متحدہ قومیت کا تصور اور اسلام
برصغیرتقسیم ہوا تومغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑتھی آج بیس کروڑ ہےآج اللہ اس سرزمین پاکستان سےبیس کروڑکورزق دیتاہے
لاہور:
کیا یہ سب کے سب جو دنیا بھر سے سترہ مارچ سے بیس مارچ 2016ء تک دلی میں اکٹھا ہوئے تھے۔ حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی سے آگاہ تھے جنہوں نے فاتح ہند سلطان محمود غزنوی کو اپنا خرقہ عطا کیا تھا جس کے بارے میں روایت ہے کہ جب ہندوستان کے تمام راجے سومنات میں اس کے مقابلے میں اکٹھے ہو کر آئے تھے تو سلطان کی افواج شکست کھانے لگیں تو محمود غزنوی نے ابوالحسن خرقانی کا خرقہ ہاتھ میں پکڑا اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے یوں التجا کی ''الٰہی بآبروے ایں خرقہ بریں کفار ظفر دہ'' (اے اللہ اس خرقہ کی آبرو کے صدقے مجھے ان کافروں پر فتح عطا فرما)۔ آج صوفی کانفرنس کے شرکاء نریندر مودی کے سامنے بیٹھے تھے۔ کیا یہ انھی صوفیاء کی تعلیمات کے امین ہیں جن کے دروازوں پر بادشاہ اور حکمران باریابی کے لیے درخواستیں کیا کرتے تھے۔
ابوالحسن خرقانی کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کی مجھے اپنا خرقہ پہنائیں۔ آپ نے فرمایا مجھے ایک مسئلے کا جواب دو، کیا عورت مرد کے کپڑے پہن لے تو وہ مرد ہو جاتی ہے''۔ اس نے کہا نہیں، پھر فرمایا خرقہ سے کیا فائدہ۔ اگر تو مرد نہیں تو خرقہ پہننے سے مرد نہیں ہو سکتا۔ اقبال آج سے ایک سو سال پہلے نوحہ کناں تھا۔
قم باذن اللہ کہنے والے رخصت ہو گئے
اب مزاروں پر مجاور رہ گئے یا گورکن
قاہرہ سے بغداد اور لاہور سے اجمیر تک کے صوفی تعلیمات کے علمبردار وہاں جمع تھے۔ ان کا اہتمام و انصرام سرکاری سرپرستی میں قائم آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ نے کیا تھا۔ اور مقررین میں آپ کو وہ سارے چہرے بھی نظر آئیں جنھیں امن کا سفیر قرار دیا گیا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اسلام اور صوفیاء کی تعلیمات کے عالمی ماہرین وہ غیر مسلم بھی ہیں جن کی زندگیاں اسلام کے تصورات کو کانٹ چھانٹ کر مغرب کے سانچے میں فٹ کرنے میں گزریں۔ اس صوفی کانفرنس میں ایسے کئی تھے' جنہوں نے اپنے ''خیالات عالیہ'' حاضرین کو ذہن نشین کرائے۔
ان عظیم صوفی اسکالروں میں کارل ارنسٹ Carl Ernest تھا جو نارتھ کیرولینا یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کا پروفیسر ہے اور اپنی ایک کتاب کی وجہ سے مشہور ہے جس کا نام ہے Re- thinking Islam in Contemporary World. یعنی موجودہ دور میں اسلام کے بارے میں ازسرنو سوچنا۔ مقررین میں ڈاکٹر والٹر اینڈرسن Walter Anderson تھا جو امریکا کے محکمہ خارجہ میں جنوبی ایشیا کا مشیر رہا ہے اور بھارت میں امریکی سفیر کا مشیر خاص بھی رہا ہے۔ یہ بھی اسلام کی اپنی ایک تعبیر کے حوالے سے مشہور ہے۔ صوفی علم کا ایک اور ماہر ڈاکٹر ایلن گوڈلز Alan Godls تھا جو امریکا میں ایک خوبصورت مقرر کے طور پر جانا جاتا ہے اور جسے امریکا کا دفتر خارجہ دنیا بھر کے ممالک میں اسلام کی تعلیمات سمجھانے کے لیے خاص طور پر بھجواتا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ پاکستان سے ڈاکٹر طاہر القادری تھے کہ مغرب کے محبوب مفکروں میں ان کا بھی شمار ہوتا ہے۔
