ورفعنا لک ذکرک
’’شیخ ابوبکر جوانی ہی میں زبان و ادب کے لیے غیر معمولی جوہر قابل رکھتے تھے
مارٹن لنگز Martin Lings المعروف ابوبکر سراج الدین کے نام اور کام سے میرا تعارف سراج منیر مرحوم کی معرفت ستر کی دہائی میں ہوا، معلوم ہوا کہ وہ بھیرینے گینوں (شیخ عبدالواحد یحییٰ) کی طرح ایک نو مسلم مذہبی اسکالر ہیں جو انگریزی زبان کے مدرس اور شیکسپیئر کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفے اور تصوف کے معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں کچھ اور نو مسلم اسکالرز مثلاً شیخ عیسیٰ نور الدین احمد العلوی (فرتھ جوف شواں) ابراہیم عزالدین (ٹی ٹس برکہارٹ) اور سلسلہ شاذلیہ کے نام بھی انھی دنوں کان میں پڑے لیکن براہ راست ان میں سے کسی کی بھی کوئی کتاب پڑھنے کا موقع نہیں ملا جب کہ عمومی ردعمل یہی تھا کہ چونکہ اسلامی دنیا میں بہت مدت سے فکر و تحقیق کا قحط اور آزاد اور گہرے مذہبی شعور کا فقدان چلا آ رہا ہے ۔
اس لیے ان نو مسلم گوروں کو ان کے رنگ و نسل اور مذہب سے متعلق ذرا مختلف طرح کی تحریروں کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اور یہ کہ انھوں نے بھی روائتی پیروں اور مذہبی خانوادوں کی طرح تصوف کے حوالے سے الگ سے ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے اس دوران میں ابوبکر سراج الدین یعنی مارٹن لنگز ایک دو دفعہ پاکستان بھی آئے اور ان کے مقلدین اور پیر بھائیوں نے ان کی آمد کا بہت چرچا بھی کیا لیکن ایک مخصوص اور محدود حلقے سے قطع نظر کسی کو ان کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا البتہ 1983 میں جب رسول کریمؐ کی سوانح حیات کے حوالے سے ان کی شہرہ آفاق کتاب ''محمدؐ'' انگریزی میں طبع ہو کر سامنے آئی تو چاروں طرف ایک تہلکہ سا مچ گیا کہ یہ سیرت سے متعلق ایک ایسی مستند اور منفرد کتاب تھی جس میں ایسے قدیم اور مصدقہ ماخذات سے استفادہ کیا گیا تھا جو اس سے پہلے یا تو سامنے آئے ہی نہیں تھے یا ان کی حیثیت جزوی اور ضمنی حوالوں جیسی تھی۔
اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور مصر سمیت نہ صرف بہت سے مسلمان ممالک میں اسے خصوصی ایوارڈز سے نوازا گیا بلکہ اس کے تراجم بھی کئی زبانوں میں سامنے آئے، اردو میں بھی بھارت اور پاکستان میں اس کے متعدد تراجم ہو چکے ہیں جن میں سے تازہ ترین بک کارنر جہلم کا شایع کردہ وہ ترجمہ ہے جو سید کاظم جعفری نے چند برس قبل مکمل کیا تھا، اگرچہ 1938 میں شیخ عبدالواحد یحیٰی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کے بعد سے مارٹن لنگز مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں لکھ چکے تھے اور ادب و فلسفہ اور مذہبیات کے مصنف اور مدرس کے حوالے سے وہ ایک جانا پہچانا نام بھی تھے مگر اس کتاب کی اشاعت نے انھیں پوری دنیا بالخصوص اسلامی دنیا میں ایک معروف اور مقبول شخصیت بنا دیا کہ یہ کتاب اپنی نوعیت تحقیق' انداز تحریر اور قدیم ترین ماخذات سے استفادے کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے ایک مستند حوالے کی شکل اختیار کر گئی۔ زیر نظر ایڈیشن کے آغاز میں سہیل عمر صاحب کا ترجمہ کردہ سید حسین نصر کا ایک مضمون بھی شامل کیا گیا ہے جس میں ابوبکر سراج الدین کی شخصیت اور قابلیت کے بارے میں کچھ بہت اہم باتیں سامنے آئی ہیں ایک دو اقتباسات دیکھئے۔
