انسانی تاریخ کے سب سے بڑے دستاویزی انکشافات پانامہ پیپرز
خفیہ دستاویزات کی حیرت انگیزداستان جن کے افشاء نے بالادست طبقات کے طریقۂ واردات سے پردہ اٹھا کردنیا بھرمیں ہلچل مچادی
یہ نومبر 2014ء کی بات ہے' بستیان اوبر مائر اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا۔ وہ جرمن شہر' میونخ سے نکلنے والے معروف اخبار' زیتوشے زاتوئنگ سے بطور سراغ رساںصحافی (investigative journalist) منسلک تھا۔ اوبر مائر خاص طور پر یورپ کے ان امرا پر تحقیق کرتا ہے جو اپنی دولت ٹیکس بچانے کے لیے بیرون ممالک کے مالیاتی ا داروںمیں چھپا دیں۔کمپیوٹر پر کام کے دوران اچانک اسے ایک انوکھی ای میل موصول ہوئی ۔اس پر لکھا تھا: ''ہیلو' میں جان ڈی ہوں۔ تمہیں خفیہ ڈیٹا درکار ہے؟''
اوبرمائر شروع میں سمجھا کہ کوئی اس سے مذاق کر رہا ہے۔ مگر اگلی ای میل کے الفاظ نے اسے چونکا دیا:''دیکھو' میری زندگی خطر ے میں ہے۔ میں چند شرائط کے بعد ہی تمہیں خفیہ ڈیٹا دوں گا۔ ہم صرف رمزی(کوڈ ورڈز) انداز میں گفتگو کریں گے اور ہماری کبھی ملاقات نہیں ہو گی۔''
سراغ رساں صحافی ہونے کے باعث اوبرمائر کی چھٹی حس بیدار ہو گئی۔ اس نے سوچا کہ جان ڈی نامی شخص کی سبھی شرائط مان لیتا ہوں۔ نجانے وہ کس قسم کا خفیہ ڈیٹا مجھے دینے والا ہے۔ تب اس کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس کے ذریعے تاریخ انسانی میں خفیہ دستاویزات کا سب سے بڑا خزینہ آشکار ہو جائے گا جسے ''پاناما پیپرز'' یا لیکس کا نام دیا گیا۔
اوبرمائر نے پلک جھپکنے میں اپنے کمپیوٹر میں وہ سافٹ ویئر انسٹال کر لیا جسکی مدد سے خفیہ انداز میں بات چیت کی جاسکتی ہے۔ جلد دونوں کی گفتگو کا آغاز ہو گیا۔ تبھی اوبرمائر پر افشا ہوا کہ یہ خفیہ ڈیٹاپاناما کی موساک فونسیکا (Mossack Fonseca)نامی لافرم سے متعلق تھا۔ یہ دنیا کی چوتھی بڑی قانونی کمپنی ہے۔ اس کا ایک اہم کاروبار ''آف شور'' (بیرون ملک قائم ) کمپنیاں کھولنے میں گاہکوں کی مدد کرنا ہے۔
کچھ عرصہ قبل اوبر مائر اپنی یہ تحقیقی رپورٹ سودیوچے زیتنگ میں شائع کروا چکا تھا کہ موساک فونسیکا دولت چھپانے میں ٹیکس چوروں کی مدد کرتی ہے۔ یقیناً وہی رپورٹ پڑھ کر اس نامعلوم شخص نے اوبرمائر سے رابطہ کیا جو ہر قیمت پر اپنی شناخت پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا۔ جب کوڈ میں فائلوں کی صورت اسے ڈیٹا ملنا شروع ہوا' تو اوبرمائر کو احساس ہوا کہ وہ اجنبی رہنے پر کیوں مُصر تھا۔ڈیٹا کے مطالعے سے انکشاف ہوا کہ دنیا کے نامی گرامی ''201'' سیاست دانوں اور سرکاری افسروں نے موساک فونسیکا کے ذریعے آف شور کمپنیاں قائم کیں اور خفیہ بینک اکاؤنٹ یا فنڈزکھول لیے۔ ان میں حاضر و سابق صدور' وزرائے اعظم' حکمرانوں کے قریبی رشتے دار اور دوست' وزرا اور ارکان اسمبلی شامل تھے۔ ظاہر ہے ' دنیا کی طاقتور ہستیوں کا کچا چٹھا کھولنے والے شخص (یا شخصیات) کو اپنی شناخت پوشیدہ ہی رکھنی چاہیے تھی۔
اگلے ایک سال تک اوبرمائر اپنے اجنبی دوست سے خفیہ سافٹ ویئروں کے ذریعے گفتگو کرتا اور ڈیٹا کی فائلیں لیتا رہا۔ جب ڈیٹا مکمل ہوا تو اس کی جسامت نے سبھی کو چکرا دیا۔ وہ'' 2.6''ٹیرا بائٹس پر مشتمل تھا۔ ا وبرمائر متجسس تھا کہ اجنبی آخر یہ ڈیٹا کیوں طشت از بام کر رہا ہے۔ ایک دن اس نے یہ سوال داغ ہی دیا۔ اجنبی نے بتایا:
''بھئی ڈیٹا دینے میں میرا کوئی مالی یا دنیاوی مفاد وابستہ نہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ایلیٹ طبقے کے جرائم دنیا بھر کے عوام کی نظروں میں آ جائیں۔''
اس عوام دوست اجنبی نے جو سوچا تھا' وہ 4 اپریل 2016ء کو پورا ہو کر رہا۔ اس دن ڈیٹا کو منظم و منضبط کرنے کے بعد زیتوشے زاتوئنگ اور دیگر عالمی میڈیا نے عوام الناس کے سامنے پیش کر دیا۔ یوں دنیا بھر کا وہ ایلیٹ طبقہ تاریخ میں پہلی بار وسیع پیمانے پہ بے نقاب ہو گیا جس نے اپنا کھربوں ڈالر کا سرمایہ مالیاتی پناہ گاہوں میں چھپایا ۔اس طبقے سے وابستہ کرپشن کی داستانیں زبان زدعام تھیں،مگر یہ پہلا موقع تھا کہ امرا اور طاقتوروں کا طریق واردات بڑے واضح اور جامع انداز میں افشا ہوا۔ سب سے سخت عوامی رد عمل آئس لینڈ میں سامنے آیا جہاں عوام نے قصرِ وزیراعظم کا گھیراؤ کر لیا۔ وہ آف شور کمپنی کے مالک وزیراعظم سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔
شاید یہ پُراسرار اجنبی کبھی منظر عام پر نہیں آ سکے جس نے عالمی بالادست طبقے کی کرپشن آشکار کر دی لیکن قانون و انصاف کی تاریخ میں اس نے نیا باب ضرور رقم کر ڈالا ۔ آج دولت کی نامنصفانہ تقسیم امرا ء اور غریبوں کے مابین خلیج بہت وسیع کر چکی ہے۔ اسی تقسیم کی وجہ سے امیر تو امیر تر ہو رہے ہیں جبکہ غریب ' غریب تر ۔ ممکن ہے،پاناما لیکس کے ذریعے امرا کے لیے اپنی دولت پوشیدہ رکھنا اور ٹیکس بچانا مشکل ہو جائے ۔ اب وہ مجبور ہوں گے کہ قومی خزانے میں اپنا جائز حصّہ ڈالیں اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا قانونی کردار ادا کریں۔واضح رہے،ایک رپورٹ کی رو سے سبھی امرا کے ''21 تا 36 ٹریلین ڈالر'' مالیاتی پناہ گاہوں ''(Tax havens) میں محفوظ ہیں جن پہ کسی قسم کا ٹیکس عائد نہیں ہوتا۔
عوام کا بین الاقوامی ردعمل
جیسے ہی پاناما پیپرز کی تفصیلات عام ہوئیں' ترقی یافتہ ممالک میں عوام امیر و بااثر طبقے کے جرائم کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔ انہوںنے آئس لینڈ کے وزیراعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ کئی ممالک مثلا ً بھارت' آسٹریلیا 'برطانیہ ، فرانس ' نیوزی لینڈ' کولمبیا' سویڈن اور آسٹریا میں ایلیٹ طبقے کے اثاثہ جات اور لین دین کی سرکاری تحقیقات ہونے لگیں۔
پاکستان میں ابتداًپاناما لیکس کے انکشافات نے ہلچل نہ مچائی ۔شاید اس لیے کہ پاکستانی قوم آئے دن بالادست طبقات کی کرپشن اور فراڈ کے واقعات سنتی پڑھتی رہتی ہے۔ تاہم میڈیا اور حزب اختلاف نے قوم کو باور کرایا کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے جو پاکستانی ایلیٹ طبقے کو راہ راست پر لا سکتا ہے۔ جب پاناما لیکس پر گرما گرمی نے جنم لیا' تو وزیراعظم پاکستان کو تقریر کرنا پڑی اور اپنے دامن پر لگے دھبے صاف کرنے کی خاطر عدالتی کمیشن بٹھانا پڑا۔تادم تحریر اپوزیشن اس اقدام سے مطمئن نہیں اور احتجاج کی طرف مائل ہے۔
