جگر کی بیماریوں میں اضافے کی بڑی وجہ سرنج کا دوبارہ استعمال ہے
یہ بات طے شدہ ہے کہ جگر کے امراض صرف اورصرف خون کے خلیوں سے ہی پھیلتے اور پیداہوتے ہیں۔
پاکستان میں جگر کی بیماریاں گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرہ سے جس تیزی سے بڑھ رہی ہیں انھوں نے ہیلتھ کی سہولتیں فراہم کرنے والوں کے لیے ایک چیلنج کی شکل اختیار کرلی ہے ۔ہیپاٹائٹس اک مرض جگر کی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے ۔
اس وقت دنیا میں 35 کروڑ اور پاکستان میں لاکھوں افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہیں ۔ہیپاٹائٹس (یرقان ) کی مختلف اقسام ہیپاٹائٹس ( اے ،بی ، سی ،ڈی اور ای ) جگر میں ورم ،جگر کاسکڑنا اور پھیلنا علاوہ ازیں جگر کے تمام امراض بشمول جگر کا کینسر قابل علاج ہیں لیکن بدقسمتی سے کم علمی ، عوامی شعور میں کمی اور ہیلتھ ایجوکیشن نہ ہونے کی بناپر لوگ اس مرض سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بیماری جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر لوگ علاج معالجہ کے لیے ڈاکٹر ز اور اسپتالوں کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن اس وقت تک مرض اس قدر سنگین اور پیچیدہ صورت اختیار رکرچکاہوتا ہے کہ معمول کا علاج کارگر ثابت نہیں ہوپاتا اور نوبت جگر کی پیوند کاری تک جاپہنچتی ہے۔جوظاہر ہے ایک مشکل ،مہنگا اور تکلیف دہ کام ہے ۔
پاکستان میں سرکاری اور نجی سطح پر جو علاج گاہیں موجود ہیں وہ بڑھتی ہوئی آبادی اور مریضوں کی روز افزوں تعداد کے حساب سے ناکافی ہے۔ماہر ڈاکٹروں اور سرجنز کے ساتھ ساتھ مطلوبہ سہولیات کا فقدان بھی طبی مسائل کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ روزنامہ '' ایکسپریس'' نے اپنے قارئین کوجگر کی بیماریوں کے اسباب و وجوہات ،علامات ، علاج اور دیکھ بھال کے بارے میں آگاہی کی غرض سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا ۔ خوش قسمتی سے دنیا کے معروف سرجن اور جگر کی پیوندکاری کے ماہر ڈاکٹر اے ایس سوئن پاکستان کے چند روزہ دورے پرآئے ہوئے تھے ۔سو ان کی موجودگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں ''ایکسپریس '' فورم میں مدعو کیا گیا ۔ سرجن ڈاکٹراے ایس سوئن کا شمار دنیا کے بہترین سرجنز میں ہوتا ہے جو جگر کی پیوند کاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اوراب تک 1500 سے زائد مریضوں کے جگر کی پیوندکاری کرچکے ہیں۔
گزشتہ برس انھوںنے جگر کی پیوندکاری کے 250کامیاب آپریشن کر کے ریکارڈ قائم کیاہے ۔12000 سے زائد جگر کے پیچیدہ امراض اور کی سرجری کرچکے ہیں ۔کم عمر (آٹھ کلو وزن ) بچوں اور بڑوں کے لیور ٹرانسپلانٹ کے بھی ماہر ہیں ۔ڈاکٹر اے ایس سوئن کا تعلق ہمسایہ ملک بھارت سے ہے' وہ بحیثیت چیئرمین میڈنٹا انسٹیٹیوٹ آف لیور ٹرانسپلانٹیشن اور ری جنریٹو میڈیسن ، میڈنٹا ،گورگاوں انڈیا میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔اس نشست میں جن ماہرین نے جگر کی بیماری ،طریقہ علاج اور حفاظت کے سلسلے میں اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں اظہار خیال کیا ان میں ڈاکٹر اے ایس سوئن کے ساتھ شیخ زید اسپتال کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال ، سروسز اسپتال لاہور کے میڈیکل یونٹ تھری کے سربراہ اور معروف ماہر امراضِ جگر پروفیسر آفتاب محسن ، لاہور جنر ل اسپتال اور پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر غیاث النبی طیب کے علاوہ سماجی شخصیت اور حال ہی میں جگر کی پیوندکاری کروانے والے میجر ( ریٹائرڈ ) انوار علوی بھی شامل تھے ۔جنہوں نے طبی ماہرین کے ساتھ بطور مریض اپنے احساسات اور جذبات شیئر کیے ۔'' ایکسپریس فورم '' میں ہونے والی گفتگو قارئین کے علم ،آگاہی اور افادہ ء عام کے لیے پیش کی جارہی ہے ۔
ڈاکٹراے ایس سوئن
