ناتواں ’’چھوٹو‘‘ کیسے بڑی دہشت بن جاتے ہیں

ڈاکوؤں کے خلاف فوج طلب کرنے کی نوبت آنا سول انتظامیہ کی ناکامی کا اعلان ہے

ڈاکوؤں کے خلاف فوج طلب کرنے کی نوبت آنا سول انتظامیہ کی ناکامی کا اعلان ہے ۔ فوٹو : فائل

GILGIT:
راجن پور میں دریائے سندھ کے بیچو بیچ واقع جزیرے پر قابض ڈاکوؤں کے چھوٹو گینگ کے گرد گھیرا تنگ ہوچکا ہے اور ممکن ہے کہ اس تحریر کے قارئین تک پہنچنے سے پہلے پاک فوج ڈاکوؤں کے خلاف کوئی فیصلہ کن کارروائی کا آغاز کرچکی ہو یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ گینگ کا سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو خود کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کرچکا ہو' جس صورتحال کا چھوٹو گینگ کو سامنا ہے اس میں جرائم پیشہ عناصر کے اندر اختلافات کا پیدا ہوجانا بھی عام سی بات ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ گینگ کے اندر ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوجائے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کے سوال پر جو تناؤ اس اشاعت خاص کو حتمی شکل دینے کے وقت موجود ہے آنے والے گھنٹوں میں کوئی شکل اختیار کرسکتا ہے۔

ریاست پاکستان کے لیے یہ انتہائی بدنصیبی اور تشویش کی بات ہے کہ ہماری کامیابیوں میں بھی ایک طرح سے ناکامی کا پہلو موجود ہوتا ہے۔ چھوٹو گینگ کے خلاف کارروائی میں بھی ہمیں ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے کہ اگر ہم پاک فوج کی مدد سے ڈاکوؤں کے گروہ پرقابو پالیتے ہیں تو دوسری جانب یہ ہمارے سول اداروں اور پولیس کی ناکامی شمار کی جائے گی۔



پورے ملک کے اندر امن و امان کے قیام میں یہی مسئلہ درپیش ہے کہ سول ادارے اپنی استعداد' صلاحیت' نیت اور فرض سے ایمانداری کے معاملے میں کسوٹی پر کھرے نہیں اترتے اور یوں ان کاموں کے لیے بھی فوج طلب کرنا پڑتی ہے جو پولیس کی ذمہ داری ہے۔ چھوٹو کوقابو کرنے کے لیے فوج کا آنا ہمارے سول ڈھانچے کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چھوٹو گینگ تو سمجھیں اپنے انجام کو پہنچ جائے گا لیکن اس کی وجہ سے جو کمزوریاں ظاہر ہورہی ہیں ان کا سدباب ہنگامی بنیادوں پر ہوناچاہیے تاکہ فوج خود کو اپنے اصل کام پر مرتکز کرسکے۔

غلام رسول عرف چھوٹو بھی دیگر بڑے جرائم پیشہ افراد کی طرح پولیس اور قبائلی سرداروں کی دیکھ ریکھ میں پروان چڑھا اور آج ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ گزشتہ رات تک کی صورتحال کے مطابق چھوٹو گینگ پر واضح کردیا گیا تھا کہ صرف اغوا شدہ پولیس اہلکاروں کی رہائی کی صورت میں ہی اُن سے کوئی بات چیت کی جا سکتی ہے۔ 24پولیس اہلکاروں کے لیے دی گئی مہلت گزشتہ شام تک کی تھی جبکہ ڈاکوؤں کی کمین گاہوں کی فضا سے نگرانی کی جارہی ہے۔