پاناما لیکس سے انکشاف ہواکہ 200پاکستانی سیاست دانوں اور کاروباری شخصیات نے بھی موساک فونسیکا کے ذریعے آف شور کمپنیاں قائم کیں ۔یاد رہے' بیرون ملک آف شور کمپنی قائم کرنا کوئی جرم نہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ کمپنی کس مقصد کے لیے قائم کی گئی اور اسے کیونکرچلایا گیا۔ اگر کمپنی کے ذریعے غیر قانونی کام ہوا تب قانون حرکت میں آ جاتا ہے۔مذید براں آف شور یا شیل کمپنی کو چھپانا بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
پاناما لیکس کے مطابق میاںنواز شریف اور شہبازشریف کے اہل خانہ نے 9 آف شور کمپنیاں قائم کیں ۔مرحومہ بے نظیر بھٹو سے1 کمپنی وابستہ ہے۔ تاہم ان کے رشتہ دار' حسن علی جعفری7کمپنیوں' آصف علی زرداری کے قریبی دوست جاوید پاشا 4کمپنیوں'پیپلزپارٹی کے سینٹر رحمان ملک 1کمپنی اور پی پی پی سینٹر عثمان سیف اللہ کے خاندان والے 34آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے ۔ یاد رہے' امریکی دانشور' ریمنڈ بیکر اپنی مشہور کتاب ''Capitalism's Achilles Heel'' میں ان درجن بھر آف شور کمپنیوں کی تفصیل دے چکا جو آصف علی زرداری یا بے نظیر بھٹو نے برٹش ورجن آئی لینڈز میں 1990ء تا1995ء کے عرصے میں کھولی تھیں۔ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ جوڑے نے کرپشن کے ذریعے جو کروڑوں روپے کمائے ' وہ انہی آف شور کمپنیوں کے ذریعے سفید دھن میں بدلے گئے۔ تاہم مرحومہ بے نظیر اور آصف زرداری ان کمپنیوں کی ملکیت سے انکار کرتے رہے ہیں۔
1998ء میں پی پی پی کے سینٹر اور ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر، رحمان ملک لندن میں مقیم تھے ۔ اسی برس انہوںنے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ شریف خاندان لندن میں جائیدادیں خرید رہا ہے۔ رپورٹ میں انہوں نے دعوی کیا کہ شریف خاندان ٹیکس چوری میں ملوث ہے جو قانون پاکستان کی رو سے جرم ہے۔ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ ٹیکس چوری سے حاصل کی گئی رقم ہی سے لندن میں فلیٹ اور گھر خریدے گئے۔
2008ء میں میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز اور صاحبزادی مریم نواز نے سوئٹزر لینڈ میں جرمن دویچہ بینک کی شاخ سے رجوع کیا۔ وہ ستر لاکھ پونڈ (ایک ارب پانچ کروڑ روپے) کا قرضہ چاہتے تھے۔ قرضہ حاصل کرنے کی خاطر ا نہوںنے لندن کے اپنے چار فلیٹ بھی رہن رکھوائے۔ یہ فلیٹ برٹش ورجن آئی لینڈز کی دو آف شور کمپنیوں... نیس کول لمیٹڈ اور نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ کی ملکیت تھے۔ یہ دونوں کمپنیاں بالترتیب 1993ء اور 1994ء میں کھولی گئیں۔
شریف خاندان کا کہنا ہے کہ آف شور کمپنیاں کھولنا اور ان کے ذریعے ٹیکس بچانا کوئی جرم نہیں بلکہ ان کا حق ہے۔ اس لیے انہوںنے کوئی غلط کام نہیں کیا اور ان کے ہاتھ صاف اور ضمیر مطمئن ہیں۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ اور آصف زرداری کے مانند شریف خاندان کا بھی دعویٰ ہے کہ بطور سیاسی انتقام ان پر کرپشن کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔یاد رہے کہ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں لوہے اور چینی کے کاروبار سے شریف خاندان نے بے پناہ منافع کمایا اور اس کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہونے لگا۔ خاندان نے 1993ء تا 1996ء کے دوران لندن میں چار فلیٹ خریدے۔ مگر ان سے وابستہ آف شور کمپنیوں کو 2006ء میں موساک فونسیکا کی ملکیت میں دیاگیا۔لندن کی جائیدادیں اب بھی شریف خاندان ہی کی ملکیت ہیں۔ تاہم یہ معلوم نہیں کہ وہ انہی کے نام ہیں یا آف شور کمپنیوں کے نام!
آئس لینڈ کے وزیراعظم کی چشم کشا داستان
یہ 15 مئی 2014ء کا واقعہ ہے کہ آئس لینڈ میں پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ ارکان پارلیمنٹ اس معاملے پر بحث کرنے جمع ہوئے تھے کہ ٹیکس چوروں اور ان دھوکے بازوں سے کیسے نمٹا جائے جو بیرون ممالک خفیہ آف شور کمپنیاں قائم کر کے اپنی دولت میں اضافہ کرتے چلے جا رہے تھے ۔ اس موقع پر یہ تجویز پیش ہوئی کہ آف شور کمپنیاں کھولنے کا دھندا کرنے والی لا فرمز سے ٹیکس چوروں کی معلومات منہ مانگی قیمت پر خرید لی جائیں۔آئس لینڈ کا وزیراعظم، سگیموندور گونسلاگون اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہنے لگا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ یوں قومی دولت ضائع ہو گی اور شاید مفید معلومات ہاتھ نہ آئیں۔ وزیراعظم کی مخالفت پر درج بالا تجویز مسترد کر دی گئی۔ تب کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ ان کا وزیراعظم بھی ایک آف شور کمپنی سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔
قطب شمالی کے نزدیک واقع آئس لینڈ میں مالیاتی سرگرمیاں چند عشرے قبل ہی شروع ہوئیں۔1985ء تک وہاں سٹاک مارکیٹ کا نام ونشان نہ تھا۔ جبکہ سبھی بینک حکومت کی ملکیت تھے ۔رفتہ رفتہ حکومت نے آزاد معاشی پالیسی اپنائی اور بینک نجی شعبے کو دے دیئے۔ 2008ء تک تین بڑے بینکوں... کو پتھنگ ' لینڈ سیپنکی اور گلٹنر کے اثاثہ جات 180 ارب ڈالر تک جا پہنچے۔ یہ قومی معیشت کی مالیت سے ''گیارہ گنا'' زیادہ رقم تھی تاہم یہ ترقی مالیاتی بلبلہ ثابت ہوئی۔
ہوا یہ کہ اکتوبر 2008میں مندرجہ بالا تینوں بینک دیوالیہ ہو گئے۔ ان بینکوں کے مالکان اور افسروں نے آئس لینڈ کے بااثر طبقے کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے اربوں ڈالر بطور قرضہ دے دیئے تھے۔ جب 2008ء کے معاشی بحران کی وجہ سے وہ قرضے اور ان کا سود واپس نہ ملا تو بینک دیوالیہ ہو گئے۔ انہی آف شور کمپنیوں میں سے ایک کا مالک حکمران جوڑا بھی تھا۔
بینکوں کے دیوالیہ ہونے سے آئس لینڈ کی معیشت کو سخت نقصان پہنچا۔ سٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی اور کرنسی(کرونا) کی قدر بھی بہت متاثر ہوئی۔ اس معاشی بحران کے اثرات 2011ء تک برقرار رہے ۔ اسی دوران آئس لینڈ کے ساڑھے تین لاکھ باشندے مالیاتی اداروں سے نفرت کرنے لگے۔ وجہ یہی کہ امیر اور بااثر لوگوں نے ان اداروں کو اپنی دولت چھپانے اور ٹیکس بچانے کے لیے استعمال کیا۔ جب ٹیکس کم موصول ہوئے تو حکومت نے عوام پر ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی۔ یوں ٹیکس چوروں کے جرم کا خمیازہ بیچارے عوام کو بھگتنا پڑا۔