عوام کے لیے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ جگر کے امرا ض جن میں ہیپاٹائٹس اے،بی اورسی شامل ہیں گندگی،پانی اورکھانے پینے کی اشیاء کے باعث نہیں پھیلتے بلکہ ان کا تعلق براہ راست انتقال خون یا اس سے وابستہ طبی علاج سے ہوتا ہے جن میں خاص طورپر سرنج کا استعمال ہے اس لیے سرینج کے محفوظ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ہمیشہ نئی سرنج پر اصرارکیاجائے اور پرانی یا استعمال شدہ سرنج کو فوری طورپر ضایع کردیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ جگر کی بیماری سے انسانی جانوں کو مکمل طورپر محفوظ بنایا جاسکتا ہے تاہم اس کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے تحت ہر عمر کے افراد کو ویکسین دی جائے جو کہ عام بازار میںموجود ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے ڈاکٹرز کے مابین مختلف فورم پر رابطہ ہوتا رہتا ہے اور دونوں ممالک کے ڈاکٹرز آپس میں طبی معلومات کاتبادلہ اور اس کو فروغ دیتے ہیں جس سے مریضوں کے علاج معالجہ میں سہولت پائی جاتی ہے ۔ عوام میں خون کا عطیہ دینے کی عادت ان کو جگر کی بیماریوں سے محفوظ بنا سکتی ہے کیونکہ اس دوران ان کا خون بھی چیک ہوجاتا ہے اوراس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کو کوئی بیماری تو نہیں اگر ہے تو اس کا فوری طور پر علاج بھی ممکن ہوجاتا ہے ۔
جگر کی بیماریاں چلتے پھرتے محسوس نہیںکی جاسکتیں تاہم ہیپاٹائٹس بی کے بعد سی کا مرحلہ پیچیدہ ہوتا ہے جس سے انسان میں سستی ،تھکن،خونی قے ،آنکھوں کا پیلا ہونا جیسی علامات رونما ہوتی ہیں تاہم ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جتنے بھی مریض جگر کے مرض میں مبتلا ہین ان کا علاج سرجری کے بجائے بذریعہ ادویات ہی ہوجائے۔ جگر کی بیماریوں کے حوالے اور جگر کی پیوندکاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹراے ایس سوئن نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ جگر کی ہر بیماری میں مبتلا فرد کا آپریشن کردیا جائے بلکہ آپریشن صرف ان مریضوں کا ہی کیاجاتا ہے جن میں جگر کی بیماری یعنی ہیپاٹائٹس سی انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرگئی ہو اور وہ قابل آپریشن بھی ہو۔ جس کی چند ایک نشانیاں ہیں اوران کی بنیادپر ہی آپریشن کا مشورہ دیا جاتا ہے اورکیاجاتا ہے ۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ جگر کے امراض صرف اورصرف خون کے خلیوں سے ہی پھیلتے اور پیداہوتے ہیں ان کا قطعاً تعلق کسی کھانے پینے یا گندگی سے نہیں ہے تاہم ایسی تمام چیزیں جو دوران بیماری یا صحت مندی جیسے کہ باربر شاپ ، ڈینٹل کلینک وغیرہ میں استعمال ہونے والے آلات کے ضمن میں احتیاط برتنی چاہیے اوران کے اوزار اورآلات کو جراثیم سے پاک کرکے استعمال کیاجانا چاہیے۔پاکستان کی طرح بھارت میں بھی اسپتالوں میں جراثیم سے پاک آلات کے لیے اقدامات کو یقینی بنایا گیا ہے جو ایسا نہیں کرتے ان کے لائسنس منسوخ کردیئے جاتے ہیں۔ جگرکی پیوندکاری اوراس کے بعد کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹراے ایس سوئن نے بتایا کہ مریض کو اتنی ہی توجہ آپریشن کے بعد دینی چاہیے جتنی کہ آپریشن سے قبل اور آپریشن کے دوران ،کیونکہ یہ ایک پیچیدہ اورطویل المدت علاج ہے اس لیے آپریشن کے بعد ابتدائی،لیٹ اور لونگ ٹرم پالیسی کو اختیارکرتے ہوئے مریض کا صحت مندانہ فالو اپ کیاجاتا ہے۔
انھوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کے مابین جگر کی پیوندکاری سمیت جگر کے امراض کے علاج ومعالجہ کے حوالے سے ڈاکٹرز کا تبادلہ ہونا چاہیے اوران کو اس ضمن میں دونوں ممالک کی جانب سے آسانیاں فراہم کی جانی چاہئیں۔
پروفیسر ڈاکٹرظفر اقبا ل
ہماری جانب سے حکومت کو پاکستان اور بھارت کے درمیان جگر کی پیوندکاری اور جگر کے امراض کے علاج معالجہ کے حوالے سے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کرانے کی غرض سے پیش کی جاچکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جگر کی بیماریوں کے علاج کی غرض سے طبی ماہرین کی آمد ورفت کو قانونی حیثیت دی جائے تاکہ آئندہ جگر کی بیماری جو دن بدن زورپکڑ رہی ہے کو کنٹرول کیاجاسکے ۔ جگر کی بیماری ایسے افراد میں بھی جڑ پکڑ رہی ہے جو جگرکو خراب کرنے والے مشروبات کا استعمال نہیں کرتے تاہم انکی ایک چھوٹی سے غلطی ان کو ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا کردیتی ہے اور وہ انجکشن(سرنج)کا غیر معمولی استعمال ہے۔
انھوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے جگر کے ماہر ڈاکٹرز اور سرجنز کے درمیان مشاورت کا سلسلہ آج کا نہیں بلکہ انسانیت اور سماجی خدمت کے پیش نظر طویل عرصہ سے جاری ہے۔ ڈاکٹراے ایس سوئن اس سلسلہ میں آٹھ سال قبل پاکستان میں جگر کی پیوندکاری کا کامیاب آپریشن کرچکے ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں پہلا جگر ٹرانسپلانٹ کا آپریشن تھا تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کلچر کوبڑھایا جائے اور حکومت اسپتالوں میں اس حوالے سے ضروری سہولیات بھی فراہم کرے جس سے فوری اور بہترین علاج ومعالجہ کی سہولیات ہمہ وقت ملکی سطح پر سرکاری اسپتالوں میں بھی موجود ہوں ۔ جگرٹرانسپلانٹ ایک مہنگا کام ہے جس کے لیے حکومت کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے عوامی مفادمیں الگ سے فنڈنگ کرنا ہوگی جبکہ ویزا پالیسی کو بھی نرم کیاجائے اور ڈاکٹرز کے وفود اور مریضوں کی آمد ورفت کے لیے دونوں ممالک کے پالیسی میکرز کو لامحدود مدت کے ویزے فراہم کیے جائیں جیسے کہ کاروباری حلقوں کو فراہم کے گئے ہیں انھوںنے کہاکہ ڈاکٹرسوئن ایک ہمدرد اور انسان دوست سرجن ہیں جن کی طبی خدمات کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیاجاتاہے۔
تاہم پاکستان میں بھی نامور اور معروف فزیشن اورسرجنز کی کمی نہیں ہے البتہ یہاں سرکاری اسپتالوں میں جگر کے امراض خاص طورپر جگرٹرانسپلانٹ کے عمل کو فعال بنانے کی ضرورت ہے اوریہ کام صرف اورصرف حکومت ہی کرسکتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹرآفتاب محسن
ہیپا ٹائٹس Bاور Cسب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے آگاہی بہت کم ہے عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے اور اسی بات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ ناقص غذا اور صفائی ان امراض کے پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے اس بارے میں آگاہی کی ضرورت ہے کہ انجکشن ان امراض کے پھیلانے میں سب سے بڑا عنصر ہیں۔ تمام ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ 80فیصد ہیپاٹائٹس کا مرض انجکشن کے لئے استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال ہے۔ اگر انجکشن لگانے میں احتیاط سے کام لیاجائے اور ہر دفعہ نئی سرنج استعمال کی جائے تو اس 80فیصد تک اس مرض سے بچاجاسکتا ہے۔
اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ استعمال کے فوری بعد سرنج کو ضایع کردیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی طرف سے ہیپاٹائٹس کے مرض کیلئے دیئے جانے والے بجٹ میں کمی نہیں ہے مگر استعمال درست نہیں ہے۔ بجٹ کا زیادہ تر حصہ مرض کے علاج پر خرچ کیا جاتا ہے حالانکہ ضرورت اس چیز کی ہے کہ بجٹ کا زیادہ حصہ مرض سے بچاؤ کیلئے ویکسیئن اور احتیاطی تدابیر پر خرچ ہونا چاہیئے۔ تمام سرکاری اورپرائیویٹ اسپتالوں میں انجکشن لگانے میں احتیاط کرتے ہوئے استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال روک کر اس مرض سے بچا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے سب سے پہلے سرکاری اسپتالوں میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہاں استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال نہ ہو اور پھر پرائیویٹ اسپتالوں کو اس کا پابند کیا جائے۔
جگر کی پیوند کاری میں بھارتی ڈاکٹرز مہارت میں کافی آگے ہیں پاکستان میں جگر کی پیوند کاری کیلئے ان سے معاونت لینی چاہیئے، اسلام آباد کے پمز اسپتال میں جگر کی پیوند کاری کیلئے سینٹر بنانے کی کوشش کی گئی تھی مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکی اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ اس میں بھارتی ماہرین کی معاونت نہیں لی گئی تھی مگر اب شیخ زید اسپتال لاہور میں یہ سینٹر بنانے میں کامیابی ہوئی ہے کیونکہ اس میں بھارتی ڈاکٹرز کی معاونت شامل کی گئی ہے۔ بھارتی ڈاکٹروں نے ہمیشہ پاکستان میں ڈاکٹرز کی مدد کی ہے پاکستان میں جگر کی پیوند کاری کو مزید آسان بنانے کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے ڈاکٹرز ایک دوسرے سے ملتے رہیں۔دونوں ملکوں کا ماحول اور مسائل ایک جیسے ہیں اس لئے ڈاکٹرز ایک دوسرے سے ملیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور برصغیر دنیا کیلئے ایک مثال بن سکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر غیاث النبی طیب
