یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے۔۔۔۔۔ مقام و لطافتِ سجدود
عالم بالا پر معبود و عبدِ خاص کے درمیان جو راز و نیاز کے مراحل طے ہوئے انسانی تخیل ان کا احاطہ کرنے سے عاجز ہے۔
محسنِ انسانیت، پیشوائے عرشیاں، راہ نمائے خاکیاں، امام الانبیاء آقا و مولا حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کو بارگاہِ خداوندی سے جتنی بھی عظمتیں اور رفعتیں عطا ہوئیں، ان میں واقعۂ معراج ایک ایسا عظیم الشان اور لامثال مرتبہ ہے، جس کے گرد کائنات بھر کی رفعتیں ہالہ کیے ہوئے ہیں۔ حضور ﷺ کو یہ مرتبہ و شرف مع الجسد بخشا گیا۔
عالم بالا پر معبود و عبدِ خاص کے درمیان جو راز و نیاز کے مراحل طے ہوئے انسانی تخیل ان کا احاطہ کرنے سے عاجز ہے۔ بارگاہِ خداوندی سے حضورِ سرورعالم ﷺ کو جب یہ ارتفاع بخشا گیا تو اس محسنِ انسانیت ﷺ نے یقینا اپنے قلبِ اقدس میں یہ آرزو پیدا کی ہوگی کہ میری امت (جسے قرآن خیرالامم کے نام سے یاد کرتا ہے) کو بھی کوئی ایسا اعزاز و امتیاز ضرور بخشا جائے جو اسے دیگر اقوام و ملل سے ممیز کرتا ہو۔
خلاقِ دوجہاں کو اپنے اس محبوب بندے ﷺ (جسے بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کا مقام حاصل ہے) کی یہ آرزو اتنی دل پذیر معلوم ہوئی کہ اس نے حضوری کے وقت سرکارؐ کو ایک ایسا انمول اور گراں بہا تحفہ عطا کیا جسے '' نماز'' کہا جاتا ہے۔
یوں تو قربِ خداوندی کی یہ علامت ساری کی ساری گداز و وجد آفرین ہوتی ہے، مگر اس میں مقام سجدہ میں جو لطافت اور حلاوت پائی جاتی ہے، لسانِ آدمیت اور نوکِ قلم اس کے بیان سے عاجز ہے۔ مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ بندۂ خدا عجز و مسکنت سے سرشار ہو۔ وضو کرتے وقت دنیاوی آلائشیں اور کثافتیں دھلنا شروع ہوجاتی ہیں اور عالم ِ روحانیت غالب آنا شروع ہوجاتا ہے اور رقیق القلبی کے آثار ہویدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ وضو کے بعد فوراً مادی خواہشات سے بُعد کا آغاز ہو جاتا ہے اور اگر انسان فی الواقع مقامِ عجز سے آشنا ہو تو بقائے حیات کے لیے صاحب ِنان ِجویںؐ کی تقلید کی تمنا کا آغاز ہوجاتا ہے۔
جوں ہی بندہ بارگاہِ کبریا میں حاضری کے لیے کانوں تک ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ جلالِ کبریا جو اپنے بندے کے معاصی پر خشم ناک ہو تا ہے، اس کی ترشح بارانِ رحمت کی صورت شروع ہو جاتی ہے۔ پھر ملائکہ کو حکم ہوتا ہے کہ تخلیق آدم پر اعتراض کرنے والو! دیکھو میرا بندہ کس احساس ِ ندامت سے میری بارگاہ میں حاضر ہے۔ ہاتھ باندھنے کے بعد مدح و توصیفِ قسامِ ازل کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جوں جوں انسان مدح رب ِ ذوالجلال میں غایت پیدا کرتا جاتا ہے، رحمت ِخالقِ ارض و سما عالم بالا سے عالم امکان کی جانب بڑھتی چلی آتی ہے۔ اس کے بعد رکوع کی صورت میں بندہ اپنے سر کو جھکا کر اپنی درماندگی کا اظہار شروع کر دیتا ہے۔ مسرت و انبساط ِ ربِ لایزال میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ عبد و معبود کے درمیان فاصلے سمٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔
