گڈاپ جہاں زندگی سسکتی ہے
یوسی گڈاپ میں12دیہہ ہیں جو سپر ہائی وے ٹول پلازہ سے شمال مغرب کی جانب80 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں
WASHINGTON:
کراچی، کہتے ہی آسمان کو چُھوتی عمارات، روشنی، تیز رفتار زندگی اور آسودگی تصور میں آجاتے ہیں۔ لیکن کراچی کا ایک ایسا خطہ بھی ہے جس میں انسان آج بھی پتھر کے دور میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اکیسویں صدی بھی ان کے لیے کوئی نوید مسرت نہیں لائی۔
یہ جدت، ایجادات، سائنس و ٹیکنالوجی اور ترقی یافتہ دنیا، ان سب سے ان لوگوں کا کوئی سروکار نہیں۔ یہ لوگ پتھریلی زمین پر تو رہتے ہی تھے لیکن حکم رانوں کی بے حسی اور انتظامی بد عنوانی نے ان کے جسم بھی پتھر بنا دیے ہیں۔ لیکن ان کے دل حساس اور نرم ہیں۔ قحط اور خشک سالی نے ان سے سب کچھ چھین لیا ہے، لیکن ان کے دل آج بھی کشادہ ہیں۔ بس آپ کے پہنچنے کی دیر ہے، جو بھی گھر میں دانا پانی ہوگا، پیش کیا جا ئے گا اور ہر طرف سے آواز آئے گی سائیں بھلی کرے آیا، جی کری آیا۔
کوہستانی لوگ آج بھی مہمانوں کو رحمت سمجھتے ہیں۔ رحمت کی علامت برسات بھی ہے اور برسات ان کے لیے زندگی کا استعارہ ہے۔ پہاڑوں میں بسے ان لوگوں کا عزم چٹانوں کی طرح مضبوط ہے۔ انہیں اپنی بستیوں سے لازوال محبت ہے، یہی وجہ ہے کہ قحط اور بدترین حالات کے باوجود وہ اپنے علاقوں سے نقل مکانی نہیں کرتے۔ جب بھوک اور پیاس کے مارے مال مویشی آخری ہچکیاں اور انسان بھی نڈھال ہو رہے ہوں، تو کوئی دیوانہ پہاڑی پر بیٹھ کر اپنی بین سے بارش برسانے والا سُر ''سارنگ'' چھیڑتا ہے، جس کے آلاپ سے پہاڑیاں گونج اٹھتی ہیں اور بارش کے تصور میں یہ لوگ مدہوش ہوجاتے ہیں۔
پھر کبھی ہریالی آجاتی ہے، جوار اور مکئی کی فصل خوش حالی کے گیت گا تی اور مردہ مویشیوں میں جان پڑجاتی ہے۔ لیکن یہ لمحات بہت مختصر ہوتے ہیں۔ قحط کی قہرمانی واپس لوٹ آتی ہے اور بارش کی یاد انہیں ستم گر محبوب کی طرح تڑپاتی ہے۔ کیا کیجیے کہ ان لوگوں کا ایمان ہے کہ محبوب کا مشاہدہ تو ہجر ہی میں ہے۔
ان کے خواب ابھی زندہ ہیں۔ آج بھی خواب دیکھتی ماں جب اپنے ننھے چاند کو سینے سے لگاکر لوری سنا رہی ہوتی ہے تو وہ سپنا دیکھتی ہے، جس میں اس ننھے چاند کا کل بہت روشن ہوتا ہے، ان کے آنگن میں خوش حالی رقص کر رہی ہوتی ہے، ترقی کا سفر شروع ہوتا ہے، کوہستان کے لوگوں کے لیے نہ ہی سہی بڑے بڑے لوگوں کی آمد کے لیے راستے بن جاتے ہیں جو مہیر جبل اور وادی ڈاٹھ کی سیر و تفریح کے لیے کوہستان کا رخ کرنے لگتے ہیں، بجلی بھی ہوتی ہے ، ان کے گائوں میں اسپتال بھی بن جاتا ہے اور انہیں وبائی بیماریوں کے باعث بے موت مرنے سے چھٹکارا مل چکا ہوتا ہے، اسکول اور پینے کا صاف پانی بھی دست یاب ہوتا ہے، اور گھر کے دالان میں بکھرے ہوئے کھلونے! لیکن پھر اچانک ماں کی آنکھیں کھل جاتی اور وہ اپنی حقیقی دنیا میں واپس آجاتی ہے، جہاں سامنے اندھیرا ہوتا ہے اور اندھیرے میں کچھ سجھائی نہیں دیتا اور وہ خوف زدہ ہوکر پھر سے آنکھیں موند لیتی ہے۔۔۔۔!