پاکستان میںہیپا ٹائٹس کے بے تحاشا مریض موجود ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق 2.5فیصد لوگ ہیپاٹائٹس Bاور 6.5فیصد مریض ہیپاٹائٹس Cکا شکار ہیں اور یہ تناسب مختلف علاقوں میں مختلف ہے۔ ہمارے ہاں 25 سے زائد عمر کے لوگ کمانا شروع کرتے ہیں اور 25سال سے زائد عمر کے لوگوں میں ہی یہ مرض زیادہ ہے جبکہ 21سال سے کم عمر افراد میں کم ہے اس طرح یہ ملک کی معاشی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ مرض کا شکار ہونے کے فوری بعد اس کا پتہ نہیں چلتا بلکہ یہ دیمک کی طرح اندر ہی اندر مریض کو کھاجاتا ہے اور بہت بعد میں اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں جیسے تلی کا پھیلنا، خون کی الٹی آنا، پیٹ میں پانی پڑجانااور دماغ کا الٹنا شامل ہیں جب علامات شروع ہوتی ہیں تو یہ مرض بہت زیادہ پھیل چکا ہوتا ہے۔
ہیپاٹائٹس کی علامات اور پیچیدگیاں ظاہر ہونے میں 25سے 30سال کاعرصہ لگ جاتا ہے، مردوں میں یہ عرصہ عام طور پر 22سال اور عورتوں میں 25سال ہوتا ہے مگر عمر جتنی زیادہ ہوگی پیچیدگیاں اتنا جلد پیدا ہونا شروع ہوجائیں گی زیادہ عمر میں یہ عرصہ 15سے 20سال بھی ہوسکتا ہے۔ ہیپاٹائٹس کا تناست مردوں اور عورتوں میں شہروں اور دیہاتوں میں مختلف ہے۔ دیہات میں نسبتاً مردوں میں یہ مرض زیادہ ہے جبکہ شہری علاقوں میں عورتوں میں زیادہ ہے۔ ایسی حاملہ خواتین جن کا آپریشن ہوا ہو یا جو انجکشن لگواتی ہوںان میں زیادہ ہے اور ایسا ہی مردوں میں ہے جن کا کبھی کوئی آپریشن ہوا ہو یا وہ کسی قسم کا انجکشن لگواتے ہوں ان میں بھی ہیپا ٹائٹس کا مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔
اگر ہیپاٹائٹس Bپانچ سال کے کم عمر افراد میں ہو تو یہ دائمی یرقان کی شکل اختیار کرلیتا ہے تاہم اس سے بڑی عمر کے افراد میں 95فیصد تک یہ خود بخود ٹھیک ہوجاتاہے۔ اس سے بچنے کیلئے ویکسین موجود ہے اسے استعمال کرنا چاہیئے اور بچوں کو بیماریوں سے بچانے والی دیگر حفاظتی ویکسین کے ساتھ اسے بھی لگانا چاہیئے۔ والدین بچوں کو دیگر متعددی بیماریوں سے بچانے والی حفاظتی ویکسیئن تو لگواتے ہیں مگر ہیپاٹائٹس Bسے بچاؤ کی ویکسیئن لگانے میں خوف محسوس کرتے ہیں اس خوف کو دور کرنے کیلئے حکومت کو مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگہی پیدا ہو اور جس خاندان میں کسی فرد کو ہیپاٹائٹس ہو وہاں تو خصوصی طور پر حفاظتی ویکیسین لگوانی چاہیئے۔ ہمارا بھارتی ڈاکٹروں کے ساتھ رابطہ رہتا ہے اور جگر کی بیماری کے علاج کیلئے جب بھی ہم نے بھارتی ڈاکٹروں سے رابطہ کیا تو انھوں نے اپنی مہارت ہمیں پورے خلوص نیت سے منتقل کی۔
جو بھی چیز ہمیں معلوم کرنا ہوتی ہے وہ ہمیں بتاتے ہیں اور ہمیں بھی جو علم ہوتا ہے ہم انھیں بتاتے ہیںاسی سلسلے میں ہم 24فروری 2013ء کو ایک کانفرنس کا انعقاد کررہے ہیں جس میں بھارت سے ڈاکٹروں کو مدعو کیا گیا ہے۔ کانفرنس میں بھارتی ڈاکٹر اپنی اپنی تحقیقات پیش کریں گے۔ پاکستان اور بھارت کے آپس کے تعلقات سے قطع نظر یہ سلسلہ چل رہا ہے ۔ اس سلسلے کو آگے بڑھانے اور دونوں ملکوں میں تعلقات کو بہتر کرنے کیلئے ڈاکٹروں کو پل کاکردار ادا کرنا چاہئے اور بھارت کی طرح پاکستان میں بھی حکومتی اور پرائیویٹ سطح پر جگر کی پیوند کاری کے مراکز بننے چاہئیں۔
میجر (ریٹائرڈ ) انوار علوی
جگر کی بیماری جس کو لگتی ہے وہی جانتا ہے کہ اس پر کیا بیتتی ہے کیونکہ کھانے کی قدر بھوکے کو ہی ہوتی ہے جس کا پیٹ بھرا ہوا ہو اس کیلئے کھانے کی وہ قدر نہیں ہوتی۔میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اگرچہ اﷲ ہی کے فضل سے مجھے دوبارہ زندگی ملی ہے لیکن بطور مریض میں میری سروائیول میں دو چیزیں اہم تھیں ۔ایک یہ کہ میں آخری وقت تک پْر امید اور پْر عزم رہا اور توکل علی ا ﷲ کو مضبوطی سے تھامے رکھا دوسرے conviction ,جس نے مجھے حوصلہ اور ہمت دیئے رکھی ۔