ایک اور اہم اطلاع یہ ہے کہ علاقے کے 9ا یسے بااثر افراد کی نشاندہی کی جاچکی ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ ان کے چھوٹو گینگ کے ساتھ خفیہ مراسم ہیں ان میں نواز احمد' بکرعمرانی' حاصل خان اور استاد جبہ شامل ہیں۔ نواز احمد کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ بعض سیاسی شخصیات کے انتہائی قریب ہے۔ پنجاب میں نواز لیگ کے مدمقابل سیاسی قوتوں میں سے ایک ق لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ چھوٹو گینگ کے پاس اگر بھارتی اسلحہ موجود ہے تو وہاںرا کے ایجنٹ بھی موجود ہوں گے۔ وہ اس صورتحال کا ذمہ دار وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی حکومت کو ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت اس علاقے میں 350پٹرولنگ پوسٹیں قائم کرنا چاہتی تھی اگر وہ بنانے دی جاتیں تو موجودہ صورتحال پیدا ہی نہ ہوتی۔

مزاری قبیلہ کی شاخ باکرانی سے تعلق رکھنے والا غلام رسول عرف چھوٹو، دریائے سندھ کے کنارے کشمور کے ایک چائے خانے پر 'چھوٹو' تھا، اسے جرائم کی دنیا میں اہم مقام دلانے میں پولیس کی زیادتیوں، قبائلی رسم و رواج اور سرداری نظام نے کلیدی کردار ادا کیا۔ علاقہ مکینوں کے مطابق چھوٹو غلام رسول تو مزدور پیشہ بچہ تھا جو بچپن سے ہی مزدوری کی خاطر ہوٹل پر ملازم ہو گیا، لیکن علاقہ کی بلوچ رسوم اور مہمان کی حفاظت کے جرم میں اس کے بھائی رسول بخش کی قتل کے مقدمہ میں گرفتاری اور پھر غلام رسول چھوٹو کو پولیس کی طرف سے ناجائز مقدمات میں ملوث کر کے تشدد نے اسے جرائم کی دنیا اپنانے پر مجبور کیا۔



اپنے آپ کو تحفظ دینے کے لئے چھوٹو نے علاقہ کے سردار عاطف خان مزاری ایم پی اے کے پاس بطور گارڈ بھی کام کیا اور پولیس کے لئے مخبری کا کام بھی کرتا رہا۔ پھر وہ خود مویشی چوروں اور دوسرے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ کام کرنے لگا اور بوسن گینگ کے ساتھ رابطوں کے بعد اغواء برائے تاوان کے گھناؤنے دھندے میں اپنے علاقہ میں محفوظ پناہ گاہ ہو نے کی وجہ سے بڑا نام بن گیا۔ دوسرے گینگ اغواء کر کے دریائی رستہ سے لانچوں پر مغوی کچہ کے علاقہ میں پہنچا دیتے جس کا تاوان طے ہو نے پر غلام رسول چھوٹو اپنا حصہ وصول کرتا تھا۔


جب پولیس نے بوسن گینگ اور عطاء اللہ پٹ گینگ کے خلاف بڑا آپریشن کر کے ان کا خاتمہ کیا تو اس کے بچ جا نے والے ڈاکو چھوٹو سے راجن پور کے کچہ کے علاقہ میں آملے۔ یہاں محفوظ پناہ ملنے پر غلام رسول عرف چھوٹو گینگ مزید مضبوط ہو گیا اور پنجاب کے علاقوں سے اغواء اور ڈکیتیوں کی بڑی وارداتوں کو معمول بنالیا۔ اس کے خلاف پنجاب پولیس نے 2010میں آپریشن توبہ کے نام سے کاروائی شروع کی تو اسکے 70سے زائد ساتھیوں نے روجھان میں ڈی آئی جی اور ڈی پی او کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا۔ ان لوگوں نے میڈیا کی موجودگی میں بھاری اسلحہ اور خود کو پولیس کے حوالے کیا تھا۔