وزیراعظم بننے سے قبل سیگموندور گونسلاگون ایک معمولی سیاستدان تھا۔ مگر اس نے معاشی بحران کے بعدملکی بینکاری نظام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس امر نے اسے عوام میں مقبول بنا دیا۔ اسی مقبولیت کے سہارے وہ 2009ء میں اپنی جماعت پروگریسو پارٹی کا سربراہ بن گیا اور پھر مئی 2013ء میں آئس لینڈ کا وزیراعظم بن بیٹھا۔ تب اس کی عمر صرف 38سال تھی۔
وزیراعظم بنتے ہی گونسلاگون نے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ کرپٹ اور ٹیکس چور اشرافیہ کے خلاف ایکشن لے گا ۔مگر عوام اس سچائی سے بے خبر تھے کہ ان کا وزیراعظم خود ٹیکس چور ہے۔ ہوا یہ تھا کہ 2007ء میں گونسلاگون نے بیوی، اینا سمیت مقامی نجی بینک، لینڈ سیپنکی سے رابطہ کیا۔ وہ ایک آف شور کمپنی خریدنا چاہتا تھا۔ لینڈربینکی نے موساک فونسیکا کے ذریعے جوڑے کو ونٹرنس نامی آف شور کمپنی کا مالک بنادیا۔
گونسلاگون اور اینا نے وراثت میں جو لاکھوں ڈالر کمائے تھے، وہ اب ونٹرنس کمپنی کو منتقل کردیئے۔ اس رقم سے مقامی بینکوں کے بانڈ خریدے گئے۔ چونکہ یہ بانڈ ونٹرنس کمپنی کی ملکیت تھے لہٰذا ان کا منافع اسی کو ملنے لگا اور وہ ٹیکس سے مبرا بھی قرار پائے۔ یوں حکمران جوڑے نے اپنی دولت کو مروجہ ٹیکسوں سے بچالیا۔ یعنی بانڈوں کا منافع انہیں امیر تر بنانے لگا۔جب حکمران جوڑے کا یہ فراڈ عیاں ہوا، تو آئس لینڈ کے باشعور عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ پھر دلیری سے گونسلاگون کو لتاڑنے اور اس سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ وزیراعظم عوامی احتجاج برداشت نہ کرسکا اور مستعفی ہوگیا۔
ڈیوڈ کیمرون بھی زد میں
پاناما لیکس نے انکشاف کیا کہ سوا دو لاکھ آف شور کمپنیوں میں سے تقریبا 60فیصد تین برطانوی سمندر پار علاقوں ... برٹش ورجن آئی لینڈز' کیمن آئی لینڈ اور برمودا میں قائم کی گئیں۔ اس انکشاف کو باشعور برطانوی اخبارات نے برطانیہ کے دامن پر نہایت بدنما دھبہ قرار دیا ۔اسی دوران برطانوی وزیراعظم، ڈیوڈ کیمرون بھی پاناما لیکس کے شکنجے میں جکڑے گئے۔
انکشاف ہوا کہ ان کے متوفی والد، آئن کیمرون نے تیس سال قبل قومی ٹیکسوں سے بچنے کی خاطر بلیئر مور ہولڈنگز نامی ایک آف شور فنڈ قائم کیا تھا۔ یہ فنڈ موساک فونسیکا کی وساطت سے بہاماس میں کھولا گیا۔2010ء میں آئن کیمرون چل بسے، تو بلیئر مورہولڈنگز میں موصوف کے حصص (تین لاکھ پونڈ) ڈیوڈ کیمرون کو مل گئے۔ برطانوی وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یہ حصص جلد ہی فروخت کر دیئے تھے۔ بلیئر مور ہولڈنگز کا ڈیوڈ کیمرون سے براہ راست تعلق نہیں، مگر برطانوی اپوزیشن ان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اخلاقی طور پہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔
دستاویزات کی حیرت انگیز جسامت
پاناما لیکس ایک کروڑ پندرہ لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہیں۔ دستاویزات کا مجموعی ڈیٹا ''2600گیگابائٹس'' بنتا ہے۔ یہ ڈیٹا ''دو سو'' ہائی ڈیفینیشن فلموں کے برابر ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکی وسل بلوئر رچرڈ سنوڈن کی افشا کردہ عالمی شہرت یافتہ دستاویزات صرف 65 گیگابائٹس پر مشتمل تھیں۔ اسی لیے خود سنوڈن نے پاناما پیپرز کو ''ڈیٹا جرنلزم کی تاریخ میں سب سے بڑی لیک'' قرار دیا جو طبقہ بالا کی کرپشن عیاں کرگئی۔''یاد رہے ،عالمی میڈیا ڈیٹا میں موجود کمپنیوں اور افراد کی مکمل فہرست ماہ مئی کے اوائل میں طبع کرے گا۔ابھی اس کا کچھ حصہ ہی منظر عام پر آیا ہے۔
یہ دستاویزات 48 لاکھ ای میلز، 30 لاکھ ڈیٹا بیس فارمیٹ فائلوں، 22 لاکھ پی ڈی ایف فائلوں، 12 لاکھ تصاویر، تین لاکھ بیس ہزار ٹیکسٹ فائلوں اور سوا دو ہزار دیگر فارمیٹ فائلوں پر مشتمل ہیں۔دستاویزات کے مطابق ''دو سو سے زائد'' ممالک سے تعلق رکھنے والے 14,153 افراد نے موساک فونسیکا کے ذریعے مختلف مالیاتی پناہ گاہوں میں ''دو لاکھ چودہ ہزار'' کمپنیاں ' ٹرسٹ' اور فائونڈیشنیں کھلوائیں۔ یہ دستاویزات 1977ء تا 2015ء کے عرصے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی دوران ''500'' سے زائد بینکوں نے بھی مالیاتی پناہ گاہوں میں لافرم کی وساطت سے ساڑھے پندرہ ہزار شیل کمپنیاں کھول لیں۔ موساک فونسیکا نے سب سے زیادہ شیل (یا آف شور) کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ میں کھولیں جن کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ بقیہ کمپنیاں پاناما، بیاماس اور سیشلیز میں کھولی گئیں۔
یہ انکشاف کرتی ہیں کہ موساک فونسکا نے اپنے گاہکوں کے لیے ''21'' مالیاتی پناہ گاہوں میں آف شور یا شیل کمپنیاں کھولیں' نیز وہاں کے بینکوں میں اکائونٹ کھولے۔ ان اکیس میں سبھی مشہور و معروف مالیاتی پناہ گاہیں شامل ہیں۔پاناما دستاویزات میں تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مرد وزن کا نام شامل ہے۔ ان میں 13 سابق یا حاضر حکمران ہیں۔ 61 افراد ان کے رشتے دار یا دوست ہیں۔ 128 افراد سیاست داں یا سرکاری افسر ہیں۔ کھرب پتیوں کی مشہور فوربس فہرست میں شامل 29 کھرب پتی بھی پاناما دستاویزات کا حصہ ہیں۔امیتابھ بچن اور ایشوریہ رائے سمیت دو سو بھارتی شخصیات ،فٹ بالر لیونل میسی اوراداکار جیکی چن بھی لیکس کا حصہ بنے۔
دنیا میں سب سے زیادہ کھرب پتی امریکا میں بستے ہیں۔ مگر فی الوقت پاناما لیکس میں صرف چار امریکیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مکمل پاناما پیپرز اوائل مئی میں افشا ہوں گے۔ ممکن ہے، تب مزید امریکیوں کے نام سامنے آجائیں۔ ویسے بھی امریکا خود ایک بڑی مالیاتی پناہ گاہ ہے۔دوسری طرف روسی صدر پیوٹن نے پاناما لیکس کو روس کے خلاف امریکی سازش قرار دیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ لیکس سی آئی اے نے افشا کی ہیں تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ روس ایک مافیا مملکت ہے جسے روسی صدر اپنے چند حواریوں کے ساتھ مل کر چلا رہے ہیں۔
میڈیا کی بڑھتی طاقت
