔ فیض احمد فیض مرحوم نے کیا خوب کہا تھا کہ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ اسٹیل ملز اور پراپرٹی کے کاروبار سے سب کچھ کمایا گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ دنیا کا واحد کاروبار ہے جس میں روزانہ کی بنیاد پر رقم دوگنا ہو رہی تھی۔ یہ پاکستان کی بدقسمتی ہی ہے کہ یہاں چیف منسٹر ہاؤس، پارلیمنٹ ہاؤس،سیکرٹیریٹ، پرائم منسٹر ہاؤس اور پریذیڈنٹ ہاؤس میں ایسے ایسے قیصر، کسریٰ، خاقان، چنگیز، ہلاکو، ظل سبحانی، عالم پناہ، سلطان نواب، مہابلی، مہاراجے اور ڈیوک اختیار کے جام اچھالتے اور اقتدار کے ساغر چھلکاتے رہے ہیں، جن پر کسی انسانی یا آسمانی آئین اور قانون کی کسی شق اور ضابطے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جو ملکی آئین و قانون کی ہر گرفت سے مکمل طور پر آزاد ہیں۔تبھی تو نوٹوں کی کشتیاں بھر بھر کر بیرون ملک بھیجی جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا۔ انھیں پیسہ اپنا باہر لے جاتے وقت ان غریبوں کا خیال کیوں نہیں آتا جو بھوکوں مر رہے ہیں ۔ بقول شاعر
دریدہ پیرہنوں کا خیال کیا آتا
امیر شہر کی اپنی ضرورتیں تھیں بہت
درحقیقت پانامہ کی آف شور کمپنیوں پر پلنے والے ہمارے یہ وہ ازلی اور ابدی حاکم ہیں جن کے اسلام آباد سے مری تک کے معمولی سفر پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے سرکاری خزانہ سے لاکھوں روپے کا پٹرول پھونک دیا جاتا ہے۔ یہ وہ درویش، اللہ لوک اور سیدھے سادے حکمران ہیں کہ مرکزی دارالحکومت میں ان کی سرکاری کٹیا (وزیراعظم ہاؤس) کی تعمیر پر اربوں روپے کی لاگت آتی ہے۔ ان تسبیح بدست اور طلسماتی عصابکف مہارانیوں کی کفایت شعاری کا عالم یہ ہے کہ ان کی جھونپڑیوں کی جھاڑ پونچھ اور لیپا پوتی پر صرف کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔
اور مہارانیوں کی بلیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے چارٹرڈ طیاروں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ اپنے بچوںکی فیسیں کروڑوں میں ادا کرتے ہیں۔ برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ جہاز کی اکانومی کلاس میں سفر کرتی ہیں لیکن یہ وہ مہاراجے اور مہارانیاں ہیں جن کے سفر کے لیے سرکاری جہاز مختص کر دیے جاتے ہیں۔ عام بیروزگار شہری کے لیے نوکریوں پر اس لیے پابندی ہے کہ لٹے پٹے خزانے میں اتنی گنجائش بھی نہیں ہے کہ اسے ماہانہ دس بارہ ہزار روپے تنخواہ ادا کی جا سکے لیکن ان مہابلیوں کے حاضر باش خوشامدی درباریوں کے لیے تجوریوں کے منہ کھلے ہیں اور وہ ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ سرکاری گاڑی بمعہ ڈرائیور اور سیکڑوںلیٹر پٹرول حاصل کر سکتے ہیں۔
غریبوں کو لوٹنے والے ان طبقات کو اس مقام پر پہنچانے میں مغرب بھی برابر کا قصور وار ہے جو انھیں محفوظ راستے فراہم کرتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مغرب کا دوہرا معیار ہے جس نے سب ممالک کے لیے ایک سا قانون نہیں بنایا۔ پانامہ کی طرح دنیا بھر میں ایسے اور بھی کئی چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں جہاں آف شور کمپنیاں کھولنے کی اجازت دی جاتی ہے اور یہ ممالک دنیا کے بدنام ترین ممالک ہیں جہاں آپ جتنا مرضی پیسہ لے جائیں کوئی بینک یا ملک آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ یہ رقم آپ کہاں سے لائے ہیں، یا یہ رقم بلیک منی ہے یا وائٹ؟ ان ممالک میں برمودا، کیمین آئس لینڈ(Cayman Iceland) ، برٹش ورجن آئس لینڈ (British Virgin Islands)، بہاماس(Bahamas)، نمایاں ہیں۔ابھی ابتدائی طور پر پانامہ پیپرز ہی سامنے آئے ہیں جب ان ممالک میں موجود آف شور کمپنیوں کے پیپرز منظر عام پر آئے تو بہت سے انکشافات ہو سکتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ ہم دنیا کے اور بہت سے امیر ترین افراد ہیں جو اس لسٹ میں سرے سے موجود ہی نہیں ۔
ہماری لسٹوں میں میڈیا کے لوگ بھی شامل ہیں ، ججز بھی شامل ہیں سیاستدان اور کاروباری شخصیات بھی شامل ہیں جب کہ خوشی اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ کوئی جرنیل اس لسٹ میں شامل نہیں ہے۔اور پاکستان میں جن سیاستدانوںکی آف شور کمپنیاں بے نقاب ہوئی ہیں وہ سب ضیاء کی باقیات کی ہیں یعنی 1977ء سے پہلے کا کوئی سیاستدان شامل نہیں ہے۔
آخر میں ورلڈ بینک کے ایک سربراہ کا حوالہ دوں گا جس نے ایشیا میں کرپشن اور غربت کا براہ راست تعلق جوڑتے ہوئے کہا تھا کہ ریاستی خزانے سے چوری کیا جانے والا ایک ایک ڈالر ایسے ہی ہے جیسے آپ نے دوائی نہ ملنے پر ایک بے سہارا غریب کو مار ڈالا یا غریبوں کی آنے والی نسلوں کو تعلیم سے محروم رکھا یا عوام کو صاف پانی کے لیے دستیاب وسائل چوری کر کے انھیں موذی امراض میں مبتلا کر دیا ۔ مجھ سمیت ہر پاکستانی اس وقت یہی خواہش رکھتا ہے کہ کاش کوئی محب وطن اور محب عوام ایسی قیادت سامنے آئے جو خونیں بھیڑیوں کے اس گروہ کو منتشر کر کے ان کے دانت توڑ سکے اور ان کے پنجے جھاڑ سکے۔کاش کوئی ایسا آئے جو ان زہریلے سانپوں کے ڈنک نکال سکے!جن کی شہادت دینے والا ہی کوئی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی انھیں پوچھنے والا ہے۔ فیض احمد فیض مرحوم نے کیا خوب کہا تھا کہ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا