اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے
گزشتہ سے پیوستہ کالم میں ہم نے لکھا تھا کہ حکومت محض کاغذی گھوڑے دوڑا کر اپنا وقت پورا کر رہی ہے
گزشتہ سے پیوستہ کالم میں ہم نے لکھا تھا کہ حکومت محض کاغذی گھوڑے دوڑا کر اپنا وقت پورا کر رہی ہے، اپنی گڈ گورننس کے اظہار کے لیے کسی بھی نان ایشو کو ملک کا سب سے اہم ایشو بناکر پیش کرتی ہے اور تمام ذرایع ابلاغ 24 گھنٹے کی نشریات میں اس کے پیچھے پڑے رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ان ایشوز میں ایک تو اپنے علاوہ باقی تمام سیاسی جماعتوں کو سیاست سے نابلد اور ہر کمزوری و خامی کا حامل قرار دینا بھی ہے۔ ہر سیاستدان کا سوائے حکمران جماعت کے نہ کوئی کردار ہے نہ اخلاق اور کرپشن تو ان کی رگ رگ میں بھری ہوئی ہے۔
بیشتر سیاستدان کئی دوسرے ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں اور ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور بے چارے حکمرانوں کو ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے کچھ کرنے بھی نہیں دیتے۔ حالانکہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اربوں کے منصوبوں پر تو عملدرآمد ہو رہا ہے مگر ملک کے غربا کے لیے دو وقت کی روٹی، پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے روزگار پیدا کرنے کے لیے کوئی پیش رفت نہیں۔ کچھ دانشوران قوم کا خیال ہے کہ اربوں کے منصوبوں سے ملکی ترقی اور خوشحالی کا تاثر دینے کے ساتھ ساتھ کروڑوں کی ذاتی آمدنی کے مواقع بھی ہوتے ہیں۔
ہمارے کپتان صاحب تو ہر وقت ہی حکمرانوں کو لٹیرے قرار دیتے رہتے ہیں، مگر اب جو صورتحال سامنے آئی ہے یعنی پانامہ لیکس کی صورت میں وہ نہ خان صاحب کی سازش ہے اور نہ دیگر جماعتوں کے لیڈران کی جانب سے جوابی کارروائی۔ خود کو معصوم اور سادہ ظاہر کرنے والوں پر جو وقت پڑا ہے وہ ان کی معصومیت کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے اس میں کسی بھی پاکستانی کا (مخالفین کا) کوئی ہاتھ نہیں۔
وطن عزیز جو اربوں کے قرض میں جکڑ چکا ہے اس کے بارے میں حکمرانوں کا رویہ بتا رہا ہے کہ وہ تو اپی مدت پوری کرکے غیر ضروری منصوبے (جن سے عوام کا پیٹ بھر سکتا ہے اور نہ تعلیم و علاج کے اخراجات پورے ہوسکتے ہیں) مکمل یا غیر مکمل چھوڑ کر ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھینک کر اور ملکی خزانے میں جھاڑو پھیر کر روانہ ہوجائیں گے، کیونکہ انھوں نے مدت حکمرانی کے بعد اپنے اور اپنی آیندہ نسلوں کے لیے بہترین انتظام کرلیا ہے۔پانامہ لیکس کے انکشافات میں محض پاکستانی اشرافیہ ہی شامل نہیں بلکہ دیگر کئی ممالک کے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کے علاوہ، وزرا، تاجر اور عدلیہ کے افراد بھی شامل ہیں۔
پاکستان میں بھی حکمران خاندان کے علاوہ تقریباً دو سو افراد کے نام شامل ہیں۔ مگر ذرایع ابلاغ اور حزب اختلاف وزیراعظم سے حساب کتاب پر زیادہ شور مچا رہے ہیں ( اس نازک وقت میں بھی حکومتی وزرا مخالفین پر الزامات لگا کر خود کو بچانے میں مصروف ہیں) اس کی وجہ واضح ہے کہ عام آدمی اگر اپنی جائز یا ناجائز دولت ملک سے باہر لے جائے تو کسی کو شاید اتنا فرق نہیں پڑتا جتنا کہ ملک کے سربراہ اپنی ہی نہیں بلکہ قوم کی دولت بھی خاموشی سے دوسرے ممالک میں جائیداد خریدنے اور کاروبار کرنے کے لیے منتقل کردیں تاکہ اس میں مزید اضافہ کرسکیں۔ جب حکمران اپنی دولت کو ملکی مفاد میں خرچ کرنے سے گریز کریں تو وہ کس منہ سے دوسروں سے کہیں گے کہ وہ ان کے ملک میں سرمایہ کاری کریں؟
