خواب جینے کی امنگیں ہیں
دنیا کے چالیس ملکوں کا تخیل آپ کے سامنے ہو، تو ذہن میں سمندروں کی وسعت ہلکورے لینے لگتی ہے
یہ موسم گرما کا ایک خوشگوار دن ہے۔ اس وقت میں سینٹر آف ایکسیلنس ان آرٹ اینڈ ڈیزائن، مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو کے اس وسیع ہال میں موجود ہوں، جہاں دنیا کے مختلف ملکوں کے مصوروں کی تصویریں آویزاں ہیں۔
دنیا کے چالیس ملکوں کا تخیل آپ کے سامنے ہو، تو ذہن میں سمندروں کی وسعت ہلکورے لینے لگتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ ایک خوبصورت پیشرفت ہے، جس کا عنوان ہے Pearls of Peace۔ امن کے یہ نایاب موتی خوبصورتی کا پیغام صوفیوں کی سرزمین پر لے کر آئے ہیں۔ یہ نمائش علی عباس سید کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ جو خود دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
مختلف تہذیب و ثقافت کے لوگوں سے ملنا اچھا لگتا ہے۔ ہر انسان اپنے اندر ایک مکمل کائنات ہے۔ قرۃ العین حیدر کا یہ جملہ ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ ''ہم کئی خوبصورت لوگوں سے ملے بنا مر جائیں گے'' یہ لوگ احساساتی طور پر خوبصورت لوگ ہیں۔ ان کے ذہنوں اور ہاتھوں میں کمال کا ربط پایا جاتا ہے۔ ان کے ہاتھ ذہن کے تصور کو مہارت سے کینوس پر منتقل کر دیتے ہیں۔ مجھے ایک نیگرو بچہ اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ جس نے اپنے ہاتھ میں بڑا سا تربوز تھام رکھا تھا۔ اس قدر خوش ہے کہ اس کا بڑا سا منہ کھلا ہے، جب کہ آنکھیں بند ہیں۔
یہ خوش فطری اور بے ساختہ پن ہے۔ دوسری تصویر بھی ایک بچے کی ہے، جو زمین پر بیٹھا ہے۔ یہ ہانگ کانگ کے مصور فومن یات کی واٹر کلر سے بنی تصویریں ہیں۔ یہ آپ کو ایک دم سے اپنے بچپن کی طرف لے جاتی ہیں۔ وہ بے ساختہ خوشی جو آپ کھو چکے ہوتے ہیں۔ اٹلی کے کلیڈیو فیلاسکا نے بھی ایک بچے کی تصویر میں بد صورت دنیا کا ناپسندیدہ رنگ بھرا ہے۔ دیواروں پر گولیوں کے نشانات ہیں اور چھوٹا بچہ ان خالی گولیوں سے کھیل رہا ہے، جنھوں نے نہ جانے کتنے خوابوں کو روندا ہو گا، اٹلی کے فنکار عہد حاضر کے موضوعات کو اپنے فن کا محور بنا رہے ہیں۔
انڈیا کے عرفان خان کی بنائی خستہ حال پراسرار عمارت دیکھ کر چونک گئی۔ درختوں کی اجاڑ شاخوں میں یہ جگہ مجھے سادھو بیلو کی یاد دلا گئی، انسانوں کے چہرے ملتے ہیں۔ سوچوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں جگہوں کے آثار بھی ایک جیسے ہوں گے یہ جان کر حیرت ہوئی۔ ہندوستانی مصوروں کے لینڈز اسکیپ کمال کے ہیں۔ ایرانی مصور بھی کسی طرح تصور کی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔
اب میں ایران کے مصور مہدی زاد صابر کے دو پھولوں میں کھو گئی ہوں۔ ایموشن نامی تصویر میں گلابی پھول مہک رہا ہے۔ دوسری زرد صبح ہے، جس کے رنگ خاموشی میں بھی کیا خوب چہک رہے ہیں۔ یہ تمام مصور ماضی کے دکھ کو بیان کر رہے ہیں۔ ان کی عہد حاضر کی تصویر کشی بھی اپنی جانب کھینچتی ہے۔ ساتھ میں یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ہم نے کسی صورت خوابوں سے ناتا نہیں توڑا۔ عراقی زندگی کے دیہی مناظر بھی خوب ہیں۔ ان میں سے عراقی سرجن کی تصاویر عراقی زندگی کی نمایندگی کر رہی ہے۔ عمل جراحی اور مصوری کا کیا خوب امتزاج ہے۔
