کامیاب یا ناکام
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے 1941 میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے 1941 میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ جماعت نے انتخابی سیاست میں قدم رکھنے کے بعد درجن بھر انتخابات میں حصہ لیا۔ اب تک پاکستان کے عوام نے جماعت کو پذیرائی نہیں بخشی، کیا اس ناکامی کو مولانا مودودی کی ناکامی سمجھا جائے؟ اسی نازک سوال کے جواب کے لیے ہمیں ایک سیاسی پارٹی اور اس کے بانی کی سوچ کو سمجھنا ہوگا۔ مولانا مودودی کی اسکیم کے پانچ حصے تھے جن میں سے چار کامیاب ہوچکے ہیں۔ آخری حصے کی ناکامی کیوںکر ہوئی؟ قارئین یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ وہ پانچ نکاتی اسکیم کیا تھی۔
جس طرح ہاکی کے میچ میں ایک ٹیم کے کھلاڑی مخالف کے گول پوسٹ سے گیند لے کر آگے بڑھیں اور ہاف لائن عبور کرکے ڈی میں پہنچ جائیں لیکن گول نہ ہوسکے تو؟ پھر دیکھا جائے گا کہ خامی کہاں ہے؟ یہ خامی کس کی ہے؟ جماعت اسلامی کی انتخابی سیاست پر مختصراً گفتگو کے بعد ہم مولانا مودودی کی پانچ نکاتی اسکیم کا جائزہ لیں گے۔
جماعت اسلامی نے ستر میں پہلی مرتبہ قومی انتخابات میں حصہ لیا۔ مشرقی و مغربی پاکستان میں لگ بھگ دو سو امیدوار میدان میں تھے۔ جماعت کو صرف چار نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ 77 میں نو پارٹیوں نے اتحاد قائم کرکے بھٹو کی پیپلزپارٹی کے خلاف انتخاب لڑا۔ دھاندلی کے الزام کی نذر ہونے والے انتخابات کا نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں نکلا، جنرل ضیا کے دور میں ہونے والے انتخابات میں جماعت اسلامی کو بمشکل دس نشستیں ملیں۔
نواز شریف کے ساتھ آئی جے آئی میں جماعت کے اراکین کی تعداد صرف آٹھ تھی۔ 93 میں قاضی حسین احمد نے پاکستان اسلامک فرنٹ قائم کرکے کوشش کی لیکن عوامی پذیرائی نہ ملی۔ مذہبی پارٹیوں کے متحدہ مجلس عمل میں جماعت اسلامی کی کارکردگی مناسب کہی جاسکتی ہے۔ سید منور حسن کے دور امارت میں صرف تین اراکین ترازو کے نشان پر قومی اسمبلی میں پہنچے۔ جماعت نے اپنی نصف صدی کی انتخابی تاریخ میں کبھی قابل ذکر ووٹ حاصل نہیں کیے۔ کیا یہ مولانا مودودی کی سوچ کی ناکامی کہی جاسکتی ہے؟ بانی جماعت کے ذہن میں پانچ نکاتی اسکیم کیا تھی؟
مولانا مودودی نے سب سے زیادہ توجہ ملک کے پڑھے لکھے لوگوں پر دی۔ اسکیم کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء، بینکس، پروفیسرز، صحافیوں، سائنسدانوں، افسران اور اکاؤنٹنٹس کو اپنی تنظیم میں لایا جائے۔ مولانا مودودی کی تحریروں کا بہت بڑا حصہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو ذہن میں رکھ کر تیار کیا گیا تھا۔ سید مودودی کا خیال تھا کہ ریاست کا نظم و ضبط چلانے کے لیے ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مولانا کی تحریروں نے کالجز و جامعات کے طالب علموں اور فارغ التحصیل لوگوں کو متاثر کیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد جماعت اسلامی کا حصہ بنے۔
