انڈونیشیا کی بارش بلانے والے بلا لیں
ہر طرف گہرے بادل گھرے ہوئے تھے اور ہم سامنے سے آتی بارش کو دیکھ سکتے تھے۔
ہر طرف گہرے بادل گھرے ہوئے تھے اور ہم سامنے سے آتی بارش کو دیکھ سکتے تھے۔ بارش ہمارا پورا دن اور فوٹو گرافی کے لیے لگایا گیا تمام سیٹ اپ ضایع کرسکتی تھی مگر ہم ذرا بھی جو پریشان ہوں۔ میں نے ادھر اُدھر نظر دوڑائی تو سب سے الگ تھلگ اپنے اسسٹنٹ کے ساتھ کھڑے Rain Maker کو دیکھ لیا جس کے ہونٹ مسلسل ہل رہے تھے۔ 2006 میں، میں دوسری بار اپنی کمپنی کی فوٹو گرافی کے لیے انڈونیشیا گیا تھا اور جانتا تھا کہ اس کام کے لیے برسات بھرے انڈونیشیا میں Rain Makersکتنے ضروری ہیں۔
یکایک عین ہمارے سروں کے اوپر موجود بادلوں نے ایک نیم دائرے کی شکل میں پیچھے ہٹنا شروع کردیا اور اس دائرے میں سے سورج کی کرنیں مستطیل دھاروں کی صورت میں ہم پر برسنا شروع ہوگئیں جب کہ ہم کچھ ہی دور اپنے چاروں طرف جاری بارش بھی دیکھ سکتے تھے۔ یہ بہت کم ہی ہوتا ہے کہ رین میکر اپنے کام میں ناکام ہوجائیں اور عموماً ناکامی کی وجہ اسی علاقے میں ایک اور رین میکر کی موجودگی ہوتی ہے۔ رین میکرز کی اپنی ایک فیس ہوتی ہے اور وہ صرف بارش کو ہٹاتے ہی نہیں بلکہ بلاتے بھی ہیں اور یہ دونوں کام وہ قرآن کریم کا کلام پاک پڑھ کر خداوند رحیم کی رحمت سے کرتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی NGO، مخیر ادارہ یا اشخاص انڈونیشیا سے چند رین میکرز کو بارش سے محروم تباہ حال لاوارث کراچی کے بیابان میں بارش کی دعا کے لیے کچھ عرصے کے لیے بلالیں۔
ویسے صرف بارش ہی نہیں بلکہ ہم اور بھی کئی شعبوں میں انڈونیشیا سے بڑے کام کی مدد حاصل کرسکتے ہیں مثلاً (1)۔جس مہارت اور کامیابی سے انڈونیشیا نے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی پہ قابو پایا کہ یکم اکتوبر 2005 کے بالی بم دھماکوں کے بعد دہشت گرد اس سطح کی کارروائی نہ کرسکے۔(2)۔14 ہزار سے زائد جزیروں، 34 صوبوں،300 نسلی گروہوں ، 737 زبانوں، اسلام، عیسائیت، ہندو اور بدھ ازم اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ساڑھے پچیس کروڑ لوگوں کے اس عظیم ملک سے ہم مذہبی، لسانی اور نسلی رواداری اور برداشت بھی سیکھ سکتے ہیں۔
(3)۔87.18 فیصد مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والے اس ملک میں کامیاب فیملی پلاننگ سے سالانہ شرح پیدائش 1980 میں 2.39 فیصد سے کم ہوکر 2010 میں 1.43 فیصد تک رہ گئی۔ ہم بھی انڈونیشیا سے مقدارکی جگہ معیار کو اہمیت دینا سیکھ سکتے ہیں۔ (4)۔انڈونیشیا کی جمہوریت کا موروثی قیادتوں اورکرپٹ طبقہ امرا کے چنگل سے نکلنا جس کی سب سے نمایاں نشانی جولائی 2014 کے الیکشن میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لیڈر جوکووی کی کامیابی ہے جنھوں نے 20 اکتوبر 2014 کو انڈونیشیا کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ (5)۔بااختیار مقامی شہری حکومتوں کا نظام۔ جناب جوکووی بھی 2005 سے 2012 تک سُوراکرتا شہر کے کامیاب میئر رہے۔
