وہ الفاظ یاد کیجیے
ان دانشوروں کی عقل پر ماتم کیجیے جو آج کل فوج کو پہلے کراچی اور پھر پورے پاکستان کو ’’ٹھیک‘‘کرنےکے لیے اُکسا رہے ہیں۔
اقتدار کے کھیل میں جب سروں کی بازی لگی ہو تو معاملات اپنی حقیقت میں اتنے سادہ نہیں ہوا کرتے جیسا کہ نظر آتے ہیں۔
نظر بظاہر تو یہ محض اتفاق لگتا ہے کہ وائٹ ہائوس میں چار مزید سال رہنے کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے صرف دو دن بعد صدر اوباما سے سی آئی اے کا چیف ملتا ہے اور اس کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیتا ہے۔ بعدازاں ایک تحریری بیان کے ذریعے ڈیوڈ پیٹریاس اس بات کا اعتراف بھی کر ڈالتا ہے کہ ایک شادی شدہ عورت سے تعلق قائم کرنے کے سبب اس نے اپنے منصب سے بے وفائی کی اور اپنی بیوی کو دھوکا دیتے ہوئے دُکھ پہنچایا۔ وہ خود کو اب سی آئی اے کا سربراہ رہنے کے قابل نہیں سمجھتا۔
اس عام سی دِکھنے والی کہانی پر غور کرتے ہوئے ہمیں سب سے پہلے یاد رکھنا ہو گا کہ ڈیوڈ پیٹریاس کو اچانک ایک صبح پورا سچ بولنے کے لیے اس کے ضمیر نے ہرگز مجبور نہ کیا تھا۔ حقیقت بلکہ یہ ہے کہ گزشتہ کچھ مہینوں سے امریکا ہی کا ایک اور جاسوس ادارہ اس پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھا۔ اس نے پتہ چلایا تھا کہ سی آئی اے کے سربراہ کے اس خاتون سے بڑے ذاتی اور گہرے مراسم استوار ہو چکے ہیں جس نے افغانستان کے بہت سے دورے کرنے کے بعد ڈیوڈ پیٹریاس کے اوپر ایک قصیدہ نما کتاب لکھ ڈالی تھی۔ بات وہیں تک محدود رہتی تو شاید اتنا بڑا قضیہ نہ کھڑا ہو جاتا۔ ڈرامائی موڑ اس کہانی میں اس وقت آئے جب ایک اور خاتون نے از خود ایف بی آئی کے ایک جاسوس کو مطلع کیا کہ اسے ڈیوڈ پیٹریاس کی محبوبہ دھمکیوں بھرے ای میلز لکھ رہی ہے۔ کتاب لکھنے والی محبوبہ کو شبہ تھا کہ ڈیوڈ اب اپنی سوانح نگار کو بھلا کر اس کی طرف رُخ کر رہا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ میرے اس کالم لکھنے سے تھوڑی دیر پہلے خبر یہ بھی آ گئی ہے کہ وہ خاتون جس پر ڈیوڈ پیٹریاس پر ڈورے ڈالنے کا الزام عائد کیا جا رہا تھا افغانستان میں مقیم امریکی اور نیٹو افواج کے سربراہ جان ایلن کے ساتھ گزشتہ کئی مہینوں سے محبت بھرے پیغامات کا تبادلہ کر رہی تھی۔
میں اس کالم میں ہرگز امریکی جرنیلوں کی ذاتی زندگیوں کو زیر بحث نہیں لانا چاہتا۔ وہ جانیں اور ان کے اہل و عیال یا امریکی حکومت۔ مجھے تو زور اس بات پر دینا ہے کہ ڈیوڈ پیٹریاس کی محبتوں کی ڈرامائی انداز میں کہانی کھلنے اور اس میں پیچ در پیچ گُتھیوں کا لوگوں کے سامنے یوں کُھلنا دراصل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اپنے اقتدار کے دوسرے دور میں صدر اوباما ان سب لوگوں سے گن گن کر بدلہ لینے کے چکر میں ہے جنہوں نے اس کے پہلے دورِ اقتدار میں اس کی زندگی کو اجیرن کر رکھا تھا۔ ڈیوڈ پیٹریاس جیسے جرنیل ایسے لوگوں میں سر فہرست تھا۔