بھارتی ڈاکٹر جگر کی پیوند کاری میں پاکستانی ڈاکٹروں سے زیادہ ماہر ہیں ان کی مہارت سے استفادہ حاصل کرنا چاہیئے اور میں اس مقصد کیلئے ایک رابطہ کار اور پل کے طور پر کام کروں گا ۔ میں نے زندگی اب اسی خدمت کے لیے وقف کردی ہے اور اپنے کام سے مخلص ہوں۔ چنانچہ سیاسی وابستگی سے ہٹ کر یہ کام کروں گا۔اس مقصد کے لیے ادارہ بھی قائم کردیا ہے تاکہ کسی نظم اور طریقہ کار کے تحت نہ صر ف یہ کام سرانجام دیا جاسکے بلکہ اسے بعد میں بھی جاری وساری رکھا جاسکے ۔
اس وقت دنیا میں 35 کروڑ اور پاکستان میں لاکھوں افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہیں ۔ہیپاٹائٹس (یرقان ) کی مختلف اقسام ہیپاٹائٹس ( اے ،بی ، سی ،ڈی اور ای ) جگر میں ورم ،جگر کاسکڑنا اور پھیلنا علاوہ ازیں جگر کے تمام امراض بشمول جگر کا کینسر قابل علاج ہیں لیکن بدقسمتی سے کم علمی ، عوامی شعور میں کمی اور ہیلتھ ایجوکیشن نہ ہونے کی بناپر لوگ اس مرض سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بیماری جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر لوگ علاج معالجہ کے لیے ڈاکٹر ز اور اسپتالوں کی طرف رجوع کرتے ہیں لیکن اس وقت تک مرض اس قدر سنگین اور پیچیدہ صورت اختیار رکرچکاہوتا ہے کہ معمول کا علاج کارگر ثابت نہیں ہوپاتا اور نوبت جگر کی پیوند کاری تک جاپہنچتی ہے۔جوظاہر ہے ایک مشکل ،مہنگا اور تکلیف دہ کام ہے ۔
پاکستان میں سرکاری اور نجی سطح پر جو علاج گاہیں موجود ہیں وہ بڑھتی ہوئی آبادی اور مریضوں کی روز افزوں تعداد کے حساب سے ناکافی ہے۔ماہر ڈاکٹروں اور سرجنز کے ساتھ ساتھ مطلوبہ سہولیات کا فقدان بھی طبی مسائل کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ روزنامہ '' ایکسپریس'' نے اپنے قارئین کوجگر کی بیماریوں کے اسباب و وجوہات ،علامات ، علاج اور دیکھ بھال کے بارے میں آگاہی کی غرض سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا ۔ خوش قسمتی سے دنیا کے معروف سرجن اور جگر کی پیوندکاری کے ماہر ڈاکٹر اے ایس سوئن پاکستان کے چند روزہ دورے پرآئے ہوئے تھے ۔سو ان کی موجودگی کافائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں ''ایکسپریس '' فورم میں مدعو کیا گیا ۔ سرجن ڈاکٹراے ایس سوئن کا شمار دنیا کے بہترین سرجنز میں ہوتا ہے جو جگر کی پیوند کاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اوراب تک 1500 سے زائد مریضوں کے جگر کی پیوندکاری کرچکے ہیں۔
گزشتہ برس انھوںنے جگر کی پیوندکاری کے 250کامیاب آپریشن کر کے ریکارڈ قائم کیاہے ۔12000 سے زائد جگر کے پیچیدہ امراض اور کی سرجری کرچکے ہیں ۔کم عمر (آٹھ کلو وزن ) بچوں اور بڑوں کے لیور ٹرانسپلانٹ کے بھی ماہر ہیں ۔ڈاکٹر اے ایس سوئن کا تعلق ہمسایہ ملک بھارت سے ہے' وہ بحیثیت چیئرمین میڈنٹا انسٹیٹیوٹ آف لیور ٹرانسپلانٹیشن اور ری جنریٹو میڈیسن ، میڈنٹا ،گورگاوں انڈیا میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔اس نشست میں جن ماہرین نے جگر کی بیماری ،طریقہ علاج اور حفاظت کے سلسلے میں اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں اظہار خیال کیا ان میں ڈاکٹر اے ایس سوئن کے ساتھ شیخ زید اسپتال کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال ، سروسز اسپتال لاہور کے میڈیکل یونٹ تھری کے سربراہ اور معروف ماہر امراضِ جگر پروفیسر آفتاب محسن ، لاہور جنر ل اسپتال اور پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر غیاث النبی طیب کے علاوہ سماجی شخصیت اور حال ہی میں جگر کی پیوندکاری کروانے والے میجر ( ریٹائرڈ ) انوار علوی بھی شامل تھے ۔جنہوں نے طبی ماہرین کے ساتھ بطور مریض اپنے احساسات اور جذبات شیئر کیے ۔'' ایکسپریس فورم '' میں ہونے والی گفتگو قارئین کے علم ،آگاہی اور افادہ ء عام کے لیے پیش کی جارہی ہے ۔
ڈاکٹراے ایس سوئن