(6)۔کئی عشروں سے پھلتے پھولتے کرپشن کے کلچر کے خاتمے خصوصاً اعلیٰ ترین عہدوں کی سطح سے کرپشن کے خاتمے کے اقدامات۔ (7)۔منشیات کے خلاف وسیع، مسلسل اور بے لچک اقدامات۔(8)۔پاکستان کو سی پیک (CPEC) کے تناظر میں اپنے بحری دفاع کو بھی مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے پاکستان اور انڈونیشیا کی نیول فورسز میں مزید تعاون کی گنجائش ہے۔
پاکستان کے یونی ورسٹی، کالج اور اسکولوں کے طلبا اور اساتذہ اور صحافیوں کے ان کے اداروں کی جانب سے انڈونیشیا کے مطالعاتی دورے ہونے چاہئیں تاکہ وہ انڈونیشیا میں مذہبی، نسلی اور لسانی ہم آہنگی اور انڈونیشیا کی مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کا فرسٹ ہینڈ جائزہ لے سکیں۔ انڈونیشیا کی حکومت کو ابھی نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا، یورپ اور دوسرے ممالک میں بھی وہاں کے مقامی طلبا کے لیے انڈونیشیا کی اوپر درج کی گئی کامیابیوں پر تصویری و ویڈیو نمائشوں، سیمینارز اور لیکچرز کا انعقاد کرنا چاہیے۔
پاکستانیوں کے لیے انڈونیشیا کی ویزا شرائط خاصی سخت ہیں جس کی وجہ ایک تو پاکستانی شہریوں کی انڈونیشیا سے غیر قانونی طور پر آسٹریلیا جانے کی کوششیں ہیں اور دوسرے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونا جس کی وجہ سے قاعدے قانون کے ساتھ کاروبار اور سیاحت کے لیے جانے والے پاکستانیوں کے لیے بھی انڈونیشیا جانا ایک مشکل کام ہے۔
تیزی سے ترقی کرتی دنیا کی سولہویں (16ویں) بڑی معیشت انڈونیشیا کے لوگوں بالخصوص طالب علموں کو انگریزی زبان پہ عبور حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں انگریزی زبان کے ہائی اسکول اور اعلیٰ درجوں کے بہترین اساتذہ موجود ہیں۔
انڈونیشیا اور پاکستان ایک مشترکہ پروگرام کے تحت انگریزی زبان میں مہارت کے بین الاقوامی امتحان پاس کرنے والے منتخب پاکستانی اساتذہ کو انڈونیشیا کی قومی زبان انڈونیشین بھاشا کے کورسز کروا کر انڈونیشیا کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ معیار کی انگریزی کی تعلیم دینے کے لیے بھیج سکتے ہیں۔ تعلیم کے علاوہ پاکستان سی پیک کے ذریعے انڈونیشیا کو وسطی ایشیا اور مغربی چین تک آسان رسائی فراہم کرسکتا ہے ساتھ ہی گوادر میں سی فوڈ پراسسنگ انڈسٹری کے ضمن میں انڈونیشیا مالی و فنی سرمایہ کاری بھی کرسکتا ہے
صرف 2014 میں ہی 94 لاکھ افراد نے انڈونیشیا کا دورہ کیا۔ جنوری 2011 سے انڈونیشیا خود کو ونڈر فل انڈونیشیا کے تھیم کے ساتھ پوری دنیا میں مارکیٹ کر رہا ہے۔ تاہم اب ضرورت ہے کہ اس تھیم کو آگے کی طرف لے جاتے ہوئے World of Indonesia میں تبدیل کردینا چاہیے کیونکہ انڈونیشیا اپنی جگہ ایک پوری حیرت انگیز دنیا ہے۔