یہ کہانی کراچی کی سب سے پس ماندہ یونین کونسل گڈاپ کی ہے، جس کا پورا رقبہ کوہستان پر مشتمل ہے۔ یوسی گڈاپ میں 12 دیہہ ہیں جو سپر ہائی وے ٹول پلازہ سے شمال مغرب کی جانب80 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی حدیں شمال مشرق میں ضلع جام شورو اور شمال مغرب میں بلوچستان سے جاملتی ہیں۔ اس یونین کونسل میں اوائل سے زندگی کی کوئی بھی بنیادی سہولت میسر نہیں۔
جب کہ گذشتہ پانچ برسوں سے بارشیں نہ ہونے کے باعث قحط کی صورت حال ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مال مویشی مرچکے ہیں، طبی سہولیات ناپید ہیں، یرقان، شوگر، بلڈپریشر، دمہ و دیگر جان لیوا امراض تیزی سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ جب کہ حالیہ بارشوں کے بعد ڈائریا، نزلہ، زکام اور بخار پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں پر کوئی مواصلاتی نظام نہیں، نہ ہی موبائل فون کی گھنٹیاں بجتی ہیں، پیغام رسانی کا واحد ذریعہ لوگوں کی آمد و رفت ہے۔ آج جہاں دنیا تیزی سے ترقی کررہی ہے اور کراچی سے 500کلومیٹر دور صحرائے تھر بھی ترقی کرچکا ہے، لیکن دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک کراچی کے اس علاقے میں آج بھی انسان پندرہویں صدی میں ہے۔
سپرہائی وے سے 19کلومیٹر کے فاصلے پر گڈاپ شہر قائم ہے اور گڈاپ سے آٹھ کلومیٹر شمال کی جانب ملنگ جوکھیو گوٹھ ہے۔ اس گائوں کے 25 گھروں میں 105 لوگ رہایش پزیر ہیں، جن کا ذریعۂ معاش مزدوری ہے۔ یہاں پانی، بجلی، صحت، تعلیم اور روزگار سمیت کوئی بھی بنیادی سہولت میسر نہیں۔ خواتین پانچ کلومیٹر دور سے گدھا گاڑی پر پانی بھرکر لاتی ہیں۔
گائوں کی35 میں سے صرف7 بچیاں اسکول جاتی ہیں، کیوںکہ اسکول یہاں سے7 کلومیٹر دور ہے اور چھوٹے بچے پیدل اتنا سفر نہیں کرپاتے۔ اس گائوں میں شوگر، یرقان اور دمے کا مرض، جب کہ بچوں میں ڈائریا کی شکایت پائی گئی۔ علاقہ مکینوں عثمان، عبدالرحمان، محمد حسن اور دیگر نے بتایا کہ یہاں گرد و نواح میں پانی، بجلی و دیگر سہولیات موجود ہیں لیکن ہمیں یہ کہہ کر سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے کہ ہمارے ووٹ اس علاقے میں درج نہیں۔ یہاں سے دو کلومیٹر آگے بچل برفت گوٹھ کی نصف سے زیادہ آبادی قحط کی وجہ سے نقل مکانی کرچکی ہے۔ یہاں کے مکینوں رمضان، زاہد علی، صدیق، مٹھا خان بتاتے ہیں کہ ذریعۂ آمدن مال مویشی اور بارانی زراعت پر ہے، جب کہ گذشتہ پانچ برسوں میں معمول سے بہت کم بارشیں ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے قحط کی صورت حال ہے اور لوگوں کا جینا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ علاج معالجہ تو دور کی بات، یہاں تو پینے کا پانی بھی میسر نہیں اور اس مفلسی کی حالت میں بھی تین سے چار ہزار روپے کے حساب سے پانی کے ٹینکر خریدنے پڑتے ہیں۔ مکینوں نے شکایت کی ان کے لیے منظور شدہ اسٹریٹ لائیٹس مقامی سیاسی راہ نمائوں نے ہڑپ کرلی ہیں۔ نوندو برو اور علی محمد گوٹھ میں بھی یہی حالت دیکھنے میں آئی۔ 