منصوبے کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ پڑھے لکھے افراد جب تنظیم میں شامل ہوجائیں تو انھیں اسلام کا علم دیا جائے۔ کالجز اور جامعات کے طالب علموں اور ڈگری یافتہ لوگوں کے سامنے تفسیر قرآن، احادیث نبویؐ اور لٹریچر کے ذریعے اسلام کا خوبصورت چہرہ پیش کیا جائے۔ اس طرح کہ وہ بغیر کسی احساس کمتری کے دین اسلام کی معاشرت، معیشت، حکومت، خاندانی نظام کے حوالے سے دلائل سے لیس ہوں۔
مغربی جمہوریت و اشتراکی و سرمایہ دارانہ نظام سے مرعوب ہوئے بغیر اسلام کو ہر شعبۂ زندگی میں قابل عمل سمجھتے ہوں۔ ان اراکین کو دین اسلام کا اتنا علم ہو کہ وہ حلال و حرام، پاکی و ناپاکی اور جائز و ناجائز میں تمیز کرسکیں۔ مولانا کا لٹریچر اپنے ماننے والوں کو مفتی یا عالم بنانے کے لیے نہیں تھا۔ وہ انھیں محدث یا فقیہہ نہیں بنانا چاہتے تھے کہ یہ ذمے داری دوسرے لوگ بہتر طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ تفسیر القرآن کے علاوہ سود، پردہ، حقوق الزوجین، خطبا، تجدید و احیائے دین، دینیات جیسی کتابیں جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو ذہن میں رکھ کر ترتیب دی گئی تھیں۔
یہ وہ دور تھا جب مغربی تہذیب اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ کالجز کے پڑھے لکھے لوگوں پر چھائی ہوئی تھی۔ مسلم دنیا کی پسماندگی اور یورپ و امریکا کی ترقی اور سوویت، روس کی ابھرتی معیشت نے پاکستانی تعلیم یافتہ افراد کے ذہنوں پر مرعوبیت کی دیوار تان دی تھی۔ اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ حکمت عملی کے مقابل مولانا کی تحریروں نے مغربی و اشتراکی علوم کا منطقی تجزیہ کرکے ان کی دھجیاں بکھیر دیں۔ سید مودودی نے پاکستانی عوام کے سامنے اپنی بنیاد پر اعتماد سے کھڑے ہونے کے دلائل پیش کیے۔
مولانا مودودی کی اسکیم کا تیسرا حصہ بڑا اہم تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جماعت اسلامی کے اراکین کا کردار نہایت مضبوط ہوں۔ اس لیے انھوں نے ''صالحین'' کی اصطلاح متعارف کروائی۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں اس لفظ پر بڑا طنز کیا گیا کہ لوگ کرپشن کی تباہ کاریوں سے واقف نہ تھے۔ جماعت کے بانی چاہتے تھے کہ ان کے ساتھیوں کا کردار اتنا مضبوط ہو کہ وہ نہ کسی کے آگے جھکیں اور نہ کسی کے آگے دبیں، انھیں سونے میں تول کر بھی نہ خریدا جاسکے، کروڑوں اربوں کی رقم پر اختیار کے باوجود بھی نہ ان کے دلوں میں لالچ پیدا ہو اور نہ ان کے قدم ڈگمگائیں، مولانا مودودی نے تیسرا کام بھی بحسن و خوبی انجام دیا کہ آج جماعت کے مخالفین بھی ان کی امانت و دیانت کی گواہی دے رہے ہیں، سیاسی تالاب میں کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھونے والوں کو حیرت سے دیکھا جارہا ہے، یوں مولانا مودودی کی اسکیم کا تیسرا حصہ بھی کامیابی سے تکمیل کو پہنچا۔جماعت اسلامی میں ہر سطح پر انتخابی نظام کی تشکیل چوتھا کام تھا۔