موصوف صدر بش کا چہیتا تھا کیونکہ اس نے عراق کی ہاری ہوئی جنگ کو جیت کر دِکھایا تھا۔ عراق میں حاصل ہونے والی کامیابی کے سبب امریکی جرنیلوں کی اکثریت نے یہ طے کر لیا کہ اگر ڈیوڈ پیٹریاس جیسے ''فاتح'' ذہنوں کو کھلا ہاتھ دیا جائے تو وہ افغانستان کی جنگ بھی جیت کر دکھا سکتے ہیں۔ اوباما اس جنگ کو جیتنے میں اتنی دلچسپی نہ رکھتا تھا۔ اس کا ایمان تھا کہ امریکی معیشت جامد ہو کر رہ گئی ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اس کے پیشرو بش نے اس سپر پاور کو پہلے افغانستان اور پھر عراق کی ''لایعنی جنگوں'' میں اُلُجھا دیا تھا۔
فتح اور شکست کے تصورات سے بالا تر ہو کر امریکا کو ان جنگوں سے علیحدگی اختیار کرنا ہو گی تا کہ امریکا کے عام شہریوں کو تعلیم ملے، مناسب علاج معالجے کا بندوبست ہو اور ایک ایسی معیشت جہاں پڑھے لکھے لوگوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق معاوضے ملیں۔ سارے امریکی جرنیلوں نے مگر سازشیوں کے گروہ کی طرح اکٹھے ہو کر اوباما کو مختلف ذرایع سے جھٹلانا شروع کر دیا۔ لوگوں میں اپنے کرائے پر لیے سیاستدانوں، دانشوروں اور صحافیوں کے ذریعے یہ تاثر پھیلانا شروع کر دیا کہ امریکی تاریخ کا پہلا سیاہ فام صدر ہوتے ہوئے اوباما اس ''تاریخی مشن'' کے بارے میں قطعی نابلد ہے جو ایک سپر پاور کا مقدر ہوا کرتی ہے۔ بڑے زور شور سے یہ بات بھی عام کی گئی کہ افغانستان کو ''مستحکم'' کیے بغیر امریکی افواج کا اس ملک سے نکل آنا دُنیا کو یہ پیغام دے گا کہ واشنگٹن اب دنیا پر اپنا حکم چلانے کے قابل نہیں رہا۔
کئی مہینوں کی تقریباً یک طرفہ بحث کے بعد اوباما کو بالآخر مجبور کر دیا گیا کہ افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد گھٹانے کے بجائے بڑھائی جائے۔ اوباما کے پاس مطالبے کو ماننے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہ رہا۔ مگر افغانستان میں مزید امریکی فوج بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے اس نے ہوشیاری یہ دکھائی کہ واضح طور پر وعدہ کر لیا کہ حالات چاہے جو بھی صورت اختیار کریں، امریکا 2014میں افغانستان کو افغانوں کے حوالے کرنے کے بعد وہاں سے نکل آئے گا۔ 2014 میں ابھی دو سال باقی ہیں۔ افغانستان میں حالات نے یقینا وہ بہتری نہیں دکھائی ہے۔
جس کا امریکی جرنیلوں نے وعدہ کیا تھا۔ چونکہ بتائے گئے مقاصد حاصل نہیں ہوئے اور نہ ان کے حصول کی کوئی ٹھوس امید نظر آ رہی ہے، اس لیے کافی مبصرین اس شک کا اظہار کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ شاید جنوری کے پہلے ہفتے میں اپنی دوسری صدارتی ٹرم کا آغاز کرنے کے دن اوباما 2014کے بجائے 2013 میں ہی افغانستان سے امریکی فوج کو نکالنے کا اعلان کر سکتا ہے۔ اگر تو اسے واقعی یہ کرنا ہے تو اسے ''فاتح''بنے جرنیلوں کے بجائے معقول اور اپنی اوقات میں رہنے والے ان جرنیلوں کی ٹیم کی ضرورت ہو گی جو اس کی تابعدار ہو۔ اسے لمبے لمبے لیکچر نہ دیں جن میں امریکا جیسی سپر پاور کے ''تاریخی مشن'' کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیا جائے۔
مگر ایسے معقول اور تابعدار جرنیلوں کو آگے لانے سے پہلے ڈیوڈ پیٹریاس جیسے سکندر اعظم بنے جرنیلوں کی اصلیت کو بے نقاب کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ میری دانست میں صدر اوباما اپنی ایف بی آئی کے لوگوں سے آج کل یہی کام لے رہا ہے۔ فی الوقت اسے لگام نہیں ڈالی جا سکتی۔ تازہ تازہ انتخاب ہوا ہے۔ اور اسی انتخاب کو اس نے بڑی مشکلوں سے بڑے واضح انداز میں جیتا ہے۔ اوباما پر جوابی وار ضرور ہو گا۔ مگر وار کے دائو پیچ ڈھونڈنے کو بھی ابھی کافی وقت درکار ہے۔ اس وقت تک اوباما اپنی خواہش کو بروئے کار لانے کے لیے بڑی تیزی اور یک سوئی کے ساتھ اپنے کارڈ کھیلتا رہے گا۔
یہ کالم ختم کرتے ہوئے مجھے دہرانے دیجیے کہ اپنا انتخاب جیتنے کے بعد اوباما ان دنوں بدلے کی آگ میں تلملاتا دِکھ رہا ہے۔ اگر آپ میرے اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں تو ذرا یہ بھی یاد کر لیجیے کہ اس نے خارجہ پالیسی کے موضوع پر میٹ رومنی کے ساتھ مباحثے کے دوران اسامہ آپریشن کے بارے میں پاکستانی قیادت کے ممکنہ کردار کی بابت کیا الفاظ استعمال کیے تھے۔ بس وہ الفاظ یاد کیجیے اور کرائے کے ان پاکستانی دانشوروں کی عقل پر ماتم کیجیے جو آج کل پاکستانی فوج کو پہلے کراچی اور پھر پورے پاکستان کو ''ٹھیک'' کرنے کے لیے اُکسا رہے ہیں۔
نظر بظاہر تو یہ محض اتفاق لگتا ہے کہ وائٹ ہائوس میں چار مزید سال رہنے کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے صرف دو دن بعد صدر اوباما سے سی آئی اے کا چیف ملتا ہے اور اس کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیتا ہے۔ بعدازاں ایک تحریری بیان کے ذریعے ڈیوڈ پیٹریاس اس بات کا اعتراف بھی کر ڈالتا ہے کہ ایک شادی شدہ عورت سے تعلق قائم کرنے کے سبب اس نے اپنے منصب سے بے وفائی کی اور اپنی بیوی کو دھوکا دیتے ہوئے دُکھ پہنچایا۔ وہ خود کو اب سی آئی اے کا سربراہ رہنے کے قابل نہیں سمجھتا۔
اس عام سی دِکھنے والی کہانی پر غور کرتے ہوئے ہمیں سب سے پہلے یاد رکھنا ہو گا کہ ڈیوڈ پیٹریاس کو اچانک ایک صبح پورا سچ بولنے کے لیے اس کے ضمیر نے ہرگز مجبور نہ کیا تھا۔ حقیقت بلکہ یہ ہے کہ گزشتہ کچھ مہینوں سے امریکا ہی کا ایک اور جاسوس ادارہ اس پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے تھا۔ اس نے پتہ چلایا تھا کہ سی آئی اے کے سربراہ کے اس خاتون سے بڑے ذاتی اور گہرے مراسم استوار ہو چکے ہیں جس نے افغانستان کے بہت سے دورے کرنے کے بعد ڈیوڈ پیٹریاس کے اوپر ایک قصیدہ نما کتاب لکھ ڈالی تھی۔ بات وہیں تک محدود رہتی تو شاید اتنا بڑا قضیہ نہ کھڑا ہو جاتا۔ ڈرامائی موڑ اس کہانی میں اس وقت آئے جب ایک اور خاتون نے از خود ایف بی آئی کے ایک جاسوس کو مطلع کیا کہ اسے ڈیوڈ پیٹریاس کی محبوبہ دھمکیوں بھرے ای میلز لکھ رہی ہے۔ کتاب لکھنے والی محبوبہ کو شبہ تھا کہ ڈیوڈ اب اپنی سوانح نگار کو بھلا کر اس کی طرف رُخ کر رہا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ میرے اس کالم لکھنے سے تھوڑی دیر پہلے خبر یہ بھی آ گئی ہے کہ وہ خاتون جس پر ڈیوڈ پیٹریاس پر ڈورے ڈالنے کا الزام عائد کیا جا رہا تھا افغانستان میں مقیم امریکی اور نیٹو افواج کے سربراہ جان ایلن کے ساتھ گزشتہ کئی مہینوں سے محبت بھرے پیغامات کا تبادلہ کر رہی تھی۔
میں اس کالم میں ہرگز امریکی جرنیلوں کی ذاتی زندگیوں کو زیر بحث نہیں لانا چاہتا۔ وہ جانیں اور ان کے اہل و عیال یا امریکی حکومت۔ مجھے تو زور اس بات پر دینا ہے کہ ڈیوڈ پیٹریاس کی محبتوں کی ڈرامائی انداز میں کہانی کھلنے اور اس میں پیچ در پیچ گُتھیوں کا لوگوں کے سامنے یوں کُھلنا دراصل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اپنے اقتدار کے دوسرے دور میں صدر اوباما ان سب لوگوں سے گن گن کر بدلہ لینے کے چکر میں ہے جنہوں نے اس کے پہلے دورِ اقتدار میں اس کی زندگی کو اجیرن کر رکھا تھا۔ ڈیوڈ پیٹریاس جیسے جرنیل ایسے لوگوں میں سر فہرست تھا۔
موصوف صدر بش کا چہیتا تھا کیونکہ اس نے عراق کی ہاری ہوئی جنگ کو جیت کر دِکھایا تھا۔ عراق میں حاصل ہونے والی کامیابی کے سبب امریکی جرنیلوں کی اکثریت نے یہ طے کر لیا کہ اگر ڈیوڈ پیٹریاس جیسے ''فاتح'' ذہنوں کو کھلا ہاتھ دیا جائے تو وہ افغانستان کی جنگ بھی جیت کر دکھا سکتے ہیں۔ اوباما اس جنگ کو جیتنے میں اتنی دلچسپی نہ رکھتا تھا۔ اس کا ایمان تھا کہ امریکی معیشت جامد ہو کر رہ گئی ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اس کے پیشرو بش نے اس سپر پاور کو پہلے افغانستان اور پھر عراق کی ''لایعنی جنگوں'' میں اُلُجھا دیا تھا۔
فتح اور شکست کے تصورات سے بالا تر ہو کر امریکا کو ان جنگوں سے علیحدگی اختیار کرنا ہو گی تا کہ امریکا کے عام شہریوں کو تعلیم ملے، مناسب علاج معالجے کا بندوبست ہو اور ایک ایسی معیشت جہاں پڑھے لکھے لوگوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق معاوضے ملیں۔ سارے امریکی جرنیلوں نے مگر سازشیوں کے گروہ کی طرح اکٹھے ہو کر اوباما کو مختلف ذرایع سے جھٹلانا شروع کر دیا۔ لوگوں میں اپنے کرائے پر لیے سیاستدانوں، دانشوروں اور صحافیوں کے ذریعے یہ تاثر پھیلانا شروع کر دیا کہ امریکی تاریخ کا پہلا سیاہ فام صدر ہوتے ہوئے اوباما اس ''تاریخی مشن'' کے بارے میں قطعی نابلد ہے جو ایک سپر پاور کا مقدر ہوا کرتی ہے۔ بڑے زور شور سے یہ بات بھی عام کی گئی کہ افغانستان کو ''مستحکم'' کیے بغیر امریکی افواج کا اس ملک سے نکل آنا دُنیا کو یہ پیغام دے گا کہ واشنگٹن اب دنیا پر اپنا حکم چلانے کے قابل نہیں رہا۔