بیس مارچ کو اس صوفی کانفرنس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا گیا۔ اس میں کل پچیس تجاویز، اعلانات اور مطالبات تھے۔ جس لمحے اس کانفرنس نے اعلامیہ میں یہ اعلان کیا ہو گا کہ ''ہم متحدہ قومیت کی تائید و توثیق کرتے ہیں'' تو یقینا ان تمام مشائخ عظام کی ارواح اپنی قبروں میں کانپ اٹھی ہوں گی جو پاکستان اور مسلم لیگ کی تحریک کا ہراول دستہ تھے۔
جنہوں نے یہ اعلان اپنے روحانی فیض کی بنیاد پر کیا تھا کہ برصغیر پاک و ہند میں صرف دو قومیں آباد ہیں اور وہ ہندو اور مسلمان ہیں یا مسلمان اور غیر مسلم۔ وہ جن کے آباؤ اجداد پاکستان کو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روحانی فیض کا امین تصور کرتے تھے اور اس کی تخلیق کو ایک روحانی معجزہ قرار دیتے تھے' ان کے آستانوں پر فروکش حضرات آج متحدہ قومیت کی بات کر رہے تھے۔ پاکستان، دو قومی نظریہ یا تحریک پاکستان کی بحث کو ایک جانب رکھ دیں، کیا کبھی اہل تصوف نے اپنی کئی صدیوں پر محیط روایت میں حکومت وقت، بادشاہ یا اس کے حواریوں سے کوئی مطالبہ کیا۔ کیا استغنا ان کی شان نہ تھی۔ کیا توکل ان کا سرمایہ نہ تھا۔ حضرت جنید بغدادیؒ سے کسی نے سوال کیا کہ تصوف کیا ہے۔ فرمایا توکل ہی تصوف ہے۔ یعنی جو اللہ پر توکل یا بھروسہ کر لیتا ہے تو پھر وہ دنیا کی ہر طاقت و قوت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا
ہر کہ رمز مصطفیٰؐ فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است
یعنی جس نے سید الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی رمز پہچان لی۔ اس کے نزدیک دنیا کے کسی معمولی سے حاکم سے ڈرنا یا اس کا خوف رکھنا بھی شرک محسوس ہوتا ہے۔ وہ ان سے توقع رکھنے کو بھی شریک تصور کرتا ہے اور یہی چودہ سو سال سے ہمارے صوفیاء کی روش رہی ہے۔ کیا بیتی ہو گی ان افتادگان خاک کی ارواح پر جو بغداد، اجمیر، دلی اور لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔ جب اعلامیہ میں یہ نکتہ پڑھ کر سنایا گیا ہو گا کہ ''ہم دنیا کی تمام حکومتوں سے بالعموم اور حکومت ہند سے بالخصوص مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ احیائے تصوف اور فروغ تصوف کے لیے ہر ممکن تعاون کرے۔''
اس کانفرنس کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ وطن سے محبت اسلام کا مقصود ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے مقابلے میں اسدالدین اویسی نے کہا کہ میں بھارت ماتا کی جے اس لیے نہیں کہوں گا کہ یہ بھارت ماتا ایک دیوی ہے جس کے مندر ہردوار اور بنارس میں موجود ہیں اور ہندوؤں کے ہاں وندے ماترم یا بھارت ماتا کی جے کہنا ایک مذہبی ذمے داری ہے۔ اسلام کسی دیوی دیوتا کی جے یا اس کی پوجا نہیں مانتا۔ طاہر القادری صاحب اور وہ تمام حضرات جو اس صوفی کانفرنس میں شریک تھے ان کے نزدیک علامہ اقبال تو ان نا سمجھوں کے سرخیل ہو گئے جو کہتے ہیں
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے
قرآن حکیم میں مجھے تو وطن کی وفاداری اور پرستش نام کی کوئی ایک بھی آیت نظر نہ آئی اور نہ ہی متحدہ قومیت کے حق میں اللہ نے کوئی حکم نازل کیا۔ بلکہ اللہ تو پوری کائنات کو دو قومی نظریے کے تحت دو گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔ حزب اللہ (اللہ کے دھڑے کے لوگ) اور حزب الشیاطین (شیطانوں کے دھڑے کے لوگ)۔ قرآن کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مطہرہ تو ایسی واضح ہے کہ آپؐ پر اگر اپنی جائے پیدائش اللہ کے دین کی ترویج کے لیے تنگ ہو جاتی ہے تو آپؐ اسے چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر جاتے ہیں۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لیے تو وہ شہر اور اس کے باسی مشکلات پیدا نہیں کر رہے تھے۔ تمام سرداران مکہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ''جمہوری'' طور پر مکہ کا مشترکہ سردار ماننے کو بھی تیار ہو گئے تھے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج رکھ دیں تو پھر بھی میں اس دین سے پیچھے نہیں ہٹوں گا کہ یہ میرا منصب رسالت ہے اور پھر آپ نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ جو شہر ان کے دین کے لیے ممدو معاون اور حامی و مددگار بن گیا کہ وہی ان کا مستقل وطن بن گیا اور آج بھی مدینہ طیبہ آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کی راحت ہے۔ کاش یہ لوگ ان احادیث پر غور کرتے۔ میرے آقا نے تو مشرکین کے ساتھ مستقل رہائش اختیار کرنے والوں سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ فرمایا ''میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرے (ابوداؤد)۔''
''جو شخص کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنا تو روز محشر وہ انھی میں سے اٹھایا جائے گا (مسند الفردوس)۔ عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا جس نے کافروں کے علاقے میں گھر تعمیر کیا، ان کی مشابہت اختیار کی، روز محشر اس کا حشر ان کے ساتھ ہو گا۔ (اقتضا الصراط مستقیم)۔ برصغیر تقسیم ہوا تو مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ تھی آج بیس کروڑ ہے۔ آج اللہ اس سرزمین پاکستان سے بیس کروڑ کو رزق دیتا ہے۔ بھارت میں رہ جانے والے ڈیڑھ کروڑ مسلمان تھے۔ شاید انھیں اندازہ ہی نہ تھا کہ پاکستان ہجرت کرنے پر اللہ انھیں رزق دے گا۔ آج وہ اسی ترک سنت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ کوئی ان کی حالت زار تو دیکھے۔ صوفی کانفرنس میں کوئی ان کی محرومی اور ذلت کا اندازہ تو کرے۔
کیا یہ سب کے سب جو دنیا بھر سے سترہ مارچ سے بیس مارچ 2016ء تک دلی میں اکٹھا ہوئے تھے۔ حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی سے آگاہ تھے جنہوں نے فاتح ہند سلطان محمود غزنوی کو اپنا خرقہ عطا کیا تھا جس کے بارے میں روایت ہے کہ جب ہندوستان کے تمام راجے سومنات میں اس کے مقابلے میں اکٹھے ہو کر آئے تھے تو سلطان کی افواج شکست کھانے لگیں تو محمود غزنوی نے ابوالحسن خرقانی کا خرقہ ہاتھ میں پکڑا اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے یوں التجا کی ''الٰہی بآبروے ایں خرقہ بریں کفار ظفر دہ'' (اے اللہ اس خرقہ کی آبرو کے صدقے مجھے ان کافروں پر فتح عطا فرما)۔ آج صوفی کانفرنس کے شرکاء نریندر مودی کے سامنے بیٹھے تھے۔ کیا یہ انھی صوفیاء کی تعلیمات کے امین ہیں جن کے دروازوں پر بادشاہ اور حکمران باریابی کے لیے درخواستیں کیا کرتے تھے۔
ابوالحسن خرقانی کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کی مجھے اپنا خرقہ پہنائیں۔ آپ نے فرمایا مجھے ایک مسئلے کا جواب دو، کیا عورت مرد کے کپڑے پہن لے تو وہ مرد ہو جاتی ہے''۔ اس نے کہا نہیں، پھر فرمایا خرقہ سے کیا فائدہ۔ اگر تو مرد نہیں تو خرقہ پہننے سے مرد نہیں ہو سکتا۔ اقبال آج سے ایک سو سال پہلے نوحہ کناں تھا۔
قم باذن اللہ کہنے والے رخصت ہو گئے
اب مزاروں پر مجاور رہ گئے یا گورکن