چھوٹو اور اس کے ساتھی گھیرا تنگ ہو نے پر بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں منتقل ہو گئے۔ 2010میں راجن پور اور رحیم یار خان کے کچہ کے علاقوں میں دریائی پوسٹیں قائم کر کے جرائم پیشہ افراد کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا لیکن 3سال تک بلوچستان اور سندھ میں رہ کر چھوٹو گینگ خود کو منظم کر تا رہا، اور 2013 میں پھر کچہ کراچی ،کچہ جمال اور دیگر کچے کے علاقوں میں اپنی عمل داری قائم کر لی۔ یوں بڑی وارداتوں کا سلسلہ پھر سے عروج پر پہنچ گیا۔

حکومت پنجاب نے صورتحال کا فوری نوٹس لے کر ای ڈی او ہیلتھ ڈیرہ مشتاق رسول کے اغواء اور تاوان کی وصولی کے بعد اس گینگ کے خلاف کاروائی کا ماہ اپریل ،مئی میں آغاز کیا تو چھوٹو گینگ نے چیک پوسٹ پر حملہ کر کے 10پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا، جن میں سے مزاحمت کر نے والے 2پولیس اہلکار شہید کر دیئے گئے۔ ملک کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری کا یہ عالم ہے کہ ڈاکووں کے ساتھ مذاکرات کئے گئے جس کے نتیجہ میں چھوٹو نے بہاولپور جیل میں قید اپنے کزن بہادر خان ، ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے انتہائی مطلوب ڈاکوؤں خالد کجلانی اور اسحاق چنگوانی اور کالعدم تنظیم کے دیگر ساتھیوں کو چھڑوا کر یرغمالی 8پولیس اہلکاروں کو رہا کر دیا۔

اس کاروائی کے بعد چھوٹو گینگ کے حوصلے مزید بلند ہو گئے اور اس کے گینگ میں مزید جرائم پیشہ لوگ شامل ہو گئے۔ اب اس گینگ نے علاقہ میں وسیع رقبہ پر قبضے بھی جمالئے اور علاقہ مکمل طور پر نوگو ایریا میں تبدیل ہو گیا۔ 2014میں پولیس کی طرف سے ایک با ر پھر آپریشن کا آغاز کیا گیا جس میں ایک اے ایس آئی شہید ہو ا جبکہ 2 جوان زخمی ہو گئے تھے۔



اس وقت کے آئی جی پنجاب نے فضائی دورہ کیا تو چھوٹو گینگ کی طرف سے ان کے ہیلی کاپٹر پر راکٹ بھی فائر کیا گیا تھا، تاہم اس وقت انچارج سی آئی اے اقبال خان چانڈیہ کی قیادت میں پولیس نے اس کے نیٹ ورک میں شامل پولیس انسپکٹر غلام مجتبیٰ گورمانی کی شہادت میں ملوث چھوٹو گینگ کے دو بڑے ڈاکوؤں اکری سکھانی اور غفورا جتانی کو غازی گھاٹ کے دریائی علاقہ میں مقابلے میں مار دیا تھا لیکن چھوٹو گینگ کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکا اور دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہونے پر آپریشن کو روکنا پڑا اس کے بعد 2015میں سابق ڈی پی او راجن پور زاہد محمود گوندل نے بھی چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن شروع کیا تھا جو کہ فضائی مدد نہ ملنے اور دیگر علاقائی اور سیاسی مصلحتوں کی بنا پر کا میاب نہ ہو سکا۔

جس کے بعد آئی جی پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرف سے ڈی پی او ڈیرہ غازی خان غلام مبشر میکن کو 'جنہوں نے ڈیرہ غازی خان میں لادی گینگ اور زنگلانی گینگ کے خلاف کامیاب آپریشن کر کے 18سال سے قائم نوگو ایریا ختم کرایا تھا' چھوٹو گینگ کے خلاف بڑی کاروائی کاخصوصی ٹاسک دے کر ڈی پی او راجن پور تعینات کیا گیا۔ انہوں نے چھوٹو گینگ کے خلاف 2اپریل کو مجموعی طور پر پانچویں آپریشن کا آغاز کیا جسے آپریشن ضرب آہن کا نام دیا گیا۔