70 گھروں پر مشتمل اس گوٹھ کی آبادی 750 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کے لوگوں نے بتایا کہ زندگی اب بوجھ بن چکی ہے، طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے امسال6 عورتیں دوران زچگی ہلاک ہو چکی ہیں، تین ماہ قبل ہی یرقان کے باعث ایک عورت فوت ہوئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ اوائل سے ہی سندھ کی موجودہ حکم ران جماعت کو ووٹ دیتے آئے ہیں لیکن علاقے کی صورت حال پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ اس گائوں میں 15مرد اور 8 عورتیں میٹرک پاس ہیں۔ چھوٹی عمر کے تمام بچے گائوں کے اسکول میں زیرتعلیم ہیں، جب کہ ثانوی تعلیم کے لیے 10 کلومیٹر دور پٹھان خان گوٹھ جانا پڑتا ہے۔ پانی، بجلی، صحت اور آمد ورفت کی سہولیات کا فقدان یہاں کے اہم مسائل ہیں۔
گڈاپ شہر سے 28 کلومیٹر کے فاصلے پر سنیاسی گوٹھ قائم ہے۔1460نفوس پر مشتمل اس گائوں میں صحت کی صورت حال انتہائی خطرناک ہوچکی ہے۔ طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دو برسوں میں دوران حمل 12بچے اور2 خواتین ہلاک ہوچکی ہیں، جب کہ لوگ یرقان کے مرض میں مبتلا ہیں۔
گائوں میں پرائمری اسکول تو موجود ہے، لیکن خستہ حال۔ یہاں مختلف ہنر سکھانے کا تربیت مرکز بھی ہے لیکن غیرفعال۔ یہاں کے مقامی محمد حکیم، روشن، محمد جمن، علی اکبر نے بتایا کہ کوہستان میں معمول سے کم بارشیں ہو رہی ہیں، جس کے باعث زراعت اور مال مویشی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ضلعی انتظامیہ ملیر کی جانب سے قحط زدہ علاقوں میں پانی اور راشن تقسیم کیا گیا تھا، جس میں بڑے پیمانے پر گھپلے کیے گئے۔ ان کے مطابق ہر گھر میں مال مویشی کے لیے بھوسہ، کھڑ اور پینے کا پانی فراہم کیا جانا تھا، لیکن صرف شاہ راہ کے قریب تر اور من پسند لوگوں میں برائے نام راشن تقسیم کرکے باقی رقم ہڑپ کرلی گئی۔
نور محمد برفت اس علاقے کا ایک وسیع گوٹھ ہے، جس کے مکینوں میں سے ایک ماسٹر ڈگری، 5 گریجویٹ اور22 مرد اور 12خواتین انٹر پاس ہیں۔ یہاں کے پرائمری اسکول میں 110بچے زیر تعلیم ہیں۔ گائوں میں ڈسپینسری اور دست کاری مرکز بھی قائم لیکن پندرہ سال سے بند پڑے ہیں۔ گائوں کے مکین غلام نبی، منظور علی، بشیر احمد، میاں بخش اور اکبر نے بتایا کہ اس علاقے کی ابتر صورت حال کی ذمے دار صوبائی اور شہری حکومتیں ہیں۔ شہری حکومت کے دور میں پانی اور صحت سمیت ہر شعبے میں گڈاپ کے دیہاتی علاقوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ گڈاپ سے شمال مشرق کی جانب پچاس کلومیٹر کے فاصلہ پر میھن وسایو کانڑو گوٹھ کی حالت زار بھی دیگر کی طرح ہے۔
یہاں کی آبادی 340افراد پر مشتمل ہے جن میں سے ایک گریجویٹ، 10میٹرک اور 15 مرد انٹر پاس ہیں، جب کہ6خواتین بھی میٹرک پاس ہیں۔ گائوں کے پرائمری اسکول کی حالت اور کارکردگی بہتر نظر آئی، جب کہ واٹر پلانٹ اور دست کاری مرکز برسوں سے غیرفعال ہیں۔ یہاں کے مکینوں براد کانڑو، سلیمان، ہاشم و دیگر نے بتایا کہ تیزی سے پھیلتی بیماریوں نے زندگی اجیرن کردی ہے، پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونے کے باعث یرقان اور جلدی بیماریاں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ اسی پٹی پر دو کلومیٹر مغربی جانب تھوہر کانڑو گوٹھ ہے۔ یہاں پر پانی کے کنویں تو موجود ہیں، لیکن پانی مضر صحت ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں کے مکین محمد جعفر، جاوید، سجاد، مجاہد نے بتایا کہ یہاں پانی استعمال کرنے سے گردوں اور پیٹ کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں کے پرائمری اسکول کی حالت بہتر تھی جب کہ ڈسپینسری اور دست کاری اسکول بند پڑے تھے۔
گڈاپ سے کنڈ جھنگ تک تقریبا 780 گائوں ہیں۔ تمام گوٹھوں کی حالت یک ساں بدتر ہے۔ یہاں کے لوگوں نے تجویز دی کہ اگر سنیاسی گوٹھ اور وان کنڈ کے مقام پر دو چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تو پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں مقام بلندی پر ہیں اور برساتی نالے یہاں سے گذرتے ہیں، اس لحاظ سے یہ جگہ ڈیم کے لیے بہت موزوں اور اس سے 8گوٹھوں کو باآسانی پانی فراہم ہو سکتا ہے۔ مقامی لوگوں نے مطالبہ کیا کہ یہاں پر پچاس سے زیادہ دست کاری اور مختلف ہنر سکھانے کے اسکول موجود ہیں جو بند پڑے ہیں، کیوںکہ یہاں پر مقرر تمام اساتذہ شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہاں پر روزانہ آنا یا یہاں پر قیام کرنا ان کے لیے ممکن نہیں، اس لیے یہاں کی خواندہ خواتین کو ہنر سکھانے والی تربیت گاہوں میں مقرر کیا جائے، جو کہ مقررہ تعلیمی قابلیت بھی رکھتی ہیں اور کوہستانی ہنر میں دست رس بھی۔
کیا ارباب اختیار اب کوئی اقدامات اٹھائیں گے، یہاں کے بے بس و لاچار مکین اس کے منتظر ہیں۔
کراچی، کہتے ہی آسمان کو چُھوتی عمارات، روشنی، تیز رفتار زندگی اور آسودگی تصور میں آجاتے ہیں۔ لیکن کراچی کا ایک ایسا خطہ بھی ہے جس میں انسان آج بھی پتھر کے دور میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اکیسویں صدی بھی ان کے لیے کوئی نوید مسرت نہیں لائی۔
یہ جدت، ایجادات، سائنس و ٹیکنالوجی اور ترقی یافتہ دنیا، ان سب سے ان لوگوں کا کوئی سروکار نہیں۔ یہ لوگ پتھریلی زمین پر تو رہتے ہی تھے لیکن حکم رانوں کی بے حسی اور انتظامی بد عنوانی نے ان کے جسم بھی پتھر بنا دیے ہیں۔ لیکن ان کے دل حساس اور نرم ہیں۔ قحط اور خشک سالی نے ان سے سب کچھ چھین لیا ہے، لیکن ان کے دل آج بھی کشادہ ہیں۔ بس آپ کے پہنچنے کی دیر ہے، جو بھی گھر میں دانا پانی ہوگا، پیش کیا جا ئے گا اور ہر طرف سے آواز آئے گی سائیں بھلی کرے آیا، جی کری آیا۔
کوہستانی لوگ آج بھی مہمانوں کو رحمت سمجھتے ہیں۔ رحمت کی علامت برسات بھی ہے اور برسات ان کے لیے زندگی کا استعارہ ہے۔ پہاڑوں میں بسے ان لوگوں کا عزم چٹانوں کی طرح مضبوط ہے۔ انہیں اپنی بستیوں سے لازوال محبت ہے، یہی وجہ ہے کہ قحط اور بدترین حالات کے باوجود وہ اپنے علاقوں سے نقل مکانی نہیں کرتے۔ جب بھوک اور پیاس کے مارے مال مویشی آخری ہچکیاں اور انسان بھی نڈھال ہو رہے ہوں، تو کوئی دیوانہ پہاڑی پر بیٹھ کر اپنی بین سے بارش برسانے والا سُر ''سارنگ'' چھیڑتا ہے، جس کے آلاپ سے پہاڑیاں گونج اٹھتی ہیں اور بارش کے تصور میں یہ لوگ مدہوش ہوجاتے ہیں۔
