پرویزمشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دیکرحکومت خود سہولت کاربنی جسٹس مظہرعالم
پرویزمشرف بیان ریکارڈ کروا کر دوبارہ بھی باہر جاسکتے ہیں، جسٹس مظہر عالم میاں خیل
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ریمارکس دیئے ہیں کہ پرویز مشرف کوبیرون ملک جانے کی اجازت دے کرحکومت خود سہولت کاربنی لیکن پرویز مشرف بیان ریکارڈ کروا کر دوبارہ بھی باہرجاسکتے ہیں۔
جسٹس مظہرعالم میاں خیل کی سربراہی میں خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران جوائنٹ سیکرٹری داخلہ مبارک علی نے سیکرٹری داخلہ کی جانب سے تحریری جواب جمع کرایا۔ عدالت نے مبارک علی سے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ کو بلایا تھا وہ خود کیوں نہیں آئے، مبارک علی نے جواب دیا کہ وہ رخصت پرہیں۔ خصوصی عدالت نے سیکرٹری داخلہ کی جانب سے جمع کرایا گیاجواب مسترد کردیا
جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے سیکرٹری داخلہ کے رویے پراظہاربرہمی کرتےہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ کوئی طریقہ کارنہیں جوسیکرٹری داخلہ نے اپنایا ہے، سیکرٹری داخلہ خود شکایت کنندہ ہیں ان کا یہ رویہ ناقابل فہم ہے، یہ ایساکیس نہیں کہ سیکرٹری داخلہ سیکشن افسرکےذریعےجواب جمع کرائیں۔
جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے وکیل استغاثہ اکرم شیخ سے سوال کیا کہ کہا پرویزمشرف کی بیرون ملکی روانگی پرسیکرٹری داخلہ کو ذمے دار ٹھہرایا جاسکتاہے۔ جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت نے 31 مارچ کوپرویزمشرف کو ذاتی حیثیت میں طلب کررکھا تھا، پرویزمشرف کی خصوصی عدالت میں طلبی سےناصرف ملزم بلکہ وفاق کوبھی علم تھا،سیکرٹری داخلہ نے سمجھا کہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا نہیں کہا۔ پرویز مشرف کا اسکائپ یا وڈیو لنک پر بیان لیا جا سکتا ہے۔
وکیل استغاثہ کی دلیل پر جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ انسداد دہشتگردی کیسز میں گواہوں کے بیانات وڈیو لنک پر لئے جا سکتے ہیں، یہاں پرویز مشرف گواہ نہیں بلکہ ملزم ہیں۔
سماعت کےدوران پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کے ذمہ دار وکل اصفائی نہیں بلکہ وزارت داخلہ ہے،31 مارچ 2014 کو عدالت پرویزمشرف کو حاضری سے استثنیٰ دے چکی ہے، راشد قریشی نے بطور ضامن ضمانتی مچلکے جمع کروائے، وارنٹ کی تعمیل اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے بعد ضامن کی ضرورت نہیں رہی۔
جسٹس مظہر میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں پرویز مشرف کی حاضری یقینی بنانا ضامن کی ذمہ داری ہے، جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ حکومت خود سہولت دے اورشکایت کنندہ اسے ملک سے باہرجانے دے تو ضامن کیا کرے گا۔ جسٹس مظہرعالم نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں اس سےغرض نہیں کہ کس نے پرویز مشرف کو باہرجانےدیا،ہمیں تواس سےغرض ہےکہ وہ طلب کرنےکےباوجودعدالت نہیں آئے، ملک سے باہر جانا مسئلہ نہیں ہے، پرویز مشرف بیان ریکارڈ کروا کر دوبارہ بھی باہر جاسکتے ہیں۔
سماعت کے دوران کیس کے گواہ توفیق آصف کے فریق بننے کی درخواست پردلائل کے دوران وکیل استغاثہ نے اعتراض کیا کہ توفیق آصف اس کیس میں گواہ ہیں اب فریق کیسے بن سکتے ہیں، جسٹس مظہرکا خیل کےاستفسار پر توفیق آصف سے کہا کہ جب حکومت خود ملزم کو رعایت دے تو ہمیں فریق بننا پڑے گا، بتائیں ملزم کو کیسے باہر جانے دیا گیا، توصیف آصف کی آواز تیز ہونے پر عدالت نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں شور شرابا نہ کیا جائے۔
