پاناما لیکس خورشید شاہ نے تحقیقاتی کمیشن کیلیے رضاربانی کا نام تجویزکردیا
تحریک انصاف نے بھی کمیشن کی سربراہی کے لیے سرمد جلال عثمانی کا نام مسترد کردیا۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پاناما لیکس کے معاملے پر جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کوتحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنانے کی مخالفت کرتے ہوئے پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی کے لیے رضاربانی کا نام تجویز کردیا جب کہ تحریک انصاف نے بھی سرمد جلال عثمانی کے نام کو مسترد کردیا ہے۔
كراچی پریس كلب میں میڈیا سے بات كرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ كہ پاناما لیكس ایك حقیقت ہے، اس معاملے پر دو ممالك كے وزرائے اعظم مستعفی ہوچكے ہیں، اس ملك میں بھی بڑی بڑی لیكس موجود ہیں اور ان لیكس كے بارے میں بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس(ر) سرمد جلال عثمانی كی ذاتی طور پر عزت كرتا ہوں تاہم انہیں پاناما لیكس اسكینڈل كی تحقیقات كے لیے كمیشن كا سربراہ بننے كی پیشكش كوقبول نہیں كرنا چاہیے تھا،2007 میں سرمد جلال عثمانی كی اہلیہ نے مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار كی تھی اور كہا جارہا تھا كہ ان كے شوہر مدت ملازمت پوری كرلیں گے تو وہ بھی مسلم لیگ (ن )میں شامل ہوجائیں گے، جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی قابل احترام شخصیت ہیں لیكن ان كا كسی سیاسی جماعتی كی طرف جھكاؤ ان كی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) جب بھی مشكل میں آتی ہے تو ماضی كی طرح ان كو جج كی ضرورت پڑتی ہے، مسلم لیگ (ن) كی یہ روایت رہی ہے كہ جب بھی كوئی جج كمیشن كا سربراہ ان كے دور حكومت میں بنایا جاتا ہے تو بعد میں وہ اس كو صدر مملكت بنادیتے ہیں۔ انہوں نے كہا كہ پیپلزپارٹی سمیت تمام اپوزیشن كا مؤقف یہ ہے كہ پانامالیكس اسكینڈل كی تحقیقات كے لیے عدالتی كمیشن بننا چاہیے اور اس كمیشن كی سربراہی چیف جسٹس آف پاكستان كو كرنی چاہیے لیکن اگر عدالتی كمیشن قائم نہیں كیا جاتا تو میری تجویز ہے كہ پارلیمانی كمیٹی قائم كردی جائے جس كی سربراہی چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی كریں اور وہ اس معاملے كی تحقیقات كریں، رضا ربانی پر سب کو اعتماد ہوسکتا ہے، انہیں تمام اختیارات دیئے جائیں اور ٹیکنیکل افراد کی خدمات بھی دی جائیں۔
خورشید شاہ نے کہا کہ اگر حكومت اس معاملے كی تحقیقات كے لیے سنجیدہ ہے تو عدالتی كمیشن یا پارلیمانی كمیٹی جلد قائم كرے اس طرح یہ مسئلہ جلد حل ہوجائے گا۔ انہوں نے كہا كہ پیپلزپارٹی نے كبھی جمہوریت كے خلاف سازش نہیں كی ہے، ہم نے ہمیشہ جمہوریت كے لیے قربانیاں دی ہیں، ہم جمہوری نظام كی مضبوطی چاہتے ہیں، پیپلزپاٹی كوعوام میں جمہوری جدوجہد اجاگر كرنے پر فخر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) كے افراد ہی ملك كا سیاسی ماحول خراب كررہے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا كہ وزیر اعظم كا سیاسی مشیر كون ہے، پہلے ان سے تقریر كروائی گئی اور پھر باتوں میں پھنسوادیا گیا، وہ باتوں میں پھنستے چلے گئے اور اب یہ معاملہ سنجیدہ ہوتا جارہا ہے، پاناما لیكس كے معاملے پر پیپلزپارٹی تحقیقات كے حوالے سے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گی، اپوزیشن ایك پیج پر ہے اور سب كا مؤقف یہی ہے كہ اس معاملے پر عدالتی كمیشن جلد سے جلد قائم كیا جائے ۔ ایك سوال كے جواب میں خورشید شاہ نے كہا كہ نواز شریف اور آصف زرداری كے درمیان لندن میں كوئی ملاقات نہیں ہوگی۔