''شیخ ابوبکر جوانی ہی میں زبان و ادب کے لیے غیر معمولی جوہر قابل رکھتے تھے، آکسفورڈ میں تعلیم کے دوران وہ سی ایس لیوس سے بہت قریب تھے... انھوں نے ذکر کیا کہ ان کے قبول اسلام اور تصوف سے آشنائی پر لیوس کا کیا ردعمل تھا۔ اس نے تبصرہ کیا تھا ''حیف ہے عیسائیت کا کیا بڑا نقصان ہو گیا'' لیکن بات اس کے برعکس تھی لنگز کے مسلمان ہونے سے عیسائیت کے عمیق ترین فراموش کردہ حقائق پھر سے لوگوں کے سامنے آئے۔ انھیں صرف اسلام ہی سے محبت نہیں تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دین ان کے لیے پسند کیا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے عربی زبان پر بھی پورا عبور حاصل کر لیا اور روایتی اسلامی ثقافت میں رچ بس گئے۔
وہ بیک وقت پورے انگریز بھی تھے اور ایک عمیق تر سطح پر ''رجعتے سوئے عرب می بایدت'' کی مثال بھی تھے... وہ قاہرہ میں اس طرح خوش رہتے تھے جیسے اپنے گھر میں۔ ایک مرتبہ ہم قاہرہ کے مرکزی مقام راس الحسین کی زیارت کے لیے جا رہے تھے، نواسہ رسولؐ کے مقبرے کی جالی کے قریب پہنچ کر وہ گویا ہوئے ''میں جب بھی یہاں آتا ہوں مجھے لگتا ہے کہ میرا ٹھکانہ یہی ہے'' مغرب میں شیخ ابوبکر کا اثر صرف انگریزی دان علاقوں تک محدود نہیں ہے ان کی تحریروں کی اکثریت کا فرانسیسی اطالوی جرمن ہسپانوی اور دیگر یورپی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے... ان کی تحریروں نے یورپ کے عوام کے سامنے اسلام کا صحیح اور مفصل تعارف پیش کیا۔ وہ عوام جو اس موضوع کی طرف راغب ہو رہے تھے لیکن ان کے سامنے ایسی کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا جن کی بنیاد سطحی معلومات' بے خبری' بدظنی یا غلط بیانی پر رکھی گئی تھی''۔
جہاں تک رسول کریمؐ کی حیات اور سیرت مبارکہ کا تعلق ہے اس کے بارے میں بے شمار کتابیں درجنوں زبانوں میں شایع ہو چکی ہیں اور ان میں سے کچھ یقیناً تحقیق اور تحریر دونوں اعتبار سے بے حد مستند اور بے مثال ہیں لیکن عربی زبان کلچر اور تاریخ پر یکساں گرفت نہ ہونے کے باعث کئی باتیں روایت کے طور پر بھی دہرائی جاتی رہیں اور کئی باتوں اور واقعات کو مستند حوالوں یا پس منظر کی وضاحت کے بغیر نقل کیا جاتا رہا۔ مارٹن لنگز کی اس کتاب کی سب سے اہم اور بڑی خوبی یہی ہے کہ اس میں واقعات کو مکمل جانچ پرکھ اور تاریخی اور تہذیبی پس منظر کے ساتھ اس طرح سے درج کیا گیا ہے کہ بہت سے دھندلکے خود بخود صاف ہوتے چلے جاتے ہیں، مختلف مقامات مقامی رسوم و رواج اور واقعات کو مصدقہ شواہد کے ساتھ اس طرح سے درج کیا گیا ہے کہ قاری جیسے خود اس زمانے میں سانس لینے لگتا ہے۔