رکوع کے بعد انسان ایک بار پھر سیدھا کھڑا ہوتا ہے، اب قربت ِخدائے بزرگ و برتر کی انتہا شروع ہوجاتی ہے۔ جوں ہی انسان کا وہ سر جس میں ہوائے کبر و غرور اور سرکشی کا خنّاس سمایا ہوا ہوتا ہے، وہ سر جس میں خواہشات ِ نفس کی تقلید کی آرزو کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے، وہ سر جو مادیت کا مسکن بننے کے ذوق سے معمور ہوتا ہے، وہ سر جس میں قتل و غارت گری کے بہیمانہ منصوبے جنم لیتے ہیں، وہ سر جو طغیان و عصیاں پروری میں فخر و مباہات محسوس کرتا ہے، جب سجدے میں توصیف ِ خدا وندی میں مصروف ہوتا ہے تو اﷲ کی عنایات و برکات کا ایسا نزول شروع ہوتا ہے، جسے اہل دل و نگاہ ہی محسوس کرسکتے ہیں۔
جو خوش بخت حضوری کے مقام پر فائز ہوتے ہیں، وہ ان لمحات کی لذت کے مسلسل حصول اور اس تمنا کی تکمیل کے لیے سجدے کو اتنی طوالت دیتے ہیں کہ کاش اس حضوری اور عالم ِ خود رفتگی میں طائر روح قفسِ عنصری سے پرواز کرجائے، تاکہ رضائے خداوندی کی انتہا حاصل ہوجائے۔ پوری نماز میں مقام ِ سجدہ ہی نیاز و ناز کا آموختہ ہوتا ہے۔ مقام سجدہ ہی انسانی بصارت میں کیف آفرینی پیدا کرتا ہے۔ مقام ِ سجدہ ہی اہل خرد کو بحر توحید میں غوطہ زنی کا جنون عطا کرتا ہے۔ مقام ِسجدہ ہی رموزِ قرآنی اور بعثت ِ صاحب ِ قرآن ﷺ کے مقاصد سے آشنا کرتا ہے۔ مقام ِسجدہ ہی روح ِبلالی اور ذوق ِشبّیری پیدا کرتا ہے۔ مقامِ سجدہ ہی نوع بشر کو بندوں کی غلامی سے نجات بخشنے اور اس ذاتِ بے ہمتا کی بارگاہ میں لے جانے کے لیے توانائی بخشتا ہے، جسے ہر قسم کی سروری زیبا ہے ۔ مقام سجدہ ہی نمرودان ِوقت سے بغاوت کا جذبہ عطا کرتا ہے۔
مقام سجدہ ہی عرفان ِخودی اور اﷲ تعالیٰ سے ارتباط پیدا کرتا ہے۔ مقام سجدہ ہی جبین ِانسانیت کو تابش عطا کرتا ہے۔ مقام سجدہ ہی بحر نیاز مندی میں غوطہ زنی کے لیے بے قرار کرتا ہے۔ مقام سجدہ ہی دل میں کسک اور آنکھوں کو نمی کی دولت سے آشا کرتا ہے۔ مقام سجدہ ہی ہیروں اور جواہرات کے متلاشیوں کو ذرات ِ خاک ِ بطحا سے محبت کا درس دیتا ہے۔ مقام سجدہ ہی سرور و کیف و مستیِ صہبائے ناب سے نفرت کی تعلیم دیتا ہے۔ مقام سجدہ ہی شیوہِ رندی اپنانے کی بجائے شعارِ پارسائی کی طرف لے جاتا ہے۔ مقام سجدہ ہی دل کی ارض ِ مقدس کو بتانِ عصرِحاضر سے یک سر پاک کردیتا ہے۔ مقام سجدہ ہی ثروت ِحمیت سے مالا مال کرتا ہے۔ مقام سجدہ ہی عنایات ِ خداوندی کی برسات کا مظہر ہوتا ہے۔