آپریشن کے آغاز میں متعدد نو گو ایریاز ختم کراتے ہوئے پولیس کی پیش قدمی جاری تھی کہ 12اپریل کو چھوٹو گینگ نے ایک کشتی پر کاروائی کے لئے جانے والے 24اہلکاروںکو یرغمال بنا لیا جبکہ 7کو شہید کر دیا۔ اس موقع پر پولیس کی طرف سے آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پاک فوج سے مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا۔آخری اطلاعات آنے تک آپریشن فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے پولیس ذرائع کے مطابق چھوٹو گینگ آئندہ 24گھنٹوں میں یاتو ہتھیار ڈال کر خود کو پاک فوج کے حوالے کر دے گا دوسری صورت میں ان کا مکمل قلع قمع کر دیا جائے گا۔ با خبر معتبر ذرائع کے مطابق آپریشن میں فوج کی مدد حاصل کر نے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وزیرستان اور دیگر علاقوں میں فوج کے جاری آپریشن ضرب عضب سے بچنے کے لئے کالعدم تنظیموں اور بلوچستان کے عسکریت پسند چھوٹو گینگ کی چھتری تلے پناہ لے رہے ہیں۔

باوثوق ذرائع کے مطابق چھوٹو گینگ کے ساتھ وہاں پر دو درجن سے زائد غیر ملکی جنگجوؤں کی موجودگی کی بھی اطلاعات ہیں۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں پولیس کے کچہ میں آپریشن کے نام پر کئے جا نے والے اخراجات اور اسلحہ کے استعمال کا آڈٹ کرایا جا ئے اور کروڑوں کی گندم کس کس نے تقسیم کی یہ بھی دیکھا جا ئے۔ دراصل پولیس اور علاقہ کے سردار وں کے لئے بھی یہ نوگو ایریا بڑی آمدن کا ذریعہ بناہوا ہے اب پاک فوج کے آنے سے امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ علاقہ ہمیشہ کے لئے جرائم پیشہ لوگوں کے تسلط سے آزاد ہو سکے گا۔ بعض سرداروں ،وڈیروں اور پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کو بے نقاب کر نے کے لئے چھوٹو کا زندہ پکڑا جا نا اہم ہو گا تاہم یہ صورتحال پر منحصر ہے کہ وہ زندہ ہاتھ آتا ہے یا مردہ ۔

حالیہ آپریشن ضرب آہن کو شروع کر نے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر پلان ترتیب دیئے جا نے کی ضرورت تھی۔ تجربہ کار اور فرض شناس کرائم فائٹرز کو ٹیموں کی رہنمائی کے لئے شامل کیا جانا چاہئے تھا۔اس کے بر عکس علاقہ کے پُر پیچ رستوں پر گھنے جنگلوں اور دریائی علاقوں میں کارروائی سے نابلد نفری کو بھر پور بیک اپ کے بغیر آگے بھیجا گیا۔ یہی غلطیاں اس آپریشن کی ابتدائی ناکامی اور پولیس اہلکاروں کے ڈاکووں کے ہتھے چڑھ جانے کا سبب بنا۔ اطلاعات کے مطابق مظفر گڑھ سے آپریشن میں بھیجے گئے جوانوں میں سے 10کے قریب 1ہفتہ جنگل میں پڑے رہنے کے بعد دلبرداشتہ ہو کر واپس آگئے اور مبینہ طور پر مستعفی ہو نے پر بضد تھے۔ آئی جی پنجاب کی آمد پر متعدد پولیس اہلکار منصوبہ بندی کے فقدان ،اسلحہ اور بیک اپ کی کمی اور جدید سہولتوں کی عدم فراہمی کا کھلے بندوں شکوہ کرتے نظر آئے ۔
Load Next Story