قرض کی آفات ’’اے اﷲ میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں‘‘

انسان کی زندگی میں بسا اوقات ایسے مواقع آتے ہیں کہ اس کے پاس موجود وسائل اس کے گزر بسر کے لیے ناکافی ہوتے ہیں۔

انسان کی زندگی میں بسا اوقات ایسے مواقع آتے ہیں کہ اس کے پاس موجود وسائل اس کے گزر بسر کے لیے ناکافی ہوتے ہیں۔ فوٹو: فائل

انسان کی زندگی میں بسا اوقات ایسے مواقع آتے ہیں کہ اس کے پاس موجود وسائل اس کے گزر بسر کے لیے ناکافی ہوتے ہیں۔ ان حالات میں اسے دوسروں سے قرض لینے کی احتیاج ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں شریعت کی بیان کردہ چند ہدایات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ قرض سے پناہ مانگی جائے اور اﷲ تعالیٰ کے حضور دعاگو رہنا چاہیے کہ وہ ایسی احتیاج و ضرورت میں مبتلا ہی نہ کرے۔ چناں چہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نماز میں دعا مانگتے تو فرماتے ''اے اﷲ میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔'' کسی نے عرض کیا، یا رسول اﷲ ؐ! کیا بات ہے کہ آپ قرض سے اکثر پناہ مانگتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ''آدمی جب قرض دار ہوتا ہے تو بات کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے۔'' (بخاری)

ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ''مسلمانو! قرض لینے سے بچو، کیوںکہ وہ رات کے وقت رنج و فکر پیدا کرتا ہے اور دن کو ذلت و خواری میں مبتلا کرتا ہے۔'' (بیہقی)

بلا ضرورت قرض نہ لیں
اگر واقعی کوئی ضرورت پیش آجائے اور قرض کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں ہی قرض لیا جائے۔ بلاضرورت یا معمولی کام میں قرض لینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح رسم و رواج کو پورا کرنے کے لیے یا دیگر غیر ضروری اخراجات کے لیے قرض بالکل نہ لیا جائے۔ چناںچہ ایک حدیث میں وارد ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''اگر تم میں سے کوئی آدمی پیوند پر پیوند لگائے اور پھٹے پرانے کپڑے پہنے، یہ اس سے بہتر ہے کہ قرض لے اور اس کو ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔'' (نسائی)


بروقت ادائی کی فکر کریں
قرض انسان کے ذمے دوسرے کا ایک حق ہے، دوسرے حقوق کی طرح اس کی ادائی بھی ضروری ہے۔ اس ذمے داری کا احساس رکھنا چاہیے اور جلد سے جلد اسے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نفلی حج، نفلی صدقات اور دیگر نفلی عبادات میں مال خرچ کرنے کے بجائے قرض ادا کرنے کو ترجیح دی جائے۔ جب تک قرض ادا نہ کر دیا جائے یا قرض خواہ معاف نہ کردے، یہ ذمے داری کبھی بھی ذمے سے نہیں اترتی۔ یہاں تک کہ شہادت کا عظیم رتبہ حاصل کرنے والے کا بھی قرض معاف نہیں ہوتا۔ چناں چہ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''شہید سے سوائے قرض کے سب گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔'' (مسلم)

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس معاملے میں بہت سخت تنبیہ فرماتے تھے، یہاں تک کہ جب کوئی جنازہ آتا تو پوچھتے کہ اس کے ذمے قرض تو نہیں؟ اگر قرض ہوتا تو نماز جنازہ بھی نہیں پڑھاتے تھے۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آپؐ نے قرض کی ادائی کا کس قدر احساس دلایا۔

چناں چہ سلمہ بن اکوع رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس پر نماز پڑھیں تو آپؐ نے دریافت فرمایا ''کیا اس پر کوئی قرض ہے؟'' لوگوں نے کہا، نہیں، تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا ''اس پر کوئی قرض ہے؟'' لوگوں نے کہا، ہاں، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''تم لوگ اپنے ساتھی پر نماز پڑھو۔'' ابوقتادہؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ؐ! میں اس کے قرض کا ذمہ دار ہوں، تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔ (بخاری)

ٹال مٹول سے بچیں
قرض کا معاملہ ہمیشہ اعتماد اور اعتبار پر قائم ہوتا ہے۔ اس اعتماد کو برقرار رکھتے ہوئے مقررہ وقت پر ادائی کو یقینی بنایا جائے۔ بلاضرورت ٹال مٹول نہیں کرنا چاہیے۔ اگر قرض دینے والے کو قرض لینے والے پر اعتماد ہو اور مقروض اس اعتبار کو پورا نبھائے تو تعاون کا یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور حاجت مند اس سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی قرض لینے والا بداعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرض دینے والے محسن کو بار بار ٹالتا رہے یا اپنے گھر کے چکر لگواتا رہے یا اس کی نظروں سے اوجھل رہ کر اسے تکلیف پہنچائے تو یہ بہت بڑی ناشکری، وعدہ خلافی اور ظلم ہے۔ اس سے اعتبار کی فضا خراب ہو جاتی ہے اور تعاون باہمی کا یہ سلسلہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس طرح ان چند ناشکرے اور وعدہ خلاف لوگوں کی وجہ سے دوسرے بہت سے حقیقی حاجت مندوں کے لیے اس کارخیر کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ حدیث مبارک میں ٹال مٹول کو ظلم قرار دیا گیا ہے۔ چناںچہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ''قرض کی ادائی میں مال دار آدمی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔'' (مسند احمد)
Load Next Story