مقام سجدہ ہی باغِ جنت کے گلابوں کی شمیم انگیزیوں سے مشامِ جاں کو معطر کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس میں انکسار کو رفعتِ دارین ، بے قراری اور تذبذب کو دولت ِ تسکین، شب ِ تار الست کو اجالا سحر، ذوقِ بندگی کو لطفِ سرمدی، ضمیر ِوجدان کو نغمگی، زندگی کو شعور وارفتگی، اور عالم ِ بشریت کو ملائکہ کے اندازِ عبادت کی خلعت ِ فاخرہ پہناتا ہے۔ جو خوش مقدر اس مقام کی حلاوت سے آگاہ ہوتے ہیں وہ سر جھکا کر اٹھانے کی آرزو نہیں کرتے، وہ اسی میں اپنی کائنات ِ دل و جاں کی امان محسوس کرتے ہیں۔ یہی لطف ِ سجدہ انہیں بار بار خانۂ خدا کی طرف کشاں کشاں لے آتا ہے۔ وہ اس جذبے کے حصول میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں اور اہل دل جسے محبت کا نام دیتے ہیں۔
حضور سرور عالم ﷺ نے جب کبھی مصائب و مشکلات کے عالم میں استمداد کے لیے اپنے خالق کے حضور دست ِدعا بلند فرمائے تو پہلے طویل سجدے کیے۔ مقامِ سجدہ کی افادیت اور اس کے حیات بخش مناظر کے اثرات اس وقت سامنے آئیں گے جب آقائے گیتی پناہ ﷺ مقام محمود پر جلوہ افروز ہوکر سر اقدس بارگاہِ الوہیت میں جھکائیں گے۔ وہ سجدہ اتنا باکمال و لازوال اور اتنا عظیم الشان و بے مثال اور اتنا وجد آفریں ہوگا کہ جلال کبریا بے ساختہ مسکرا اٹھے گا اور رضائے حبیب ﷺ پوچھی جائے گی۔ راحت ِ قلب ِکائنات ﷺ امت کی بخشش کے امکان کی درخواست فرمائیں گے۔
رب ِکائنات کو وہ سجدہ ِ مصطفی ﷺ اتنا عزیز ہوگا کہ حضور کے مدعا کو رضا کا شرف بخشا جائے گا۔ اس لیے اے فرزندانِ اسلام اور فدایان ِرسالت ﷺ، آئیں نجات ِ اخروی کے حصول کے لیے اپنے خالق و مالک کے حضور سر بہ سجود ہوجائیں، یقینا خدا کی رحمت جوش میں آئے گی اور سامان ِ نجات پیدا ہوجائے گا۔
عالم بالا پر معبود و عبدِ خاص کے درمیان جو راز و نیاز کے مراحل طے ہوئے انسانی تخیل ان کا احاطہ کرنے سے عاجز ہے۔ بارگاہِ خداوندی سے حضورِ سرورعالم ﷺ کو جب یہ ارتفاع بخشا گیا تو اس محسنِ انسانیت ﷺ نے یقینا اپنے قلبِ اقدس میں یہ آرزو پیدا کی ہوگی کہ میری امت (جسے قرآن خیرالامم کے نام سے یاد کرتا ہے) کو بھی کوئی ایسا اعزاز و امتیاز ضرور بخشا جائے جو اسے دیگر اقوام و ملل سے ممیز کرتا ہو۔
خلاقِ دوجہاں کو اپنے اس محبوب بندے ﷺ (جسے بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کا مقام حاصل ہے) کی یہ آرزو اتنی دل پذیر معلوم ہوئی کہ اس نے حضوری کے وقت سرکارؐ کو ایک ایسا انمول اور گراں بہا تحفہ عطا کیا جسے '' نماز'' کہا جاتا ہے۔