پھر کبھی ہریالی آجاتی ہے، جوار اور مکئی کی فصل خوش حالی کے گیت گا تی اور مردہ مویشیوں میں جان پڑجاتی ہے۔ لیکن یہ لمحات بہت مختصر ہوتے ہیں۔ قحط کی قہرمانی واپس لوٹ آتی ہے اور بارش کی یاد انہیں ستم گر محبوب کی طرح تڑپاتی ہے۔ کیا کیجیے کہ ان لوگوں کا ایمان ہے کہ محبوب کا مشاہدہ تو ہجر ہی میں ہے۔
ان کے خواب ابھی زندہ ہیں۔ آج بھی خواب دیکھتی ماں جب اپنے ننھے چاند کو سینے سے لگاکر لوری سنا رہی ہوتی ہے تو وہ سپنا دیکھتی ہے، جس میں اس ننھے چاند کا کل بہت روشن ہوتا ہے، ان کے آنگن میں خوش حالی رقص کر رہی ہوتی ہے، ترقی کا سفر شروع ہوتا ہے، کوہستان کے لوگوں کے لیے نہ ہی سہی بڑے بڑے لوگوں کی آمد کے لیے راستے بن جاتے ہیں جو مہیر جبل اور وادی ڈاٹھ کی سیر و تفریح کے لیے کوہستان کا رخ کرنے لگتے ہیں، بجلی بھی ہوتی ہے ، ان کے گائوں میں اسپتال بھی بن جاتا ہے اور انہیں وبائی بیماریوں کے باعث بے موت مرنے سے چھٹکارا مل چکا ہوتا ہے، اسکول اور پینے کا صاف پانی بھی دست یاب ہوتا ہے، اور گھر کے دالان میں بکھرے ہوئے کھلونے! لیکن پھر اچانک ماں کی آنکھیں کھل جاتی اور وہ اپنی حقیقی دنیا میں واپس آجاتی ہے، جہاں سامنے اندھیرا ہوتا ہے اور اندھیرے میں کچھ سجھائی نہیں دیتا اور وہ خوف زدہ ہوکر پھر سے آنکھیں موند لیتی ہے۔۔۔۔!
یہ کہانی کراچی کی سب سے پس ماندہ یونین کونسل گڈاپ کی ہے، جس کا پورا رقبہ کوہستان پر مشتمل ہے۔ یوسی گڈاپ میں 12 دیہہ ہیں جو سپر ہائی وے ٹول پلازہ سے شمال مغرب کی جانب80 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی حدیں شمال مشرق میں ضلع جام شورو اور شمال مغرب میں بلوچستان سے جاملتی ہیں۔ اس یونین کونسل میں اوائل سے زندگی کی کوئی بھی بنیادی سہولت میسر نہیں۔
جب کہ گذشتہ پانچ برسوں سے بارشیں نہ ہونے کے باعث قحط کی صورت حال ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مال مویشی مرچکے ہیں، طبی سہولیات ناپید ہیں، یرقان، شوگر، بلڈپریشر، دمہ و دیگر جان لیوا امراض تیزی سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ جب کہ حالیہ بارشوں کے بعد ڈائریا، نزلہ، زکام اور بخار پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں پر کوئی مواصلاتی نظام نہیں، نہ ہی موبائل فون کی گھنٹیاں بجتی ہیں، پیغام رسانی کا واحد ذریعہ لوگوں کی آمد و رفت ہے۔ آج جہاں دنیا تیزی سے ترقی کررہی ہے اور کراچی سے 500کلومیٹر دور صحرائے تھر بھی ترقی کرچکا ہے، لیکن دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک کراچی کے اس علاقے میں آج بھی انسان پندرہویں صدی میں ہے۔
سپرہائی وے سے 19کلومیٹر کے فاصلے پر گڈاپ شہر قائم ہے اور گڈاپ سے آٹھ کلومیٹر شمال کی جانب ملنگ جوکھیو گوٹھ ہے۔ اس گائوں کے 25 گھروں میں 105 لوگ رہایش پزیر ہیں، جن کا ذریعۂ معاش مزدوری ہے۔ یہاں پانی، بجلی، صحت، تعلیم اور روزگار سمیت کوئی بھی بنیادی سہولت میسر نہیں۔ خواتین پانچ کلومیٹر دور سے گدھا گاڑی پر پانی بھرکر لاتی ہیں۔
