ہنگامہ ہے کیوں برپا
آج پوری دنیا میں ان پاناما پیپرز کا شور مچا ہوا ہے مگر قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تمام مواد چوری سے حاصل کیا گیا ہے
آج سے ایک سال قبل ایک نامعلوم شخص نے جرمنی کے سب سے بڑے اخبار زویدوئچے سائتونگ سے رابطہ کر کے پاناما میں قائم موساک فونسیکا کمپنی کی خفیہ دستاویزات فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ اخبار نے اس پر رضامندی ظاہر کر دی چند ہی مہینوں میں نامعلوم ذرایع کی جانب سے بھجوائی جانے والی دستاویزات کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی اور تمام ڈیٹا کا حجم 2.6 ٹیرا بائٹ ہو گیا یہ سب کچھ فراہم کرنے والے نے اس خفیہ مواد کے بدلے میں کوئی مالی فائدہ طلب نہیں کیا البتہ سیکیورٹی کے بارے میں یقین دہانیاں مانگیں۔
آج پوری دنیا میں ان پاناما پیپرز کا شور مچا ہوا ہے مگر قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تمام مواد چوری سے حاصل کیا گیا ہے جس کے بارے میں موساک فونسیکا کے بانی شریک چیئرمین رامون فونسیکا کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کی نجی دستاویز اور معلومات کو عالمی ذرایع ابلاغ غیر قانونی طور پر حاصل کر کے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کر رہے ہیں۔ ان کا واضح اعلان ہے کہ انھوں نے ان دستاویزات کو خود افشا نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کی کمپنی کے کسی فرد کا اس میں کوئی ہاتھ ہے بلکہ انھیں بیرونی ممالک میں قائم سرورز کے ذریعے ہیک کیا گیا ہے۔
میئر رامون کے اس بیان کے بعد پاناما پیپرز پر شک و شبہ کی مہر لگ گئی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں ان پاناما پیپرز کی معلومات کی بنیاد پر عوام نے کئی حکومتوں کا گھیراؤ کر لیا ہے۔ کئی ممالک کے سربراہوں کے خلاف انکوائری کمیشن مقرر کیے جا چکے ہیں۔ آئس لینڈ اور یوکرین کے وزرائے اعظم مستعفی ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ادھر عالمی دباؤ کی وجہ سے پاناما کے صدر خوان کارلوس نے اپنے ہاں قائم آف شور کمپنیز کے معاملات پر غور کرنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی ماہرین معاشیات پر مشتمل ایک آزاد کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ کمیشن آف شور کمپنیز کے مالیاتی اور قانونی نظام میں شفافیت لانے کے اقدام تجویز کرے گا۔ برٹش ورجن آئی لینڈ، جہاں سب سے زیادہ آف شورکمپنیز قائم ہیں، کی حکومت بھی ایسے ہی قدم اٹھا کر وہاں قائم غیر ملکی کمپنیز کو قانون کے دائرے میں لا سکے گی اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر وہاں قائم تمام آف شور کمپنیز کو ٹیکس بھگتنا ہو گا۔ کیا اس صورت میں یہ غیر ملکی کمپنیاں وہاں قائم رہ سکیں گی؟ کیونکہ انھیں محض اپنے ممالک کے ٹیکس نظام سے بچنے کے لیے وہاں قائم کیا گیا ہے۔
بدقسمتی سے اس وقت پوری دنیا میں ٹیکس چوری کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس وبا میں چھوٹے ممالک ہی نہیں بلکہ امیر ممالک کے تاجر صنعت کار اور سیاستدان بھی مبتلا ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاناما پیپرز کا شور تو بہت ہے مگر کیا اس افشا کے بعد آف شور کمپنیاں ختم ہو جائیں گی؟ اس سے پہلے بھی سوئس لیکس، لکس لیکس وغیرہ بھی آف شور کمپنیز کا بھانڈا پھوڑ چکی ہیں مگر ان کمپنیز کے مالکان پر کوئی اثر نہیں پڑا وہ بدستور غیر ممالک میں اپنا کاروبار کرتے رہے۔ اب کیا پاناما لیکس کی وجہ سے آف شور کمپنیاں ختم ہو جائیں گی؟ ایک ماہر معیشت اینڈی شائی کا کہنا ہے کہ کیا پاناما پیپرز کی وجہ سے دنیا کی کرپٹ حکومتیں شفاف ہو جائیں گی جب کہایسا کوئی امکان نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے لیکس پیپرز میں کچھ ممالک کے خلاف سازشی مواد بھی شامل ہو سکتا ہے جس کا مقصد وہاں عدم استحکام پیدا کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ موساک فونسیکا کے بانی شریک چیئرمین شر رامون کی وضاحت کے بعد کہ مواد ہیک کیا گیا ہے اور انھیں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے اس طرح انھیں کسی طرح بھی حقیقت پسندانہ نہیں کہا جا سکتا۔ ان معلومات کے لیک ہونے کے بعد یہ جن ذرایع سے گزریں ہیں وہاں ان میں ملاوٹ کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ جرمنی کے اخبار کے پاس ان پیپرز کے پہنچنے کے بعد ان میں کیا ملاوٹیں ہوئیں اور کس کے ایما پر ہوئیں یہ بات بھی قابل غور ہے۔ شاید اسی وجہ سے روسی صدر پوتن نے ان پیپرز کو روس کے خلاف سازش قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
پوتن کو آف شور کمپنیز کے حوالے سے براہ راست نہیں بلکہ انھیں ان کے ایک دوست کے حوالے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ پوتن کی جانب سے پاناما پیپرز کو امریکی سازش قرار دیے جانے کے بعد ماہرین اس تمام تماشے کو سی آئی اے کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سی آئی اے ماضی میں دنیا بھر میں اپنی پسند کی حکومتیں برسر اقتدار لانے اور گرانے کا کھیل کھیلتی رہی ہے البتہ جب سے عراق میں صدام حسین کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لیے اس نے صریح جھوٹ کا سہارا لے کر وہاں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا اس کے بعد سے وہ ایسی بدنام ہوئی ہے کہ اب کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی ہے مگر لگتا ہے پھر بھی اپنا گھناؤنا مشن ترک نہیں کیا ہے اب طریقہ واردات تبدیل کر لیا ہے۔
اب وہ کبھی وکی لیکس، کبھی سوئس پیپرز، کبھی لکس پیپرز اور پاناما پیپرز کے ذریعے دنیا میں حکومتیں گرانے کی سازشوں میں مصروف ہو سکتی ہے۔ اگر پاناما پیپرز کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں کافی تضادات نظر آتے ہیں جیسے روس کے صدر کو تو مطعون کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر دوسری جانب امریکا کے کسی بھی رہنما کا اس میں نام شامل نہیں ہے۔ ادھر بیٹوں کے حوالے سے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کو تو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے مگر بھارتی وزیر اعظم یا کابینہ کے کسی بھی فرد کا نام اس میں شامل نہیں ہے۔ اسی طرح اسرائیل جہاں کرپشن کے انبار لگے ہیں وہاں کی قیادت پر ذرا بھی انگلی نہیں اٹھائی گئی ہے۔ اسی طرح کسی یورپی قائد کا نام آف شور کمپنی کے حوالے سے نہیں لیا گیا ہے البتہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو ان کے والد کے حوالے سے ہلکا سا ٹچ کیا گیا ہے تاہم اس کی وجہ امریکی مرضی کے خلاف یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کا اعلان ہو سکتا ہے اور یوں ڈیوڈ کیمرون کو ایک وارننگ دی گئی ہو۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک طرف پوری دنیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے مگر دوسری جانب امریکا میں مکمل سکون ہے۔ پاکستان میں شریف خاندان، سیف اللہ فیملی اور پیپلز پارٹی کے بعض قائدین نشانے پر ہیں۔ خاص طور پر وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کو نرغے میں لے لیا گیا ہے حالانکہ ٹی وی پر وہ اپنے خطاب میں ایک ریٹائرڈ جج کی نگرانی میں کمیشن بنانے کا اعلان کر چکے ہیں مگر اپوزیشن کے لیڈران ان کے اس اقدام سے مطمئن نہیں ہیں۔ عمران خان اس مہم میں سب سے آگے ہیں۔ انھوں نے ٹی وی پر اپنے خطاب میں میاں نواز شریف سے فوراً مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی رائے ونڈ میں ان کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرنے کی دھمکی دی۔