یوں تو قربِ خداوندی کی یہ علامت ساری کی ساری گداز و وجد آفرین ہوتی ہے، مگر اس میں مقام سجدہ میں جو لطافت اور حلاوت پائی جاتی ہے، لسانِ آدمیت اور نوکِ قلم اس کے بیان سے عاجز ہے۔ مگر اس کے لیے شرط یہ ہے کہ بندۂ خدا عجز و مسکنت سے سرشار ہو۔ وضو کرتے وقت دنیاوی آلائشیں اور کثافتیں دھلنا شروع ہوجاتی ہیں اور عالم ِ روحانیت غالب آنا شروع ہوجاتا ہے اور رقیق القلبی کے آثار ہویدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ وضو کے بعد فوراً مادی خواہشات سے بُعد کا آغاز ہو جاتا ہے اور اگر انسان فی الواقع مقامِ عجز سے آشنا ہو تو بقائے حیات کے لیے صاحب ِنان ِجویںؐ کی تقلید کی تمنا کا آغاز ہوجاتا ہے۔
جوں ہی بندہ بارگاہِ کبریا میں حاضری کے لیے کانوں تک ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ جلالِ کبریا جو اپنے بندے کے معاصی پر خشم ناک ہو تا ہے، اس کی ترشح بارانِ رحمت کی صورت شروع ہو جاتی ہے۔ پھر ملائکہ کو حکم ہوتا ہے کہ تخلیق آدم پر اعتراض کرنے والو! دیکھو میرا بندہ کس احساس ِ ندامت سے میری بارگاہ میں حاضر ہے۔ ہاتھ باندھنے کے بعد مدح و توصیفِ قسامِ ازل کا آغاز ہوجاتا ہے۔ جوں جوں انسان مدح رب ِ ذوالجلال میں غایت پیدا کرتا جاتا ہے، رحمت ِخالقِ ارض و سما عالم بالا سے عالم امکان کی جانب بڑھتی چلی آتی ہے۔ اس کے بعد رکوع کی صورت میں بندہ اپنے سر کو جھکا کر اپنی درماندگی کا اظہار شروع کر دیتا ہے۔ مسرت و انبساط ِ ربِ لایزال میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ عبد و معبود کے درمیان فاصلے سمٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔
رکوع کے بعد انسان ایک بار پھر سیدھا کھڑا ہوتا ہے، اب قربت ِخدائے بزرگ و برتر کی انتہا شروع ہوجاتی ہے۔ جوں ہی انسان کا وہ سر جس میں ہوائے کبر و غرور اور سرکشی کا خنّاس سمایا ہوا ہوتا ہے، وہ سر جس میں خواہشات ِ نفس کی تقلید کی آرزو کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے، وہ سر جو مادیت کا مسکن بننے کے ذوق سے معمور ہوتا ہے، وہ سر جس میں قتل و غارت گری کے بہیمانہ منصوبے جنم لیتے ہیں، وہ سر جو طغیان و عصیاں پروری میں فخر و مباہات محسوس کرتا ہے، جب سجدے میں توصیف ِ خدا وندی میں مصروف ہوتا ہے تو اﷲ کی عنایات و برکات کا ایسا نزول شروع ہوتا ہے، جسے اہل دل و نگاہ ہی محسوس کرسکتے ہیں۔
جو خوش بخت حضوری کے مقام پر فائز ہوتے ہیں، وہ ان لمحات کی لذت کے مسلسل حصول اور اس تمنا کی تکمیل کے لیے سجدے کو اتنی طوالت دیتے ہیں کہ کاش اس حضوری اور عالم ِ خود رفتگی میں طائر روح قفسِ عنصری سے پرواز کرجائے، تاکہ رضائے خداوندی کی انتہا حاصل ہوجائے۔ پوری نماز میں مقام ِ سجدہ ہی نیاز و ناز کا آموختہ ہوتا ہے۔ مقام سجدہ ہی انسانی بصارت میں کیف آفرینی پیدا کرتا ہے۔ مقام ِ سجدہ ہی اہل خرد کو بحر توحید میں غوطہ زنی کا جنون عطا کرتا ہے۔ مقام ِسجدہ ہی رموزِ قرآنی اور بعثت ِ صاحب ِ قرآن ﷺ کے مقاصد سے آشنا کرتا ہے۔ مقام ِسجدہ ہی روح ِبلالی اور ذوق ِشبّیری پیدا کرتا ہے۔ مقامِ سجدہ ہی نوع بشر کو بندوں کی غلامی سے نجات بخشنے اور اس ذاتِ بے ہمتا کی بارگاہ میں لے جانے کے لیے توانائی بخشتا ہے، جسے ہر قسم کی سروری زیبا ہے ۔ مقام سجدہ ہی نمرودان ِوقت سے بغاوت کا جذبہ عطا کرتا ہے۔
