عالمی امور ’جے این یو‘ مساوات کے لیے برسرپیکار

طلبہ نے بھارتی دستور کے حقیقی نفاذ کے لیے کمر کس لی

طلبہ نے بھارتی دستور کے حقیقی نفاذ کے لیے کمر کس لی ۔ فوٹو : فائل

آزادی سے پہلے آزادہندوستان کے لیے پھانسی پر چڑھ جانے والے بھگت سنگھ نے کہا تھا، 'گورے چلے جائیں گے، اور پھر 'کالے انگریز' ہم پر حاکم ہوں گے!' ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے طلبہ اب انہی ''انگریزوں'' سے آزادی کے لیے نبرد آزما ہیں۔ کہنے، سننے اور پہننے اوڑھنے سے لے کر اپنی مرضی سے جینے کا حق مانگنے والے طلبہ کو ریاست کی جانب سے کچھ ایسے ہی ردعمل کا سامنا ہے، جیسا برطانوی حکم رانوں کے دور میں سہنا پڑتا تھا۔

اپنے مطالبات کی پاداش میں جے این یو کی طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار اور ان کے ساتھی بغاوت کے مقدمے جھیل رہے ہیں۔ اس مقدمے میں کنہیا کمار کے علاوہ مزید پانچ طالب علموں کو نام زَد کیا گیا ہے، جس میں یونین کے جنرل سیکریٹری راما ناگا، سابق صدر آشو توش کمار، سابق نائب صدر آنند پرکاش، طالب علم عمرخالد اور انربان بھٹا چاریہ شامل ہیں۔ ان میں یونین صدر کنہیا کمار، عمر خالد اور انربان بھٹاچاریہ ضمانت پر ہیں، جب کہ باقی طلبہ کو حراست میں نہیں لیا گیا، لیکن ان سے تفتیش جاری ہے۔

کنہیا کمار کے بقول ہمارا سماج جو کل سوچے گا، جے این یو کو آج ہی اس کی فکر ہوتی ہے۔ سابق بھارتی وزیر ششتی تھرور یہاں کے طلبہ کو سماج کی تعلیم کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے روشن خیال اور انتہاپسند حلقوں کے درمیان الوطنی اور ہندوستانی سالمیت کے حوالے سے شدید لفظی جنگ چھڑ چکی ہے۔ بی جے پی اور سخت گیر عناصر نے 'بھارت ماتا کی جے' کے نعرے کی بنیاد پر بھارتی قوم پرستی کی مہم شروع کر رکھی ہے، تو دوسری طرف کنہیا کمار ہندوستانی دستور کے عملاً نفاذ کا نعرہ لگا رہے ہیں، جس کے تحت ذات پات سے لے کر اقلیتوں تک ملک کے تمام کم زور طبقوں کے لیے تمام حقوق کی بات کرنا ہی حب الوطنی ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طلبہ نے طبل جنگ بجا دیا ہے۔ کنہیا کمار کہتے ہیں کہ حیدرآباد یونیورسٹی میں دلت طالب علم روہت کو اس کے حقوق سے محروم کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے اس نے اپنی جان لے لی، ہم اس کے لیے کھڑے ہوئے، یہی ہمارا جرم تھا۔

ہم بھارتی آئین کے عملی نفاذ کی لڑائی لڑ رہے ہیں اور یہ لمبی لڑائی ہے، اس لیے کوئی ہار جیت والی بات ہی نہیں۔ ہم دیس کے اتحاد کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، جے این یو کو کا تحفظ اس ریاست کا تحفظ ہے۔ اب ہمیں گوروں کے چیلوں سے آزادی حاصل کرنی ہے۔ مودی اینڈ کمپنی کو جے این یو پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ ملک کو لوٹنے والے سینہ ٹھونک کر خود کو محب وطن بتاتے ہیں اور جو عوام کے ساتھ کھڑا ہو، اسے باغی قرار دے دیا جاتا ہے۔