ان کی بیوی مونا میرے قریب کھڑی ہیں۔ وہ کہہ رہی ہے عراق نے گہرے دکھ جھیلے ہیں۔ لیکن فنکار امن کے قیام کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ عراقی مصور مہدی موسیٰ کی یہ تصویر کیا خوب ہے، جس میں کٹائی کرنے کے بعد خواتین گٹھڑیاں سروں پر لادے گھروں کی طرف جا رہی ہیں۔ ایک جیتی جاگتی تصویر میرے سامنے ہے اور میرا تخیل ان خواب دیکھتی عورتوں کے ساتھ سفر کرنے لگتا ہے۔ امن کے خواب، خوشحالی کے خواب بلاتفریق جینے کی خواہش، پسند کے آسمان کو چھونے کی تمنا۔ یہ خواب کسی ایک خطے سے وابستہ نہیں ہیں۔ ان کی کوئی قومیت، زبان اور مذہب نہیں ہے۔
سامنے علی عباس کی تصویر ہے۔ جہاں سارے ملنگ بیٹھے ہیں۔ یہ ذات کی نفی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور ہم ان کے سر پٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے کے شہسوار ہیں۔ تصویر کا عنوان ''حق موجود ہے'' میں کھڑی رہ جاتی ہوں۔ اس تصویر کے سامنے۔ جس میں میرے اندر کا عکس ہے۔ آپ کی سوچ کا پرتو ہے۔ ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں جو ہوا کے دوش پر بے یقینی کے بھنور میں ڈولتی ہے۔ گہرا یقین تو ہے ہمارے اندر پر نہ جانے کیوں یہ راستہ نہیں دکھا پاتا۔
پاکستان کے مصوروں میں عمران خان، غلام حسین، مسعود خان، قدسیہ نثار، سرفراز مصور، خالد محمود، عبدل حئی، عامر حسن رضوی، ذوالفقار زلفی، اشفاق علی، انعم اشرف، فیصل ہارون، فرخ نسیم، رابعہ نواب، غلام شبیر، فاطمہ ندیم، زاہد اشرف، شائمہ عدنان، آسیہ امر، ذہین احمد، زینت، فاروق سیال، ایم شاہد، رحامہ خان، رابعہ فاروقی، محمد رمضان بھٹی، برکت علی، فردوس صدیقی، اے بی رحمان، محمود عالم، شاہجہان احمد وغیرہ شامل ہیں۔ ان رنگوں میں کئی رنگ ہیں۔ صوفی رنگ بھی ملتا ہے تو دیہی مناظر بھی۔ شہروں کی گہما گہمی بھی ہے، تو جدت کے رنگ بھی نمایاں ہیں۔
اس نمائش کے توسط سے، میں پاکستانی مصوروں کا کام دیکھ سکی ہوں اور ان کا یورپ و ایشیا کے دوسرے مصوروں سے موازنہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ ہمارے مصور موضوع، ٹیکنیک، تصوراتی قوت سے بہرہ ور ہیں۔ سب سے بڑی بات کہ یہ اپنے ملک کے خالص رنگوں کو جانتے ہیں۔ پاکستانی مصور محمد رمضان بھٹی کے پورٹریٹ ماں پر میری نظریں جم کے رہ گئی ہیں۔ ایک ایسی ماں، جس کی آنکھیں پرامید ہیں اور چہرے کی جھریوں سے جلال ٹپکتا ہے۔ فلپائن، پیرو، فرانس، چائنا، بنگلہ دیش، ارجنٹینا، مصر، برازیل، بلغاریہ، سربیا، جرمنی، نیپال، یونان، کینیڈا، امریکا، آذربائیجان، سوئیڈن، اسپین اور تھائی لینڈ غرض کہ چند لمحوں میں آپ پوری دنیا گھوم آتے ہیں۔
