عالمی سرمایہ داری بے نقاب
جو سرمایہ داری کو دفنا کر ایک غیرطبقاتی امداد باہمی کا معاشرہ قائم کرے گا۔
ISLAMABAD:
تقریباً دو سو سال قبل پرودھون، باکونن، کارل مارکس، اینگلز بعد ازاں پیترکرو پوتکین، لینن اور ایما گولڈمان واضح طور پر کہہ چکے کہ جوں جوں سرمایہ داری عالمی اجارہ داری اور سامراجیت میں تبدیل ہوتی جائے گی، توں توں طبقاتی خلیج میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ آج سائنسی ایجادات اور تیکنیکی ترقی کی وجہ سے جسمانی محنت کی جگہ مشین اور روبوٹ نے لے لی ہے۔ نتیجتاً جہاں دس مزدورکام کرتے تھے، آج ان کی جگہ پر ایک مزدور ہی وہ کام کر لیتا ہے۔ چونکہ سرمایہ داری میں پیداوار لوگوں کی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ اپنے منافعے میں دن دوگنے رات چوگنے اضافے کے لیے کی جاتی ہیں۔ اس لیے ایک جانب دولت کا انبار تو دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج بن جاتی ہے۔
اس وقت دنیا کے باسٹھ امیر ترین افراد آدھی دنیا کی دولت کے مالک ہیں۔ یواین او کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کرہ ارض میں روزانہ صرف بھوک سے پچھتر ہزار لوگ جان سے جا رہے ہیں۔ دنیا کے تین امیر ترین افراد اڑتالیس غریب ملکوں کو خرید سکتے ہیں، مگر اس طبقاتی خلیج میں اتھل پتھل لازم و ملزوم ہے۔ سرمایہ داری اپنا گورکن (مزدور طبقہ) خود پیدا کرتا ہے۔
جو سرمایہ داری کو دفنا کر ایک غیرطبقاتی امداد باہمی کا معاشرہ قائم کرے گا۔ سرمایہ داری کے اس بھونچال میں انیس سو تیس میں امریکا میں عظیم بحران آیا تھا، جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسان بھوک سے مر گئے تھے۔ معروف اداکار اور فلم ڈائریکٹر چارلی چپلن نے اس موضوع پر ایک فلم بنائی تھی جس کا نام 'پکچر آف دی موڈرن ورلڈ' تھا۔ اس میں دکھایا گیا تھا کہ ہفتہ وار اجناس کے گوداموں کی صفائی کے دوران جو کچر ے پھینکے جاتے تھے، اس پر ہزاروں بلکہ لاکھوں بھوک سے تڑپتے بچے کتوں کی طرح جھپٹا مار کر لوٹتے تھے۔
پھر نوآبادیات کی چھینا جھپٹی میں سامراجی ممالک آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ اسی کا نتیجہ تھی۔ اس جنگ میں پانچ کروڑ انسان مارے گئے۔ پھر انیس سو ستانوے میں دنیا بھر کے اسٹاک ایکسچینج، مالیاتی ادارے اور بینک دیوالیہ ہوئے۔ دوہزار پانچ، دوہزار آٹھ اور دو ہزار گیارہ میں پھر مالی بحران رونما ہوا اور اب پھر دو ہزار پندرہ میں چین کا اسٹاک ایکسچینج کریش کر گیا۔ امریکا کا سب سے بڑا بینک لہمن بینک اور جاپان کا نیشنل بینک دیوالیہ ہو گیا تھا۔ یہ وا قعات سوویت یونین کے انہدام سے بڑے وا قعات ہیں۔
انٹرنیٹ کے ماہرین ایڈورڈ سنوڈن اور جولین اسانج نے امریکی سی آئی اے کا خفیہ بھانڈا پھوڑ ڈا لا۔ نتیجتاً ان پر جھو ٹے الزامات لگا کر مقدمات قائم کیے گئے۔ بقول پروفیسر نوم چومسکی کہ کسی بھی یورپی ملک کی یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ انھیں پناہ دے، اگر پناہ دی تو روس اور ایکواڈور نے۔ آج پھر ایک بار 'پانامہ پیپرز' نے دنیا بھر کے لٹیروں اور عوام دشمنوں کے نام شایع کر دیے جنھوں نے آف شور کمپنیوں میں 7کھرب نوے ارب ڈالر جمع کروائے۔ صرف اس لیے کہ یہ اکاؤنٹ خفیہ رہیں اور ٹیکس نہ دینا پڑے۔ اس عمل کے خلاف چوبیس ملکوں بشمول امریکا، برطانیہ، فرانس، میکسیکو، بھارت، ہالینڈ، آئس لینڈ، آسٹریا، نیوزی لینڈ اور برازیل وغیرہ میں احتجاج ہو رہا ہے۔ آئس لینڈ اور یوکرائن کے وزرائے اعظم نے استعفیٰ دے دیا ہے اور شاید برطانیہ کے وزیراعظم کو بھی استعفعیٰ دینا پڑے۔ نائیجیریا کی سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف تحقیقات شروع ہو چکی ہیں۔
برطانیہ، امریکا، میکسیکو، بھارت، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ عرب امارات کے النہیان، سعودی عرب کے شاہ سلیمان اور چینی صدرکے نام بھی شایع ہوئے ہیں لیکن وہاں آمرانہ طرز حکومت ہے اس لیے احتجاج کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔ سرمایہ داری کی اس بے نقابی نے مزدور طبقے اور پیداواری قوتوں کے شعور میں اضافہ کیا ہے اور جدوجہد کرنے کی جرات عطا کی ہے۔
جیسا کہ آئس لینڈ اور یوکرائن کے عوام (خصوصا بائیں بازوکی قوتیں) فورا میدان میں اتر آئیں اور اپنی اپنی پارلیمنٹ کا گھیراؤکیا، نتیجتا وزرائے اعظم کواستعفیٰ دینا پڑا۔ پاکستان کی تو دونوں بڑی پارٹیاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف اس کالے دھن کے کرتوتوں میں شریک ہیں۔ ان کے ناموں کو بتانے کے لیے اب ہماری ضرورت نہیں رہی، بورژوا (سرمایہ دار) میڈیا خود بتا رہا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم، امریکی صدر، آسٹر یلیا کے وزیراعظم کو پریس کانفرنس کرنی پڑی۔ پانامہ کے صدر نے کہا کہ ہم انٹرنیشنل سطح کی کمیٹی بنا دیں گے اور معاملات کو دیکھ لیں گے، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ پاکستانی وزیراعظم کو بھی دفاعی پوزیشن میں قوم سے خطاب کرنا پڑا۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان سرمایہ داری کی انحطاط پذیری پر بات کرنے کے بجائے افراد میں اچھائی اور برائی تلاش کر رہے تھے۔ اس قسم کے انکشافات سے سرمایہ داری سرعام رسوا اور بے نقاب ہوئی ہے۔
اس لیے بھی کہ دنیا بھر کا محنت کش طبقہ، سوشلسٹ، کمیونسٹ اور انارکسٹ جب یہ کہتے تھے کہ چند لوگ دنیا بھر کے محنت کش عوام اور پیداواری قوتوں کو لوٹ کر ارب پتی اور کھرب پتی بن رہے ہیں تو اس پر کم ہی کان دھرا جاتا تھا مگر اب سرمایہ داروں کا میڈیا خود چیخ و پکار میں لگا ہوا ہے۔ خواہ یہ کام ریٹنگ کی وجہ سے ہو یا کچھ ایماندار صحافیوں کی وجہ سے ہو، بہرحال بے نقاب تو ہو رہے ہیں۔
کچھ بورژوا دانشور بھی اس کام میں لگ گئے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ سر مایہ داروں کے مخالف ہو گئے ہیں بلکہ اس لیے کہ سرمایہ داری کے رکھوالوں کو ہوشیار کر رہے ہیں کہ اب بہت ہو گیا، ذرا رک کے ورنہ دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ ویسے امریکا کے سوشلسٹ صدارتی امیدوار برنی سینڈرز اور برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر سوشلسٹ جیمری کوربون نے عالمی سرمایہ داری کو حیرانی اور خوفزدگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ادھر ہیلری کمپنیوں سے چندے بٹورنے میں لگی ہوئی ہیں جب کہ کامریڈ برنی سینڈرز کو ویٹی کن سٹی کے پوپ نے نابرابری پر بات کرنے پر دعوت دی ہے۔ جیمری کربون جب لندن کے سڑکوں پر عوام سے گفتگوکر رہے تھے تو میڈیا نے انھیں انٹرویوکے لیے گھیر لیا تھا تو انھوں نے میڈیا سے بات نہیں کی صرف عوام سے مخاطب رہے۔