قاہرہ سے بغداد اور لاہور سے اجمیر تک کے صوفی تعلیمات کے علمبردار وہاں جمع تھے۔ ان کا اہتمام و انصرام سرکاری سرپرستی میں قائم آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ نے کیا تھا۔ اور مقررین میں آپ کو وہ سارے چہرے بھی نظر آئیں جنھیں امن کا سفیر قرار دیا گیا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اسلام اور صوفیاء کی تعلیمات کے عالمی ماہرین وہ غیر مسلم بھی ہیں جن کی زندگیاں اسلام کے تصورات کو کانٹ چھانٹ کر مغرب کے سانچے میں فٹ کرنے میں گزریں۔ اس صوفی کانفرنس میں ایسے کئی تھے' جنہوں نے اپنے ''خیالات عالیہ'' حاضرین کو ذہن نشین کرائے۔
ان عظیم صوفی اسکالروں میں کارل ارنسٹ Carl Ernest تھا جو نارتھ کیرولینا یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کا پروفیسر ہے اور اپنی ایک کتاب کی وجہ سے مشہور ہے جس کا نام ہے Re- thinking Islam in Contemporary World. یعنی موجودہ دور میں اسلام کے بارے میں ازسرنو سوچنا۔ مقررین میں ڈاکٹر والٹر اینڈرسن Walter Anderson تھا جو امریکا کے محکمہ خارجہ میں جنوبی ایشیا کا مشیر رہا ہے اور بھارت میں امریکی سفیر کا مشیر خاص بھی رہا ہے۔ یہ بھی اسلام کی اپنی ایک تعبیر کے حوالے سے مشہور ہے۔ صوفی علم کا ایک اور ماہر ڈاکٹر ایلن گوڈلز Alan Godls تھا جو امریکا میں ایک خوبصورت مقرر کے طور پر جانا جاتا ہے اور جسے امریکا کا دفتر خارجہ دنیا بھر کے ممالک میں اسلام کی تعلیمات سمجھانے کے لیے خاص طور پر بھجواتا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ پاکستان سے ڈاکٹر طاہر القادری تھے کہ مغرب کے محبوب مفکروں میں ان کا بھی شمار ہوتا ہے۔
بیس مارچ کو اس صوفی کانفرنس کا اعلامیہ پڑھ کر سنایا گیا۔ اس میں کل پچیس تجاویز، اعلانات اور مطالبات تھے۔ جس لمحے اس کانفرنس نے اعلامیہ میں یہ اعلان کیا ہو گا کہ ''ہم متحدہ قومیت کی تائید و توثیق کرتے ہیں'' تو یقینا ان تمام مشائخ عظام کی ارواح اپنی قبروں میں کانپ اٹھی ہوں گی جو پاکستان اور مسلم لیگ کی تحریک کا ہراول دستہ تھے۔
جنہوں نے یہ اعلان اپنے روحانی فیض کی بنیاد پر کیا تھا کہ برصغیر پاک و ہند میں صرف دو قومیں آباد ہیں اور وہ ہندو اور مسلمان ہیں یا مسلمان اور غیر مسلم۔ وہ جن کے آباؤ اجداد پاکستان کو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روحانی فیض کا امین تصور کرتے تھے اور اس کی تخلیق کو ایک روحانی معجزہ قرار دیتے تھے' ان کے آستانوں پر فروکش حضرات آج متحدہ قومیت کی بات کر رہے تھے۔ پاکستان، دو قومی نظریہ یا تحریک پاکستان کی بحث کو ایک جانب رکھ دیں، کیا کبھی اہل تصوف نے اپنی کئی صدیوں پر محیط روایت میں حکومت وقت، بادشاہ یا اس کے حواریوں سے کوئی مطالبہ کیا۔ کیا استغنا ان کی شان نہ تھی۔ کیا توکل ان کا سرمایہ نہ تھا۔ حضرت جنید بغدادیؒ سے کسی نے سوال کیا کہ تصوف کیا ہے۔ فرمایا توکل ہی تصوف ہے۔ یعنی جو اللہ پر توکل یا بھروسہ کر لیتا ہے تو پھر وہ دنیا کی ہر طاقت و قوت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اقبال نے کہا تھا
ہر کہ رمز مصطفیٰؐ فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است
یعنی جس نے سید الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی رمز پہچان لی۔ اس کے نزدیک دنیا کے کسی معمولی سے حاکم سے ڈرنا یا اس کا خوف رکھنا بھی شرک محسوس ہوتا ہے۔ وہ ان سے توقع رکھنے کو بھی شریک تصور کرتا ہے اور یہی چودہ سو سال سے ہمارے صوفیاء کی روش رہی ہے۔ کیا بیتی ہو گی ان افتادگان خاک کی ارواح پر جو بغداد، اجمیر، دلی اور لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔ جب اعلامیہ میں یہ نکتہ پڑھ کر سنایا گیا ہو گا کہ ''ہم دنیا کی تمام حکومتوں سے بالعموم اور حکومت ہند سے بالخصوص مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ احیائے تصوف اور فروغ تصوف کے لیے ہر ممکن تعاون کرے۔''