جب جرمن صحافی،بستیان اوبر مائر کو احساس ہوا کہ پاناما پیپرز کی دستاویزات کا حجم محیر العقول ہے،تو اس نے صحافیوں کی عالمی تنظیم ''آئی سی آئی جے''( International Consortium of Investigative Journalists)سے رابطہ کر لیا۔یہ تنظیم حکمرانوں کی کرپشن اور مظالم افشا کرنے کے لیے سراغ رساںصحافت سے بھرپور مدد لیتی ہے۔جب آئی سی آئی جے کے صحافیوں نے پاناما لیکس کا بغور مطالعہ کیا تو انھیں مستند پایا۔بعد ازاں دنیا بھر کے ''107'' اخبارات،رسائل اور ٹی وی نیٹ ورکس سے منسلک چار سو صحافی ان دستاویزات پر چھان بین کرنے لگے۔ان کی تفتیش سے انکشاف ہوا کہ لیکس میں درج ایک ایک بات درست ہے۔
مکمل چھان بین کے بعد اطمینان ہوا تو پاناما پیپرز عوام وخواص کے سامنے افشا کر دئیے گئے۔یہ دستاویزات بڑے میڈیا ہائوسز نے بیک وقت طمطراق سے شائع کیں۔ان کی مجموعی قوت کے باعث ہی کسی کرپٹ حکمران کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ پاناما لیکس کو روکنے کی جسارت کر پاتا۔یہ امر مثبت معنی میں میڈیا کی بڑھتی طاقت کا غماز ہے۔لیکس پھر دنیا بھر میں بھونچال لے آئیں اور انھوں نے کئی ممالک کے سرکاری ایوانوں میں زلزلہ سا پیدا کر دیا۔n
دولت اور قوت کا ساتھ
لالچ اور ہوس کو انسان کی سرشت میں شامل اخلاقی برائیوں کا منبع کہا جاتا ہے۔ یہ لالچ ہی ہے جو معاشرے میں ناانصافی اور جرائم کو جنم دیتا اور انسان کو قانون و اخلاق توڑنے پر اکساتا ہے۔ ایک مقولہ ہے کہ دنیا کے تمام وسائل ختم ہو سکتے ہیں مگر لالچی کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔ وہ ہر دم ' ہر آن دولت کمانے اور دولت بچانے کی ترکیبیں ڈھونڈتا رہتا ہے۔ انہی ہوس پرستوں کی تمنا نے دنیا میں ''مالیاتی پناہ گاہوں'' (tax havens)کو جنم دیا۔
''مالیاتی پناہ گاہ'' سے مراد وہ ملک ہے جو اپنی دولت چھپانے، ٹیکس بچانے اور کرپشن کا کالا دھن سفید کرنے کے خواہش مندوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرے۔ مثال کے طور پر مالیاتی پناہ گاہ میں میں افراد' تجارت اور کاروبار پر کم سے کم ٹیکس لگتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ملک میں سرمایہ کار کمپنیاں قائم کریں۔ ایسے ملک میں بینک' کمپنیاں اور سبھی مالیاتی ادارے اپنے اپنے گاہکوں کی شناخت اور نجی تفصیلات خفیہ رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت باقاعدہ قوانین بناتی ہے تاکہ گاہکوں کی شناخت پوشیدہ رکھی جا سکے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ ملکی مالیاتی' کاروباری اور کاروباری ادارے ترقی کر سکیں۔
مالیاتی پناہ گاہوں میں کمپنی یا بینک اکاونٹ کھولنا قانوناً درست ہے۔مگر کہتے ہیں،کان اِدھر سے پکڑا جائے یا اُدھر سے،وہ کان ہی رہتا ہے۔اس مقولے کے مصداق مالیاتی پناہ گاہوں میں عموماً غلط کام کے لیے(شیل یا آف شور ) کمپنی کھولی جاتی ہے۔ پچھلے پانچ چھ عشروں سے تو دنیا بھر کے کرپٹ حکمران ،جرائم پیشہ افراد اور ہوس پرست امراء اپنی دولت چھپانے کے سلسلے میں مالیاتی پناہ گاہوں کو وسیع پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان ساٹھ ستر سال میں مالیاتی پناہ گاہوں میں دولت چھپانے کے لیے سیکڑوں طریقے وجود میں آ چکے جو قانونی ہیں اور غیر قانونی بھی۔
خاص بات یہ کہ مالیاتی پناہ گاہوں کی حکومتوں نے غیرقانونی طریقے روکنے کی خاطر ٹھوس اقدامات نہیں کیے کیونکہ انہی کی بدولت انہیں مالی فائدہ ہوتا ہے۔عام خیال یہ ہے کہ دنیا بھر کی مالیاتی پناہ گاہوں میں اول نمبر پر سوئٹزر لینڈ ہے۔ وہاں کا بینکاری نظام گاہکوں کی شناخت ''موثر'' طور پہ خفیہ رکھتا ہے۔ نیز ملک میں ٹیکسوں کی تعداد اور شرح بھی کم ہے۔ اس لیے امراء کی اکثریت سوئٹزر لینڈ میں اپنی جائز یا ناجائز دولت چھپاتی ہے ۔تاہم لکسمبرگ' ہانگ کانگ' امریکا' برطانیہ'جرمنی' ،دبئی'مکائو' جاپان،کیمن جرائر' سنگاپور ' لبنان' پاناما' برمودا' برٹش ورجن جزائر وغیرہ بھی بہت بڑی مالیاتی پناہ گاہیں ہیں۔
مالیاتی پناہ گاہوں کی درج بالا فہرست سے عیاں ہے کہ چند ممالک کو چھوڑ کر بقیہ سبھی ترقی یافتہ مغربی ممالک ہیں۔ یہ ممالک خود کو قانون و انصاف کے رکھوالے اور انسانی حقوق کے چیمپئن کہتے ہیں۔ مگر ان کا عمل شرمناک ہے۔ دنیا کے اکثر کرپٹ اور جرائم پیشہ افراد کی غیر قانونی دولت انہی ممالک کے بینکوں اور مختلف مالیاتی اداروں میں جمع ہے۔
قانون و انصاف کے انہی رکھوالوں نے جرائم پیشہ عناصر کی شناخت خفیہ رکھنے اور ان کا سیاہ دھن سفید بنانے والا بہترین مالیاتی نظام وضع کررکھا ہے۔ اسی طرح ترقی پذیر ممالک کے جو امراء ٹیکس بچانا چاہیں، وہ اپنی دولت بلا کھٹکے مالیاتی پناہ گاہوں میں چھپا دیتے ہیں۔ ان ٹیکس چوروں کی چوری کا خمیازہ بیچارے غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں پھر نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈال دیتی ہیں تاکہ مالی خسارہ کم کرسکیں۔ ٹیکس چور امرا بہت بڑے اخلاقی و قانونی مجرم ہیں کہ وہ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کے بجائے انہیں زوال پذیر کردیتے ہیں۔
اسی طرح کرپٹ حکمران جب مختلف حیلے بہانوں سے قومی خزانہ لوٹ کر جو اربوں کھربوں روپے حاصل کریں، وہ مالیاتی پناہ گاہوں کے بینکوں وغیرہ میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ آج بھی غریب اقوام کے لوٹے گئے کھربوں ڈالر ان مالیاتی پناہ گاہوں میں موجود ہیں۔ وہ اس پیسے پر عیش کررہے ہیں جبکہ ترقی پذیر ملکوں کے غریبوں کو دو وقت کی روٹی بھی بمشکل میسر آتی ہے۔ شاید پاناما لیکس کے بعد صورت حال کچھ بدل جائے۔ اب امرا، حکمرانوں اور جرائم پیشہ افراد کے لیے اپنی دولت چھپانا پہلے کی طرح آسان نہیں رہے گا۔ مگر کرپٹ، لالچی، کائیاں لوگ بھی نئے طریق واردات ڈھونڈ سکتے ہیں۔
تاہم اب بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے مالیاتی پناہ گاہوں میں مالیاتی اداروں کا ''خفیہ پن'' کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اس عمل کی ابتدا 2008ء میں ہوئی۔ تب امریکی' بینکار' بریڈلے برکن فیلڈ نے انکشاف کیا کہ سوئس بینک' یو بی ا یس میں امریکی شہریوں کے 20 ارب ڈالر موجود ہیں۔ یہ رقم ٹیکس بچانے کے لیے یو بی ایس میں رکھوائی گئی تھی۔اس انکشاف کے بعد امریکی تحقیقاتی ادارے یوبی ایس کے خلاف فراڈ کرنے کی تحقیقات کرنے لگے۔ تحقیقات سے سوئس بینک مجرم ثابت ہوا اور اسے ''780 ملین ڈالر'' کا زرکثیر بطور جرمانہ امریکی حکومت کو ادا کرنا پڑا۔ مزید براں اس نے یہ بھی بتایا کہ بینک میں کن امریکیوں کے خفیہ اکاؤنٹ ہیں۔ تب سے دنیا بھر کے ممالک مختلف قوانین بنا اور معاہدے کر رہے ہیںتاکہ مالیاتی پناہ گاہوں کا خفیہ پن ختم کیا جا سکے یا وہاں دولت پوشیدہ رکھنا پہلے کی طرح سہل نہ رہے۔