انڈونیشین کھانے اور انھیں پیش کرنے کے طریقوں کو ہی لے لیجیے، وہاں ایسے بھی ریسٹورنٹس ہیں کہ جہاں کھانوں کے چھپتے ہوئے مینو کی بجائے تمام کھانوں کی ڈشیں سجادی جاتی ہیں، آپ جو منتخب کریں گے صرف انھی کا بل دیں گے۔ انڈونیشیا کے ہینڈی کرافٹس خصوصاً بالی میں لکڑی پہ تہہ در تہہ ہاتھ سے بنائے جانے والے نقش و نگار یعنی Multi-Layered Wood Carving کا تو جواب ہی نہیں۔ انڈونیشیا خواتین کو چھوٹے کاروبار چلانے کی تربیت دینے میں پاکستان کی مدد کرسکتا ہے اور پاکستانی اور انڈونیشین خواتین مختلف کاروباری پارٹنرشپ بھی قائم کرسکتی ہیں۔اپنی جگہ ایک دنیا انڈونیشیا کے پاس پاکستان اور پوری دنیا کے لیے بہت کچھ ہے۔
یکایک عین ہمارے سروں کے اوپر موجود بادلوں نے ایک نیم دائرے کی شکل میں پیچھے ہٹنا شروع کردیا اور اس دائرے میں سے سورج کی کرنیں مستطیل دھاروں کی صورت میں ہم پر برسنا شروع ہوگئیں جب کہ ہم کچھ ہی دور اپنے چاروں طرف جاری بارش بھی دیکھ سکتے تھے۔ یہ بہت کم ہی ہوتا ہے کہ رین میکر اپنے کام میں ناکام ہوجائیں اور عموماً ناکامی کی وجہ اسی علاقے میں ایک اور رین میکر کی موجودگی ہوتی ہے۔ رین میکرز کی اپنی ایک فیس ہوتی ہے اور وہ صرف بارش کو ہٹاتے ہی نہیں بلکہ بلاتے بھی ہیں اور یہ دونوں کام وہ قرآن کریم کا کلام پاک پڑھ کر خداوند رحیم کی رحمت سے کرتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی NGO، مخیر ادارہ یا اشخاص انڈونیشیا سے چند رین میکرز کو بارش سے محروم تباہ حال لاوارث کراچی کے بیابان میں بارش کی دعا کے لیے کچھ عرصے کے لیے بلالیں۔
ویسے صرف بارش ہی نہیں بلکہ ہم اور بھی کئی شعبوں میں انڈونیشیا سے بڑے کام کی مدد حاصل کرسکتے ہیں مثلاً (1)۔جس مہارت اور کامیابی سے انڈونیشیا نے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی پہ قابو پایا کہ یکم اکتوبر 2005 کے بالی بم دھماکوں کے بعد دہشت گرد اس سطح کی کارروائی نہ کرسکے۔(2)۔14 ہزار سے زائد جزیروں، 34 صوبوں،300 نسلی گروہوں ، 737 زبانوں، اسلام، عیسائیت، ہندو اور بدھ ازم اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ساڑھے پچیس کروڑ لوگوں کے اس عظیم ملک سے ہم مذہبی، لسانی اور نسلی رواداری اور برداشت بھی سیکھ سکتے ہیں۔
(3)۔87.18 فیصد مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والے اس ملک میں کامیاب فیملی پلاننگ سے سالانہ شرح پیدائش 1980 میں 2.39 فیصد سے کم ہوکر 2010 میں 1.43 فیصد تک رہ گئی۔ ہم بھی انڈونیشیا سے مقدارکی جگہ معیار کو اہمیت دینا سیکھ سکتے ہیں۔ (4)۔انڈونیشیا کی جمہوریت کا موروثی قیادتوں اورکرپٹ طبقہ امرا کے چنگل سے نکلنا جس کی سب سے نمایاں نشانی جولائی 2014 کے الیکشن میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لیڈر جوکووی کی کامیابی ہے جنھوں نے 20 اکتوبر 2014 کو انڈونیشیا کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ (5)۔بااختیار مقامی شہری حکومتوں کا نظام۔ جناب جوکووی بھی 2005 سے 2012 تک سُوراکرتا شہر کے کامیاب میئر رہے۔
(6)۔کئی عشروں سے پھلتے پھولتے کرپشن کے کلچر کے خاتمے خصوصاً اعلیٰ ترین عہدوں کی سطح سے کرپشن کے خاتمے کے اقدامات۔ (7)۔منشیات کے خلاف وسیع، مسلسل اور بے لچک اقدامات۔(8)۔پاکستان کو سی پیک (CPEC) کے تناظر میں اپنے بحری دفاع کو بھی مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے پاکستان اور انڈونیشیا کی نیول فورسز میں مزید تعاون کی گنجائش ہے۔