دوسری جانب پی ٹی آئی نے بھی جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کا نام مسترد کردیا، ترجمان تحریک انصاف نعیم الحق کا کہنا تھا کہ ہم صرف چیف جسٹس کی سربراہی میں ہی کمیشن قبول کریں گے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب پاناما لیکس پر کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز سے رابطہ کیا گیا تھا جس پر کئی ججز کے انکار کے بعد سرمد جلال عثمانی نے کمیشن کی سربراہی قبول کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔
كراچی پریس كلب میں میڈیا سے بات كرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ كہ پاناما لیكس ایك حقیقت ہے، اس معاملے پر دو ممالك كے وزرائے اعظم مستعفی ہوچكے ہیں، اس ملك میں بھی بڑی بڑی لیكس موجود ہیں اور ان لیكس كے بارے میں بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس(ر) سرمد جلال عثمانی كی ذاتی طور پر عزت كرتا ہوں تاہم انہیں پاناما لیكس اسكینڈل كی تحقیقات كے لیے كمیشن كا سربراہ بننے كی پیشكش كوقبول نہیں كرنا چاہیے تھا،2007 میں سرمد جلال عثمانی كی اہلیہ نے مسلم لیگ(ن) میں شمولیت اختیار كی تھی اور كہا جارہا تھا كہ ان كے شوہر مدت ملازمت پوری كرلیں گے تو وہ بھی مسلم لیگ (ن )میں شامل ہوجائیں گے، جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی قابل احترام شخصیت ہیں لیكن ان كا كسی سیاسی جماعتی كی طرف جھكاؤ ان كی غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) جب بھی مشكل میں آتی ہے تو ماضی كی طرح ان كو جج كی ضرورت پڑتی ہے، مسلم لیگ (ن) كی یہ روایت رہی ہے كہ جب بھی كوئی جج كمیشن كا سربراہ ان كے دور حكومت میں بنایا جاتا ہے تو بعد میں وہ اس كو صدر مملكت بنادیتے ہیں۔ انہوں نے كہا كہ پیپلزپارٹی سمیت تمام اپوزیشن كا مؤقف یہ ہے كہ پانامالیكس اسكینڈل كی تحقیقات كے لیے عدالتی كمیشن بننا چاہیے اور اس كمیشن كی سربراہی چیف جسٹس آف پاكستان كو كرنی چاہیے لیکن اگر عدالتی كمیشن قائم نہیں كیا جاتا تو میری تجویز ہے كہ پارلیمانی كمیٹی قائم كردی جائے جس كی سربراہی چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی كریں اور وہ اس معاملے كی تحقیقات كریں، رضا ربانی پر سب کو اعتماد ہوسکتا ہے، انہیں تمام اختیارات دیئے جائیں اور ٹیکنیکل افراد کی خدمات بھی دی جائیں۔
خورشید شاہ نے کہا کہ اگر حكومت اس معاملے كی تحقیقات كے لیے سنجیدہ ہے تو عدالتی كمیشن یا پارلیمانی كمیٹی جلد قائم كرے اس طرح یہ مسئلہ جلد حل ہوجائے گا۔ انہوں نے كہا كہ پیپلزپارٹی نے كبھی جمہوریت كے خلاف سازش نہیں كی ہے، ہم نے ہمیشہ جمہوریت كے لیے قربانیاں دی ہیں، ہم جمہوری نظام كی مضبوطی چاہتے ہیں، پیپلزپاٹی كوعوام میں جمہوری جدوجہد اجاگر كرنے پر فخر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) كے افراد ہی ملك كا سیاسی ماحول خراب كررہے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا كہ وزیر اعظم كا سیاسی مشیر كون ہے، پہلے ان سے تقریر كروائی گئی اور پھر باتوں میں پھنسوادیا گیا، وہ باتوں میں پھنستے چلے گئے اور اب یہ معاملہ سنجیدہ ہوتا جارہا ہے، پاناما لیكس كے معاملے پر پیپلزپارٹی تحقیقات كے حوالے سے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گی، اپوزیشن ایك پیج پر ہے اور سب كا مؤقف یہی ہے كہ اس معاملے پر عدالتی كمیشن جلد سے جلد قائم كیا جائے ۔ ایك سوال كے جواب میں خورشید شاہ نے كہا كہ نواز شریف اور آصف زرداری كے درمیان لندن میں كوئی ملاقات نہیں ہوگی۔
دوسری جانب پی ٹی آئی نے بھی جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی کا نام مسترد کردیا، ترجمان تحریک انصاف نعیم الحق کا کہنا تھا کہ ہم صرف چیف جسٹس کی سربراہی میں ہی کمیشن قبول کریں گے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب پاناما لیکس پر کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز سے رابطہ کیا گیا تھا جس پر کئی ججز کے انکار کے بعد سرمد جلال عثمانی نے کمیشن کی سربراہی قبول کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