اوبرمائر شروع میں سمجھا کہ کوئی اس سے مذاق کر رہا ہے۔ مگر اگلی ای میل کے الفاظ نے اسے چونکا دیا:''دیکھو' میری زندگی خطر ے میں ہے۔ میں چند شرائط کے بعد ہی تمہیں خفیہ ڈیٹا دوں گا۔ ہم صرف رمزی(کوڈ ورڈز) انداز میں گفتگو کریں گے اور ہماری کبھی ملاقات نہیں ہو گی۔''
سراغ رساں صحافی ہونے کے باعث اوبرمائر کی چھٹی حس بیدار ہو گئی۔ اس نے سوچا کہ جان ڈی نامی شخص کی سبھی شرائط مان لیتا ہوں۔ نجانے وہ کس قسم کا خفیہ ڈیٹا مجھے دینے والا ہے۔ تب اس کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اس کے ذریعے تاریخ انسانی میں خفیہ دستاویزات کا سب سے بڑا خزینہ آشکار ہو جائے گا جسے ''پاناما پیپرز'' یا لیکس کا نام دیا گیا۔
اوبرمائر نے پلک جھپکنے میں اپنے کمپیوٹر میں وہ سافٹ ویئر انسٹال کر لیا جسکی مدد سے خفیہ انداز میں بات چیت کی جاسکتی ہے۔ جلد دونوں کی گفتگو کا آغاز ہو گیا۔ تبھی اوبرمائر پر افشا ہوا کہ یہ خفیہ ڈیٹاپاناما کی موساک فونسیکا (Mossack Fonseca)نامی لافرم سے متعلق تھا۔ یہ دنیا کی چوتھی بڑی قانونی کمپنی ہے۔ اس کا ایک اہم کاروبار ''آف شور'' (بیرون ملک قائم ) کمپنیاں کھولنے میں گاہکوں کی مدد کرنا ہے۔
کچھ عرصہ قبل اوبر مائر اپنی یہ تحقیقی رپورٹ سودیوچے زیتنگ میں شائع کروا چکا تھا کہ موساک فونسیکا دولت چھپانے میں ٹیکس چوروں کی مدد کرتی ہے۔ یقیناً وہی رپورٹ پڑھ کر اس نامعلوم شخص نے اوبرمائر سے رابطہ کیا جو ہر قیمت پر اپنی شناخت پوشیدہ رکھنا چاہتا تھا۔ جب کوڈ میں فائلوں کی صورت اسے ڈیٹا ملنا شروع ہوا' تو اوبرمائر کو احساس ہوا کہ وہ اجنبی رہنے پر کیوں مُصر تھا۔ڈیٹا کے مطالعے سے انکشاف ہوا کہ دنیا کے نامی گرامی ''201'' سیاست دانوں اور سرکاری افسروں نے موساک فونسیکا کے ذریعے آف شور کمپنیاں قائم کیں اور خفیہ بینک اکاؤنٹ یا فنڈزکھول لیے۔ ان میں حاضر و سابق صدور' وزرائے اعظم' حکمرانوں کے قریبی رشتے دار اور دوست' وزرا اور ارکان اسمبلی شامل تھے۔ ظاہر ہے ' دنیا کی طاقتور ہستیوں کا کچا چٹھا کھولنے والے شخص (یا شخصیات) کو اپنی شناخت پوشیدہ ہی رکھنی چاہیے تھی۔
اگلے ایک سال تک اوبرمائر اپنے اجنبی دوست سے خفیہ سافٹ ویئروں کے ذریعے گفتگو کرتا اور ڈیٹا کی فائلیں لیتا رہا۔ جب ڈیٹا مکمل ہوا تو اس کی جسامت نے سبھی کو چکرا دیا۔ وہ'' 2.6''ٹیرا بائٹس پر مشتمل تھا۔ ا وبرمائر متجسس تھا کہ اجنبی آخر یہ ڈیٹا کیوں طشت از بام کر رہا ہے۔ ایک دن اس نے یہ سوال داغ ہی دیا۔ اجنبی نے بتایا:
''بھئی ڈیٹا دینے میں میرا کوئی مالی یا دنیاوی مفاد وابستہ نہیں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ ایلیٹ طبقے کے جرائم دنیا بھر کے عوام کی نظروں میں آ جائیں۔''
اس عوام دوست اجنبی نے جو سوچا تھا' وہ 4 اپریل 2016ء کو پورا ہو کر رہا۔ اس دن ڈیٹا کو منظم و منضبط کرنے کے بعد زیتوشے زاتوئنگ اور دیگر عالمی میڈیا نے عوام الناس کے سامنے پیش کر دیا۔ یوں دنیا بھر کا وہ ایلیٹ طبقہ تاریخ میں پہلی بار وسیع پیمانے پہ بے نقاب ہو گیا جس نے اپنا کھربوں ڈالر کا سرمایہ مالیاتی پناہ گاہوں میں چھپایا ۔اس طبقے سے وابستہ کرپشن کی داستانیں زبان زدعام تھیں،مگر یہ پہلا موقع تھا کہ امرا اور طاقتوروں کا طریق واردات بڑے واضح اور جامع انداز میں افشا ہوا۔ سب سے سخت عوامی رد عمل آئس لینڈ میں سامنے آیا جہاں عوام نے قصرِ وزیراعظم کا گھیراؤ کر لیا۔ وہ آف شور کمپنی کے مالک وزیراعظم سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔
شاید یہ پُراسرار اجنبی کبھی منظر عام پر نہیں آ سکے جس نے عالمی بالادست طبقے کی کرپشن آشکار کر دی لیکن قانون و انصاف کی تاریخ میں اس نے نیا باب ضرور رقم کر ڈالا ۔ آج دولت کی نامنصفانہ تقسیم امرا ء اور غریبوں کے مابین خلیج بہت وسیع کر چکی ہے۔ اسی تقسیم کی وجہ سے امیر تو امیر تر ہو رہے ہیں جبکہ غریب ' غریب تر ۔ ممکن ہے،پاناما لیکس کے ذریعے امرا کے لیے اپنی دولت پوشیدہ رکھنا اور ٹیکس بچانا مشکل ہو جائے ۔ اب وہ مجبور ہوں گے کہ قومی خزانے میں اپنا جائز حصّہ ڈالیں اور ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا قانونی کردار ادا کریں۔واضح رہے،ایک رپورٹ کی رو سے سبھی امرا کے ''21 تا 36 ٹریلین ڈالر'' مالیاتی پناہ گاہوں ''(Tax havens) میں محفوظ ہیں جن پہ کسی قسم کا ٹیکس عائد نہیں ہوتا۔
عوام کا بین الاقوامی ردعمل
جیسے ہی پاناما پیپرز کی تفصیلات عام ہوئیں' ترقی یافتہ ممالک میں عوام امیر و بااثر طبقے کے جرائم کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔ انہوںنے آئس لینڈ کے وزیراعظم کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ کئی ممالک مثلا ً بھارت' آسٹریلیا 'برطانیہ ، فرانس ' نیوزی لینڈ' کولمبیا' سویڈن اور آسٹریا میں ایلیٹ طبقے کے اثاثہ جات اور لین دین کی سرکاری تحقیقات ہونے لگیں۔
پاکستان میں ابتداًپاناما لیکس کے انکشافات نے ہلچل نہ مچائی ۔شاید اس لیے کہ پاکستانی قوم آئے دن بالادست طبقات کی کرپشن اور فراڈ کے واقعات سنتی پڑھتی رہتی ہے۔ تاہم میڈیا اور حزب اختلاف نے قوم کو باور کرایا کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے جو پاکستانی ایلیٹ طبقے کو راہ راست پر لا سکتا ہے۔ جب پاناما لیکس پر گرما گرمی نے جنم لیا' تو وزیراعظم پاکستان کو تقریر کرنا پڑی اور اپنے دامن پر لگے دھبے صاف کرنے کی خاطر عدالتی کمیشن بٹھانا پڑا۔تادم تحریر اپوزیشن اس اقدام سے مطمئن نہیں اور احتجاج کی طرف مائل ہے۔
پاناما لیکس سے انکشاف ہواکہ 200پاکستانی سیاست دانوں اور کاروباری شخصیات نے بھی موساک فونسیکا کے ذریعے آف شور کمپنیاں قائم کیں ۔یاد رہے' بیرون ملک آف شور کمپنی قائم کرنا کوئی جرم نہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ کمپنی کس مقصد کے لیے قائم کی گئی اور اسے کیونکرچلایا گیا۔ اگر کمپنی کے ذریعے غیر قانونی کام ہوا تب قانون حرکت میں آ جاتا ہے۔مذید براں آف شور یا شیل کمپنی کو چھپانا بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