ادھر نیپال میں کمیونسٹوں کی حکومت، بھارت کی ایک تہائی رقبے پر ماؤ نواز کمیونسٹ پارٹی کا قبضہ، گزشتہ برس چین میں مزدوروں اور کسا نوں نے کئی بار ہڑتالیں کیں جن میں لاکھوں، مزدوروں کسا نوں نے شرکت کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ یورپ تو پہلے ہی سے مالی بحران کا شکار ہے۔ یونان، پرتگال، اسپین، اٹلی کا کسی بھی وقت دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ پاکستانی معیشت تو کب کی دیوالیہ ہو چکی ہوتی، مگر اسے کالے دھن نے سنبھالا دیا ہوا ہے۔ ہمارے بجٹ کا چھہتر فیصد رقم کالے دھن پر مشتمل ہے۔
(کالے دھن سے مراد منشیات کی پیداوار و تجارت، اسلحے کا کارو بار، کک بیک، ریبیٹ، کمیشن، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور لینڈ ما فیا وغیرہ ہیں۔) پاکستان میں اسی فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، تین کروڑ لوگ امراض قلب اور اسی لاکھ ذیابطیس میں مبتلا ہیں۔ ہزاروں بچے بھوک سے مر رہے ہیں، چھ کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور پچہتر لاکھ لوگ تین ہزار تیس روپے کی آ مدنی پر نیم فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں، ساڑھے چار کروڑ لوگ بے روزگار ہیں، کرو ڑوں بچے اسکول نہیں جا پاتے۔ اس صورتحال میں ارب پتیوں کی بھرمار اور دولت کا یکطرفہ انبار ہونا حیران کن اور عوام کا خون نچوڑ کر ارب پتی اور کھرب پتی بننا صرف لوٹ مار، ڈکیتی اور درندگی کے سوا کچھ نہیں۔
تقریباً دو سو سال قبل پرودھون، باکونن، کارل مارکس، اینگلز بعد ازاں پیترکرو پوتکین، لینن اور ایما گولڈمان واضح طور پر کہہ چکے کہ جوں جوں سرمایہ داری عالمی اجارہ داری اور سامراجیت میں تبدیل ہوتی جائے گی، توں توں طبقاتی خلیج میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ آج سائنسی ایجادات اور تیکنیکی ترقی کی وجہ سے جسمانی محنت کی جگہ مشین اور روبوٹ نے لے لی ہے۔ نتیجتاً جہاں دس مزدورکام کرتے تھے، آج ان کی جگہ پر ایک مزدور ہی وہ کام کر لیتا ہے۔ چونکہ سرمایہ داری میں پیداوار لوگوں کی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ اپنے منافعے میں دن دوگنے رات چوگنے اضافے کے لیے کی جاتی ہیں۔ اس لیے ایک جانب دولت کا انبار تو دوسری جانب افلاس زدہ لوگوں کی فوج بن جاتی ہے۔
اس وقت دنیا کے باسٹھ امیر ترین افراد آدھی دنیا کی دولت کے مالک ہیں۔ یواین او کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کرہ ارض میں روزانہ صرف بھوک سے پچھتر ہزار لوگ جان سے جا رہے ہیں۔ دنیا کے تین امیر ترین افراد اڑتالیس غریب ملکوں کو خرید سکتے ہیں، مگر اس طبقاتی خلیج میں اتھل پتھل لازم و ملزوم ہے۔ سرمایہ داری اپنا گورکن (مزدور طبقہ) خود پیدا کرتا ہے۔