مصنف نے کتاب کو 85 ابواب میں تقسیم کیا ہے اور حضورؐ کی ذاتی زندگی اور اعلان نبوت کے دوران اور بعد میں پیش آنے والے کئی ایسے واقعات کی نشاندہی کی ہے جن سے کئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہونے کے ساتھ ساتھ صورت حال کی مکمل تصویر بھی سامنے آ جاتی ہے اور پڑھنے والے یہ جان اورسمجھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید میں آپ کے ذکر کو بلند کرنے کی جو بات کی گئی ہے اس کی عملی صورت کیا اور کیسے ہے اور یہ کہ اس کتاب کا ایک اور ترجمہ چھاپنے کی اہمیت کیا ہے۔
اس لیے ان نو مسلم گوروں کو ان کے رنگ و نسل اور مذہب سے متعلق ذرا مختلف طرح کی تحریروں کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اور یہ کہ انھوں نے بھی روائتی پیروں اور مذہبی خانوادوں کی طرح تصوف کے حوالے سے الگ سے ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا ہے اس دوران میں ابوبکر سراج الدین یعنی مارٹن لنگز ایک دو دفعہ پاکستان بھی آئے اور ان کے مقلدین اور پیر بھائیوں نے ان کی آمد کا بہت چرچا بھی کیا لیکن ایک مخصوص اور محدود حلقے سے قطع نظر کسی کو ان کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا البتہ 1983 میں جب رسول کریمؐ کی سوانح حیات کے حوالے سے ان کی شہرہ آفاق کتاب ''محمدؐ'' انگریزی میں طبع ہو کر سامنے آئی تو چاروں طرف ایک تہلکہ سا مچ گیا کہ یہ سیرت سے متعلق ایک ایسی مستند اور منفرد کتاب تھی جس میں ایسے قدیم اور مصدقہ ماخذات سے استفادہ کیا گیا تھا جو اس سے پہلے یا تو سامنے آئے ہی نہیں تھے یا ان کی حیثیت جزوی اور ضمنی حوالوں جیسی تھی۔
اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور مصر سمیت نہ صرف بہت سے مسلمان ممالک میں اسے خصوصی ایوارڈز سے نوازا گیا بلکہ اس کے تراجم بھی کئی زبانوں میں سامنے آئے، اردو میں بھی بھارت اور پاکستان میں اس کے متعدد تراجم ہو چکے ہیں جن میں سے تازہ ترین بک کارنر جہلم کا شایع کردہ وہ ترجمہ ہے جو سید کاظم جعفری نے چند برس قبل مکمل کیا تھا، اگرچہ 1938 میں شیخ عبدالواحد یحیٰی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے کے بعد سے مارٹن لنگز مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں لکھ چکے تھے اور ادب و فلسفہ اور مذہبیات کے مصنف اور مدرس کے حوالے سے وہ ایک جانا پہچانا نام بھی تھے مگر اس کتاب کی اشاعت نے انھیں پوری دنیا بالخصوص اسلامی دنیا میں ایک معروف اور مقبول شخصیت بنا دیا کہ یہ کتاب اپنی نوعیت تحقیق' انداز تحریر اور قدیم ترین ماخذات سے استفادے کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے ایک مستند حوالے کی شکل اختیار کر گئی۔ زیر نظر ایڈیشن کے آغاز میں سہیل عمر صاحب کا ترجمہ کردہ سید حسین نصر کا ایک مضمون بھی شامل کیا گیا ہے جس میں ابوبکر سراج الدین کی شخصیت اور قابلیت کے بارے میں کچھ بہت اہم باتیں سامنے آئی ہیں ایک دو اقتباسات دیکھئے۔