اس معاملے پر شور بے شک بہت ہو رہا ہے مگر کیا بہت کچھ ہو بھی رہا ہے؟ دیکھا جائے تو ملک میں اپنے حقوق مانگنا، اپنی حیثیت کو منوانا، مزید صوبوں کا مطالبہ کرنا کسی طور غداری کے زمرے میں نہیں آتا البتہ ملکی دولت کو اپنے ملک کے بجائے دیگر ممالک کی معیشت مستحکم کرنا ضرور غداری ہوسکتی ہے۔ پوری قوم کی ذمے داری جن کے کاندھوں پر ہو وہ قوم کو ضروریات زندگی سے محروم کرکے خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں بلکہ مغل بادشاہوں کی طرح محلات میں رہیں، اپنی حفاظت پر سیکڑوں اہلکار معمور کریں قوم کی حفاظت کے لیے نفری کم ہونے کو جواز بنایا جائے، کیا ایسے حکمرانوں کو خادم قوم کہا جاسکتا ہے ۔
جن کے ذاتی اخراجات اتنے ہوں کہ سیکڑوں خاندانوں کے افراد کو دو وقت کی روٹی باآسانی میسر آجائے۔ ضروریات زندگی کو ذرا بڑھا چڑھا کر پورا کیا جائے تو شاید اتنا ناگوار نہ ہو مگر نمود و نمائش، عیش و عشرت کے زمرے میں آنے والے اخراجات جب کہ قوم کے 60 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہوں۔ سبحان اللہ اگر ایسے حکمراں ہوتے ہیں تو گویا اسلام کے ابتدائی دور کے حکمران معاذ اللہ درست حکمران نہ تھے؟ جو نیا کرتا بنالیں تو عام آدمی پوچھ لے کہ آپ نے یہ کن ذرایع سے بنایا؟ اور حکمراں اس سوال کا تسلی بخش جواب دینے کا پابند ہو۔ مگر اسلام کے قلعہ پاکستان میں عوام کو یہ جرأت کبھی نصیب نہ ہوسکی کہ وہ حکمرانوں سے پوچھ سکیں کہ آپ کا طرز حیات ہم سے اتنا مختلف کیوں ہے؟ آپ کے بازو میں درد ہو تو بیرون ملک ہی معائنہ ممکن ہے جب کہ ہمارے نوزائیدہ بچے آکسیجن اسپتالوں میں نہ ہونے کے باعث مرتے رہیں۔
بہرحال اب صورتحال یہ ہے کہ ''بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے'' ۔ اگر کسی لیڈر یا حکمراں پر کوئی درست یا غلط معتبر یا غیر معتبر ذرایع سے الزام عائد ہوجائے تو اس کو ازخود (اخلاقاً) فوراً مستعفی ہوجانا چاہیے، یہ نہیں کہ ایسا ہوا نہیں، مہذب ممالک میں پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور اب اس نئی صورتحال میں بھی آئس لینڈ کے وزیراعظم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے دیگر کئی ممالک میں بھی ایسی ہی صورت سامنے آرہی ہے، بیشتر ممالک میں تحقیقات کا آغاز ہوچکا ہے، مگر ہمارے حکمران فرماتے ہیں کہ ''تماشا لگانے والے الزامات ثابت کریں'' اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ''کچھ لوگ مجھے اور میرے خاندان کو سیاسی مقاصد کے لیے نشانہ بنا رہے ہیں'' جب کہ یہ جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ ''کچھ لوگوں'' کی جانب سے نہیں بین الاقوامی حقیقت ہے۔ ساری دنیا میں ہاہاکار مچی ہے اور پاکستان میں ابھی طے ہی نہیں ہوا کہ اس معاملے کو کس طرح لینا ہے۔