گو کہ وزیر اعظم آف شور کمپنیز کے حوالے سے براہ راست ملوث نہیں ہیں مگر ان کمپنیز میں ان کے بیٹوں کے لگے سرمائے کو ناجائز ذرایع سے حاصل کردہ خیال کیا جا رہا ہے۔ عمران خان گزشتہ سال بھی میاں صاحب پر کئی الزامات لگا کر ڈی چوک پر کئی ماہ تک دھرنا دے چکے ہیں مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا البتہ حکومت کی طرف سے ملک کے مالی نقصان کا دعویٰ کیا گیا۔ لگتا ہے وہ اس دفعہ پھر تھرڈ امپائر کے انتظار میں حکومت کے خلاف مہم چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر اس دفعہ بھی تھرڈ امپائر حکومت کے گرنے سے انارکی کی صورتحال پیدا ہونے کے خلاف نظر آتے ہیں۔
آج پوری دنیا میں ان پاناما پیپرز کا شور مچا ہوا ہے مگر قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تمام مواد چوری سے حاصل کیا گیا ہے جس کے بارے میں موساک فونسیکا کے بانی شریک چیئرمین رامون فونسیکا کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کی نجی دستاویز اور معلومات کو عالمی ذرایع ابلاغ غیر قانونی طور پر حاصل کر کے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کر رہے ہیں۔ ان کا واضح اعلان ہے کہ انھوں نے ان دستاویزات کو خود افشا نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کی کمپنی کے کسی فرد کا اس میں کوئی ہاتھ ہے بلکہ انھیں بیرونی ممالک میں قائم سرورز کے ذریعے ہیک کیا گیا ہے۔
میئر رامون کے اس بیان کے بعد پاناما پیپرز پر شک و شبہ کی مہر لگ گئی ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں ان پاناما پیپرز کی معلومات کی بنیاد پر عوام نے کئی حکومتوں کا گھیراؤ کر لیا ہے۔ کئی ممالک کے سربراہوں کے خلاف انکوائری کمیشن مقرر کیے جا چکے ہیں۔ آئس لینڈ اور یوکرین کے وزرائے اعظم مستعفی ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ادھر عالمی دباؤ کی وجہ سے پاناما کے صدر خوان کارلوس نے اپنے ہاں قائم آف شور کمپنیز کے معاملات پر غور کرنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی ماہرین معاشیات پر مشتمل ایک آزاد کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ کمیشن آف شور کمپنیز کے مالیاتی اور قانونی نظام میں شفافیت لانے کے اقدام تجویز کرے گا۔ برٹش ورجن آئی لینڈ، جہاں سب سے زیادہ آف شورکمپنیز قائم ہیں، کی حکومت بھی ایسے ہی قدم اٹھا کر وہاں قائم غیر ملکی کمپنیز کو قانون کے دائرے میں لا سکے گی اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر وہاں قائم تمام آف شور کمپنیز کو ٹیکس بھگتنا ہو گا۔ کیا اس صورت میں یہ غیر ملکی کمپنیاں وہاں قائم رہ سکیں گی؟ کیونکہ انھیں محض اپنے ممالک کے ٹیکس نظام سے بچنے کے لیے وہاں قائم کیا گیا ہے۔
بدقسمتی سے اس وقت پوری دنیا میں ٹیکس چوری کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس وبا میں چھوٹے ممالک ہی نہیں بلکہ امیر ممالک کے تاجر صنعت کار اور سیاستدان بھی مبتلا ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاناما پیپرز کا شور تو بہت ہے مگر کیا اس افشا کے بعد آف شور کمپنیاں ختم ہو جائیں گی؟ اس سے پہلے بھی سوئس لیکس، لکس لیکس وغیرہ بھی آف شور کمپنیز کا بھانڈا پھوڑ چکی ہیں مگر ان کمپنیز کے مالکان پر کوئی اثر نہیں پڑا وہ بدستور غیر ممالک میں اپنا کاروبار کرتے رہے۔ اب کیا پاناما لیکس کی وجہ سے آف شور کمپنیاں ختم ہو جائیں گی؟ ایک ماہر معیشت اینڈی شائی کا کہنا ہے کہ کیا پاناما پیپرز کی وجہ سے دنیا کی کرپٹ حکومتیں شفاف ہو جائیں گی جب کہایسا کوئی امکان نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قسم کے لیکس پیپرز میں کچھ ممالک کے خلاف سازشی مواد بھی شامل ہو سکتا ہے جس کا مقصد وہاں عدم استحکام پیدا کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ موساک فونسیکا کے بانی شریک چیئرمین شر رامون کی وضاحت کے بعد کہ مواد ہیک کیا گیا ہے اور انھیں سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا جا رہا ہے اس طرح انھیں کسی طرح بھی حقیقت پسندانہ نہیں کہا جا سکتا۔ ان معلومات کے لیک ہونے کے بعد یہ جن ذرایع سے گزریں ہیں وہاں ان میں ملاوٹ کا ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ جرمنی کے اخبار کے پاس ان پیپرز کے پہنچنے کے بعد ان میں کیا ملاوٹیں ہوئیں اور کس کے ایما پر ہوئیں یہ بات بھی قابل غور ہے۔ شاید اسی وجہ سے روسی صدر پوتن نے ان پیپرز کو روس کے خلاف سازش قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