ایسا لگا کہ ساری دنیا کے فنکار ایک ہی انداز سے سوچتے ہیں۔ ان کی روحیں مہربان فرشتوں جیسی ہیں۔یہ درختوں، پودوں، دریاؤں، پرندوں اور انسانوں سے پیار کرتے ہیں۔ یہ آرٹسٹ تعمیری کام میں مصروف ہیں۔ ان کے اردگرد خوابوں کی مثبت لہریں محسوس ہوتی ہیں۔ یہ خاموشی کی زبان میں رنگ بھرتے ہیں۔ یہ زبان گہری اور پراثر ہے۔ جس میں علامتیں اور استعارے بات کرتے ہیں۔ اس لمحے میں پوشیدہ سحر ہمکلام ہے۔
آرٹ گیلری سے باہر نکلتے ہیں۔ نیچے لان میں تمام مصور جمع ہیں اور لائیو پینٹنگ کر رہے ہیں۔ پوری دنیا سے آئے ہوئے مصوروں کے درمیان کھڑے ہو کر، آپ انھیں کینوس پر رنگ بھرتے دیکھ رہے ہوں۔ رنگوں سے بھرے ہوئے پرتخیل لمحے ہیں اور تصور کسی پرندے کی مانند سوچ کے وسیع آسمان کی طرف محو پرواز ہے۔ ان کے سامنے پاکستان کے مختلف شہروں کی تصویریں تھیں اور مصور، رنگوں میں برش ڈبو کر ویسی ہی تصویر بنانے میں مگن ہیں۔ ان کے ارد گرد ایک ہجوم کھڑا ہے۔ جس میں زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔ ان کے چہروں سے تجسس ٹپک رہا ہے۔ انھوں نے کبھی تصور میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ ایک دن بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور، ان کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔رنگوں کی یہ حسین دنیا حوادث اور مظالم سے ٹکرانے کا عزم رکھتی ہے۔ یہ امن کے سفیر ہیں۔
یہ بتا رہے ہیں کہ کل یہ مکلی گئے تھے۔ اور ابھی تک ان کے دل شہر خموشاں کے پراسرار سحر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انھیں سندھ اچھا لگا۔ انھیں یہ خطہ پرسکون اور لوگ مخلص لگے۔وہاں موجود لوگوں کے اندر زندگی کی روح دھڑکنے لگی ہے، جو انھیں طویل عرصے تک متحرک اور تروتازہ رکھے گی۔ اس نمائش کو منعقد کرنے والے منتظمین قابل تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ایسے خوبصورت لمحے، زندگی میں بار بار نہیں آتے۔
دنیا کے چالیس ملکوں کا تخیل آپ کے سامنے ہو، تو ذہن میں سمندروں کی وسعت ہلکورے لینے لگتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ ایک خوبصورت پیشرفت ہے، جس کا عنوان ہے Pearls of Peace۔ امن کے یہ نایاب موتی خوبصورتی کا پیغام صوفیوں کی سرزمین پر لے کر آئے ہیں۔ یہ نمائش علی عباس سید کی کاوشوں کا ثمر ہے۔ جو خود دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
مختلف تہذیب و ثقافت کے لوگوں سے ملنا اچھا لگتا ہے۔ ہر انسان اپنے اندر ایک مکمل کائنات ہے۔ قرۃ العین حیدر کا یہ جملہ ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ ''ہم کئی خوبصورت لوگوں سے ملے بنا مر جائیں گے'' یہ لوگ احساساتی طور پر خوبصورت لوگ ہیں۔ ان کے ذہنوں اور ہاتھوں میں کمال کا ربط پایا جاتا ہے۔ ان کے ہاتھ ذہن کے تصور کو مہارت سے کینوس پر منتقل کر دیتے ہیں۔ مجھے ایک نیگرو بچہ اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ جس نے اپنے ہاتھ میں بڑا سا تربوز تھام رکھا تھا۔ اس قدر خوش ہے کہ اس کا بڑا سا منہ کھلا ہے، جب کہ آنکھیں بند ہیں۔
