پانامہ لیکس وفاقی حکومت کیخلاف ممکنہ احتجاجی تحریک پراپوزیشن تقسیم
پی پی،جماعت اسلامی کے بعد اے این پی اورمتحدہ کابھی تحریک سے عدم دلچسپی کا اظہار
پانامہ لیکس اسکینڈل پر وفاقی حکومت کے خلاف ممکنہ احتجاجی تحریک پر اپوزیشن جماعتیں تقسیم ہوگئی ہیں ۔ پیپلزپارٹی،جماعت اسلامی کے بعد عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم نے بھی اس احتجاجی تحریک کا حصہ بننے میں عدم دلچسپی کا اظہار کردیا ہے ۔
اہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک انصاف کی قیادت کو واضح کردیا گیا ہے کہ اس معاملے پرحکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں احتجاج کی پالیسی اختیار کی جائے گی اور کسی صورت میں ایسی تحریک کا عملی طور پر حصہ نہیں بناجائے گا جس سے جمہوری نظام ڈی ریل ہو نے کاخدشہ پیدا ہواور ملک میں امن وامان کی صورتحال خراب ہو ۔اس صورتحال کے سبب تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف شروع کی جانے والی ممکنہ احتجاجی تحریک آغاز سے قبل ہی سیاسی طور پر کمزور ہوگئی ہے ۔
اپوزیشن کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی ہدایت پر پارٹی کے رہنماشاہ محمودقریشی نے پانامہ لیکس اسکینڈل پر وفاقی حکومت کے خلاف ممکنہ احتجاجی تحریک میںشامل ہونے کے حوالے سے پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی ،مسلم لیگ (ق) ،عوامی لیگ اوردیگر جماعتوں سے رابطے کیے ہیں ۔پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کی قیادت کو واضح جواب دیا ہے کہ احتجاجی تحریک کے بجائے پارلیمنٹ میں حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے اپوزیشن مشترکہ حکمت عملی طے کرے ۔اگر حکومت اس معاملے پرتحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام پر راضی نہیں ہوتی تو پھر عوامی سطح پر احتجاج پرغور کیا جائے ۔پی ٹی آئی نے پی پی اور جماعت اسلامی کا موقف قبول کر نے سے معذرت کرلی ہے اور حکومت مخالف احتجاج کی پالیسی اختیار کر نے کا عندیہ دیا ہے ۔
اس صورتحال کے سبب اپوزیشن کی اہم جماعتیں پی پی اور جماعت اسلامی پارلیمنٹ کی حد تک کو پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں لیکن احتجاج میں شامل ہونے پر رضامند نہیں ہیں۔ایم کیو ایم اور اے این پی کی قیادت بھی پی ٹی آئی کے حکومت مخالف احتجاج اور گرینڈ اپوزیشن الائنس کا حصہ بنے میں فی الحال دلچسپی نہیں رکھتی ہیں ۔اس صورتحال کے سبب تحریک انصاف کی قیادت پریشان ہوگئی ہے اور پی ٹی آئی کی قیادت نے دوبارہ اپوزیشن سے رابطوں کا عندیہ دیا ہے ۔پی ٹی آئی کی قیادت اس بات پرغور کررہی ہے رائے ونڈ پر حکومت کیخلاف دھرنا دینے کے بجائے صرف احتجاج کیا جائے ۔تاہم اس کا حتمی فیصلہ عمران خان کے دورہ لندن سے وطن واپسی کے بعد کیا جائے گا ۔
اہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک انصاف کی قیادت کو واضح کردیا گیا ہے کہ اس معاملے پرحکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں احتجاج کی پالیسی اختیار کی جائے گی اور کسی صورت میں ایسی تحریک کا عملی طور پر حصہ نہیں بناجائے گا جس سے جمہوری نظام ڈی ریل ہو نے کاخدشہ پیدا ہواور ملک میں امن وامان کی صورتحال خراب ہو ۔اس صورتحال کے سبب تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف شروع کی جانے والی ممکنہ احتجاجی تحریک آغاز سے قبل ہی سیاسی طور پر کمزور ہوگئی ہے ۔
اپوزیشن کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی ہدایت پر پارٹی کے رہنماشاہ محمودقریشی نے پانامہ لیکس اسکینڈل پر وفاقی حکومت کے خلاف ممکنہ احتجاجی تحریک میںشامل ہونے کے حوالے سے پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی ،مسلم لیگ (ق) ،عوامی لیگ اوردیگر جماعتوں سے رابطے کیے ہیں ۔پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کی قیادت کو واضح جواب دیا ہے کہ احتجاجی تحریک کے بجائے پارلیمنٹ میں حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے اپوزیشن مشترکہ حکمت عملی طے کرے ۔اگر حکومت اس معاملے پرتحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام پر راضی نہیں ہوتی تو پھر عوامی سطح پر احتجاج پرغور کیا جائے ۔پی ٹی آئی نے پی پی اور جماعت اسلامی کا موقف قبول کر نے سے معذرت کرلی ہے اور حکومت مخالف احتجاج کی پالیسی اختیار کر نے کا عندیہ دیا ہے ۔
اس صورتحال کے سبب اپوزیشن کی اہم جماعتیں پی پی اور جماعت اسلامی پارلیمنٹ کی حد تک کو پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں لیکن احتجاج میں شامل ہونے پر رضامند نہیں ہیں۔ایم کیو ایم اور اے این پی کی قیادت بھی پی ٹی آئی کے حکومت مخالف احتجاج اور گرینڈ اپوزیشن الائنس کا حصہ بنے میں فی الحال دلچسپی نہیں رکھتی ہیں ۔اس صورتحال کے سبب تحریک انصاف کی قیادت پریشان ہوگئی ہے اور پی ٹی آئی کی قیادت نے دوبارہ اپوزیشن سے رابطوں کا عندیہ دیا ہے ۔پی ٹی آئی کی قیادت اس بات پرغور کررہی ہے رائے ونڈ پر حکومت کیخلاف دھرنا دینے کے بجائے صرف احتجاج کیا جائے ۔تاہم اس کا حتمی فیصلہ عمران خان کے دورہ لندن سے وطن واپسی کے بعد کیا جائے گا ۔