سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر ہیں
قومی اسمبلی جوابات حکومت نے خط غربت سے نیچے 6 کروڑ افراد کا دعویٰ مسترد کر دیا
قومی اسمبلی کو پارلیمانی سیکریٹری برائے خزانہ راناافضل نے بتایا سوئس بینکوں میں اس وقت پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالرپڑے ہیں، سوئس حکام سے اس حوالے سے 2 میٹنگز ہو چکیں، جیسے ہی ہمیں 200 ارب ڈالر تک رسائی ملتی ہے تو جائزہ لیں گے کہ یہ پیسے قانونی یا غیر قانونی طور پر ٹرانسفر ہوئے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے تحریری طور پر ایوان کو بتایا گیا موجودہ حکومت نے 6 جون 2013 تا فروری 2016 کے دوران 16 ارب 62 کروڑ ڈالرز سے زائدکی گرانٹس اور قرضے وصول کیے ہیں جن میں 3 ارب 50 کروڑ ڈالرکے بانڈز بھی شامل ہیں۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلیے ایک مرتبہ پھر سروے کروایا جا رہا ہے، 16 اضلاع میں پہلا مرحلہ جون میں شروع ہونے کی توقع ہے، صوبوںکی آبادی میںاضافے کے پس منظرمیں این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے میں اضافے کی کوئی تجویز زیرغورنہیں۔ ایوان کو بتایا پاکستان میں اس وقت ایک لاکھ 30 ہزارکے قریب افغانی غیرقانونی طور پر رہائش پذیر ہیں جن کا ڈیٹا نادراکے پاس موجود ہے۔
ایوان میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کے نئے اعداد وشمار سامنے آئے جس کے تحت 6 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں تاہم وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے یہ اعداد وشمار مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خط غربت کی شرح 60 فیصد نہیں 29 فیصد ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے بتایا دہشتگردی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان صرف کراچی ہی نہیں پورے ملک میں بلا تفریق جاری ہے۔ پختونوں کو شناختی کارڈز کے حوالے سے مسائل پر غلام احمد بلور جذباتی ہوگئے اور کہا کہ اگر پختونوں کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو وہ ملک تسلیم نہ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ترقیاتی اسکیموں میں چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طبقہ سارے نظام کو تہس نہس کرنا چاہتا ہے، صوبے مضبوط ہوں تو فیڈریشن بھی مضبوط ہوگی۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ میں جو فنڈز تقسیم کیے گئے ہیں ان میں پنجاب کو 10ارب 40کروڑ، بلوچستان میں44 کروڑ، خیبر پختونخوا میں 48 کروڑ، سندھ میں 79 کروڑ، اسلام آباد میں 70 کروڑ اور فاٹا میں ایک ارب ایک کروڑ شامل ہیں، لاہور ہمارا اپنا شہر ہے، وہاں ایک کروڑ کی آبادی ہے لیکن صرف تین چار فیصد لوگوں کو وہاں ترجیح دی جارہی ہے۔
پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود اچکزئی نے کہا کہ افغان مہاجرین کے نام پر پورے ملک میں ایک لاکھ پختونوں کے نادرا شناختی کارڈز بلاک ہیں، اس سے نفرتیں پیدا ہونگی۔
قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ افغان مہاجرین کے مسئلے کو منفی انداز میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اے این پی کے غلام احمد بلور نے کہا کہ پختونخوا میں ایسی شکایات ہیں کہ باپ کا شناختی کارڈ ہے مگر بیٹے کا کارڈ افغانی کہہ کر بلاک کر دیا گیا ہے۔پیپلزپارٹی کی نفیسہ شاہ نے تجویز دی کہ اس معاملے کو وزارت داخلہ کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) میاں عبدالمنان نے کہا یہ صرف پختونوں کا مسئلہ نہیں، میرے حلقہ کے بہت سے لوگوں کے شناختی کارڈز بھی بلاک ہیں۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا چیئرمین نادرا سے بات ہوچکی ہے، بلاک شناختی کارڈز کا جلد فیصلہ کیا جائیگا۔ وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے کہا بلاک شناختی کارڈز کے حوالے سے وزارت داخلہ کو ارکان کی تشویش سے آگاہ کر دیا جائیگا۔ بعدازاں اجلاس آج جمعہ کی صبح تک ملتوی کردیا گیا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے تحریری طور پر ایوان کو بتایا گیا موجودہ حکومت نے 6 جون 2013 تا فروری 2016 کے دوران 16 ارب 62 کروڑ ڈالرز سے زائدکی گرانٹس اور قرضے وصول کیے ہیں جن میں 3 ارب 50 کروڑ ڈالرکے بانڈز بھی شامل ہیں۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کیلیے ایک مرتبہ پھر سروے کروایا جا رہا ہے، 16 اضلاع میں پہلا مرحلہ جون میں شروع ہونے کی توقع ہے، صوبوںکی آبادی میںاضافے کے پس منظرمیں این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے میں اضافے کی کوئی تجویز زیرغورنہیں۔ ایوان کو بتایا پاکستان میں اس وقت ایک لاکھ 30 ہزارکے قریب افغانی غیرقانونی طور پر رہائش پذیر ہیں جن کا ڈیٹا نادراکے پاس موجود ہے۔
ایوان میں خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنیوالوں کے نئے اعداد وشمار سامنے آئے جس کے تحت 6 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں تاہم وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے یہ اعداد وشمار مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خط غربت کی شرح 60 فیصد نہیں 29 فیصد ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے بتایا دہشتگردی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان صرف کراچی ہی نہیں پورے ملک میں بلا تفریق جاری ہے۔ پختونوں کو شناختی کارڈز کے حوالے سے مسائل پر غلام احمد بلور جذباتی ہوگئے اور کہا کہ اگر پختونوں کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو وہ ملک تسلیم نہ کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے ترقیاتی اسکیموں میں چھوٹے صوبوں کو نظرانداز کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طبقہ سارے نظام کو تہس نہس کرنا چاہتا ہے، صوبے مضبوط ہوں تو فیڈریشن بھی مضبوط ہوگی۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ میں جو فنڈز تقسیم کیے گئے ہیں ان میں پنجاب کو 10ارب 40کروڑ، بلوچستان میں44 کروڑ، خیبر پختونخوا میں 48 کروڑ، سندھ میں 79 کروڑ، اسلام آباد میں 70 کروڑ اور فاٹا میں ایک ارب ایک کروڑ شامل ہیں، لاہور ہمارا اپنا شہر ہے، وہاں ایک کروڑ کی آبادی ہے لیکن صرف تین چار فیصد لوگوں کو وہاں ترجیح دی جارہی ہے۔
پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود اچکزئی نے کہا کہ افغان مہاجرین کے نام پر پورے ملک میں ایک لاکھ پختونوں کے نادرا شناختی کارڈز بلاک ہیں، اس سے نفرتیں پیدا ہونگی۔
قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے کہا کہ افغان مہاجرین کے مسئلے کو منفی انداز میں دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اے این پی کے غلام احمد بلور نے کہا کہ پختونخوا میں ایسی شکایات ہیں کہ باپ کا شناختی کارڈ ہے مگر بیٹے کا کارڈ افغانی کہہ کر بلاک کر دیا گیا ہے۔پیپلزپارٹی کی نفیسہ شاہ نے تجویز دی کہ اس معاملے کو وزارت داخلہ کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) میاں عبدالمنان نے کہا یہ صرف پختونوں کا مسئلہ نہیں، میرے حلقہ کے بہت سے لوگوں کے شناختی کارڈز بھی بلاک ہیں۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا چیئرمین نادرا سے بات ہوچکی ہے، بلاک شناختی کارڈز کا جلد فیصلہ کیا جائیگا۔ وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے کہا بلاک شناختی کارڈز کے حوالے سے وزارت داخلہ کو ارکان کی تشویش سے آگاہ کر دیا جائیگا۔ بعدازاں اجلاس آج جمعہ کی صبح تک ملتوی کردیا گیا۔