مودی سرکار کی جے این یو سے لڑائی روز اول سے جاری ہے، جب انہوں نے جے این یو میں من پسند اساتذہ، رجسٹرار اور شیخ الجامعہ کا تقرر کیا اور نو فروری کو افضل گرو کے حوالے سے منعقد تقریب کو بنیاد بنا کر جے این یو پر دھاوا بول دیا گیا۔ کنہیا کمار واضح کرتے ہیں کہ ہندوستانی قومیت کو ایک دھرم اور ایک ذات پر استوار نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کہتی ہے کہ دیش پر تنقید برداشت نہیں کی جائے گی، یہ تو ہم بھی کہتے ہیں، لیکن یہ جان لیں کہ دیش کا مطلب مودی جی نہیں۔ درحقیقت ہم ملک بچانے کی، جب کہ نریندر مودی ملک مٹانے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ حکومت آزادی اظہار اور اعلیٰ تعلیم کے سلسلے کو نکیل ڈالنا چاہتی ہے، جو ہم نہیں ہونے دیں گے۔

یہ کیسی بھارت ماتا کی جے ہے کہ یہ نعرہ لگا کر مجھے ماں بہن کی گالیاں دی جاتی ہیں۔ یہاں بسنے والے سوا کروڑ لوگوں کی بات کرنا ہی اصل حب الوطنی ہے، اب مودی اور آر ایس ایس کی حب الوطنی نہیں چلے گی، جس میں دلتوں اور مسلمانوں کو غدار کہا جاتا ہے۔ مذہبی جذبات بھڑکا کر لوگوں کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا، اب انتخابات روٹی کپڑا اور مکان کی بات پر لڑا جائے گا۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے کلوز سرکٹ کیمروں کی تنصیب کا اعلان کیا گیا ہے، ساتھ ہی نظم وضبط کے خلاف ورزی پر سخت کارروائی کا عندیہ بھی دیا ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ کسی طالب علم کی نظم وضبط کی خلاف ورزی کا یقین شیخ الجامعہ کریں گے۔

کنہیا کے ساتھی طالب علم عمر خالد نے رہائی کے بعد مودی سرکار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد محب وطنوں کے تضاد کا یہ عالم ہے کہ انہیں ہمارے خلاف کارروائی کے لیے 1860ء کے گوروں کے قانون کا سہارا لینا پڑا۔ مسلسل غلط خبریں شایع ونشر کرکے ہمیں بدنام کیا گیا، خبریں غلط ثابت ہونے پر معذرت تک نہ کی۔ اسی لیے اب ہم چینلوں سے بات نہیں کر رہے کہ وہ ہمارا ایک جملہ پکڑ کر اس کا غلط پرچار کریں گے۔ پہلے ہی ہمارے اہل خانہ کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ روپوشی کے دنوں میں ایک اخبار نے لکھا کہ میں نکسل باغیوں کے ساتھ لڑ رہا ہوں۔

پولیس اپنی جانچ کرنے کے بہ جائے نام نہاد صحافیوں کی خبروں پر تفتیش کرتی ہے۔ ہم غوروفکر کرنے والے لوگ ہیں، اس لیے ہم نے اس کا نتیجہ بھگتا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں کسی کو برا خیال آنے پر بھی پکڑ لیا جائے گا کہ آپ کل کچھ غلط کریں گے، اس لیے ہم نے آج ہی گرفتار کر لیا۔ عمر خالد کے ساتھ رہا ہونے والے طالب علم انربان بھٹا چاریہ نے رہائی کے بعد اعتراف کیا کہ تفتیش کے دوران عمر کو مسلمان ہونے کی بنا پر زیادہ سختیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