گائوں کی35 میں سے صرف7 بچیاں اسکول جاتی ہیں، کیوںکہ اسکول یہاں سے7 کلومیٹر دور ہے اور چھوٹے بچے پیدل اتنا سفر نہیں کرپاتے۔ اس گائوں میں شوگر، یرقان اور دمے کا مرض، جب کہ بچوں میں ڈائریا کی شکایت پائی گئی۔ علاقہ مکینوں عثمان، عبدالرحمان، محمد حسن اور دیگر نے بتایا کہ یہاں گرد و نواح میں پانی، بجلی و دیگر سہولیات موجود ہیں لیکن ہمیں یہ کہہ کر سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے کہ ہمارے ووٹ اس علاقے میں درج نہیں۔ یہاں سے دو کلومیٹر آگے بچل برفت گوٹھ کی نصف سے زیادہ آبادی قحط کی وجہ سے نقل مکانی کرچکی ہے۔ یہاں کے مکینوں رمضان، زاہد علی، صدیق، مٹھا خان بتاتے ہیں کہ ذریعۂ آمدن مال مویشی اور بارانی زراعت پر ہے، جب کہ گذشتہ پانچ برسوں میں معمول سے بہت کم بارشیں ہوئی ہیں، جس کی وجہ سے قحط کی صورت حال ہے اور لوگوں کا جینا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ علاج معالجہ تو دور کی بات، یہاں تو پینے کا پانی بھی میسر نہیں اور اس مفلسی کی حالت میں بھی تین سے چار ہزار روپے کے حساب سے پانی کے ٹینکر خریدنے پڑتے ہیں۔ مکینوں نے شکایت کی ان کے لیے منظور شدہ اسٹریٹ لائیٹس مقامی سیاسی راہ نمائوں نے ہڑپ کرلی ہیں۔ نوندو برو اور علی محمد گوٹھ میں بھی یہی حالت دیکھنے میں آئی۔ 70 گھروں پر مشتمل اس گوٹھ کی آبادی 750 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کے لوگوں نے بتایا کہ زندگی اب بوجھ بن چکی ہے، طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے امسال6 عورتیں دوران زچگی ہلاک ہو چکی ہیں، تین ماہ قبل ہی یرقان کے باعث ایک عورت فوت ہوئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ اوائل سے ہی سندھ کی موجودہ حکم ران جماعت کو ووٹ دیتے آئے ہیں لیکن علاقے کی صورت حال پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ اس گائوں میں 15مرد اور 8 عورتیں میٹرک پاس ہیں۔ چھوٹی عمر کے تمام بچے گائوں کے اسکول میں زیرتعلیم ہیں، جب کہ ثانوی تعلیم کے لیے 10 کلومیٹر دور پٹھان خان گوٹھ جانا پڑتا ہے۔ پانی، بجلی، صحت اور آمد ورفت کی سہولیات کا فقدان یہاں کے اہم مسائل ہیں۔
گڈاپ شہر سے 28 کلومیٹر کے فاصلے پر سنیاسی گوٹھ قائم ہے۔1460نفوس پر مشتمل اس گائوں میں صحت کی صورت حال انتہائی خطرناک ہوچکی ہے۔ طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دو برسوں میں دوران حمل 12بچے اور2 خواتین ہلاک ہوچکی ہیں، جب کہ لوگ یرقان کے مرض میں مبتلا ہیں۔
گائوں میں پرائمری اسکول تو موجود ہے، لیکن خستہ حال۔ یہاں مختلف ہنر سکھانے کا تربیت مرکز بھی ہے لیکن غیرفعال۔ یہاں کے مقامی محمد حکیم، روشن، محمد جمن، علی اکبر نے بتایا کہ کوہستان میں معمول سے کم بارشیں ہو رہی ہیں، جس کے باعث زراعت اور مال مویشی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ضلعی انتظامیہ ملیر کی جانب سے قحط زدہ علاقوں میں پانی اور راشن تقسیم کیا گیا تھا، جس میں بڑے پیمانے پر گھپلے کیے گئے۔ ان کے مطابق ہر گھر میں مال مویشی کے لیے بھوسہ، کھڑ اور پینے کا پانی فراہم کیا جانا تھا، لیکن صرف شاہ راہ کے قریب تر اور من پسند لوگوں میں برائے نام راشن تقسیم کرکے باقی رقم ہڑپ کرلی گئی۔