جو سرمایہ داری کو دفنا کر ایک غیرطبقاتی امداد باہمی کا معاشرہ قائم کرے گا۔ سرمایہ داری کے اس بھونچال میں انیس سو تیس میں امریکا میں عظیم بحران آیا تھا، جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسان بھوک سے مر گئے تھے۔ معروف اداکار اور فلم ڈائریکٹر چارلی چپلن نے اس موضوع پر ایک فلم بنائی تھی جس کا نام 'پکچر آف دی موڈرن ورلڈ' تھا۔ اس میں دکھایا گیا تھا کہ ہفتہ وار اجناس کے گوداموں کی صفائی کے دوران جو کچر ے پھینکے جاتے تھے، اس پر ہزاروں بلکہ لاکھوں بھوک سے تڑپتے بچے کتوں کی طرح جھپٹا مار کر لوٹتے تھے۔
پھر نوآبادیات کی چھینا جھپٹی میں سامراجی ممالک آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ اسی کا نتیجہ تھی۔ اس جنگ میں پانچ کروڑ انسان مارے گئے۔ پھر انیس سو ستانوے میں دنیا بھر کے اسٹاک ایکسچینج، مالیاتی ادارے اور بینک دیوالیہ ہوئے۔ دوہزار پانچ، دوہزار آٹھ اور دو ہزار گیارہ میں پھر مالی بحران رونما ہوا اور اب پھر دو ہزار پندرہ میں چین کا اسٹاک ایکسچینج کریش کر گیا۔ امریکا کا سب سے بڑا بینک لہمن بینک اور جاپان کا نیشنل بینک دیوالیہ ہو گیا تھا۔ یہ وا قعات سوویت یونین کے انہدام سے بڑے وا قعات ہیں۔
انٹرنیٹ کے ماہرین ایڈورڈ سنوڈن اور جولین اسانج نے امریکی سی آئی اے کا خفیہ بھانڈا پھوڑ ڈا لا۔ نتیجتاً ان پر جھو ٹے الزامات لگا کر مقدمات قائم کیے گئے۔ بقول پروفیسر نوم چومسکی کہ کسی بھی یورپی ملک کی یہ جرات نہ ہوئی کہ وہ انھیں پناہ دے، اگر پناہ دی تو روس اور ایکواڈور نے۔ آج پھر ایک بار 'پانامہ پیپرز' نے دنیا بھر کے لٹیروں اور عوام دشمنوں کے نام شایع کر دیے جنھوں نے آف شور کمپنیوں میں 7کھرب نوے ارب ڈالر جمع کروائے۔ صرف اس لیے کہ یہ اکاؤنٹ خفیہ رہیں اور ٹیکس نہ دینا پڑے۔ اس عمل کے خلاف چوبیس ملکوں بشمول امریکا، برطانیہ، فرانس، میکسیکو، بھارت، ہالینڈ، آئس لینڈ، آسٹریا، نیوزی لینڈ اور برازیل وغیرہ میں احتجاج ہو رہا ہے۔ آئس لینڈ اور یوکرائن کے وزرائے اعظم نے استعفیٰ دے دیا ہے اور شاید برطانیہ کے وزیراعظم کو بھی استعفعیٰ دینا پڑے۔ نائیجیریا کی سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف تحقیقات شروع ہو چکی ہیں۔
برطانیہ، امریکا، میکسیکو، بھارت، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ عرب امارات کے النہیان، سعودی عرب کے شاہ سلیمان اور چینی صدرکے نام بھی شایع ہوئے ہیں لیکن وہاں آمرانہ طرز حکومت ہے اس لیے احتجاج کا پتہ نہیں چل رہا ہے۔ سرمایہ داری کی اس بے نقابی نے مزدور طبقے اور پیداواری قوتوں کے شعور میں اضافہ کیا ہے اور جدوجہد کرنے کی جرات عطا کی ہے۔
جیسا کہ آئس لینڈ اور یوکرائن کے عوام (خصوصا بائیں بازوکی قوتیں) فورا میدان میں اتر آئیں اور اپنی اپنی پارلیمنٹ کا گھیراؤکیا، نتیجتا وزرائے اعظم کواستعفیٰ دینا پڑا۔ پاکستان کی تو دونوں بڑی پارٹیاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف اس کالے دھن کے کرتوتوں میں شریک ہیں۔ ان کے ناموں کو بتانے کے لیے اب ہماری ضرورت نہیں رہی، بورژوا (سرمایہ دار) میڈیا خود بتا رہا ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم، امریکی صدر، آسٹر یلیا کے وزیراعظم کو پریس کانفرنس کرنی پڑی۔ پانامہ کے صدر نے کہا کہ ہم انٹرنیشنل سطح کی کمیٹی بنا دیں گے اور معاملات کو دیکھ لیں گے، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ پاکستانی وزیراعظم کو بھی دفاعی پوزیشن میں قوم سے خطاب کرنا پڑا۔ تحریک انصاف کے رہنما عمران خان سرمایہ داری کی انحطاط پذیری پر بات کرنے کے بجائے افراد میں اچھائی اور برائی تلاش کر رہے تھے۔ اس قسم کے انکشافات سے سرمایہ داری سرعام رسوا اور بے نقاب ہوئی ہے۔