وراثتی ناسور سے پاک شورائی نظم اور احتساب کی اہمیت۔ سات آٹھ عشرے گزرنے کے باوجود نہ جماعت میں گروہ بندی ہوئی ہے اور نہ کبھی پارٹی الیکشن سے گریز کیا گیا ہے۔ ہر موقع پر دستور کی پابندی اور خوبصورت انتخابی نظام دنیا کی سیاسی پارٹیوں کی تاریخ کا انوکھا ترین انتخابی نظام ہے۔ یوں مولانا نے یہ چار کام کامیابی سے سرانجام دے دیے۔ پھر کیا کسر رہ گئی کہ جماعت اسلامی ایک مقبول سیاسی پارٹی بن کر نہ ابھر سکی؟
اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو دین کا بنیادی فہم دے کر اور کردار سازی کے بعد انھیں منظم کرکے عوام کے سامنے پیش کیا جائے، یوں ووٹوں کی طاقت کے ذریعے جب حکومت صالحین کے ہاتھوں میں آئے تو اسلامی فلاحی مملکت کی داغ بیل ڈالی جائے یہ تھی پانچ نکاتی اسکیم، عوام کو کھرے اور کھوٹے، سچے اور جھوٹے، بے ایمان اور ایماندار اور اچھے اور برے میں تمیز کا موقع دیا جائے، اعلیٰ تعلیم، دین کی سمجھ اور عمدہ کردار جیسی خوبیوں سے لیس امیدوار ایک جمہوری پارٹی کی شکل میں جب عوام کے پاس جائیںگے تو وہ انھیں اعتماد کا ووٹ بخشیںگے۔ پانچویں نکتے میں ناکامی نے پوری اسکیم کو بکھیر کر رکھ دیا۔
کیا مولانا مودودی نے پاکستانی عوام کی نفسیات کو سمجھنے میں غلطی کی؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی اکثریت اگر خود صالح نہ ہو تو وہ صالحین کو ووٹ کیوں دیں؟
پاکستانی عوام کی اکثریت نے خود اعلیٰ کردار کے نہ ہونے کو یاد رکھ کر ووٹ ڈالتے وقت کردار کو پرکھنے کا کبھی مظاہرہ کیا ہی نہیں ہے۔ قومیت، صوبے، فرقے، زبان اور برادری کی اہمیت نے سیرت کی اہمیت کو ختم کردیا ہے کیا پاکستانی ووٹر کی اپنے امیدوار کو چال چلن کی کسوٹی پر نہ پرکھنے کی عادت نے جماعت اسلامی کو ناکامی سے دو چار کیا ہے۔ سوال وہیں آکر رکتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا اسلامی شعور اور اعلیٰ کردار اپنی عمدہ تنظیم کے باوجود کیوں عوامی پذیرائی حاصل نہ کرسکا؟اس میں جماعت کو کس قدر نقصان ہوا اور پاکستانی عوام کس قدر خسارے میں رہے؟
جس طرح ہاکی کے میچ میں ایک ٹیم کے کھلاڑی مخالف کے گول پوسٹ سے گیند لے کر آگے بڑھیں اور ہاف لائن عبور کرکے ڈی میں پہنچ جائیں لیکن گول نہ ہوسکے تو؟ پھر دیکھا جائے گا کہ خامی کہاں ہے؟ یہ خامی کس کی ہے؟ جماعت اسلامی کی انتخابی سیاست پر مختصراً گفتگو کے بعد ہم مولانا مودودی کی پانچ نکاتی اسکیم کا جائزہ لیں گے۔
جماعت اسلامی نے ستر میں پہلی مرتبہ قومی انتخابات میں حصہ لیا۔ مشرقی و مغربی پاکستان میں لگ بھگ دو سو امیدوار میدان میں تھے۔ جماعت کو صرف چار نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ 77 میں نو پارٹیوں نے اتحاد قائم کرکے بھٹو کی پیپلزپارٹی کے خلاف انتخاب لڑا۔ دھاندلی کے الزام کی نذر ہونے والے انتخابات کا نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں نکلا، جنرل ضیا کے دور میں ہونے والے انتخابات میں جماعت اسلامی کو بمشکل دس نشستیں ملیں۔