وزیراعظم نے اپنی تمام سرکاری مصروفیات منسوخ کردیں اور طبی معائنے کے لیے لندن روانہ ہوگئے ہیں۔ پانامہ پیپرز کے انکشافات پر کچھ ہوتا ہے یا نہیں؟ بقول شخصے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فرانس، یوکرین، بھارت، برطانیہ، چین تک پانامہ پیپرز پر کچھ کرسکتے ہیں مگر پاکستان میں کچھ نہیں ہوگا۔ مگر کیوں؟ اس لیے کہ ہم بحیثیت قوم بے حس، بے عمل اپنے ہر فرض سے غافل ہوکر غنودگی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ خدا بھلا کرے پانامہ لیکس کا کہ اتنا ضرور ہوا کہ ہر وقت دوسروں خاص کر سندھ اور وہاں کی اہم سیاسی شخصیات کو ہر وقت مطعون کرنے والوں کو یہ ضرور معلوم ہوگیا ہوگا کہ برا وقت کسی پر بھی کسی بھی وقت آسکتا ہے، پاکی دامن کی حکایت بڑھاتے بڑھاتے وہ یہ بھول چکے تھے کہ انگلی ان کی طرف بھی اٹھ سکتی ہے۔
بیشتر سیاستدان کئی دوسرے ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ ہیں اور ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور بے چارے حکمرانوں کو ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے کچھ کرنے بھی نہیں دیتے۔ حالانکہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اربوں کے منصوبوں پر تو عملدرآمد ہو رہا ہے مگر ملک کے غربا کے لیے دو وقت کی روٹی، پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے روزگار پیدا کرنے کے لیے کوئی پیش رفت نہیں۔ کچھ دانشوران قوم کا خیال ہے کہ اربوں کے منصوبوں سے ملکی ترقی اور خوشحالی کا تاثر دینے کے ساتھ ساتھ کروڑوں کی ذاتی آمدنی کے مواقع بھی ہوتے ہیں۔
ہمارے کپتان صاحب تو ہر وقت ہی حکمرانوں کو لٹیرے قرار دیتے رہتے ہیں، مگر اب جو صورتحال سامنے آئی ہے یعنی پانامہ لیکس کی صورت میں وہ نہ خان صاحب کی سازش ہے اور نہ دیگر جماعتوں کے لیڈران کی جانب سے جوابی کارروائی۔ خود کو معصوم اور سادہ ظاہر کرنے والوں پر جو وقت پڑا ہے وہ ان کی معصومیت کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہے اس میں کسی بھی پاکستانی کا (مخالفین کا) کوئی ہاتھ نہیں۔
وطن عزیز جو اربوں کے قرض میں جکڑ چکا ہے اس کے بارے میں حکمرانوں کا رویہ بتا رہا ہے کہ وہ تو اپی مدت پوری کرکے غیر ضروری منصوبے (جن سے عوام کا پیٹ بھر سکتا ہے اور نہ تعلیم و علاج کے اخراجات پورے ہوسکتے ہیں) مکمل یا غیر مکمل چھوڑ کر ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھینک کر اور ملکی خزانے میں جھاڑو پھیر کر روانہ ہوجائیں گے، کیونکہ انھوں نے مدت حکمرانی کے بعد اپنے اور اپنی آیندہ نسلوں کے لیے بہترین انتظام کرلیا ہے۔پانامہ لیکس کے انکشافات میں محض پاکستانی اشرافیہ ہی شامل نہیں بلکہ دیگر کئی ممالک کے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کے علاوہ، وزرا، تاجر اور عدلیہ کے افراد بھی شامل ہیں۔
پاکستان میں بھی حکمران خاندان کے علاوہ تقریباً دو سو افراد کے نام شامل ہیں۔ مگر ذرایع ابلاغ اور حزب اختلاف وزیراعظم سے حساب کتاب پر زیادہ شور مچا رہے ہیں ( اس نازک وقت میں بھی حکومتی وزرا مخالفین پر الزامات لگا کر خود کو بچانے میں مصروف ہیں) اس کی وجہ واضح ہے کہ عام آدمی اگر اپنی جائز یا ناجائز دولت ملک سے باہر لے جائے تو کسی کو شاید اتنا فرق نہیں پڑتا جتنا کہ ملک کے سربراہ اپنی ہی نہیں بلکہ قوم کی دولت بھی خاموشی سے دوسرے ممالک میں جائیداد خریدنے اور کاروبار کرنے کے لیے منتقل کردیں تاکہ اس میں مزید اضافہ کرسکیں۔ جب حکمران اپنی دولت کو ملکی مفاد میں خرچ کرنے سے گریز کریں تو وہ کس منہ سے دوسروں سے کہیں گے کہ وہ ان کے ملک میں سرمایہ کاری کریں؟