عوام کے لیے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ جگر کے امرا ض جن میں ہیپاٹائٹس اے،بی اورسی شامل ہیں گندگی،پانی اورکھانے پینے کی اشیاء کے باعث نہیں پھیلتے بلکہ ان کا تعلق براہ راست انتقال خون یا اس سے وابستہ طبی علاج سے ہوتا ہے جن میں خاص طورپر سرنج کا استعمال ہے اس لیے سرینج کے محفوظ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ہمیشہ نئی سرنج پر اصرارکیاجائے اور پرانی یا استعمال شدہ سرنج کو فوری طورپر ضایع کردیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ جگر کی بیماری سے انسانی جانوں کو مکمل طورپر محفوظ بنایا جاسکتا ہے تاہم اس کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے تحت ہر عمر کے افراد کو ویکسین دی جائے جو کہ عام بازار میںموجود ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے ڈاکٹرز کے مابین مختلف فورم پر رابطہ ہوتا رہتا ہے اور دونوں ممالک کے ڈاکٹرز آپس میں طبی معلومات کاتبادلہ اور اس کو فروغ دیتے ہیں جس سے مریضوں کے علاج معالجہ میں سہولت پائی جاتی ہے ۔ عوام میں خون کا عطیہ دینے کی عادت ان کو جگر کی بیماریوں سے محفوظ بنا سکتی ہے کیونکہ اس دوران ان کا خون بھی چیک ہوجاتا ہے اوراس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کو کوئی بیماری تو نہیں اگر ہے تو اس کا فوری طور پر علاج بھی ممکن ہوجاتا ہے ۔
جگر کی بیماریاں چلتے پھرتے محسوس نہیںکی جاسکتیں تاہم ہیپاٹائٹس بی کے بعد سی کا مرحلہ پیچیدہ ہوتا ہے جس سے انسان میں سستی ،تھکن،خونی قے ،آنکھوں کا پیلا ہونا جیسی علامات رونما ہوتی ہیں تاہم ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جتنے بھی مریض جگر کے مرض میں مبتلا ہین ان کا علاج سرجری کے بجائے بذریعہ ادویات ہی ہوجائے۔ جگر کی بیماریوں کے حوالے اور جگر کی پیوندکاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹراے ایس سوئن نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ جگر کی ہر بیماری میں مبتلا فرد کا آپریشن کردیا جائے بلکہ آپریشن صرف ان مریضوں کا ہی کیاجاتا ہے جن میں جگر کی بیماری یعنی ہیپاٹائٹس سی انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کرگئی ہو اور وہ قابل آپریشن بھی ہو۔ جس کی چند ایک نشانیاں ہیں اوران کی بنیادپر ہی آپریشن کا مشورہ دیا جاتا ہے اورکیاجاتا ہے ۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ جگر کے امراض صرف اورصرف خون کے خلیوں سے ہی پھیلتے اور پیداہوتے ہیں ان کا قطعاً تعلق کسی کھانے پینے یا گندگی سے نہیں ہے تاہم ایسی تمام چیزیں جو دوران بیماری یا صحت مندی جیسے کہ باربر شاپ ، ڈینٹل کلینک وغیرہ میں استعمال ہونے والے آلات کے ضمن میں احتیاط برتنی چاہیے اوران کے اوزار اورآلات کو جراثیم سے پاک کرکے استعمال کیاجانا چاہیے۔پاکستان کی طرح بھارت میں بھی اسپتالوں میں جراثیم سے پاک آلات کے لیے اقدامات کو یقینی بنایا گیا ہے جو ایسا نہیں کرتے ان کے لائسنس منسوخ کردیئے جاتے ہیں۔ جگرکی پیوندکاری اوراس کے بعد کے اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹراے ایس سوئن نے بتایا کہ مریض کو اتنی ہی توجہ آپریشن کے بعد دینی چاہیے جتنی کہ آپریشن سے قبل اور آپریشن کے دوران ،کیونکہ یہ ایک پیچیدہ اورطویل المدت علاج ہے اس لیے آپریشن کے بعد ابتدائی،لیٹ اور لونگ ٹرم پالیسی کو اختیارکرتے ہوئے مریض کا صحت مندانہ فالو اپ کیاجاتا ہے۔
انھوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک کے مابین جگر کی پیوندکاری سمیت جگر کے امراض کے علاج ومعالجہ کے حوالے سے ڈاکٹرز کا تبادلہ ہونا چاہیے اوران کو اس ضمن میں دونوں ممالک کی جانب سے آسانیاں فراہم کی جانی چاہئیں۔
پروفیسر ڈاکٹرظفر اقبا ل
ہماری جانب سے حکومت کو پاکستان اور بھارت کے درمیان جگر کی پیوندکاری اور جگر کے امراض کے علاج معالجہ کے حوالے سے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کرانے کی غرض سے پیش کی جاچکی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جگر کی بیماریوں کے علاج کی غرض سے طبی ماہرین کی آمد ورفت کو قانونی حیثیت دی جائے تاکہ آئندہ جگر کی بیماری جو دن بدن زورپکڑ رہی ہے کو کنٹرول کیاجاسکے ۔ جگر کی بیماری ایسے افراد میں بھی جڑ پکڑ رہی ہے جو جگرکو خراب کرنے والے مشروبات کا استعمال نہیں کرتے تاہم انکی ایک چھوٹی سے غلطی ان کو ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا کردیتی ہے اور وہ انجکشن(سرنج)کا غیر معمولی استعمال ہے۔
انھوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے جگر کے ماہر ڈاکٹرز اور سرجنز کے درمیان مشاورت کا سلسلہ آج کا نہیں بلکہ انسانیت اور سماجی خدمت کے پیش نظر طویل عرصہ سے جاری ہے۔ ڈاکٹراے ایس سوئن اس سلسلہ میں آٹھ سال قبل پاکستان میں جگر کی پیوندکاری کا کامیاب آپریشن کرچکے ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں پہلا جگر ٹرانسپلانٹ کا آپریشن تھا تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کلچر کوبڑھایا جائے اور حکومت اسپتالوں میں اس حوالے سے ضروری سہولیات بھی فراہم کرے جس سے فوری اور بہترین علاج ومعالجہ کی سہولیات ہمہ وقت ملکی سطح پر سرکاری اسپتالوں میں بھی موجود ہوں ۔ جگرٹرانسپلانٹ ایک مہنگا کام ہے جس کے لیے حکومت کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے عوامی مفادمیں الگ سے فنڈنگ کرنا ہوگی جبکہ ویزا پالیسی کو بھی نرم کیاجائے اور ڈاکٹرز کے وفود اور مریضوں کی آمد ورفت کے لیے دونوں ممالک کے پالیسی میکرز کو لامحدود مدت کے ویزے فراہم کیے جائیں جیسے کہ کاروباری حلقوں کو فراہم کے گئے ہیں انھوںنے کہاکہ ڈاکٹرسوئن ایک ہمدرد اور انسان دوست سرجن ہیں جن کی طبی خدمات کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیاجاتاہے۔
تاہم پاکستان میں بھی نامور اور معروف فزیشن اورسرجنز کی کمی نہیں ہے البتہ یہاں سرکاری اسپتالوں میں جگر کے امراض خاص طورپر جگرٹرانسپلانٹ کے عمل کو فعال بنانے کی ضرورت ہے اوریہ کام صرف اورصرف حکومت ہی کرسکتی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹرآفتاب محسن
ہیپا ٹائٹس Bاور Cسب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ پاکستان میں اس حوالے سے آگاہی بہت کم ہے عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے اور اسی بات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ ناقص غذا اور صفائی ان امراض کے پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے اس بارے میں آگاہی کی ضرورت ہے کہ انجکشن ان امراض کے پھیلانے میں سب سے بڑا عنصر ہیں۔ تمام ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ 80فیصد ہیپاٹائٹس کا مرض انجکشن کے لئے استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال ہے۔ اگر انجکشن لگانے میں احتیاط سے کام لیاجائے اور ہر دفعہ نئی سرنج استعمال کی جائے تو اس 80فیصد تک اس مرض سے بچاجاسکتا ہے۔
اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ استعمال کے فوری بعد سرنج کو ضایع کردیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی طرف سے ہیپاٹائٹس کے مرض کیلئے دیئے جانے والے بجٹ میں کمی نہیں ہے مگر استعمال درست نہیں ہے۔ بجٹ کا زیادہ تر حصہ مرض کے علاج پر خرچ کیا جاتا ہے حالانکہ ضرورت اس چیز کی ہے کہ بجٹ کا زیادہ حصہ مرض سے بچاؤ کیلئے ویکسیئن اور احتیاطی تدابیر پر خرچ ہونا چاہیئے۔ تمام سرکاری اورپرائیویٹ اسپتالوں میں انجکشن لگانے میں احتیاط کرتے ہوئے استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال روک کر اس مرض سے بچا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے سب سے پہلے سرکاری اسپتالوں میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہاں استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال نہ ہو اور پھر پرائیویٹ اسپتالوں کو اس کا پابند کیا جائے۔
جگر کی پیوند کاری میں بھارتی ڈاکٹرز مہارت میں کافی آگے ہیں پاکستان میں جگر کی پیوند کاری کیلئے ان سے معاونت لینی چاہیئے، اسلام آباد کے پمز اسپتال میں جگر کی پیوند کاری کیلئے سینٹر بنانے کی کوشش کی گئی تھی مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکی اس کی وجہ صرف یہی تھی کہ اس میں بھارتی ماہرین کی معاونت نہیں لی گئی تھی مگر اب شیخ زید اسپتال لاہور میں یہ سینٹر بنانے میں کامیابی ہوئی ہے کیونکہ اس میں بھارتی ڈاکٹرز کی معاونت شامل کی گئی ہے۔ بھارتی ڈاکٹروں نے ہمیشہ پاکستان میں ڈاکٹرز کی مدد کی ہے پاکستان میں جگر کی پیوند کاری کو مزید آسان بنانے کیلئے ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے ڈاکٹرز ایک دوسرے سے ملتے رہیں۔دونوں ملکوں کا ماحول اور مسائل ایک جیسے ہیں اس لئے ڈاکٹرز ایک دوسرے سے ملیں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور برصغیر دنیا کیلئے ایک مثال بن سکتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر غیاث النبی طیب