پاناما لیکس کے مطابق میاںنواز شریف اور شہبازشریف کے اہل خانہ نے 9 آف شور کمپنیاں قائم کیں ۔مرحومہ بے نظیر بھٹو سے1 کمپنی وابستہ ہے۔ تاہم ان کے رشتہ دار' حسن علی جعفری7کمپنیوں' آصف علی زرداری کے قریبی دوست جاوید پاشا 4کمپنیوں'پیپلزپارٹی کے سینٹر رحمان ملک 1کمپنی اور پی پی پی سینٹر عثمان سیف اللہ کے خاندان والے 34آف شور کمپنیوں کے مالک نکلے ۔ یاد رہے' امریکی دانشور' ریمنڈ بیکر اپنی مشہور کتاب ''Capitalism's Achilles Heel'' میں ان درجن بھر آف شور کمپنیوں کی تفصیل دے چکا جو آصف علی زرداری یا بے نظیر بھٹو نے برٹش ورجن آئی لینڈز میں 1990ء تا1995ء کے عرصے میں کھولی تھیں۔ مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ جوڑے نے کرپشن کے ذریعے جو کروڑوں روپے کمائے ' وہ انہی آف شور کمپنیوں کے ذریعے سفید دھن میں بدلے گئے۔ تاہم مرحومہ بے نظیر اور آصف زرداری ان کمپنیوں کی ملکیت سے انکار کرتے رہے ہیں۔
1998ء میں پی پی پی کے سینٹر اور ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر، رحمان ملک لندن میں مقیم تھے ۔ اسی برس انہوںنے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ شریف خاندان لندن میں جائیدادیں خرید رہا ہے۔ رپورٹ میں انہوں نے دعوی کیا کہ شریف خاندان ٹیکس چوری میں ملوث ہے جو قانون پاکستان کی رو سے جرم ہے۔ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ ٹیکس چوری سے حاصل کی گئی رقم ہی سے لندن میں فلیٹ اور گھر خریدے گئے۔
2008ء میں میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز اور صاحبزادی مریم نواز نے سوئٹزر لینڈ میں جرمن دویچہ بینک کی شاخ سے رجوع کیا۔ وہ ستر لاکھ پونڈ (ایک ارب پانچ کروڑ روپے) کا قرضہ چاہتے تھے۔ قرضہ حاصل کرنے کی خاطر ا نہوںنے لندن کے اپنے چار فلیٹ بھی رہن رکھوائے۔ یہ فلیٹ برٹش ورجن آئی لینڈز کی دو آف شور کمپنیوں... نیس کول لمیٹڈ اور نیلسن انٹرپرائز لمیٹڈ کی ملکیت تھے۔ یہ دونوں کمپنیاں بالترتیب 1993ء اور 1994ء میں کھولی گئیں۔
شریف خاندان کا کہنا ہے کہ آف شور کمپنیاں کھولنا اور ان کے ذریعے ٹیکس بچانا کوئی جرم نہیں بلکہ ان کا حق ہے۔ اس لیے انہوںنے کوئی غلط کام نہیں کیا اور ان کے ہاتھ صاف اور ضمیر مطمئن ہیں۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ اور آصف زرداری کے مانند شریف خاندان کا بھی دعویٰ ہے کہ بطور سیاسی انتقام ان پر کرپشن کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔یاد رہے کہ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں لوہے اور چینی کے کاروبار سے شریف خاندان نے بے پناہ منافع کمایا اور اس کا شمار پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں ہونے لگا۔ خاندان نے 1993ء تا 1996ء کے دوران لندن میں چار فلیٹ خریدے۔ مگر ان سے وابستہ آف شور کمپنیوں کو 2006ء میں موساک فونسیکا کی ملکیت میں دیاگیا۔لندن کی جائیدادیں اب بھی شریف خاندان ہی کی ملکیت ہیں۔ تاہم یہ معلوم نہیں کہ وہ انہی کے نام ہیں یا آف شور کمپنیوں کے نام!
آئس لینڈ کے وزیراعظم کی چشم کشا داستان
یہ 15 مئی 2014ء کا واقعہ ہے کہ آئس لینڈ میں پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ ارکان پارلیمنٹ اس معاملے پر بحث کرنے جمع ہوئے تھے کہ ٹیکس چوروں اور ان دھوکے بازوں سے کیسے نمٹا جائے جو بیرون ممالک خفیہ آف شور کمپنیاں قائم کر کے اپنی دولت میں اضافہ کرتے چلے جا رہے تھے ۔ اس موقع پر یہ تجویز پیش ہوئی کہ آف شور کمپنیاں کھولنے کا دھندا کرنے والی لا فرمز سے ٹیکس چوروں کی معلومات منہ مانگی قیمت پر خرید لی جائیں۔آئس لینڈ کا وزیراعظم، سگیموندور گونسلاگون اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہنے لگا کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ یوں قومی دولت ضائع ہو گی اور شاید مفید معلومات ہاتھ نہ آئیں۔ وزیراعظم کی مخالفت پر درج بالا تجویز مسترد کر دی گئی۔ تب کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ ان کا وزیراعظم بھی ایک آف شور کمپنی سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔
قطب شمالی کے نزدیک واقع آئس لینڈ میں مالیاتی سرگرمیاں چند عشرے قبل ہی شروع ہوئیں۔1985ء تک وہاں سٹاک مارکیٹ کا نام ونشان نہ تھا۔ جبکہ سبھی بینک حکومت کی ملکیت تھے ۔رفتہ رفتہ حکومت نے آزاد معاشی پالیسی اپنائی اور بینک نجی شعبے کو دے دیئے۔ 2008ء تک تین بڑے بینکوں... کو پتھنگ ' لینڈ سیپنکی اور گلٹنر کے اثاثہ جات 180 ارب ڈالر تک جا پہنچے۔ یہ قومی معیشت کی مالیت سے ''گیارہ گنا'' زیادہ رقم تھی تاہم یہ ترقی مالیاتی بلبلہ ثابت ہوئی۔
ہوا یہ کہ اکتوبر 2008میں مندرجہ بالا تینوں بینک دیوالیہ ہو گئے۔ ان بینکوں کے مالکان اور افسروں نے آئس لینڈ کے بااثر طبقے کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے اربوں ڈالر بطور قرضہ دے دیئے تھے۔ جب 2008ء کے معاشی بحران کی وجہ سے وہ قرضے اور ان کا سود واپس نہ ملا تو بینک دیوالیہ ہو گئے۔ انہی آف شور کمپنیوں میں سے ایک کا مالک حکمران جوڑا بھی تھا۔
بینکوں کے دیوالیہ ہونے سے آئس لینڈ کی معیشت کو سخت نقصان پہنچا۔ سٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی اور کرنسی(کرونا) کی قدر بھی بہت متاثر ہوئی۔ اس معاشی بحران کے اثرات 2011ء تک برقرار رہے ۔ اسی دوران آئس لینڈ کے ساڑھے تین لاکھ باشندے مالیاتی اداروں سے نفرت کرنے لگے۔ وجہ یہی کہ امیر اور بااثر لوگوں نے ان اداروں کو اپنی دولت چھپانے اور ٹیکس بچانے کے لیے استعمال کیا۔ جب ٹیکس کم موصول ہوئے تو حکومت نے عوام پر ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی۔ یوں ٹیکس چوروں کے جرم کا خمیازہ بیچارے عوام کو بھگتنا پڑا۔
وزیراعظم بننے سے قبل سیگموندور گونسلاگون ایک معمولی سیاستدان تھا۔ مگر اس نے معاشی بحران کے بعدملکی بینکاری نظام کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس امر نے اسے عوام میں مقبول بنا دیا۔ اسی مقبولیت کے سہارے وہ 2009ء میں اپنی جماعت پروگریسو پارٹی کا سربراہ بن گیا اور پھر مئی 2013ء میں آئس لینڈ کا وزیراعظم بن بیٹھا۔ تب اس کی عمر صرف 38سال تھی۔