نواز شریف کے ساتھ آئی جے آئی میں جماعت کے اراکین کی تعداد صرف آٹھ تھی۔ 93 میں قاضی حسین احمد نے پاکستان اسلامک فرنٹ قائم کرکے کوشش کی لیکن عوامی پذیرائی نہ ملی۔ مذہبی پارٹیوں کے متحدہ مجلس عمل میں جماعت اسلامی کی کارکردگی مناسب کہی جاسکتی ہے۔ سید منور حسن کے دور امارت میں صرف تین اراکین ترازو کے نشان پر قومی اسمبلی میں پہنچے۔ جماعت نے اپنی نصف صدی کی انتخابی تاریخ میں کبھی قابل ذکر ووٹ حاصل نہیں کیے۔ کیا یہ مولانا مودودی کی سوچ کی ناکامی کہی جاسکتی ہے؟ بانی جماعت کے ذہن میں پانچ نکاتی اسکیم کیا تھی؟
مولانا مودودی نے سب سے زیادہ توجہ ملک کے پڑھے لکھے لوگوں پر دی۔ اسکیم کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء، بینکس، پروفیسرز، صحافیوں، سائنسدانوں، افسران اور اکاؤنٹنٹس کو اپنی تنظیم میں لایا جائے۔ مولانا مودودی کی تحریروں کا بہت بڑا حصہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو ذہن میں رکھ کر تیار کیا گیا تھا۔ سید مودودی کا خیال تھا کہ ریاست کا نظم و ضبط چلانے کے لیے ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مولانا کی تحریروں نے کالجز و جامعات کے طالب علموں اور فارغ التحصیل لوگوں کو متاثر کیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد جماعت اسلامی کا حصہ بنے۔
منصوبے کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ پڑھے لکھے افراد جب تنظیم میں شامل ہوجائیں تو انھیں اسلام کا علم دیا جائے۔ کالجز اور جامعات کے طالب علموں اور ڈگری یافتہ لوگوں کے سامنے تفسیر قرآن، احادیث نبویؐ اور لٹریچر کے ذریعے اسلام کا خوبصورت چہرہ پیش کیا جائے۔ اس طرح کہ وہ بغیر کسی احساس کمتری کے دین اسلام کی معاشرت، معیشت، حکومت، خاندانی نظام کے حوالے سے دلائل سے لیس ہوں۔
مغربی جمہوریت و اشتراکی و سرمایہ دارانہ نظام سے مرعوب ہوئے بغیر اسلام کو ہر شعبۂ زندگی میں قابل عمل سمجھتے ہوں۔ ان اراکین کو دین اسلام کا اتنا علم ہو کہ وہ حلال و حرام، پاکی و ناپاکی اور جائز و ناجائز میں تمیز کرسکیں۔ مولانا کا لٹریچر اپنے ماننے والوں کو مفتی یا عالم بنانے کے لیے نہیں تھا۔ وہ انھیں محدث یا فقیہہ نہیں بنانا چاہتے تھے کہ یہ ذمے داری دوسرے لوگ بہتر طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔ تفسیر القرآن کے علاوہ سود، پردہ، حقوق الزوجین، خطبا، تجدید و احیائے دین، دینیات جیسی کتابیں جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو ذہن میں رکھ کر ترتیب دی گئی تھیں۔
یہ وہ دور تھا جب مغربی تہذیب اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ کالجز کے پڑھے لکھے لوگوں پر چھائی ہوئی تھی۔ مسلم دنیا کی پسماندگی اور یورپ و امریکا کی ترقی اور سوویت، روس کی ابھرتی معیشت نے پاکستانی تعلیم یافتہ افراد کے ذہنوں پر مرعوبیت کی دیوار تان دی تھی۔ اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ حکمت عملی کے مقابل مولانا کی تحریروں نے مغربی و اشتراکی علوم کا منطقی تجزیہ کرکے ان کی دھجیاں بکھیر دیں۔ سید مودودی نے پاکستانی عوام کے سامنے اپنی بنیاد پر اعتماد سے کھڑے ہونے کے دلائل پیش کیے۔
