حکومت کی بے حسی معذورافراد معیاری تعلیم اورملازمت سے محروم
حکومت معذوروں کے ملازمت کے 2 فیصد کوٹے پر عمل کرانے میں ناکام ہو چکی، معذور افراد کے ساتھ معاشرتی رویے نامناسب ہیں
لاہور:
معاشرے میں جسمانی طور پر معذور افراد بے حسی کا شکار ہیں، معیاری تعلیم اور ملازمت کے حصول سے محروم ہیں، حکومت معذوروں کی ملازمت کے 2 فیصد کوٹے پر عملدرآمد میں ناکام ہوچکی ہے۔
معذور افراد سرکاری نوکریوں اور روزگار کے حصول کے لیے کئی بار سندھ اسمبلی کے سامنے مظاہرے کرچکے ہیں لیکن نوکریوں کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا، پاکستان میں معذور افراد کی تعداد ایک کروڑ80 لاکھ ہے جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے پاکستان نے معذور افرادکی بحالی اور روزگار کی فراہمی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کیے ہیں لیکن تاحال صوبائی سطح پر معذور افراد کی بحالی کے حوالے سے موثر قانون سازی نہیں ہو سکی ہے ، پاکستان میں18ویں آئینی ترمیم کے بعد تمام صوبوں کو مختلف وزارتوںدیں جس کے تحت محکمہ سماجی بہبود اور محکمہ خصوصی تعلیم صوبائی سطح پر خودمختارہیں معذور افراد کی بحالی کے لیے قانون سازی تو کی گئی جو صرف سفید کاغذ پر سیاہی کی مانند معلوم ہوتی ہے معذور بچے خصوصی اسکول سے تعلیم حاصل کرتے ہیں جس کے بعد کالجوں اور یونیورسٹی کے طالب علموں سے مقابلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
جسمانی طور پر معذور بچوں کو عام اسکولوں میں حصول میں مشکلات درپیش ہوتی ہے حکومت سندھ کی جانب سے محکمہ سماجی بہبود کو فنڈز کی کمی کی شکایت رہتی ہے حکومت کی ترجیحات میں سماجی امور اہمیت کے حامل نہیں حقیقت میں حکمران اسی سماج کے نمائندوں کے ووٹ کی طاقت سے ہی اقتدار میں آتے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کی ترجیحات میں سماجی فلاح و بہبود کے امور اولین ترجیح کے حامل ہونے چاہئیں، معذور افراد کے ساتھ معاشرتی رویے نامناسب ہوتے ہیں شہری معذور افراد کو اپنے ہمدردانہ رویے سے معذوری کا احساس دلاتے ہیں، معذور افراد مخلص دوستوں سے محروم رہتے ہیں جس سے ان کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میںسرکاری اور نجی دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، شاپنگ سینٹرز، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشنوں اور اسپتالوں میں معذرور افراد کی رسائی باآسانی ممکن نہیں چونکہ عمارتوں کے انفراسٹرکچر میں معذرو افراد کی رسائی کو آسان بنانے کے لیے ریلنگ اور ریمپ نہیں بنائے جاتے جس کی وجہ سے پاکستان میں جگہ جگہ معذور افراد کو اذیت کا احساس ہوتا ہے اور معذوروں کی اکثریت گھروں تک محدود ہوجاتی ہے بیشتر معذرو افراد جو کئی ممالک جاچکے ہیں کا کہنا ہے کہ ملک سے باہر معذوری بوجھ معلوم نہیں ہوتی لیکن پاکستان آتے ہی معذوری کا شدید احساس ہوتا ہے۔
معاشرے میں جسمانی طور پر معذور افراد بے حسی کا شکار ہیں، معیاری تعلیم اور ملازمت کے حصول سے محروم ہیں، حکومت معذوروں کی ملازمت کے 2 فیصد کوٹے پر عملدرآمد میں ناکام ہوچکی ہے۔
معذور افراد سرکاری نوکریوں اور روزگار کے حصول کے لیے کئی بار سندھ اسمبلی کے سامنے مظاہرے کرچکے ہیں لیکن نوکریوں کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا، پاکستان میں معذور افراد کی تعداد ایک کروڑ80 لاکھ ہے جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے پاکستان نے معذور افرادکی بحالی اور روزگار کی فراہمی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کیے ہیں لیکن تاحال صوبائی سطح پر معذور افراد کی بحالی کے حوالے سے موثر قانون سازی نہیں ہو سکی ہے ، پاکستان میں18ویں آئینی ترمیم کے بعد تمام صوبوں کو مختلف وزارتوںدیں جس کے تحت محکمہ سماجی بہبود اور محکمہ خصوصی تعلیم صوبائی سطح پر خودمختارہیں معذور افراد کی بحالی کے لیے قانون سازی تو کی گئی جو صرف سفید کاغذ پر سیاہی کی مانند معلوم ہوتی ہے معذور بچے خصوصی اسکول سے تعلیم حاصل کرتے ہیں جس کے بعد کالجوں اور یونیورسٹی کے طالب علموں سے مقابلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
جسمانی طور پر معذور بچوں کو عام اسکولوں میں حصول میں مشکلات درپیش ہوتی ہے حکومت سندھ کی جانب سے محکمہ سماجی بہبود کو فنڈز کی کمی کی شکایت رہتی ہے حکومت کی ترجیحات میں سماجی امور اہمیت کے حامل نہیں حقیقت میں حکمران اسی سماج کے نمائندوں کے ووٹ کی طاقت سے ہی اقتدار میں آتے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کی ترجیحات میں سماجی فلاح و بہبود کے امور اولین ترجیح کے حامل ہونے چاہئیں، معذور افراد کے ساتھ معاشرتی رویے نامناسب ہوتے ہیں شہری معذور افراد کو اپنے ہمدردانہ رویے سے معذوری کا احساس دلاتے ہیں، معذور افراد مخلص دوستوں سے محروم رہتے ہیں جس سے ان کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میںسرکاری اور نجی دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، شاپنگ سینٹرز، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشنوں اور اسپتالوں میں معذرور افراد کی رسائی باآسانی ممکن نہیں چونکہ عمارتوں کے انفراسٹرکچر میں معذرو افراد کی رسائی کو آسان بنانے کے لیے ریلنگ اور ریمپ نہیں بنائے جاتے جس کی وجہ سے پاکستان میں جگہ جگہ معذور افراد کو اذیت کا احساس ہوتا ہے اور معذوروں کی اکثریت گھروں تک محدود ہوجاتی ہے بیشتر معذرو افراد جو کئی ممالک جاچکے ہیں کا کہنا ہے کہ ملک سے باہر معذوری بوجھ معلوم نہیں ہوتی لیکن پاکستان آتے ہی معذوری کا شدید احساس ہوتا ہے۔