اس لیے بھی کہ دنیا بھر کا محنت کش طبقہ، سوشلسٹ، کمیونسٹ اور انارکسٹ جب یہ کہتے تھے کہ چند لوگ دنیا بھر کے محنت کش عوام اور پیداواری قوتوں کو لوٹ کر ارب پتی اور کھرب پتی بن رہے ہیں تو اس پر کم ہی کان دھرا جاتا تھا مگر اب سرمایہ داروں کا میڈیا خود چیخ و پکار میں لگا ہوا ہے۔ خواہ یہ کام ریٹنگ کی وجہ سے ہو یا کچھ ایماندار صحافیوں کی وجہ سے ہو، بہرحال بے نقاب تو ہو رہے ہیں۔
کچھ بورژوا دانشور بھی اس کام میں لگ گئے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ سر مایہ داروں کے مخالف ہو گئے ہیں بلکہ اس لیے کہ سرمایہ داری کے رکھوالوں کو ہوشیار کر رہے ہیں کہ اب بہت ہو گیا، ذرا رک کے ورنہ دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ ویسے امریکا کے سوشلسٹ صدارتی امیدوار برنی سینڈرز اور برطانیہ کے اپوزیشن لیڈر سوشلسٹ جیمری کوربون نے عالمی سرمایہ داری کو حیرانی اور خوفزدگی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ادھر ہیلری کمپنیوں سے چندے بٹورنے میں لگی ہوئی ہیں جب کہ کامریڈ برنی سینڈرز کو ویٹی کن سٹی کے پوپ نے نابرابری پر بات کرنے پر دعوت دی ہے۔ جیمری کربون جب لندن کے سڑکوں پر عوام سے گفتگوکر رہے تھے تو میڈیا نے انھیں انٹرویوکے لیے گھیر لیا تھا تو انھوں نے میڈیا سے بات نہیں کی صرف عوام سے مخاطب رہے۔
ادھر نیپال میں کمیونسٹوں کی حکومت، بھارت کی ایک تہائی رقبے پر ماؤ نواز کمیونسٹ پارٹی کا قبضہ، گزشتہ برس چین میں مزدوروں اور کسا نوں نے کئی بار ہڑتالیں کیں جن میں لاکھوں، مزدوروں کسا نوں نے شرکت کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ یورپ تو پہلے ہی سے مالی بحران کا شکار ہے۔ یونان، پرتگال، اسپین، اٹلی کا کسی بھی وقت دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ پاکستانی معیشت تو کب کی دیوالیہ ہو چکی ہوتی، مگر اسے کالے دھن نے سنبھالا دیا ہوا ہے۔ ہمارے بجٹ کا چھہتر فیصد رقم کالے دھن پر مشتمل ہے۔
(کالے دھن سے مراد منشیات کی پیداوار و تجارت، اسلحے کا کارو بار، کک بیک، ریبیٹ، کمیشن، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور لینڈ ما فیا وغیرہ ہیں۔) پاکستان میں اسی فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، تین کروڑ لوگ امراض قلب اور اسی لاکھ ذیابطیس میں مبتلا ہیں۔ ہزاروں بچے بھوک سے مر رہے ہیں، چھ کروڑ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور پچہتر لاکھ لوگ تین ہزار تیس روپے کی آ مدنی پر نیم فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے ہیں، ساڑھے چار کروڑ لوگ بے روزگار ہیں، کرو ڑوں بچے اسکول نہیں جا پاتے۔ اس صورتحال میں ارب پتیوں کی بھرمار اور دولت کا یکطرفہ انبار ہونا حیران کن اور عوام کا خون نچوڑ کر ارب پتی اور کھرب پتی بننا صرف لوٹ مار، ڈکیتی اور درندگی کے سوا کچھ نہیں۔