اس معاملے پر شور بے شک بہت ہو رہا ہے مگر کیا بہت کچھ ہو بھی رہا ہے؟ دیکھا جائے تو ملک میں اپنے حقوق مانگنا، اپنی حیثیت کو منوانا، مزید صوبوں کا مطالبہ کرنا کسی طور غداری کے زمرے میں نہیں آتا البتہ ملکی دولت کو اپنے ملک کے بجائے دیگر ممالک کی معیشت مستحکم کرنا ضرور غداری ہوسکتی ہے۔ پوری قوم کی ذمے داری جن کے کاندھوں پر ہو وہ قوم کو ضروریات زندگی سے محروم کرکے خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں بلکہ مغل بادشاہوں کی طرح محلات میں رہیں، اپنی حفاظت پر سیکڑوں اہلکار معمور کریں قوم کی حفاظت کے لیے نفری کم ہونے کو جواز بنایا جائے، کیا ایسے حکمرانوں کو خادم قوم کہا جاسکتا ہے ۔
جن کے ذاتی اخراجات اتنے ہوں کہ سیکڑوں خاندانوں کے افراد کو دو وقت کی روٹی باآسانی میسر آجائے۔ ضروریات زندگی کو ذرا بڑھا چڑھا کر پورا کیا جائے تو شاید اتنا ناگوار نہ ہو مگر نمود و نمائش، عیش و عشرت کے زمرے میں آنے والے اخراجات جب کہ قوم کے 60 فیصد افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہوں۔ سبحان اللہ اگر ایسے حکمراں ہوتے ہیں تو گویا اسلام کے ابتدائی دور کے حکمران معاذ اللہ درست حکمران نہ تھے؟ جو نیا کرتا بنالیں تو عام آدمی پوچھ لے کہ آپ نے یہ کن ذرایع سے بنایا؟ اور حکمراں اس سوال کا تسلی بخش جواب دینے کا پابند ہو۔ مگر اسلام کے قلعہ پاکستان میں عوام کو یہ جرأت کبھی نصیب نہ ہوسکی کہ وہ حکمرانوں سے پوچھ سکیں کہ آپ کا طرز حیات ہم سے اتنا مختلف کیوں ہے؟ آپ کے بازو میں درد ہو تو بیرون ملک ہی معائنہ ممکن ہے جب کہ ہمارے نوزائیدہ بچے آکسیجن اسپتالوں میں نہ ہونے کے باعث مرتے رہیں۔
بہرحال اب صورتحال یہ ہے کہ ''بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے'' ۔ اگر کسی لیڈر یا حکمراں پر کوئی درست یا غلط معتبر یا غیر معتبر ذرایع سے الزام عائد ہوجائے تو اس کو ازخود (اخلاقاً) فوراً مستعفی ہوجانا چاہیے، یہ نہیں کہ ایسا ہوا نہیں، مہذب ممالک میں پہلے بھی ہوتا رہا ہے اور اب اس نئی صورتحال میں بھی آئس لینڈ کے وزیراعظم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے دیگر کئی ممالک میں بھی ایسی ہی صورت سامنے آرہی ہے، بیشتر ممالک میں تحقیقات کا آغاز ہوچکا ہے، مگر ہمارے حکمران فرماتے ہیں کہ ''تماشا لگانے والے الزامات ثابت کریں'' اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ''کچھ لوگ مجھے اور میرے خاندان کو سیاسی مقاصد کے لیے نشانہ بنا رہے ہیں'' جب کہ یہ جو کچھ سامنے آرہا ہے وہ ''کچھ لوگوں'' کی جانب سے نہیں بین الاقوامی حقیقت ہے۔ ساری دنیا میں ہاہاکار مچی ہے اور پاکستان میں ابھی طے ہی نہیں ہوا کہ اس معاملے کو کس طرح لینا ہے۔
وزیراعظم نے اپنی تمام سرکاری مصروفیات منسوخ کردیں اور طبی معائنے کے لیے لندن روانہ ہوگئے ہیں۔ پانامہ پیپرز کے انکشافات پر کچھ ہوتا ہے یا نہیں؟ بقول شخصے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فرانس، یوکرین، بھارت، برطانیہ، چین تک پانامہ پیپرز پر کچھ کرسکتے ہیں مگر پاکستان میں کچھ نہیں ہوگا۔ مگر کیوں؟ اس لیے کہ ہم بحیثیت قوم بے حس، بے عمل اپنے ہر فرض سے غافل ہوکر غنودگی کی کیفیت سے دوچار ہیں۔ خدا بھلا کرے پانامہ لیکس کا کہ اتنا ضرور ہوا کہ ہر وقت دوسروں خاص کر سندھ اور وہاں کی اہم سیاسی شخصیات کو ہر وقت مطعون کرنے والوں کو یہ ضرور معلوم ہوگیا ہوگا کہ برا وقت کسی پر بھی کسی بھی وقت آسکتا ہے، پاکی دامن کی حکایت بڑھاتے بڑھاتے وہ یہ بھول چکے تھے کہ انگلی ان کی طرف بھی اٹھ سکتی ہے۔