چینلوں نے یہاں تک ''ثابت'' کردیا کہ عمر تین بار پاکستان گیا ہے، لیکن ہندو ہونے کی بنا پر میرے پاکستان جانے کی کہانی نہیں چل سکتی تھی، اس لیے تھانے میں بھی مجھے کئی بار کہا کہ تم یہ کہہ دو کہ تمہیں عمر نے بہکایا تھا۔ دوسرے ملکوں کی بنی ہوئی چیزوں کی اشتہار بازی کر کے حب الوطنی جتانا قوم پرستی ہے، تو شاید ہم اس میں فٹ نہیں ہوتے۔ یہاں آپ دنیا کا کوئی بھی جرم کریں اور 'بھارت ماتا کی جے' کا نعرہ لگائیں۔ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ ایسی حب الوطنی کو ہم نہیں مانتے۔

٭مودی سرکار یونیورسٹی نہیں ریاست پر حملہ آور ہے: شہلا راشد
سری نگر میں آنکھ کھولنے والی شہلا راشد جے این یو طلبہ یونین کی نائب صدر ہیں۔ وہ پہلی کشمیری طالبہ ہیں، جو جے این یو میں اس عہدے پر پہنچی۔ کنہیا کی اسیری کے دوران انہوں نے ہی کنہیا کے حق میں ہونے والی تحریک میں طلبہ کی قیادت کی۔ شہلاارشد کہتی ہیں کہ انہوں نے کشمیر میں بھارتی فوج کی بدسلوکی کے باوجود کبھی خود کو دیگر طلبہ سے الگ نہیں سمجھا، وہ آج بھی خود کو کمیونسٹ کے طور پر متعارف کراتی ہیں، لیکن جب ان کی مذہبی شناخت پر حملے کیے جاتے ہیں، تو انہیں دکھ ہوتا ہے۔

آر ایس ایس کہتی ہے کہ ''جو افضل کی بات کرے گا وہ افضل کی موت مرے گا'' کیا یہ اس سزا پر مکالمہ کرنے والے اساتذہ اور ججوں کو ماریں گے۔ افضل گرو پر تقریب محض بہانہ ہے۔ آر ایس ایس اس سے پہلے بھی مختلف یونیورسٹیوں میں پروگراموں پر مارپیٹ کرتی رہی ہے۔ پورے سماج کی طرح جامعات میں بھی دلت طالب علموں سے تعصب برتا جا رہا ہے، ہمارے پاس آئے روز ہندوستان بھر سے ایسے واقعات درج ہوتے ہیں۔

روہت ویمولا کا دل برداشتہ ہوکر خودکُشی کرنے سے طلبہ کی تحریک نمایاں ہوئی۔ انتہا یہ ہے کہ اب پروفیسر بھی کھلم کھلا نچلی ذات کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو قوم دشمن کہہ رہے ہیں۔ بی جے پی ہندوستان بھر کی مختلف ریاستوں میں اٹھنے والے طلبہ کو بری طرح کچل رہی ہے۔ روشن خیال اساتذہ کو دھونس، دھمکی اور مقدمات سے ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسے فقط یونیورسٹیوں پر حملہ سمجھا سنگین غلطی ہوگی، یہ پوری ریاست پر حملہ ہے، طلبہ ہندوستان کی دستوری ساکھ کو بچانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔


٭انوپم کھیر ایک 'چھوٹے قد' کا فن کار
قومیت کی بحث کو مذہب کی بنیاد پر استوار کرنے کی بحث میں ہندوستان کے نام وَر فن کار انوپم کھیر بھی پوری طرح سرگرم ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے کنہیا کمار کو آڑے ہاتھوں لیا اور بھارت ماتا کی جے اور وندے ماترم کہنے ہی کو اصل حب الوطنی قرار دیا۔ جے این یو میں ان کی فلم 'بدھا ان اے ٹریفک جام' کی نمائش کے دوران بھی طلبہ نے ان کے خلاف شدید احتجاج کیا اور ان کی اقلیت دشمنی اور آر ایس ایس نوازی کی شدید مذمت کی۔



اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر چیز دستور میں لکھی ہوئی ہو کہ ہمیں بھارت ماتا کی جے کا نعرہ لگانا ہے یا نہیں۔ کنہیا کمار کے بھوک اور غربت سے آزادی کے نعرے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ خود بتائیں کہ انہوں نے خود اپنے ماں باپ کی غربت دور کرنے کے لیے اب تک کیا کیا؟ میں تو اپنے زمانے میں وظیفے کے پیسے بھی بچا کر گھر والوں کو بھیجتا تھا، بہت عرصے بعد ہندوستان کو ایک اچھا وزیراعظم ملا ہے، کیا دو سال پہلے ملک میں یہ سب مسائل نہیں تھے؟ انہوں نے کنہیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''بیٹا! تنقید کرنا آسان ہے، بھارت میں رہتے ہو نا۔۔۔ اتنی آزادی تو ہے تمہیں۔''

٭ ''روہت ایکٹ'' کا مطالبہ
جے این یو کی طلبہ یونین، جامعات میں رائج ذات پات اور رنگ ونسل کی تفریق کے خلاف آنجہانی دلت طالب علم روہت ویمولا کے نام سے منسوب ''روہت ایکٹ'' کا مطالبہ کر رہی ہے، جس کے تحت ایسے کسی بھی امتیاز اور بٹوارے کی سخت ممانعت ہو اور پارلیمان میں اس حوالے سے مخصوص قانون سازی کی جائے، تاکہ غیرانسانی سلسلہ اور عدم مساوات کا باب بند ہو سکے اور کوئی دلت اور غیرہندو طالب علم کسی ظلم کا نشانہ نہ بن سکے۔

٭ کنہیا بھارت کے مقبول ترین طالب علم راہ نما
ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی طالب علم راہ نما کو اتنے بڑے پیمانے پر مقبولیت ملی۔ جیل سے رہائی کے بعد ان کی ایک گھنٹے کی تقریر کو ملک بھر میں نشر کیا گیا۔ بغاوت کے مقدمے اور گرفتاری نے کنہیا کمار کی شہرت کو آسمان پر پہنچا دیا۔ کنہیا اپنے بے باک انداز کی بنا پر لوگوں کو مستقبل کا راہ نما دکھائی دیا۔ وہ اُن کی حاضر جوابی اور بذلہ سنجی کے گرویدہ ہوگئے ہیں۔ ان سے اس تقریر کی تیاری کے حوالے سے پوچھا گیا، تو انہوں نے بتایا کہ یہ بغیر کسی تیاری کے، فی البدیہہ گفتگو تھی، میں طلبہ اور ہندوستان کے مسائل سے آگاہ ہوں، اس لیے اپنی بات میں کوئی بناوٹ نہیں لاتا نہ ہی اسے تمثیلی انداز میں کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔

٭ 'جے این یو' کی فضا ہی کچھ ایسی ہے
کنہیا کمار کہتے ہیں کہ 'جے این یو' کی فضا میں ہی کچھ ایسی بات ہے کہ کوئی مارپیٹ بھی کرے، تو اسے ہاتھا پائی سے جواب دینے کے بہ جائے ہم یہی کہیں گے دیکھیں یہ آپ بہت غیر جمہوری فعل کر رہے ہیں! ایک دفعہ یہاں جھگڑا ہوا، تو طلبہ یہی کہہ رہے تھے کہ ہاتھ اٹھانے والے کی ہم جولی کو سمجھانا چاہیے تھا کہ وہ ایسا نہ کرتا، سخت گیر اور دائیں بازو کے طلبہ بھی یہاں تحمل سے کام لیتے ہیں، دیگر جگہوں کی طرح نہیں ہے کہ جتھے بنا کر بدلہ لینے نکل چلیں، یہاں تک کہ آپ اس جامعہ میں کسی کتے اور بلی تک کو بھی لڑتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔



٭سرکاری زرتلافی کا جواب
دائیں بازو کے لوگ سماجی ذرایع ابلاغ پر بھی زور وشور سے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، کہ جن طلبہ کو ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے پڑھایا جاتا ہے، وہ ملک دشمنی کر رہے ہیں۔ کنہیا کمار کا کہنا ہے کہ ساڑھے چار ہزار سفارت کاروں میں سے ڈھائی ہزار جے این یو سے فارغ التحصیل ہیں۔ عوام مطمئن رہیں، ان کے پیسوں سے پڑھنے والے کبھی ملک دشمن نہیں ہو سکتے۔ آپ غلط جگہوں پر خرچ ہونے پر سوال اٹھائیے، تاکہ مزید غریب طلبہ پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھل سکیں۔

٭ ''سوچ زمانے کے ساتھ بدلنا ضروری ہے''
کنہیا کمار کہتے ہیں کہ ہمیں دانش وَروں کے نظریات اور خیالات کو ان کے دور کے حوالے سے سمجھنے کے بعد انہیں آج اپنی ضرورت کے مطابق لاگو کرنا چاہیے۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ اپنے موقف کو بدلتے ہوئے زمانے سے ہم آہنگ کرتے رہے ہیں۔ یہی اصل دانش مندی ہے۔ موہن داس گاندھی نے بھی کہا تھا کہ ان کی تازہ رائے کو ہی ان کا اصل موقف جانا جائے۔ کمیونزم کی بنیادیں انسانیت پر استوار ہیں۔ کوئی بھی غیرجمہوری فرد کمیونسٹ نہیں ہوسکتا، ہمیں اپنے خیالات میں سخت گیری لانے کے بہ جائے بدلاؤ پر یقین کرنا پڑے گا۔ جب سب چیزیں بدل رہی ہیں، تو ہم دو سو سال پہلے والی باتیں آج کس طرح لاگو کر سکتے ہیں۔ تنگ نظری بڑھ رہی ہے اس لیے آج دنیا بھر کے ترقی پسندوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

٭ ''ہم زندگی کو مشکل بنادیتے ہیں''
خاندانی کمیونسٹ کنہیا کمار اسکول کے زمانے سے ہی ہونہار طالب علم ہیں۔ ریاست بہار میں ان کے ضلعے بیگو سرائے میں سرخ نظریات کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ یہ 'لینن گراڈ' کے نام سے مشہور تھا۔ کنہیا کے والد اپنے بھائی کے ساتھ ایک نیم پختہ پرانے گھر میں رہتے ہیں۔ والدہ کی تنخواہ تین ہزا ہے۔ والد مزدوری اور ڈرائیوری کرتے تھے، 2009ء میں فالج کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہیں۔ کنہیا سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ اپنے غریب خاندان کی فکر چھوڑ کر اس کڑی جدوجہد کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ خواہشات کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، ہمارا پیٹ ایک ہے اور ہاتھ دو ہیں۔



والد مفلوج ہیں۔ والدہ اتنا کمارہی ہیں کہ دونوں کا گزارہ ہو جاتا ہے۔ بڑا گھر اور درجنوں ملازم رکھنے کا خواب نہیں، والدین کہتے ہیں کہ اچھا انسان بنو۔ یہاں وظیفے کے ذریعے اپنے رہنے سہنے اور تعلیم کے اخراجات پورے کر رہا ہوں۔ کبھی ضرورت ہوتی ہے، تو یار دوست اپنے جوتے کپڑے دے دیتے ہیں۔ والد کے علاج کے لیے ضرورت پڑی، تو جے این یو کے طلبہ نے ڈیڑھ لاکھ روپے چندہ کر کے دیا۔ بڑا بھائی اپنی نوکری سے کنبہ چلا لیتا ہے، بہن کی شادی ہوگئی، بہنوئی کھیتی باڑی سے گزر بسر کرلیتے ہیں، چھوٹا بھائی ٹیوشن پڑھا کر اپنے اخراجات پورے کرلیتا ہے۔ زندگی اتنی مشکل نہیں ہے، جتنا ہم اسے بنا دیتے ہیں۔ جے این یو میں ٹیچر بننے کا خواب ہے، پھر اچھی تنخواہ ملے گی، والدین کو ادھر ہی کواٹر میں لے آؤں گا۔
Load Next Story