بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے مضمرات
سری نگر سمیت مقبوضہ کشمیر کے دیگر علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں بھارت نے اپنے لاکھوں فوجی لگا رکھے ہیں
NEW DELHI:
آج کل بھارت کے مختلف شہروں میں آر ایس ایس، بی جے پی اور شیو سینا جیسی ہندو انتہا پسند جماعتوں کے کارکنوں نے مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا ہے ۔کہیں مسلمانوں کو وندے ماترم کہنے پر مجبورکیا جا رہا ہے، کہیں بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ جموں کشمیر کا وہ حصہ ہے جہاں ہندو اکثریت میں ہیں جن میں کشمیری پنڈتوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔
جموں کی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کالج میں ہندو انتہا پسند طلباء مقامی غنڈوں کے ساتھ مسلم طلباء کے ہاسٹل میں گھس گئے اور مسلم طلباء سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگائیں۔ مسلم طلباء نے جب یہ نعرے لگانے سے انکار کیا تو ہندو طلباء اور غنڈوں نے انھیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جموں ہی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ہندو اکثریت میں ہیں ۔
سری نگر سمیت مقبوضہ کشمیر کے دیگر علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں بھارت نے اپنے لاکھوں فوجی لگا رکھے ہیں جو مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں ، آئے دن بھارتی فوج مسلم نوجوانوں پر بلاجواز گولیاں چلا کر انھیں قتل کرتی ہے اور مسلمان مرد، عورت، بوڑھے، جوان مقتولوں کے جلوس جنازے میں بھارت کی مخالفت اور پاکستان کی حمایت میں نعرے لگاتے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر مستقل احتجاج کر رہی ہیں۔
1948 میں جب حیدر آباد دکن پر بھارت نے پولیس ایکشن کے نام پر فوج کشی کی تو صدیوں سے مسلم اقلیت کے دباؤ میں رہنے والے ہندوؤں نے مسلمانوں سے اس قسم کے مطالبے کرنا شروع کیے اور ان کی پشت پر چونکہ انڈین آرمی ہوتی تھی لہٰذا ہندو مسلمانوں پر مظالم کرنے میں آزاد تھے ، حیدرآباد دکن میں ہندو غنڈوں نے مسلمان خواتین کے ساتھ اس قدر وحشیانہ سلوک روا رکھا کہ سیکڑوں مسلم خواتین نے اپنی آبرو بچانے کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ کنوؤں میں چھلانگیں لگا دیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے کئی کنوئیں دیکھے جو مسلم خواتین کی لاشوں سے پٹ گئے تھے ۔
نریندر مودی کی حکومت کے دور سے پہلے کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کے دور میں ہندو انتہا پسندی کا وہ حال نہیں تھا جو نریندر مودی دور میں دیکھا جا رہا ہے ۔ اجودھیا میں بابری مسجد کا سانحہ تو پیش آیا لیکن اس سانحے کے کردار کانگریسی کارکن نہیں بلکہ بی جے پی کے غنڈے تھے۔
بی جے پی کا شمار بھارت کی مذہبی انتہا پسند جماعتوں میں ہوتا ہے لیکن مودی سرکار کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کو جو فروغ حاصل ہو رہا ہے اس کا اندازہ اور اس کے منفی اثرات اس قدر زہر آلود ہیں کہ اگر انھیں سختی سے روکا نہیں گیا تو بھارت نہ صرف فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آسکتا ہے بلکہ اس کا شیرازہ بکھرنے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ بھارتی اہل فکر بھارتی اہل قلم اور اہل دانش اس حوالے سے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس خطرے کی نشان دہی کر رہے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کو نہ روکا گیا تو بھارت میں سیکولرزم کا کریا کرم ہوجائے گا اور بھارت ٹکڑوں میں بٹ جائے گاکیونکہ بھارت کو متحد رکھنے والی نظریاتی طاقت سیکولرزم ہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں میں روز بروز بھارت سے ناراضگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ آئے دن سری نگر میں پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں، اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو اگرچہ مقامی پولیس اور فوج گرفتار بھی کر رہی ہے اور قتل بھی کر رہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں یہ صورتحال روئی کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے اور خطرہ ہے کہ اس صورتحال کو محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرکے نہ روکا گیا تو آنے والے دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑک اٹھے گی۔
بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام اس کے ساتھ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر آنے والے دن میں کشمیر میں بھارت کے خلاف جذبات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور اس کی ساری ذمے داری مودی سرکار کی انتہا پسندانہ پالیسیوں پر آتی ہے۔ مودی سرکار یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مذہبی جذبات کو طاقت کے ذریعے کچلا نہیں جاسکتا بلکہ مذہبی یکجہتی اور بھائی چارے کی فضا کے ذریعے ہی اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اگر بی جے پی اور اس کی نظریاتی برادری ہندوتوا کے انتہا پسندانہ نعروں سے باہر نہیں آتی تو یہ وبا بھارت کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ بھارتی حکمران طبقات ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ پر حملے کے حوالے سے پاکستان پر شدت پسندوں کی حمایت کا الزام لگا رہے ہیں لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس خطے میں مسلم انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے میں مسئلہ کشمیر کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔
آج ساری دنیا میں مذہبی انتہا پسندی کا جو کلچر فروغ پا رہا ہے اس کی پشت پر اصل مقصد تو دنیا کے عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم سے ہٹانا ہے لیکن سرمایہ داروں کے منصوبہ ساز اپنے اس غلیظ مقصد کے حصول کے لیے جن مسائل کو استعمال کر رہے ہیں، ان میں کشمیر اور فلسطین سرفہرست ہیں، ان دو جگہوں پر مسلمانوں کے ساتھ مظالم کا جو سلسلہ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے چل رہا ہے اسے روکنا چاہیں تو بڑی طاقتیں بڑی آسانی سے ان دو مسائل کے منصفانہ حل کے ذریعے روک سکتی ہیں لیکن یہ دونوں مسئلے چونکہ دنیا بھر کے عوام کی توجہ سرمایہ داری نظام کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل حل ہوں۔
بھارت کے عوام کی بھاری اکثریت اعتدال پسند ہے اور بھارت کے ہر شہر میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ہندوستان پاکستان ہندو اور مسلمانوں کے درمیان برادرانہ تعلقات چاہتے ہیں، پاکستان کے مقابلے میں بھارت مذہب کے حوالے سے بہت لبرل ہے ۔
آج ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جن میں ممبئی سرفہرست ہے مذہبی تفریق کو پس پشت ڈال کر ہندو مسلمانوں سے اور مسلمان ہندوؤں سے شادی بیاہ کے رشتے جوڑ رہے ہیں اور بھارت کو ایک سیکولر ملک بنانے میں عملی کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ایک چھوٹی سی مذہبی انتہا پسندوں کی اقلیت دونوں بڑی قوموں کے درمیان مذہبی منافرت پھیلا کر بھارت میں سیکولرزم کے پھیلاؤ کا راستہ روک رہی ہے یہ سمجھے بغیر کہ بھارت کو 69 سال سے متحد رکھنے کی اصل طاقت سیکولرزم ہے۔ بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے اہل علم اہل دانش یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں امن اور خوشحالی کا واحد ذریعہ سیکولرزم ہے۔
آج کل بھارت کے مختلف شہروں میں آر ایس ایس، بی جے پی اور شیو سینا جیسی ہندو انتہا پسند جماعتوں کے کارکنوں نے مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا ہے ۔کہیں مسلمانوں کو وندے ماترم کہنے پر مجبورکیا جا رہا ہے، کہیں بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ جموں کشمیر کا وہ حصہ ہے جہاں ہندو اکثریت میں ہیں جن میں کشمیری پنڈتوں کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔
جموں کی انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کالج میں ہندو انتہا پسند طلباء مقامی غنڈوں کے ساتھ مسلم طلباء کے ہاسٹل میں گھس گئے اور مسلم طلباء سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگائیں۔ مسلم طلباء نے جب یہ نعرے لگانے سے انکار کیا تو ہندو طلباء اور غنڈوں نے انھیں سخت تشدد کا نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جموں ہی ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ہندو اکثریت میں ہیں ۔
سری نگر سمیت مقبوضہ کشمیر کے دیگر علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں بھارت نے اپنے لاکھوں فوجی لگا رکھے ہیں جو مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں ، آئے دن بھارتی فوج مسلم نوجوانوں پر بلاجواز گولیاں چلا کر انھیں قتل کرتی ہے اور مسلمان مرد، عورت، بوڑھے، جوان مقتولوں کے جلوس جنازے میں بھارت کی مخالفت اور پاکستان کی حمایت میں نعرے لگاتے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں پر مستقل احتجاج کر رہی ہیں۔
1948 میں جب حیدر آباد دکن پر بھارت نے پولیس ایکشن کے نام پر فوج کشی کی تو صدیوں سے مسلم اقلیت کے دباؤ میں رہنے والے ہندوؤں نے مسلمانوں سے اس قسم کے مطالبے کرنا شروع کیے اور ان کی پشت پر چونکہ انڈین آرمی ہوتی تھی لہٰذا ہندو مسلمانوں پر مظالم کرنے میں آزاد تھے ، حیدرآباد دکن میں ہندو غنڈوں نے مسلمان خواتین کے ساتھ اس قدر وحشیانہ سلوک روا رکھا کہ سیکڑوں مسلم خواتین نے اپنی آبرو بچانے کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ کنوؤں میں چھلانگیں لگا دیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے کئی کنوئیں دیکھے جو مسلم خواتین کی لاشوں سے پٹ گئے تھے ۔
