پانی پانی ہر طرف لیکن…

ہمارا اصل مسئلہ آبادی میں اضافے کا ہے‘ میں نے یہ بات نوبل انعام جیتنے والے ایک امریکی سے کہی۔

WASHINGTON:
ہمارا اصل مسئلہ آبادی میں اضافے کا ہے' میں نے یہ بات نوبل انعام جیتنے والے ایک امریکی سے کہی۔ لیکن اس نے میری بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ تمہارا اصل مسئلہ جو پیدا ہونے والا ہے وہ پانی کا ہے۔ ہم ان مسائل پر بات چیت کر رہے تھے جس سے بھارت آنے والے وقتوں میں دو چار ہونے والا ہے لیکن کافی لمبی بحث و تمحیص کے باوجود ہمارے خیالات آپس میں نہ مل سکے۔

مہاراشٹر کی طرح لاتور بھی ایک خوشحال ریاست ہے۔ جہاں ہونے والے حالیہ واقعے سے اس امریکی کی تشویش کی تصدیق ہو گئی۔ وہاں پودوں اور گملوں کو ایک قطار میں رکھ دیا گیا تا کہ انھیں ایک ٹینکر کے ذریعے پانی دیا جا سکے اور اس مقصد کے لیے وہاں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی جس سے مجھے اس امریکی کا انتباہ یاد آ گیا۔ اس امریکی نے اس مسئلے کا ایک روشن پہلو بھی بیان کیا تھا کہ جمنا اور گنگا کے میدان کے نیچے صاف پانی کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پانی کو استعمال کے لیے باہر نکالا جائے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آیا واقعی یہ حقیقت ہے اور اگر ہے تو حکومت کو سائنسی بنیادوں پر اس معاملے کی اسٹڈی کرانی چاہیے تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ اس پانی کی مقدار کتنی ہے اور اسے کس طرح استعمال میں لایا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے میں نے ایسی بات کبھی نہیں سنی تھی۔

مہاراشٹر میں اس سال پانی کی بہت زیادہ قلت پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ بھارت کی زیادہ تر ریاستوں کا انحصار مون سون کی بارشوں پر ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم آسمان کی طرف بھی نظر رکھیں تا کہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ کالے بادل کس طرف ہیں اور وہ کب ہماری فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے بارش برسائیں گے۔ پنجاب اور ہماچل پردیش میں بھاکڑا ڈیم کے ذریعے نہ صرف دونوں ریاستوں کو بلکہ ہریانہ کو بھی اس ڈیم کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے۔ بھارت کے اولین وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے بھاکڑا ڈیم کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ڈیم ایک مندر کی مانند مقدس ہے۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ بھارت کے روایتی مندر بھی مقدس ہیں لیکن وقت کی ضرورت ہے کہ اب ملک میں نئے نئے ڈیم بنائے جائیں جو نہ صرف آبپاشی کی ضروریات پوری کریں گے بلکہ ملک کی صنعتی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کریں گے جو کہ اقتصادی ترقی کی بنیاد ہے۔

جہاں تک بھاکڑا ڈیم کا تعلق ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ ڈیم پورے ملک کی آبادی کو پانی فراہم کر سکتا ہے۔ ایک اور نہایت اہم بات یہ ہے کہ بڑے ڈیم نہیں بنانے چاہیئں کیونکہ ان کی وجہ سے بڑی تعداد میں عوام کو ان کے آبائی علاقوں سے بے دخل ہونا پڑتا ہے گھر بار اور اراضی چھوڑنا پڑتی ہے اور ان کی بحالی کا کام بہت کٹھن اور بہت لمبی مدت والا ہوتا ہے۔

چنانچہ اس کے بجائے بہتر یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں وہ زیادہ بہتر انداز میں پانی کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور زیادہ بڑی آبادی کو بھی بے گھر ہونا نہیں پڑتا۔ یہ دانشمندانہ مشورہ معروف خاتون سماجی کارکن ''مدھا پٹکار'' نے دریائے نرمدا پر ڈیم کی تعمیر کے خلاف عوامی احتجاج کے موقع پر دیا تھا لیکن اس کی بات نہ مانی گئی حالانکہ اسے حکومت اور آبی وسائل کے وزیر سیف الدین سوز کی مکمل حمایت بھی حاصل تھی جن کا کہنا تھا مذکورہ ڈیم کی تعمیر سے جس قدر زیادہ تعداد میں لوگوں کا نقصان ہو گا اسے کے مقابلے میں ڈیم سے ہونے والا فائدہ کہیں کم ہو گا کیونکہ یہاں طویل عرصے سے رہائش پذیر افراد کو اپنے آبائی علاقوں سے نکلنا پڑے گا۔

تاہم اس کے باوجود کئی سال بعد وہیں وہ ڈیم بنا دیا گیا کیونکہ ریاست گجرات نے تحریری طور پر وعدہ کیا کہ بے گھر ہونے والے تمام کاشتکاروں کو اس ریاست میں زرعی اراضی فراہم کی جائے گی مگر یہ الگ بات ہے کہ ریاست گجرات اپنے وعدے کو پورا نہ کر سکی کیونکہ اس ریاست کے پاس اتنی فالتو زمین ہی نہ تھی کہ وہ سب کو دے سکتی۔