جسٹس مظہرعالم میاں خیل کی سربراہی میں خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران جوائنٹ سیکرٹری داخلہ مبارک علی نے سیکرٹری داخلہ کی جانب سے تحریری جواب جمع کرایا۔ عدالت نے مبارک علی سے استفسار کیا کہ سیکرٹری داخلہ کو بلایا تھا وہ خود کیوں نہیں آئے، مبارک علی نے جواب دیا کہ وہ رخصت پرہیں۔ خصوصی عدالت نے سیکرٹری داخلہ کی جانب سے جمع کرایا گیاجواب مسترد کردیا
جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے سیکرٹری داخلہ کے رویے پراظہاربرہمی کرتےہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ کوئی طریقہ کارنہیں جوسیکرٹری داخلہ نے اپنایا ہے، سیکرٹری داخلہ خود شکایت کنندہ ہیں ان کا یہ رویہ ناقابل فہم ہے، یہ ایساکیس نہیں کہ سیکرٹری داخلہ سیکشن افسرکےذریعےجواب جمع کرائیں۔
جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے وکیل استغاثہ اکرم شیخ سے سوال کیا کہ کہا پرویزمشرف کی بیرون ملکی روانگی پرسیکرٹری داخلہ کو ذمے دار ٹھہرایا جاسکتاہے۔ جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ عدالت نے 31 مارچ کوپرویزمشرف کو ذاتی حیثیت میں طلب کررکھا تھا، پرویزمشرف کی خصوصی عدالت میں طلبی سےناصرف ملزم بلکہ وفاق کوبھی علم تھا،سیکرٹری داخلہ نے سمجھا کہ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا نہیں کہا۔ پرویز مشرف کا اسکائپ یا وڈیو لنک پر بیان لیا جا سکتا ہے۔
وکیل استغاثہ کی دلیل پر جسٹس مظہرعالم میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ انسداد دہشتگردی کیسز میں گواہوں کے بیانات وڈیو لنک پر لئے جا سکتے ہیں، یہاں پرویز مشرف گواہ نہیں بلکہ ملزم ہیں۔
سماعت کےدوران پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کے ذمہ دار وکل اصفائی نہیں بلکہ وزارت داخلہ ہے،31 مارچ 2014 کو عدالت پرویزمشرف کو حاضری سے استثنیٰ دے چکی ہے، راشد قریشی نے بطور ضامن ضمانتی مچلکے جمع کروائے، وارنٹ کی تعمیل اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے بعد ضامن کی ضرورت نہیں رہی۔
جسٹس مظہر میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں پرویز مشرف کی حاضری یقینی بنانا ضامن کی ذمہ داری ہے، جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ حکومت خود سہولت دے اورشکایت کنندہ اسے ملک سے باہرجانے دے تو ضامن کیا کرے گا۔ جسٹس مظہرعالم نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں اس سےغرض نہیں کہ کس نے پرویز مشرف کو باہرجانےدیا،ہمیں تواس سےغرض ہےکہ وہ طلب کرنےکےباوجودعدالت نہیں آئے، ملک سے باہر جانا مسئلہ نہیں ہے، پرویز مشرف بیان ریکارڈ کروا کر دوبارہ بھی باہر جاسکتے ہیں۔
سماعت کے دوران کیس کے گواہ توفیق آصف کے فریق بننے کی درخواست پردلائل کے دوران وکیل استغاثہ نے اعتراض کیا کہ توفیق آصف اس کیس میں گواہ ہیں اب فریق کیسے بن سکتے ہیں، جسٹس مظہرکا خیل کےاستفسار پر توفیق آصف سے کہا کہ جب حکومت خود ملزم کو رعایت دے تو ہمیں فریق بننا پڑے گا، بتائیں ملزم کو کیسے باہر جانے دیا گیا، توصیف آصف کی آواز تیز ہونے پر عدالت نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں شور شرابا نہ کیا جائے۔