وزیراعظم بنتے ہی گونسلاگون نے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ کرپٹ اور ٹیکس چور اشرافیہ کے خلاف ایکشن لے گا ۔مگر عوام اس سچائی سے بے خبر تھے کہ ان کا وزیراعظم خود ٹیکس چور ہے۔ ہوا یہ تھا کہ 2007ء میں گونسلاگون نے بیوی، اینا سمیت مقامی نجی بینک، لینڈ سیپنکی سے رابطہ کیا۔ وہ ایک آف شور کمپنی خریدنا چاہتا تھا۔ لینڈربینکی نے موساک فونسیکا کے ذریعے جوڑے کو ونٹرنس نامی آف شور کمپنی کا مالک بنادیا۔
گونسلاگون اور اینا نے وراثت میں جو لاکھوں ڈالر کمائے تھے، وہ اب ونٹرنس کمپنی کو منتقل کردیئے۔ اس رقم سے مقامی بینکوں کے بانڈ خریدے گئے۔ چونکہ یہ بانڈ ونٹرنس کمپنی کی ملکیت تھے لہٰذا ان کا منافع اسی کو ملنے لگا اور وہ ٹیکس سے مبرا بھی قرار پائے۔ یوں حکمران جوڑے نے اپنی دولت کو مروجہ ٹیکسوں سے بچالیا۔ یعنی بانڈوں کا منافع انہیں امیر تر بنانے لگا۔جب حکمران جوڑے کا یہ فراڈ عیاں ہوا، تو آئس لینڈ کے باشعور عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ پھر دلیری سے گونسلاگون کو لتاڑنے اور اس سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ وزیراعظم عوامی احتجاج برداشت نہ کرسکا اور مستعفی ہوگیا۔
ڈیوڈ کیمرون بھی زد میں
پاناما لیکس نے انکشاف کیا کہ سوا دو لاکھ آف شور کمپنیوں میں سے تقریبا 60فیصد تین برطانوی سمندر پار علاقوں ... برٹش ورجن آئی لینڈز' کیمن آئی لینڈ اور برمودا میں قائم کی گئیں۔ اس انکشاف کو باشعور برطانوی اخبارات نے برطانیہ کے دامن پر نہایت بدنما دھبہ قرار دیا ۔اسی دوران برطانوی وزیراعظم، ڈیوڈ کیمرون بھی پاناما لیکس کے شکنجے میں جکڑے گئے۔
انکشاف ہوا کہ ان کے متوفی والد، آئن کیمرون نے تیس سال قبل قومی ٹیکسوں سے بچنے کی خاطر بلیئر مور ہولڈنگز نامی ایک آف شور فنڈ قائم کیا تھا۔ یہ فنڈ موساک فونسیکا کی وساطت سے بہاماس میں کھولا گیا۔2010ء میں آئن کیمرون چل بسے، تو بلیئر مورہولڈنگز میں موصوف کے حصص (تین لاکھ پونڈ) ڈیوڈ کیمرون کو مل گئے۔ برطانوی وزیراعظم کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یہ حصص جلد ہی فروخت کر دیئے تھے۔ بلیئر مور ہولڈنگز کا ڈیوڈ کیمرون سے براہ راست تعلق نہیں، مگر برطانوی اپوزیشن ان پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اخلاقی طور پہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔
دستاویزات کی حیرت انگیز جسامت
پاناما لیکس ایک کروڑ پندرہ لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہیں۔ دستاویزات کا مجموعی ڈیٹا ''2600گیگابائٹس'' بنتا ہے۔ یہ ڈیٹا ''دو سو'' ہائی ڈیفینیشن فلموں کے برابر ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکی وسل بلوئر رچرڈ سنوڈن کی افشا کردہ عالمی شہرت یافتہ دستاویزات صرف 65 گیگابائٹس پر مشتمل تھیں۔ اسی لیے خود سنوڈن نے پاناما پیپرز کو ''ڈیٹا جرنلزم کی تاریخ میں سب سے بڑی لیک'' قرار دیا جو طبقہ بالا کی کرپشن عیاں کرگئی۔''یاد رہے ،عالمی میڈیا ڈیٹا میں موجود کمپنیوں اور افراد کی مکمل فہرست ماہ مئی کے اوائل میں طبع کرے گا۔ابھی اس کا کچھ حصہ ہی منظر عام پر آیا ہے۔
یہ دستاویزات 48 لاکھ ای میلز، 30 لاکھ ڈیٹا بیس فارمیٹ فائلوں، 22 لاکھ پی ڈی ایف فائلوں، 12 لاکھ تصاویر، تین لاکھ بیس ہزار ٹیکسٹ فائلوں اور سوا دو ہزار دیگر فارمیٹ فائلوں پر مشتمل ہیں۔دستاویزات کے مطابق ''دو سو سے زائد'' ممالک سے تعلق رکھنے والے 14,153 افراد نے موساک فونسیکا کے ذریعے مختلف مالیاتی پناہ گاہوں میں ''دو لاکھ چودہ ہزار'' کمپنیاں ' ٹرسٹ' اور فائونڈیشنیں کھلوائیں۔ یہ دستاویزات 1977ء تا 2015ء کے عرصے سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی دوران ''500'' سے زائد بینکوں نے بھی مالیاتی پناہ گاہوں میں لافرم کی وساطت سے ساڑھے پندرہ ہزار شیل کمپنیاں کھول لیں۔ موساک فونسیکا نے سب سے زیادہ شیل (یا آف شور) کمپنیاں برٹش ورجن آئی لینڈ میں کھولیں جن کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ بقیہ کمپنیاں پاناما، بیاماس اور سیشلیز میں کھولی گئیں۔
یہ انکشاف کرتی ہیں کہ موساک فونسکا نے اپنے گاہکوں کے لیے ''21'' مالیاتی پناہ گاہوں میں آف شور یا شیل کمپنیاں کھولیں' نیز وہاں کے بینکوں میں اکائونٹ کھولے۔ ان اکیس میں سبھی مشہور و معروف مالیاتی پناہ گاہیں شامل ہیں۔پاناما دستاویزات میں تقریباً ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مرد وزن کا نام شامل ہے۔ ان میں 13 سابق یا حاضر حکمران ہیں۔ 61 افراد ان کے رشتے دار یا دوست ہیں۔ 128 افراد سیاست داں یا سرکاری افسر ہیں۔ کھرب پتیوں کی مشہور فوربس فہرست میں شامل 29 کھرب پتی بھی پاناما دستاویزات کا حصہ ہیں۔امیتابھ بچن اور ایشوریہ رائے سمیت دو سو بھارتی شخصیات ،فٹ بالر لیونل میسی اوراداکار جیکی چن بھی لیکس کا حصہ بنے۔
دنیا میں سب سے زیادہ کھرب پتی امریکا میں بستے ہیں۔ مگر فی الوقت پاناما لیکس میں صرف چار امریکیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مکمل پاناما پیپرز اوائل مئی میں افشا ہوں گے۔ ممکن ہے، تب مزید امریکیوں کے نام سامنے آجائیں۔ ویسے بھی امریکا خود ایک بڑی مالیاتی پناہ گاہ ہے۔دوسری طرف روسی صدر پیوٹن نے پاناما لیکس کو روس کے خلاف امریکی سازش قرار دیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ لیکس سی آئی اے نے افشا کی ہیں تاکہ ثابت کیا جاسکے کہ روس ایک مافیا مملکت ہے جسے روسی صدر اپنے چند حواریوں کے ساتھ مل کر چلا رہے ہیں۔
میڈیا کی بڑھتی طاقت
جب جرمن صحافی،بستیان اوبر مائر کو احساس ہوا کہ پاناما پیپرز کی دستاویزات کا حجم محیر العقول ہے،تو اس نے صحافیوں کی عالمی تنظیم ''آئی سی آئی جے''( International Consortium of Investigative Journalists)سے رابطہ کر لیا۔یہ تنظیم حکمرانوں کی کرپشن اور مظالم افشا کرنے کے لیے سراغ رساںصحافت سے بھرپور مدد لیتی ہے۔جب آئی سی آئی جے کے صحافیوں نے پاناما لیکس کا بغور مطالعہ کیا تو انھیں مستند پایا۔بعد ازاں دنیا بھر کے ''107'' اخبارات،رسائل اور ٹی وی نیٹ ورکس سے منسلک چار سو صحافی ان دستاویزات پر چھان بین کرنے لگے۔ان کی تفتیش سے انکشاف ہوا کہ لیکس میں درج ایک ایک بات درست ہے۔