پوتن کو آف شور کمپنیز کے حوالے سے براہ راست نہیں بلکہ انھیں ان کے ایک دوست کے حوالے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ پوتن کی جانب سے پاناما پیپرز کو امریکی سازش قرار دیے جانے کے بعد ماہرین اس تمام تماشے کو سی آئی اے کا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ سی آئی اے ماضی میں دنیا بھر میں اپنی پسند کی حکومتیں برسر اقتدار لانے اور گرانے کا کھیل کھیلتی رہی ہے البتہ جب سے عراق میں صدام حسین کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لیے اس نے صریح جھوٹ کا سہارا لے کر وہاں مہلک ہتھیاروں کی موجودگی کا انکشاف کیا تھا اس کے بعد سے وہ ایسی بدنام ہوئی ہے کہ اب کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہی ہے مگر لگتا ہے پھر بھی اپنا گھناؤنا مشن ترک نہیں کیا ہے اب طریقہ واردات تبدیل کر لیا ہے۔
اب وہ کبھی وکی لیکس، کبھی سوئس پیپرز، کبھی لکس پیپرز اور پاناما پیپرز کے ذریعے دنیا میں حکومتیں گرانے کی سازشوں میں مصروف ہو سکتی ہے۔ اگر پاناما پیپرز کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں کافی تضادات نظر آتے ہیں جیسے روس کے صدر کو تو مطعون کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر دوسری جانب امریکا کے کسی بھی رہنما کا اس میں نام شامل نہیں ہے۔ ادھر بیٹوں کے حوالے سے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کو تو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے مگر بھارتی وزیر اعظم یا کابینہ کے کسی بھی فرد کا نام اس میں شامل نہیں ہے۔ اسی طرح اسرائیل جہاں کرپشن کے انبار لگے ہیں وہاں کی قیادت پر ذرا بھی انگلی نہیں اٹھائی گئی ہے۔ اسی طرح کسی یورپی قائد کا نام آف شور کمپنی کے حوالے سے نہیں لیا گیا ہے البتہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو ان کے والد کے حوالے سے ہلکا سا ٹچ کیا گیا ہے تاہم اس کی وجہ امریکی مرضی کے خلاف یورپی یونین سے برطانیہ کے نکلنے کا اعلان ہو سکتا ہے اور یوں ڈیوڈ کیمرون کو ایک وارننگ دی گئی ہو۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک طرف پوری دنیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے مگر دوسری جانب امریکا میں مکمل سکون ہے۔ پاکستان میں شریف خاندان، سیف اللہ فیملی اور پیپلز پارٹی کے بعض قائدین نشانے پر ہیں۔ خاص طور پر وزیر اعظم نواز شریف کے خاندان کو نرغے میں لے لیا گیا ہے حالانکہ ٹی وی پر وہ اپنے خطاب میں ایک ریٹائرڈ جج کی نگرانی میں کمیشن بنانے کا اعلان کر چکے ہیں مگر اپوزیشن کے لیڈران ان کے اس اقدام سے مطمئن نہیں ہیں۔ عمران خان اس مہم میں سب سے آگے ہیں۔ انھوں نے ٹی وی پر اپنے خطاب میں میاں نواز شریف سے فوراً مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی رائے ونڈ میں ان کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کرنے کی دھمکی دی۔
گو کہ وزیر اعظم آف شور کمپنیز کے حوالے سے براہ راست ملوث نہیں ہیں مگر ان کمپنیز میں ان کے بیٹوں کے لگے سرمائے کو ناجائز ذرایع سے حاصل کردہ خیال کیا جا رہا ہے۔ عمران خان گزشتہ سال بھی میاں صاحب پر کئی الزامات لگا کر ڈی چوک پر کئی ماہ تک دھرنا دے چکے ہیں مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا البتہ حکومت کی طرف سے ملک کے مالی نقصان کا دعویٰ کیا گیا۔ لگتا ہے وہ اس دفعہ پھر تھرڈ امپائر کے انتظار میں حکومت کے خلاف مہم چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر اس دفعہ بھی تھرڈ امپائر حکومت کے گرنے سے انارکی کی صورتحال پیدا ہونے کے خلاف نظر آتے ہیں۔