''شیخ ابوبکر جوانی ہی میں زبان و ادب کے لیے غیر معمولی جوہر قابل رکھتے تھے، آکسفورڈ میں تعلیم کے دوران وہ سی ایس لیوس سے بہت قریب تھے... انھوں نے ذکر کیا کہ ان کے قبول اسلام اور تصوف سے آشنائی پر لیوس کا کیا ردعمل تھا۔ اس نے تبصرہ کیا تھا ''حیف ہے عیسائیت کا کیا بڑا نقصان ہو گیا'' لیکن بات اس کے برعکس تھی لنگز کے مسلمان ہونے سے عیسائیت کے عمیق ترین فراموش کردہ حقائق پھر سے لوگوں کے سامنے آئے۔ انھیں صرف اسلام ہی سے محبت نہیں تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دین ان کے لیے پسند کیا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ انھوں نے عربی زبان پر بھی پورا عبور حاصل کر لیا اور روایتی اسلامی ثقافت میں رچ بس گئے۔
وہ بیک وقت پورے انگریز بھی تھے اور ایک عمیق تر سطح پر ''رجعتے سوئے عرب می بایدت'' کی مثال بھی تھے... وہ قاہرہ میں اس طرح خوش رہتے تھے جیسے اپنے گھر میں۔ ایک مرتبہ ہم قاہرہ کے مرکزی مقام راس الحسین کی زیارت کے لیے جا رہے تھے، نواسہ رسولؐ کے مقبرے کی جالی کے قریب پہنچ کر وہ گویا ہوئے ''میں جب بھی یہاں آتا ہوں مجھے لگتا ہے کہ میرا ٹھکانہ یہی ہے'' مغرب میں شیخ ابوبکر کا اثر صرف انگریزی دان علاقوں تک محدود نہیں ہے ان کی تحریروں کی اکثریت کا فرانسیسی اطالوی جرمن ہسپانوی اور دیگر یورپی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے... ان کی تحریروں نے یورپ کے عوام کے سامنے اسلام کا صحیح اور مفصل تعارف پیش کیا۔ وہ عوام جو اس موضوع کی طرف راغب ہو رہے تھے لیکن ان کے سامنے ایسی کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا جن کی بنیاد سطحی معلومات' بے خبری' بدظنی یا غلط بیانی پر رکھی گئی تھی''۔
جہاں تک رسول کریمؐ کی حیات اور سیرت مبارکہ کا تعلق ہے اس کے بارے میں بے شمار کتابیں درجنوں زبانوں میں شایع ہو چکی ہیں اور ان میں سے کچھ یقیناً تحقیق اور تحریر دونوں اعتبار سے بے حد مستند اور بے مثال ہیں لیکن عربی زبان کلچر اور تاریخ پر یکساں گرفت نہ ہونے کے باعث کئی باتیں روایت کے طور پر بھی دہرائی جاتی رہیں اور کئی باتوں اور واقعات کو مستند حوالوں یا پس منظر کی وضاحت کے بغیر نقل کیا جاتا رہا۔ مارٹن لنگز کی اس کتاب کی سب سے اہم اور بڑی خوبی یہی ہے کہ اس میں واقعات کو مکمل جانچ پرکھ اور تاریخی اور تہذیبی پس منظر کے ساتھ اس طرح سے درج کیا گیا ہے کہ بہت سے دھندلکے خود بخود صاف ہوتے چلے جاتے ہیں، مختلف مقامات مقامی رسوم و رواج اور واقعات کو مصدقہ شواہد کے ساتھ اس طرح سے درج کیا گیا ہے کہ قاری جیسے خود اس زمانے میں سانس لینے لگتا ہے۔
مصنف نے کتاب کو 85 ابواب میں تقسیم کیا ہے اور حضورؐ کی ذاتی زندگی اور اعلان نبوت کے دوران اور بعد میں پیش آنے والے کئی ایسے واقعات کی نشاندہی کی ہے جن سے کئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہونے کے ساتھ ساتھ صورت حال کی مکمل تصویر بھی سامنے آ جاتی ہے اور پڑھنے والے یہ جان اورسمجھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید میں آپ کے ذکر کو بلند کرنے کی جو بات کی گئی ہے اس کی عملی صورت کیا اور کیسے ہے اور یہ کہ اس کتاب کا ایک اور ترجمہ چھاپنے کی اہمیت کیا ہے۔