پاکستان کے یونی ورسٹی، کالج اور اسکولوں کے طلبا اور اساتذہ اور صحافیوں کے ان کے اداروں کی جانب سے انڈونیشیا کے مطالعاتی دورے ہونے چاہئیں تاکہ وہ انڈونیشیا میں مذہبی، نسلی اور لسانی ہم آہنگی اور انڈونیشیا کی مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کا فرسٹ ہینڈ جائزہ لے سکیں۔ انڈونیشیا کی حکومت کو ابھی نہ صرف پاکستان بلکہ امریکا، یورپ اور دوسرے ممالک میں بھی وہاں کے مقامی طلبا کے لیے انڈونیشیا کی اوپر درج کی گئی کامیابیوں پر تصویری و ویڈیو نمائشوں، سیمینارز اور لیکچرز کا انعقاد کرنا چاہیے۔
پاکستانیوں کے لیے انڈونیشیا کی ویزا شرائط خاصی سخت ہیں جس کی وجہ ایک تو پاکستانی شہریوں کی انڈونیشیا سے غیر قانونی طور پر آسٹریلیا جانے کی کوششیں ہیں اور دوسرے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونا جس کی وجہ سے قاعدے قانون کے ساتھ کاروبار اور سیاحت کے لیے جانے والے پاکستانیوں کے لیے بھی انڈونیشیا جانا ایک مشکل کام ہے۔
تیزی سے ترقی کرتی دنیا کی سولہویں (16ویں) بڑی معیشت انڈونیشیا کے لوگوں بالخصوص طالب علموں کو انگریزی زبان پہ عبور حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں انگریزی زبان کے ہائی اسکول اور اعلیٰ درجوں کے بہترین اساتذہ موجود ہیں۔
انڈونیشیا اور پاکستان ایک مشترکہ پروگرام کے تحت انگریزی زبان میں مہارت کے بین الاقوامی امتحان پاس کرنے والے منتخب پاکستانی اساتذہ کو انڈونیشیا کی قومی زبان انڈونیشین بھاشا کے کورسز کروا کر انڈونیشیا کے تعلیمی اداروں میں اعلیٰ معیار کی انگریزی کی تعلیم دینے کے لیے بھیج سکتے ہیں۔ تعلیم کے علاوہ پاکستان سی پیک کے ذریعے انڈونیشیا کو وسطی ایشیا اور مغربی چین تک آسان رسائی فراہم کرسکتا ہے ساتھ ہی گوادر میں سی فوڈ پراسسنگ انڈسٹری کے ضمن میں انڈونیشیا مالی و فنی سرمایہ کاری بھی کرسکتا ہے
صرف 2014 میں ہی 94 لاکھ افراد نے انڈونیشیا کا دورہ کیا۔ جنوری 2011 سے انڈونیشیا خود کو ونڈر فل انڈونیشیا کے تھیم کے ساتھ پوری دنیا میں مارکیٹ کر رہا ہے۔ تاہم اب ضرورت ہے کہ اس تھیم کو آگے کی طرف لے جاتے ہوئے World of Indonesia میں تبدیل کردینا چاہیے کیونکہ انڈونیشیا اپنی جگہ ایک پوری حیرت انگیز دنیا ہے۔
انڈونیشین کھانے اور انھیں پیش کرنے کے طریقوں کو ہی لے لیجیے، وہاں ایسے بھی ریسٹورنٹس ہیں کہ جہاں کھانوں کے چھپتے ہوئے مینو کی بجائے تمام کھانوں کی ڈشیں سجادی جاتی ہیں، آپ جو منتخب کریں گے صرف انھی کا بل دیں گے۔ انڈونیشیا کے ہینڈی کرافٹس خصوصاً بالی میں لکڑی پہ تہہ در تہہ ہاتھ سے بنائے جانے والے نقش و نگار یعنی Multi-Layered Wood Carving کا تو جواب ہی نہیں۔ انڈونیشیا خواتین کو چھوٹے کاروبار چلانے کی تربیت دینے میں پاکستان کی مدد کرسکتا ہے اور پاکستانی اور انڈونیشین خواتین مختلف کاروباری پارٹنرشپ بھی قائم کرسکتی ہیں۔اپنی جگہ ایک دنیا انڈونیشیا کے پاس پاکستان اور پوری دنیا کے لیے بہت کچھ ہے۔