اس کانفرنس کے بعد ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ وطن سے محبت اسلام کا مقصود ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے مقابلے میں اسدالدین اویسی نے کہا کہ میں بھارت ماتا کی جے اس لیے نہیں کہوں گا کہ یہ بھارت ماتا ایک دیوی ہے جس کے مندر ہردوار اور بنارس میں موجود ہیں اور ہندوؤں کے ہاں وندے ماترم یا بھارت ماتا کی جے کہنا ایک مذہبی ذمے داری ہے۔ اسلام کسی دیوی دیوتا کی جے یا اس کی پوجا نہیں مانتا۔ طاہر القادری صاحب اور وہ تمام حضرات جو اس صوفی کانفرنس میں شریک تھے ان کے نزدیک علامہ اقبال تو ان نا سمجھوں کے سرخیل ہو گئے جو کہتے ہیں
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے
قرآن حکیم میں مجھے تو وطن کی وفاداری اور پرستش نام کی کوئی ایک بھی آیت نظر نہ آئی اور نہ ہی متحدہ قومیت کے حق میں اللہ نے کوئی حکم نازل کیا۔ بلکہ اللہ تو پوری کائنات کو دو قومی نظریے کے تحت دو گروہوں میں تقسیم کرتا ہے۔ حزب اللہ (اللہ کے دھڑے کے لوگ) اور حزب الشیاطین (شیطانوں کے دھڑے کے لوگ)۔ قرآن کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مطہرہ تو ایسی واضح ہے کہ آپؐ پر اگر اپنی جائے پیدائش اللہ کے دین کی ترویج کے لیے تنگ ہو جاتی ہے تو آپؐ اسے چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر جاتے ہیں۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لیے تو وہ شہر اور اس کے باسی مشکلات پیدا نہیں کر رہے تھے۔ تمام سرداران مکہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ''جمہوری'' طور پر مکہ کا مشترکہ سردار ماننے کو بھی تیار ہو گئے تھے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج رکھ دیں تو پھر بھی میں اس دین سے پیچھے نہیں ہٹوں گا کہ یہ میرا منصب رسالت ہے اور پھر آپ نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ جو شہر ان کے دین کے لیے ممدو معاون اور حامی و مددگار بن گیا کہ وہی ان کا مستقل وطن بن گیا اور آج بھی مدینہ طیبہ آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کی راحت ہے۔ کاش یہ لوگ ان احادیث پر غور کرتے۔ میرے آقا نے تو مشرکین کے ساتھ مستقل رہائش اختیار کرنے والوں سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ فرمایا ''میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرے (ابوداؤد)۔''
''جو شخص کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنا تو روز محشر وہ انھی میں سے اٹھایا جائے گا (مسند الفردوس)۔ عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایا جس نے کافروں کے علاقے میں گھر تعمیر کیا، ان کی مشابہت اختیار کی، روز محشر اس کا حشر ان کے ساتھ ہو گا۔ (اقتضا الصراط مستقیم)۔ برصغیر تقسیم ہوا تو مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ تھی آج بیس کروڑ ہے۔ آج اللہ اس سرزمین پاکستان سے بیس کروڑ کو رزق دیتا ہے۔ بھارت میں رہ جانے والے ڈیڑھ کروڑ مسلمان تھے۔ شاید انھیں اندازہ ہی نہ تھا کہ پاکستان ہجرت کرنے پر اللہ انھیں رزق دے گا۔ آج وہ اسی ترک سنت کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ کوئی ان کی حالت زار تو دیکھے۔ صوفی کانفرنس میں کوئی ان کی محرومی اور ذلت کا اندازہ تو کرے۔