پاکستان میںہیپا ٹائٹس کے بے تحاشا مریض موجود ہیں۔ اعدادو شمار کے مطابق 2.5فیصد لوگ ہیپاٹائٹس Bاور 6.5فیصد مریض ہیپاٹائٹس Cکا شکار ہیں اور یہ تناسب مختلف علاقوں میں مختلف ہے۔ ہمارے ہاں 25 سے زائد عمر کے لوگ کمانا شروع کرتے ہیں اور 25سال سے زائد عمر کے لوگوں میں ہی یہ مرض زیادہ ہے جبکہ 21سال سے کم عمر افراد میں کم ہے اس طرح یہ ملک کی معاشی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ مرض کا شکار ہونے کے فوری بعد اس کا پتہ نہیں چلتا بلکہ یہ دیمک کی طرح اندر ہی اندر مریض کو کھاجاتا ہے اور بہت بعد میں اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں جیسے تلی کا پھیلنا، خون کی الٹی آنا، پیٹ میں پانی پڑجانااور دماغ کا الٹنا شامل ہیں جب علامات شروع ہوتی ہیں تو یہ مرض بہت زیادہ پھیل چکا ہوتا ہے۔
ہیپاٹائٹس کی علامات اور پیچیدگیاں ظاہر ہونے میں 25سے 30سال کاعرصہ لگ جاتا ہے، مردوں میں یہ عرصہ عام طور پر 22سال اور عورتوں میں 25سال ہوتا ہے مگر عمر جتنی زیادہ ہوگی پیچیدگیاں اتنا جلد پیدا ہونا شروع ہوجائیں گی زیادہ عمر میں یہ عرصہ 15سے 20سال بھی ہوسکتا ہے۔ ہیپاٹائٹس کا تناست مردوں اور عورتوں میں شہروں اور دیہاتوں میں مختلف ہے۔ دیہات میں نسبتاً مردوں میں یہ مرض زیادہ ہے جبکہ شہری علاقوں میں عورتوں میں زیادہ ہے۔ ایسی حاملہ خواتین جن کا آپریشن ہوا ہو یا جو انجکشن لگواتی ہوںان میں زیادہ ہے اور ایسا ہی مردوں میں ہے جن کا کبھی کوئی آپریشن ہوا ہو یا وہ کسی قسم کا انجکشن لگواتے ہوں ان میں بھی ہیپا ٹائٹس کا مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔
اگر ہیپاٹائٹس Bپانچ سال کے کم عمر افراد میں ہو تو یہ دائمی یرقان کی شکل اختیار کرلیتا ہے تاہم اس سے بڑی عمر کے افراد میں 95فیصد تک یہ خود بخود ٹھیک ہوجاتاہے۔ اس سے بچنے کیلئے ویکسین موجود ہے اسے استعمال کرنا چاہیئے اور بچوں کو بیماریوں سے بچانے والی دیگر حفاظتی ویکسین کے ساتھ اسے بھی لگانا چاہیئے۔ والدین بچوں کو دیگر متعددی بیماریوں سے بچانے والی حفاظتی ویکسیئن تو لگواتے ہیں مگر ہیپاٹائٹس Bسے بچاؤ کی ویکسیئن لگانے میں خوف محسوس کرتے ہیں اس خوف کو دور کرنے کیلئے حکومت کو مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگہی پیدا ہو اور جس خاندان میں کسی فرد کو ہیپاٹائٹس ہو وہاں تو خصوصی طور پر حفاظتی ویکیسین لگوانی چاہیئے۔ ہمارا بھارتی ڈاکٹروں کے ساتھ رابطہ رہتا ہے اور جگر کی بیماری کے علاج کیلئے جب بھی ہم نے بھارتی ڈاکٹروں سے رابطہ کیا تو انھوں نے اپنی مہارت ہمیں پورے خلوص نیت سے منتقل کی۔
جو بھی چیز ہمیں معلوم کرنا ہوتی ہے وہ ہمیں بتاتے ہیں اور ہمیں بھی جو علم ہوتا ہے ہم انھیں بتاتے ہیںاسی سلسلے میں ہم 24فروری 2013ء کو ایک کانفرنس کا انعقاد کررہے ہیں جس میں بھارت سے ڈاکٹروں کو مدعو کیا گیا ہے۔ کانفرنس میں بھارتی ڈاکٹر اپنی اپنی تحقیقات پیش کریں گے۔ پاکستان اور بھارت کے آپس کے تعلقات سے قطع نظر یہ سلسلہ چل رہا ہے ۔ اس سلسلے کو آگے بڑھانے اور دونوں ملکوں میں تعلقات کو بہتر کرنے کیلئے ڈاکٹروں کو پل کاکردار ادا کرنا چاہئے اور بھارت کی طرح پاکستان میں بھی حکومتی اور پرائیویٹ سطح پر جگر کی پیوند کاری کے مراکز بننے چاہئیں۔
میجر (ریٹائرڈ ) انوار علوی
جگر کی بیماری جس کو لگتی ہے وہی جانتا ہے کہ اس پر کیا بیتتی ہے کیونکہ کھانے کی قدر بھوکے کو ہی ہوتی ہے جس کا پیٹ بھرا ہوا ہو اس کیلئے کھانے کی وہ قدر نہیں ہوتی۔میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اگرچہ اﷲ ہی کے فضل سے مجھے دوبارہ زندگی ملی ہے لیکن بطور مریض میں میری سروائیول میں دو چیزیں اہم تھیں ۔ایک یہ کہ میں آخری وقت تک پْر امید اور پْر عزم رہا اور توکل علی ا ﷲ کو مضبوطی سے تھامے رکھا دوسرے conviction ,جس نے مجھے حوصلہ اور ہمت دیئے رکھی ۔
بھارتی ڈاکٹر جگر کی پیوند کاری میں پاکستانی ڈاکٹروں سے زیادہ ماہر ہیں ان کی مہارت سے استفادہ حاصل کرنا چاہیئے اور میں اس مقصد کیلئے ایک رابطہ کار اور پل کے طور پر کام کروں گا ۔ میں نے زندگی اب اسی خدمت کے لیے وقف کردی ہے اور اپنے کام سے مخلص ہوں۔ چنانچہ سیاسی وابستگی سے ہٹ کر یہ کام کروں گا۔اس مقصد کے لیے ادارہ بھی قائم کردیا ہے تاکہ کسی نظم اور طریقہ کار کے تحت نہ صر ف یہ کام سرانجام دیا جاسکے بلکہ اسے بعد میں بھی جاری وساری رکھا جاسکے ۔