روحانی اصلاح کے دن

روحانی اصلاح کے دن

روحانی اصلاح کے دن



قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اے ایمان والو! تم پر اس طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم متقی بن جاؤ۔'' اس آیۂ مبارکہ کی رو سے روزہ اس لیے نہیں ہے کہ اﷲ آپ کو بھوک پیاس میں مبتلا کرنا چاہتا ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ روزہ رکھ کر آپ نے اﷲ کے ایک حکم کی تعمیل کی اور اس کی فرماں برداری کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔

اﷲ نے آپ کو حکم دیا کہ ایک خاص وقت تک کھا پی سکتے ہو، اس کے بعد تمھیں ان حلال اور جائز کاموں سے محض اس کی رضا کے لیے رکنا ہوگا، چاہے بھوک اور پیاس تمھیں کتنا ہی نڈھال کیوں نہ کردے۔ گویا جس وقت آپ کو کھانے پینے کی اجازت دی گئی، اس وقت آپ پر لازم ہے کہ آپ اس اجازت سے فائدہ اٹھائیں، آپ کا رب اس بات سے خوش ہوگا۔ وہ ناراض اس وقت ہوتا ہے جب آپ اس کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کریں۔

سحر اور افطار کے وقت کھائیں پئیں، اس کے بعد حکم کردہ مقررہ وقت تک رک جائیں۔ اس طرح آپ کا ایک خاص وقت تک اپنے آپ کو کھانے پینے سے روکے رکھنا اس بات کا اظہار ہے کہ آپ اس کے فرماں بردار ہیں اور یہی فرماں برداری درحقیقت تمام عبادت کی روح اور حاصل ہے۔ متعدد احادیث روزے کی فضیلت اور عظمت کے حوالے سے روایت کی گئی ہیں ۔

بخاری اور مسلم کی ایک متفق علیہ روایت ہے کہ رسول کریم نے ارشاد فرمایا:''جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔''
جنت کا حوالہ دے کر درحقیقت روزہ داروں کو یہ سمجھانا ہے کہ رمضان میں جتنی نیکیاں کرسکتے ہو کرلو، اس کے عوض جنت ملے گی۔


دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ ''جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔'' یعنی رمضان میں ایک مسلمان نیکیوں کے ایمان آفریں اور روح پرور ماحول کی بدولت برائی اور گناہوں سے محفوظ ر ہتا ہے اور اس طرح جہنم کے دروازے اس کے لیے بند ہوجاتے ہیں ۔

اس کے بعد ارشاد ہوا کہ ''شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔'' اس سے مراد یہ ہے کہ رمضان وہ متبرک مہینہ ہے جس میں نیکیاں اس طرح پھلتی پھولتی ہیں جیسے بارش کے موسم میں خود رو سبزہ، لہٰذا شیطان کا کام رک جاتا ہے، کیوں کہ سبھی مسلمان ایک ساتھ ایک ہی وقت میں روزہ رکھتے ہیں، جس سے معاشرے میں وہ روح پرور ماحول پیدا ہوجاتا ہے جو دیگر دنوں میں میسر نہیں آتا۔

اس طرح رمضان کے مہینہ میں اہل ایمان پر اﷲ کی طرف متوجہ رہنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کی ایک مستقل کیفیت طاری رہتی ہے لہٰذا جو شخص پورے دن روزے سے ہوتا ہے، اسے یاد رہتا ہے کہ میں روزے سے ہوں اور میں بھوک پیاس کی یہ مشقت صرف اپنے اﷲ کو راضی کرنے کے لیے برداشت کررہا ہوں۔ اسے چاہے کتنی ہی بھوک پیاس لگے، وہ ہرگز کچھ نہیں کھائے گا، نہیں، کیوں کہ اس کے ذہن میں صرف ایک ہی بات ہوگی کہ میں روزے سے ہوں۔ جب وہ روزہ کھولتا ہے تو اسے خیال آتا ہے کہ ابھی تک تو میرے اﷲ نے مجھے کھانے پینے سے روک رکھا تھا، لیکن اب اس نے مجھے کھانے پینے کا حکم دیا ہے تو روزہ کھول رہا ہوں۔

مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر کچھ دیر آرام کرتا ہے تو تراویح کا وقت ہوجاتا ہے، گویا اﷲ کی طرف متوجہ ہونے کا ایک اور موقع میسر آگیا۔ تراویح کے بعد جب وہ سوتا ہے تو یہ سوچ کر سوتا ہے کہ چند گھنٹوں بعد تہجد کے لیے اٹھنا ہے اور پھر سحری کرکے روزہ رکھنا ہے ۔ یوں خدا کی طرف متوجہ ہونے کا یہ سلسلہ صبح سے شام اور شام سے صبح تک تیس دن تک جاری رہتا ہے۔ اﷲ کی طرف متوجہ ہونے کا یہ عمل انسان کا انفرادی عمل نہیں ہوتا، بلکہ تمام مسلمان ایک ساتھ اس میں مشغول ہوتے ہیں۔

اس اجتماعیت کی وجہ سے معاشرے میں نیکیوں کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ اس دوران انسان سراپا نیکی بن جاتا ہے۔ اس ماحول میں وہ جتنا چاہے اپنی روح کا تزکیہ اور اخلاقی تربیت کرکے بلند سے بلند روحانی مدارج اور اعلیٰ اخلاقی مر اتب حاصل کر کے اﷲ کے مقربین میں شامل ہو سکتا ہے۔ اجتماعی طور پر روزہ رکھنے سے ہر شخص کی نیکی دوسرے انسان کے لیے نیکی کرنے کا محرک بنتی ہے۔ ہر روزہ دار کا روزہ دوسرے بھائی کے روزے کے لیے تقویت کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک کا مہینہ روحانی ارتقا، تعمیر سیرت اور اجتماعی اصلاح کا ذریعہ بن جاتا ہے۔


 
Load Next Story