کئی مہینوں کی تقریباً یک طرفہ بحث کے بعد اوباما کو بالآخر مجبور کر دیا گیا کہ افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد گھٹانے کے بجائے بڑھائی جائے۔ اوباما کے پاس مطالبے کو ماننے کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہ رہا۔ مگر افغانستان میں مزید امریکی فوج بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے اس نے ہوشیاری یہ دکھائی کہ واضح طور پر وعدہ کر لیا کہ حالات چاہے جو بھی صورت اختیار کریں، امریکا 2014میں افغانستان کو افغانوں کے حوالے کرنے کے بعد وہاں سے نکل آئے گا۔ 2014 میں ابھی دو سال باقی ہیں۔ افغانستان میں حالات نے یقینا وہ بہتری نہیں دکھائی ہے۔
جس کا امریکی جرنیلوں نے وعدہ کیا تھا۔ چونکہ بتائے گئے مقاصد حاصل نہیں ہوئے اور نہ ان کے حصول کی کوئی ٹھوس امید نظر آ رہی ہے، اس لیے کافی مبصرین اس شک کا اظہار کرنا شروع ہو گئے ہیں کہ شاید جنوری کے پہلے ہفتے میں اپنی دوسری صدارتی ٹرم کا آغاز کرنے کے دن اوباما 2014کے بجائے 2013 میں ہی افغانستان سے امریکی فوج کو نکالنے کا اعلان کر سکتا ہے۔ اگر تو اسے واقعی یہ کرنا ہے تو اسے ''فاتح''بنے جرنیلوں کے بجائے معقول اور اپنی اوقات میں رہنے والے ان جرنیلوں کی ٹیم کی ضرورت ہو گی جو اس کی تابعدار ہو۔ اسے لمبے لمبے لیکچر نہ دیں جن میں امریکا جیسی سپر پاور کے ''تاریخی مشن'' کو پورا کرنے کی ضرورت پر زور دیا جائے۔
مگر ایسے معقول اور تابعدار جرنیلوں کو آگے لانے سے پہلے ڈیوڈ پیٹریاس جیسے سکندر اعظم بنے جرنیلوں کی اصلیت کو بے نقاب کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ میری دانست میں صدر اوباما اپنی ایف بی آئی کے لوگوں سے آج کل یہی کام لے رہا ہے۔ فی الوقت اسے لگام نہیں ڈالی جا سکتی۔ تازہ تازہ انتخاب ہوا ہے۔ اور اسی انتخاب کو اس نے بڑی مشکلوں سے بڑے واضح انداز میں جیتا ہے۔ اوباما پر جوابی وار ضرور ہو گا۔ مگر وار کے دائو پیچ ڈھونڈنے کو بھی ابھی کافی وقت درکار ہے۔ اس وقت تک اوباما اپنی خواہش کو بروئے کار لانے کے لیے بڑی تیزی اور یک سوئی کے ساتھ اپنے کارڈ کھیلتا رہے گا۔
یہ کالم ختم کرتے ہوئے مجھے دہرانے دیجیے کہ اپنا انتخاب جیتنے کے بعد اوباما ان دنوں بدلے کی آگ میں تلملاتا دِکھ رہا ہے۔ اگر آپ میرے اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں تو ذرا یہ بھی یاد کر لیجیے کہ اس نے خارجہ پالیسی کے موضوع پر میٹ رومنی کے ساتھ مباحثے کے دوران اسامہ آپریشن کے بارے میں پاکستانی قیادت کے ممکنہ کردار کی بابت کیا الفاظ استعمال کیے تھے۔ بس وہ الفاظ یاد کیجیے اور کرائے کے ان پاکستانی دانشوروں کی عقل پر ماتم کیجیے جو آج کل پاکستانی فوج کو پہلے کراچی اور پھر پورے پاکستان کو ''ٹھیک'' کرنے کے لیے اُکسا رہے ہیں۔