مکمل چھان بین کے بعد اطمینان ہوا تو پاناما پیپرز عوام وخواص کے سامنے افشا کر دئیے گئے۔یہ دستاویزات بڑے میڈیا ہائوسز نے بیک وقت طمطراق سے شائع کیں۔ان کی مجموعی قوت کے باعث ہی کسی کرپٹ حکمران کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ پاناما لیکس کو روکنے کی جسارت کر پاتا۔یہ امر مثبت معنی میں میڈیا کی بڑھتی طاقت کا غماز ہے۔لیکس پھر دنیا بھر میں بھونچال لے آئیں اور انھوں نے کئی ممالک کے سرکاری ایوانوں میں زلزلہ سا پیدا کر دیا۔n
دولت اور قوت کا ساتھ
لالچ اور ہوس کو انسان کی سرشت میں شامل اخلاقی برائیوں کا منبع کہا جاتا ہے۔ یہ لالچ ہی ہے جو معاشرے میں ناانصافی اور جرائم کو جنم دیتا اور انسان کو قانون و اخلاق توڑنے پر اکساتا ہے۔ ایک مقولہ ہے کہ دنیا کے تمام وسائل ختم ہو سکتے ہیں مگر لالچی کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔ وہ ہر دم ' ہر آن دولت کمانے اور دولت بچانے کی ترکیبیں ڈھونڈتا رہتا ہے۔ انہی ہوس پرستوں کی تمنا نے دنیا میں ''مالیاتی پناہ گاہوں'' (tax havens)کو جنم دیا۔
''مالیاتی پناہ گاہ'' سے مراد وہ ملک ہے جو اپنی دولت چھپانے، ٹیکس بچانے اور کرپشن کا کالا دھن سفید کرنے کے خواہش مندوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرے۔ مثال کے طور پر مالیاتی پناہ گاہ میں میں افراد' تجارت اور کاروبار پر کم سے کم ٹیکس لگتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ملک میں سرمایہ کار کمپنیاں قائم کریں۔ ایسے ملک میں بینک' کمپنیاں اور سبھی مالیاتی ادارے اپنے اپنے گاہکوں کی شناخت اور نجی تفصیلات خفیہ رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت باقاعدہ قوانین بناتی ہے تاکہ گاہکوں کی شناخت پوشیدہ رکھی جا سکے۔ مدعا یہ ہوتا ہے کہ ملکی مالیاتی' کاروباری اور کاروباری ادارے ترقی کر سکیں۔
مالیاتی پناہ گاہوں میں کمپنی یا بینک اکاونٹ کھولنا قانوناً درست ہے۔مگر کہتے ہیں،کان اِدھر سے پکڑا جائے یا اُدھر سے،وہ کان ہی رہتا ہے۔اس مقولے کے مصداق مالیاتی پناہ گاہوں میں عموماً غلط کام کے لیے(شیل یا آف شور ) کمپنی کھولی جاتی ہے۔ پچھلے پانچ چھ عشروں سے تو دنیا بھر کے کرپٹ حکمران ،جرائم پیشہ افراد اور ہوس پرست امراء اپنی دولت چھپانے کے سلسلے میں مالیاتی پناہ گاہوں کو وسیع پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں۔ ان ساٹھ ستر سال میں مالیاتی پناہ گاہوں میں دولت چھپانے کے لیے سیکڑوں طریقے وجود میں آ چکے جو قانونی ہیں اور غیر قانونی بھی۔
خاص بات یہ کہ مالیاتی پناہ گاہوں کی حکومتوں نے غیرقانونی طریقے روکنے کی خاطر ٹھوس اقدامات نہیں کیے کیونکہ انہی کی بدولت انہیں مالی فائدہ ہوتا ہے۔عام خیال یہ ہے کہ دنیا بھر کی مالیاتی پناہ گاہوں میں اول نمبر پر سوئٹزر لینڈ ہے۔ وہاں کا بینکاری نظام گاہکوں کی شناخت ''موثر'' طور پہ خفیہ رکھتا ہے۔ نیز ملک میں ٹیکسوں کی تعداد اور شرح بھی کم ہے۔ اس لیے امراء کی اکثریت سوئٹزر لینڈ میں اپنی جائز یا ناجائز دولت چھپاتی ہے ۔تاہم لکسمبرگ' ہانگ کانگ' امریکا' برطانیہ'جرمنی' ،دبئی'مکائو' جاپان،کیمن جرائر' سنگاپور ' لبنان' پاناما' برمودا' برٹش ورجن جزائر وغیرہ بھی بہت بڑی مالیاتی پناہ گاہیں ہیں۔
مالیاتی پناہ گاہوں کی درج بالا فہرست سے عیاں ہے کہ چند ممالک کو چھوڑ کر بقیہ سبھی ترقی یافتہ مغربی ممالک ہیں۔ یہ ممالک خود کو قانون و انصاف کے رکھوالے اور انسانی حقوق کے چیمپئن کہتے ہیں۔ مگر ان کا عمل شرمناک ہے۔ دنیا کے اکثر کرپٹ اور جرائم پیشہ افراد کی غیر قانونی دولت انہی ممالک کے بینکوں اور مختلف مالیاتی اداروں میں جمع ہے۔
قانون و انصاف کے انہی رکھوالوں نے جرائم پیشہ عناصر کی شناخت خفیہ رکھنے اور ان کا سیاہ دھن سفید بنانے والا بہترین مالیاتی نظام وضع کررکھا ہے۔ اسی طرح ترقی پذیر ممالک کے جو امراء ٹیکس بچانا چاہیں، وہ اپنی دولت بلا کھٹکے مالیاتی پناہ گاہوں میں چھپا دیتے ہیں۔ ان ٹیکس چوروں کی چوری کا خمیازہ بیچارے غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں پھر نت نئے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈال دیتی ہیں تاکہ مالی خسارہ کم کرسکیں۔ ٹیکس چور امرا بہت بڑے اخلاقی و قانونی مجرم ہیں کہ وہ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کے بجائے انہیں زوال پذیر کردیتے ہیں۔
اسی طرح کرپٹ حکمران جب مختلف حیلے بہانوں سے قومی خزانہ لوٹ کر جو اربوں کھربوں روپے حاصل کریں، وہ مالیاتی پناہ گاہوں کے بینکوں وغیرہ میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔ آج بھی غریب اقوام کے لوٹے گئے کھربوں ڈالر ان مالیاتی پناہ گاہوں میں موجود ہیں۔ وہ اس پیسے پر عیش کررہے ہیں جبکہ ترقی پذیر ملکوں کے غریبوں کو دو وقت کی روٹی بھی بمشکل میسر آتی ہے۔ شاید پاناما لیکس کے بعد صورت حال کچھ بدل جائے۔ اب امرا، حکمرانوں اور جرائم پیشہ افراد کے لیے اپنی دولت چھپانا پہلے کی طرح آسان نہیں رہے گا۔ مگر کرپٹ، لالچی، کائیاں لوگ بھی نئے طریق واردات ڈھونڈ سکتے ہیں۔
تاہم اب بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے مالیاتی پناہ گاہوں میں مالیاتی اداروں کا ''خفیہ پن'' کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اس عمل کی ابتدا 2008ء میں ہوئی۔ تب امریکی' بینکار' بریڈلے برکن فیلڈ نے انکشاف کیا کہ سوئس بینک' یو بی ا یس میں امریکی شہریوں کے 20 ارب ڈالر موجود ہیں۔ یہ رقم ٹیکس بچانے کے لیے یو بی ایس میں رکھوائی گئی تھی۔اس انکشاف کے بعد امریکی تحقیقاتی ادارے یوبی ایس کے خلاف فراڈ کرنے کی تحقیقات کرنے لگے۔ تحقیقات سے سوئس بینک مجرم ثابت ہوا اور اسے ''780 ملین ڈالر'' کا زرکثیر بطور جرمانہ امریکی حکومت کو ادا کرنا پڑا۔ مزید براں اس نے یہ بھی بتایا کہ بینک میں کن امریکیوں کے خفیہ اکاؤنٹ ہیں۔ تب سے دنیا بھر کے ممالک مختلف قوانین بنا اور معاہدے کر رہے ہیںتاکہ مالیاتی پناہ گاہوں کا خفیہ پن ختم کیا جا سکے یا وہاں دولت پوشیدہ رکھنا پہلے کی طرح سہل نہ رہے۔