یہ خوش فطری اور بے ساختہ پن ہے۔ دوسری تصویر بھی ایک بچے کی ہے، جو زمین پر بیٹھا ہے۔ یہ ہانگ کانگ کے مصور فومن یات کی واٹر کلر سے بنی تصویریں ہیں۔ یہ آپ کو ایک دم سے اپنے بچپن کی طرف لے جاتی ہیں۔ وہ بے ساختہ خوشی جو آپ کھو چکے ہوتے ہیں۔ اٹلی کے کلیڈیو فیلاسکا نے بھی ایک بچے کی تصویر میں بد صورت دنیا کا ناپسندیدہ رنگ بھرا ہے۔ دیواروں پر گولیوں کے نشانات ہیں اور چھوٹا بچہ ان خالی گولیوں سے کھیل رہا ہے، جنھوں نے نہ جانے کتنے خوابوں کو روندا ہو گا، اٹلی کے فنکار عہد حاضر کے موضوعات کو اپنے فن کا محور بنا رہے ہیں۔
انڈیا کے عرفان خان کی بنائی خستہ حال پراسرار عمارت دیکھ کر چونک گئی۔ درختوں کی اجاڑ شاخوں میں یہ جگہ مجھے سادھو بیلو کی یاد دلا گئی، انسانوں کے چہرے ملتے ہیں۔ سوچوں میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں جگہوں کے آثار بھی ایک جیسے ہوں گے یہ جان کر حیرت ہوئی۔ ہندوستانی مصوروں کے لینڈز اسکیپ کمال کے ہیں۔ ایرانی مصور بھی کسی طرح تصور کی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں۔
اب میں ایران کے مصور مہدی زاد صابر کے دو پھولوں میں کھو گئی ہوں۔ ایموشن نامی تصویر میں گلابی پھول مہک رہا ہے۔ دوسری زرد صبح ہے، جس کے رنگ خاموشی میں بھی کیا خوب چہک رہے ہیں۔ یہ تمام مصور ماضی کے دکھ کو بیان کر رہے ہیں۔ ان کی عہد حاضر کی تصویر کشی بھی اپنی جانب کھینچتی ہے۔ ساتھ میں یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ہم نے کسی صورت خوابوں سے ناتا نہیں توڑا۔ عراقی زندگی کے دیہی مناظر بھی خوب ہیں۔ ان میں سے عراقی سرجن کی تصاویر عراقی زندگی کی نمایندگی کر رہی ہے۔ عمل جراحی اور مصوری کا کیا خوب امتزاج ہے۔
ان کی بیوی مونا میرے قریب کھڑی ہیں۔ وہ کہہ رہی ہے عراق نے گہرے دکھ جھیلے ہیں۔ لیکن فنکار امن کے قیام کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ عراقی مصور مہدی موسیٰ کی یہ تصویر کیا خوب ہے، جس میں کٹائی کرنے کے بعد خواتین گٹھڑیاں سروں پر لادے گھروں کی طرف جا رہی ہیں۔ ایک جیتی جاگتی تصویر میرے سامنے ہے اور میرا تخیل ان خواب دیکھتی عورتوں کے ساتھ سفر کرنے لگتا ہے۔ امن کے خواب، خوشحالی کے خواب بلاتفریق جینے کی خواہش، پسند کے آسمان کو چھونے کی تمنا۔ یہ خواب کسی ایک خطے سے وابستہ نہیں ہیں۔ ان کی کوئی قومیت، زبان اور مذہب نہیں ہے۔
سامنے علی عباس کی تصویر ہے۔ جہاں سارے ملنگ بیٹھے ہیں۔ یہ ذات کی نفی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور ہم ان کے سر پٹ دوڑتے ہوئے گھوڑے کے شہسوار ہیں۔ تصویر کا عنوان ''حق موجود ہے'' میں کھڑی رہ جاتی ہوں۔ اس تصویر کے سامنے۔ جس میں میرے اندر کا عکس ہے۔ آپ کی سوچ کا پرتو ہے۔ ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں جو ہوا کے دوش پر بے یقینی کے بھنور میں ڈولتی ہے۔ گہرا یقین تو ہے ہمارے اندر پر نہ جانے کیوں یہ راستہ نہیں دکھا پاتا۔