مولانا مودودی کی اسکیم کا تیسرا حصہ بڑا اہم تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جماعت اسلامی کے اراکین کا کردار نہایت مضبوط ہوں۔ اس لیے انھوں نے ''صالحین'' کی اصطلاح متعارف کروائی۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں اس لفظ پر بڑا طنز کیا گیا کہ لوگ کرپشن کی تباہ کاریوں سے واقف نہ تھے۔ جماعت کے بانی چاہتے تھے کہ ان کے ساتھیوں کا کردار اتنا مضبوط ہو کہ وہ نہ کسی کے آگے جھکیں اور نہ کسی کے آگے دبیں، انھیں سونے میں تول کر بھی نہ خریدا جاسکے، کروڑوں اربوں کی رقم پر اختیار کے باوجود بھی نہ ان کے دلوں میں لالچ پیدا ہو اور نہ ان کے قدم ڈگمگائیں، مولانا مودودی نے تیسرا کام بھی بحسن و خوبی انجام دیا کہ آج جماعت کے مخالفین بھی ان کی امانت و دیانت کی گواہی دے رہے ہیں، سیاسی تالاب میں کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھونے والوں کو حیرت سے دیکھا جارہا ہے، یوں مولانا مودودی کی اسکیم کا تیسرا حصہ بھی کامیابی سے تکمیل کو پہنچا۔جماعت اسلامی میں ہر سطح پر انتخابی نظام کی تشکیل چوتھا کام تھا۔
وراثتی ناسور سے پاک شورائی نظم اور احتساب کی اہمیت۔ سات آٹھ عشرے گزرنے کے باوجود نہ جماعت میں گروہ بندی ہوئی ہے اور نہ کبھی پارٹی الیکشن سے گریز کیا گیا ہے۔ ہر موقع پر دستور کی پابندی اور خوبصورت انتخابی نظام دنیا کی سیاسی پارٹیوں کی تاریخ کا انوکھا ترین انتخابی نظام ہے۔ یوں مولانا نے یہ چار کام کامیابی سے سرانجام دے دیے۔ پھر کیا کسر رہ گئی کہ جماعت اسلامی ایک مقبول سیاسی پارٹی بن کر نہ ابھر سکی؟
اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو دین کا بنیادی فہم دے کر اور کردار سازی کے بعد انھیں منظم کرکے عوام کے سامنے پیش کیا جائے، یوں ووٹوں کی طاقت کے ذریعے جب حکومت صالحین کے ہاتھوں میں آئے تو اسلامی فلاحی مملکت کی داغ بیل ڈالی جائے یہ تھی پانچ نکاتی اسکیم، عوام کو کھرے اور کھوٹے، سچے اور جھوٹے، بے ایمان اور ایماندار اور اچھے اور برے میں تمیز کا موقع دیا جائے، اعلیٰ تعلیم، دین کی سمجھ اور عمدہ کردار جیسی خوبیوں سے لیس امیدوار ایک جمہوری پارٹی کی شکل میں جب عوام کے پاس جائیںگے تو وہ انھیں اعتماد کا ووٹ بخشیںگے۔ پانچویں نکتے میں ناکامی نے پوری اسکیم کو بکھیر کر رکھ دیا۔
کیا مولانا مودودی نے پاکستانی عوام کی نفسیات کو سمجھنے میں غلطی کی؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی اکثریت اگر خود صالح نہ ہو تو وہ صالحین کو ووٹ کیوں دیں؟
پاکستانی عوام کی اکثریت نے خود اعلیٰ کردار کے نہ ہونے کو یاد رکھ کر ووٹ ڈالتے وقت کردار کو پرکھنے کا کبھی مظاہرہ کیا ہی نہیں ہے۔ قومیت، صوبے، فرقے، زبان اور برادری کی اہمیت نے سیرت کی اہمیت کو ختم کردیا ہے کیا پاکستانی ووٹر کی اپنے امیدوار کو چال چلن کی کسوٹی پر نہ پرکھنے کی عادت نے جماعت اسلامی کو ناکامی سے دو چار کیا ہے۔ سوال وہیں آکر رکتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا اسلامی شعور اور اعلیٰ کردار اپنی عمدہ تنظیم کے باوجود کیوں عوامی پذیرائی حاصل نہ کرسکا؟اس میں جماعت کو کس قدر نقصان ہوا اور پاکستانی عوام کس قدر خسارے میں رہے؟