نور محمد برفت اس علاقے کا ایک وسیع گوٹھ ہے، جس کے مکینوں میں سے ایک ماسٹر ڈگری، 5 گریجویٹ اور22 مرد اور 12خواتین انٹر پاس ہیں۔ یہاں کے پرائمری اسکول میں 110بچے زیر تعلیم ہیں۔ گائوں میں ڈسپینسری اور دست کاری مرکز بھی قائم لیکن پندرہ سال سے بند پڑے ہیں۔ گائوں کے مکین غلام نبی، منظور علی، بشیر احمد، میاں بخش اور اکبر نے بتایا کہ اس علاقے کی ابتر صورت حال کی ذمے دار صوبائی اور شہری حکومتیں ہیں۔ شہری حکومت کے دور میں پانی اور صحت سمیت ہر شعبے میں گڈاپ کے دیہاتی علاقوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ گڈاپ سے شمال مشرق کی جانب پچاس کلومیٹر کے فاصلہ پر میھن وسایو کانڑو گوٹھ کی حالت زار بھی دیگر کی طرح ہے۔
یہاں کی آبادی 340افراد پر مشتمل ہے جن میں سے ایک گریجویٹ، 10میٹرک اور 15 مرد انٹر پاس ہیں، جب کہ6خواتین بھی میٹرک پاس ہیں۔ گائوں کے پرائمری اسکول کی حالت اور کارکردگی بہتر نظر آئی، جب کہ واٹر پلانٹ اور دست کاری مرکز برسوں سے غیرفعال ہیں۔ یہاں کے مکینوں براد کانڑو، سلیمان، ہاشم و دیگر نے بتایا کہ تیزی سے پھیلتی بیماریوں نے زندگی اجیرن کردی ہے، پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونے کے باعث یرقان اور جلدی بیماریاں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ اسی پٹی پر دو کلومیٹر مغربی جانب تھوہر کانڑو گوٹھ ہے۔ یہاں پر پانی کے کنویں تو موجود ہیں، لیکن پانی مضر صحت ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں کے مکین محمد جعفر، جاوید، سجاد، مجاہد نے بتایا کہ یہاں پانی استعمال کرنے سے گردوں اور پیٹ کے امراض میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں کے پرائمری اسکول کی حالت بہتر تھی جب کہ ڈسپینسری اور دست کاری اسکول بند پڑے تھے۔
گڈاپ سے کنڈ جھنگ تک تقریبا 780 گائوں ہیں۔ تمام گوٹھوں کی حالت یک ساں بدتر ہے۔ یہاں کے لوگوں نے تجویز دی کہ اگر سنیاسی گوٹھ اور وان کنڈ کے مقام پر دو چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تو پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں مقام بلندی پر ہیں اور برساتی نالے یہاں سے گذرتے ہیں، اس لحاظ سے یہ جگہ ڈیم کے لیے بہت موزوں اور اس سے 8گوٹھوں کو باآسانی پانی فراہم ہو سکتا ہے۔ مقامی لوگوں نے مطالبہ کیا کہ یہاں پر پچاس سے زیادہ دست کاری اور مختلف ہنر سکھانے کے اسکول موجود ہیں جو بند پڑے ہیں، کیوںکہ یہاں پر مقرر تمام اساتذہ شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور یہاں پر روزانہ آنا یا یہاں پر قیام کرنا ان کے لیے ممکن نہیں، اس لیے یہاں کی خواندہ خواتین کو ہنر سکھانے والی تربیت گاہوں میں مقرر کیا جائے، جو کہ مقررہ تعلیمی قابلیت بھی رکھتی ہیں اور کوہستانی ہنر میں دست رس بھی۔
کیا ارباب اختیار اب کوئی اقدامات اٹھائیں گے، یہاں کے بے بس و لاچار مکین اس کے منتظر ہیں۔