پاکستان کے مصوروں میں عمران خان، غلام حسین، مسعود خان، قدسیہ نثار، سرفراز مصور، خالد محمود، عبدل حئی، عامر حسن رضوی، ذوالفقار زلفی، اشفاق علی، انعم اشرف، فیصل ہارون، فرخ نسیم، رابعہ نواب، غلام شبیر، فاطمہ ندیم، زاہد اشرف، شائمہ عدنان، آسیہ امر، ذہین احمد، زینت، فاروق سیال، ایم شاہد، رحامہ خان، رابعہ فاروقی، محمد رمضان بھٹی، برکت علی، فردوس صدیقی، اے بی رحمان، محمود عالم، شاہجہان احمد وغیرہ شامل ہیں۔ ان رنگوں میں کئی رنگ ہیں۔ صوفی رنگ بھی ملتا ہے تو دیہی مناظر بھی۔ شہروں کی گہما گہمی بھی ہے، تو جدت کے رنگ بھی نمایاں ہیں۔
اس نمائش کے توسط سے، میں پاکستانی مصوروں کا کام دیکھ سکی ہوں اور ان کا یورپ و ایشیا کے دوسرے مصوروں سے موازنہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ ہمارے مصور موضوع، ٹیکنیک، تصوراتی قوت سے بہرہ ور ہیں۔ سب سے بڑی بات کہ یہ اپنے ملک کے خالص رنگوں کو جانتے ہیں۔ پاکستانی مصور محمد رمضان بھٹی کے پورٹریٹ ماں پر میری نظریں جم کے رہ گئی ہیں۔ ایک ایسی ماں، جس کی آنکھیں پرامید ہیں اور چہرے کی جھریوں سے جلال ٹپکتا ہے۔ فلپائن، پیرو، فرانس، چائنا، بنگلہ دیش، ارجنٹینا، مصر، برازیل، بلغاریہ، سربیا، جرمنی، نیپال، یونان، کینیڈا، امریکا، آذربائیجان، سوئیڈن، اسپین اور تھائی لینڈ غرض کہ چند لمحوں میں آپ پوری دنیا گھوم آتے ہیں۔
ایسا لگا کہ ساری دنیا کے فنکار ایک ہی انداز سے سوچتے ہیں۔ ان کی روحیں مہربان فرشتوں جیسی ہیں۔یہ درختوں، پودوں، دریاؤں، پرندوں اور انسانوں سے پیار کرتے ہیں۔ یہ آرٹسٹ تعمیری کام میں مصروف ہیں۔ ان کے اردگرد خوابوں کی مثبت لہریں محسوس ہوتی ہیں۔ یہ خاموشی کی زبان میں رنگ بھرتے ہیں۔ یہ زبان گہری اور پراثر ہے۔ جس میں علامتیں اور استعارے بات کرتے ہیں۔ اس لمحے میں پوشیدہ سحر ہمکلام ہے۔
آرٹ گیلری سے باہر نکلتے ہیں۔ نیچے لان میں تمام مصور جمع ہیں اور لائیو پینٹنگ کر رہے ہیں۔ پوری دنیا سے آئے ہوئے مصوروں کے درمیان کھڑے ہو کر، آپ انھیں کینوس پر رنگ بھرتے دیکھ رہے ہوں۔ رنگوں سے بھرے ہوئے پرتخیل لمحے ہیں اور تصور کسی پرندے کی مانند سوچ کے وسیع آسمان کی طرف محو پرواز ہے۔ ان کے سامنے پاکستان کے مختلف شہروں کی تصویریں تھیں اور مصور، رنگوں میں برش ڈبو کر ویسی ہی تصویر بنانے میں مگن ہیں۔ ان کے ارد گرد ایک ہجوم کھڑا ہے۔ جس میں زیادہ تر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہیں۔ ان کے چہروں سے تجسس ٹپک رہا ہے۔ انھوں نے کبھی تصور میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ ایک دن بین الاقوامی شہرت یافتہ مصور، ان کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔رنگوں کی یہ حسین دنیا حوادث اور مظالم سے ٹکرانے کا عزم رکھتی ہے۔ یہ امن کے سفیر ہیں۔
یہ بتا رہے ہیں کہ کل یہ مکلی گئے تھے۔ اور ابھی تک ان کے دل شہر خموشاں کے پراسرار سحر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انھیں سندھ اچھا لگا۔ انھیں یہ خطہ پرسکون اور لوگ مخلص لگے۔وہاں موجود لوگوں کے اندر زندگی کی روح دھڑکنے لگی ہے، جو انھیں طویل عرصے تک متحرک اور تروتازہ رکھے گی۔ اس نمائش کو منعقد کرنے والے منتظمین قابل تحسین اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ایسے خوبصورت لمحے، زندگی میں بار بار نہیں آتے۔