مقام سجدہ ہی عرفان ِخودی اور اﷲ تعالیٰ سے ارتباط پیدا کرتا ہے۔ مقام سجدہ ہی جبین ِانسانیت کو تابش عطا کرتا ہے۔ مقام سجدہ ہی بحر نیاز مندی میں غوطہ زنی کے لیے بے قرار کرتا ہے۔ مقام سجدہ ہی دل میں کسک اور آنکھوں کو نمی کی دولت سے آشا کرتا ہے۔ مقام سجدہ ہی ہیروں اور جواہرات کے متلاشیوں کو ذرات ِ خاک ِ بطحا سے محبت کا درس دیتا ہے۔ مقام سجدہ ہی سرور و کیف و مستیِ صہبائے ناب سے نفرت کی تعلیم دیتا ہے۔ مقام سجدہ ہی شیوہِ رندی اپنانے کی بجائے شعارِ پارسائی کی طرف لے جاتا ہے۔ مقام سجدہ ہی دل کی ارض ِ مقدس کو بتانِ عصرِحاضر سے یک سر پاک کردیتا ہے۔ مقام سجدہ ہی ثروت ِحمیت سے مالا مال کرتا ہے۔ مقام سجدہ ہی عنایات ِ خداوندی کی برسات کا مظہر ہوتا ہے۔
مقام سجدہ ہی باغِ جنت کے گلابوں کی شمیم انگیزیوں سے مشامِ جاں کو معطر کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جس میں انکسار کو رفعتِ دارین ، بے قراری اور تذبذب کو دولت ِ تسکین، شب ِ تار الست کو اجالا سحر، ذوقِ بندگی کو لطفِ سرمدی، ضمیر ِوجدان کو نغمگی، زندگی کو شعور وارفتگی، اور عالم ِ بشریت کو ملائکہ کے اندازِ عبادت کی خلعت ِ فاخرہ پہناتا ہے۔ جو خوش مقدر اس مقام کی حلاوت سے آگاہ ہوتے ہیں وہ سر جھکا کر اٹھانے کی آرزو نہیں کرتے، وہ اسی میں اپنی کائنات ِ دل و جاں کی امان محسوس کرتے ہیں۔ یہی لطف ِ سجدہ انہیں بار بار خانۂ خدا کی طرف کشاں کشاں لے آتا ہے۔ وہ اس جذبے کے حصول میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں اور اہل دل جسے محبت کا نام دیتے ہیں۔
حضور سرور عالم ﷺ نے جب کبھی مصائب و مشکلات کے عالم میں استمداد کے لیے اپنے خالق کے حضور دست ِدعا بلند فرمائے تو پہلے طویل سجدے کیے۔ مقامِ سجدہ کی افادیت اور اس کے حیات بخش مناظر کے اثرات اس وقت سامنے آئیں گے جب آقائے گیتی پناہ ﷺ مقام محمود پر جلوہ افروز ہوکر سر اقدس بارگاہِ الوہیت میں جھکائیں گے۔ وہ سجدہ اتنا باکمال و لازوال اور اتنا عظیم الشان و بے مثال اور اتنا وجد آفریں ہوگا کہ جلال کبریا بے ساختہ مسکرا اٹھے گا اور رضائے حبیب ﷺ پوچھی جائے گی۔ راحت ِ قلب ِکائنات ﷺ امت کی بخشش کے امکان کی درخواست فرمائیں گے۔
رب ِکائنات کو وہ سجدہ ِ مصطفی ﷺ اتنا عزیز ہوگا کہ حضور کے مدعا کو رضا کا شرف بخشا جائے گا۔ اس لیے اے فرزندانِ اسلام اور فدایان ِرسالت ﷺ، آئیں نجات ِ اخروی کے حصول کے لیے اپنے خالق و مالک کے حضور سر بہ سجود ہوجائیں، یقینا خدا کی رحمت جوش میں آئے گی اور سامان ِ نجات پیدا ہوجائے گا۔