نریندر مودی کی حکومت کے دور سے پہلے کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت کے دور میں ہندو انتہا پسندی کا وہ حال نہیں تھا جو نریندر مودی دور میں دیکھا جا رہا ہے ۔ اجودھیا میں بابری مسجد کا سانحہ تو پیش آیا لیکن اس سانحے کے کردار کانگریسی کارکن نہیں بلکہ بی جے پی کے غنڈے تھے۔
بی جے پی کا شمار بھارت کی مذہبی انتہا پسند جماعتوں میں ہوتا ہے لیکن مودی سرکار کے برسر اقتدار آنے کے بعد بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کو جو فروغ حاصل ہو رہا ہے اس کا اندازہ اور اس کے منفی اثرات اس قدر زہر آلود ہیں کہ اگر انھیں سختی سے روکا نہیں گیا تو بھارت نہ صرف فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں آسکتا ہے بلکہ اس کا شیرازہ بکھرنے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ بھارتی اہل فکر بھارتی اہل قلم اور اہل دانش اس حوالے سے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس خطرے کی نشان دہی کر رہے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کو نہ روکا گیا تو بھارت میں سیکولرزم کا کریا کرم ہوجائے گا اور بھارت ٹکڑوں میں بٹ جائے گاکیونکہ بھارت کو متحد رکھنے والی نظریاتی طاقت سیکولرزم ہی ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں میں روز بروز بھارت سے ناراضگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور اب صورتحال یہ ہے کہ آئے دن سری نگر میں پاکستانی پرچم لہرائے جا رہے ہیں، اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو اگرچہ مقامی پولیس اور فوج گرفتار بھی کر رہی ہے اور قتل بھی کر رہی ہے لیکن مقبوضہ کشمیر میں یہ صورتحال روئی کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے اور خطرہ ہے کہ اس صورتحال کو محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا کرکے نہ روکا گیا تو آنے والے دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑک اٹھے گی۔
بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام اس کے ساتھ ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر آنے والے دن میں کشمیر میں بھارت کے خلاف جذبات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور اس کی ساری ذمے داری مودی سرکار کی انتہا پسندانہ پالیسیوں پر آتی ہے۔ مودی سرکار یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مذہبی جذبات کو طاقت کے ذریعے کچلا نہیں جاسکتا بلکہ مذہبی یکجہتی اور بھائی چارے کی فضا کے ذریعے ہی اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
اگر بی جے پی اور اس کی نظریاتی برادری ہندوتوا کے انتہا پسندانہ نعروں سے باہر نہیں آتی تو یہ وبا بھارت کی ٹوٹ پھوٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ بھارتی حکمران طبقات ممبئی حملوں اور پٹھان کوٹ پر حملے کے حوالے سے پاکستان پر شدت پسندوں کی حمایت کا الزام لگا رہے ہیں لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس خطے میں مسلم انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دینے میں مسئلہ کشمیر کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔
آج ساری دنیا میں مذہبی انتہا پسندی کا جو کلچر فروغ پا رہا ہے اس کی پشت پر اصل مقصد تو دنیا کے عوام کی توجہ سرمایہ دارانہ نظام کے مظالم سے ہٹانا ہے لیکن سرمایہ داروں کے منصوبہ ساز اپنے اس غلیظ مقصد کے حصول کے لیے جن مسائل کو استعمال کر رہے ہیں، ان میں کشمیر اور فلسطین سرفہرست ہیں، ان دو جگہوں پر مسلمانوں کے ساتھ مظالم کا جو سلسلہ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے چل رہا ہے اسے روکنا چاہیں تو بڑی طاقتیں بڑی آسانی سے ان دو مسائل کے منصفانہ حل کے ذریعے روک سکتی ہیں لیکن یہ دونوں مسئلے چونکہ دنیا بھر کے عوام کی توجہ سرمایہ داری نظام کی طرف سے عوام کی توجہ ہٹانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست ہرگز یہ نہیں چاہیں گے کہ کشمیر اور فلسطین کے مسائل حل ہوں۔
بھارت کے عوام کی بھاری اکثریت اعتدال پسند ہے اور بھارت کے ہر شہر میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ہندوستان پاکستان ہندو اور مسلمانوں کے درمیان برادرانہ تعلقات چاہتے ہیں، پاکستان کے مقابلے میں بھارت مذہب کے حوالے سے بہت لبرل ہے ۔
آج ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جن میں ممبئی سرفہرست ہے مذہبی تفریق کو پس پشت ڈال کر ہندو مسلمانوں سے اور مسلمان ہندوؤں سے شادی بیاہ کے رشتے جوڑ رہے ہیں اور بھارت کو ایک سیکولر ملک بنانے میں عملی کردار ادا کر رہے ہیں لیکن ایک چھوٹی سی مذہبی انتہا پسندوں کی اقلیت دونوں بڑی قوموں کے درمیان مذہبی منافرت پھیلا کر بھارت میں سیکولرزم کے پھیلاؤ کا راستہ روک رہی ہے یہ سمجھے بغیر کہ بھارت کو 69 سال سے متحد رکھنے کی اصل طاقت سیکولرزم ہے۔ بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے اہل علم اہل دانش یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں امن اور خوشحالی کا واحد ذریعہ سیکولرزم ہے۔