واضح رہے بھارت میں سات بڑے دریا بہتے ہیں جن میں گنگا' برہم پتر' انڈس (سندھ) نرمدا' کرشنا' گوداوری اور گویری شامل ہیں۔ جب کہ مذکورہ دریاؤں کی ذیلی شاخوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ نئی دہلی حکومت نے پانی بجلی کا ایک مرکزی کمیشن قائم کیا جس کے تحت پانی کے ذخیرہ کرنے اور بجلی کی تیاری کے لیے ایک باضابطہ منصوبہ تیار کیا گیا۔ اگرچہ اس منصوبے پر بڑی حد تک کامیابی کے ساتھ عملدرآمد کیا گیا ہے مگر اس کے باوجود ملک کے مختلف علاقوں میں بہت خطرناک جھگڑے بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور کئی عشرے گزرنے کے باوجود وہ تنازعے ابھی تک حل نہیں کیے جا سکے۔

اس پر مستزاد یہ کہ ان جھگڑوں کیوجہ سے کئی ریاستوں کے مابین بہت تلخی پیدا ہو چکی ہے۔ مثال کے طور پر دریائے گویری کے پانی کی تقسیم کے جھگڑے نے کرناٹک اور تامل ناڈو میں خطرناک جنگ جیسی کیفیت پیدا کر رکھی ہے جو کہ کئی سال سے جاری ہے حالانکہ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دے رکھا ہے کہ تامل ناڈو کو اتنی مقدار میں پانی لازماً جاری کیا جائے۔ علاوہ ازیں پنجاب نے راجستھان کے لیے پانی جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے حالانکہ نئی دہلی نے سندھ طاس معاہدے کے موقع پر جو موقف اختیار کیا تھا پنجاب کی طرف سے راجستھان کو پانی کی فراہمی سے انکار اس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

سندھ طاس معاہدے کے موقع پر تمام فریقوں نے ورلڈ بینک کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ معاہدے کی تمام شقوں پر حرف بحرف عمل کریں گے۔ واضح رہے ورلڈ بینک کے زیر اہتمام ہونے والے اس معاہدے میں مختلف ڈیمز کی تعمیر کے اخراجات بھی ورلڈ بینک نے فراہم کیے تھے لیکن راجستھان کے صحرا کو سیراب کرنے کے لیے بہت زیادہ پانی درکار تھا یہی وجہ ہے کہ پنجاب اتنا زیادہ پانی دینے کے لیے آمادہ نہیں ہو رہا۔ راجستھان نے اس جھگڑے میں نئی دہلی کی مرکزی حکومت سے اپنے حق میں فیصلہ بھی حاصل کر لیا مگر اس کے باوجود اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ اس وجہ سے ورلڈ بینک نے بھارت کا یہ موقف تسلیم کر لیا ہے کہ وہ پاکستان کو بھی اس کے حصے کا پورا پانی نہیں دے سکتا کیونکہ اس نے اپنے صحرائی علاقوں میں آبپاشی کرنی ہے۔

بھارت کا یہ موقف ہے کہ اگر وہ راجستھان کے صحرائی علاقوں کو سیراب کرنے کے لیے پانی جاری کر دے تو پنجاب اور ہریانہ میں جن زمینوں کو پانی دیا جا رہا ہے اور جہاں کاشتکاری ہو رہی ہے وہ علاقے بنجر ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں پانی کی تقسیم کے معاملے پر جھگڑے پیدا ہو رہے ہیں اور آزادی کے 70 سال بعد بھی یہ جھگڑے ختم ہونے کے بجائے ان میں مزید شدت پیدا ہو رہی ہے۔ جب کانگریس پارٹی کی مرکز کے ساتھ ریاستوں میں بھی حکومت تھی اس وقت اس مسئلے نے اتنی خطرناک شکل اختیار نہیں کی تھی۔ اس وقت بی جے پی کے پاس لوک سبھا کی محض چند نشستیں تھیں لہٰذا اس پارٹی کی اس زمانے میں کوئی حیثیت نہیں تھی لیکن آج منظرنامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ آج نہ صرف پارلیمنٹ میں بی جے پی کی اکثریت ہے بلکہ مرکز میں حکومت بھی اس کی ہے چنانچہ اس کی پالیسی یہ ہے کہ جن ریاستوں پر اس کی حکومت ہے انھیں زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جائے خواہ اس میں اصول اور قواعد کچھ بھی کہتے ہوں۔

وزیراعظم نریندر مودی نے لال قلعے دہلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی حکومت مختلف ریاستوں یا مختلف سیاسی جماعتوں کے بارے میں کوئی امتیازی رویہ اختیار نہیں کرے گی لیکن وزیراعظم کی یہ بات زمینی حقائق کے مطابق سچ نہیں ہے کیونکہ کانگریس پارٹی جو اس وقت اپوزیشن میں ہے وہ پارلیمنٹ کو کام نہیں کرنے دے رہی۔ راجیہ سبھا کے اجلاس ایک طویل مدت تک ملتوی ہوتے رہے کیونکہ ایوان کے اندر سیاسی پارٹیوں کی چپقلش بہت بڑھ گئی تھی اس صورت حال میں یہ توقع ہی کی جا سکتی ہے کہ تمام پارٹیاں اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے ایوان کی کارکردگی میں خوامخواہ کی رکاوٹ نہیں ڈالیں گی اور کوئی جھگڑا پارلیمنٹ کی کارکردگی میں رخنہ اندازی نہیں کرے گا۔

(ترجمہ : مظہر منہاس)
Load Next Story