لوک ورثہ‘ لٹریچر فیسٹیول اور اردو یونیورسٹی
ہر طرح کی دوائیاں اور ٹوٹکے آزمانے کے بعد قے کا سلسلہ تو رک گیا
ان تین باتوں کا بظاہر آپس میں کوئی ربط ہو یا نہ ہو لیکن پندرہ سولہ اور سترہ اپریل کو یہ حادثاتی طور پر ایک ہی سلسلے کی کڑیاں بن گئیں اور اگر ان میں اس فوڈپوائزننگ اور اس کے اثرات کو بھی شامل کر لیا جائے جن سے میں ان تین دنوں میں گزرا ہوں تو یہ تعلق اور زیادہ پیچیدہ اور ناقابل فہم ہو جاتا ہے لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ بعض اوقات حقیقت افسانے سے زیادہ حیران کن ہوتی ہے تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں' تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کا چوتھا لٹریچر فیسٹیول انھی تین دنوں میں طے پایا تھا اور مجھے چونکہ افتتاحی اجلاس سمیت اس کے چار مختلف سیشنز میں شرکت کرنا تھی لہذا یہ تینوں دن مجھے ان کے ساتھ رہنا تھا، میلے کا مقام اس بار ''لوک ورثہ'' طے پایا تھا جو شکرپڑیاں کے نزدیک ایک وسیع رقبے پر تعمیر کیا گیا ہے اور بلاشبہ ہمارے قومی لوک ورثے کا ایک شاندار خزانہ اور امانت دار ہے۔
اتفاق سے اس کے نگہداروں میں ہمارے دو دوست برادرم عکسی مفتی اور جدید افسانے کا ایک بہت اہم نام مظہر الاسلام بھی شامل رہے ہیں۔ یوں مجھے اس کی تعمیر و ترقی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا ہے آج کل اس کی انچارج فوزیہ سعید ہیں جو اس روایت کو بہت احسن طریقے سے آگے بڑھا رہی ہیں۔ اب ہوا یوں کہ افتتاحی اجلاس میں برطانوی اور فرانسیسی سفیروں کے علاوہ دو مرکزی یعنی Keynote speaker تھے جن میں سے سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے انگریزی اور برادرم مسعود اشعر نے اردو میں خطاب کیا۔ اطلاعات کے مطابق حنا ربانی کھر کو تیاری کے لیے بہت کم وقت دیا گیا تھا چنانچہ ان کی گفتگو کا رخ باوجود کوشش کے بار بار ادب سے سیاست اور وہ بھی امور خارجہ کی طرف مڑ جاتا تھا جب کہ مسعود اشعر صاحب نے ہماری زندگیوں میں ادب کے مختلف النوع اثرات اور عملی طور پر ان طرح طرح کے دبائو کا بہت دلسوزی سے ذکر کیا جس کی وجہ سے ہمارا ادب ایسے بہت سے آسان سوالات کا جواب بھی نہیں دے پایا جن سے گزر کر پوری دنیا کے معاشرے ایک بہتر ذہنی فضا میں زندگی گزار رہے ہیں۔
افتتاحی تقریب کے اختتام پر جب ہم مندوبین کے لیے بنائے گئے خصوصی چائے خانے کی طرف جا رہے تھے تو یہ دیکھ کر مزید خوشی ہوئی کہ پاکستان کی مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے اہم نمایندوں کے ساتھ ساتھ اس میں قومی سطح کے اردو لکھاریوں کے ناموں پر بھی یادگاریں قائم کی گئی ہیں جن میں فیض احمد فیض' عبداللہ حسین اور پروین شاکر کے نام تو نظر سے گزرے ممکن ہے کچھ اور نام بھی ہوں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو کم از کم احمد ندیم قاسمی' انتظار حسین' اشفاق احمد' منیر نیازی' احمد فراز اور ممتاز مفتی کے ناموں پر تو فوری توجہ دینی چاہیے جب کہ دیگر اہم لوگوں کو یاد رکھنے کی بھی کوئی نہ کوئی صورت نکالی جا سکتی ہے۔
انڈیا سے بھی سیاسی تنائو کے باوجود چھ سات احباب پر مشتمل ایک وفد نے شرکت کی جن میں سے برادرم سیف محمود سے پہلے سے بالمشافہ ملاقات تھی لیکن اس تجدید ملاقات کا لطف بہت مختصر رہا کہ اسی رات ایک بڑے کلب میں مندوبین اور مہمانوں کے اعزاز میں دیے گئے کھانے کے دوران کوئی ایسی چیز کھائی گئی جس نے چند ہی گھنٹوں میں میرے ساتھ وہ کیا جو شاید نادر شاہ کی فوجوں نے دہلی کے لوگوں کے ساتھ بھی نہ کیا ہو گا اس قدر شدید فوڈپوائزننگ ہوئی کہ میرے لیے کھڑا ہونا بھی مشکل ہو گیا، سردی نہ ہونے کے باوجود کپکپی کا یہ عالم تھا کہ سارا جسم مسلسل کانپ رہا تھا اور باتھ روم کی یاترا کا دورانیہ مسلسل کم سے کم ہوتا جا رہا تھا، میں اپنی بیگم سمیت بیٹی اور داماد کے گھر ٹھہرا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزارا جا سکے مگر اس آفت نے سب کو پریشان کر کے رکھ دیا۔
ہر طرح کی دوائیاں اور ٹوٹکے آزمانے کے بعد قے کا سلسلہ تو رک گیا معدہ کی سول نافرمانی آیندہ 48 گھنٹے تک ختم نہ ہو سکی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں سوائے سترہ اپریل کے اختتامی سیشن کے کسی بھی پروگرام میں شرکت نہ کر سکا اور یہ آخری شرکت بھی بہت مشکل اور منتظمین کے مسلسل اصرار پر ممکن ہو سکی کہ انھوں نے میرا نام اختتامی سیشن کے Keynote اسپیکر کے طور پر پروگرام میں درج کر رکھا تھا۔
اتفاق سے یہاں بھی افتتاحی اجلاس والی صورت ہی دہرائی گئی کہ فرانس سے آئے ہوئے ادیب نے حنا ربانی کھر کی طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ پر بات کی جب کہ میرا موضوع اردو کلاسیکی شعرا کا سیاسی اور سماجی شعور رہا۔شاعرہ راشدہ ماہین نے جو وفاقی اردو یونی ورسٹی کی پروفیسر بھی ہیں کئی روز پہلے سے اپنی یونیورسٹی میں ایک مشاعرے کے لیے دعوت دے رکھی تھی جس کی صدارت ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے کرنا تھی سو طبیعت کی شدید خرابی کے باوجود وعدے کی پاسداری کرنا پڑی البتہ اتنا ضرور ہوا کہ میں فرمائش کرکے تقریباً ابتدا ہی میں کلام سنا کر وہاں سے چلا آیا جو کوئی پسندیدہ بات تو نہیں تھی لیکن بصورت دیگر میرے پاس مشاعرے میں شرکت سے معذرت کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا ۔
اتفاق سے اس کے نگہداروں میں ہمارے دو دوست برادرم عکسی مفتی اور جدید افسانے کا ایک بہت اہم نام مظہر الاسلام بھی شامل رہے ہیں۔ یوں مجھے اس کی تعمیر و ترقی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہا ہے آج کل اس کی انچارج فوزیہ سعید ہیں جو اس روایت کو بہت احسن طریقے سے آگے بڑھا رہی ہیں۔ اب ہوا یوں کہ افتتاحی اجلاس میں برطانوی اور فرانسیسی سفیروں کے علاوہ دو مرکزی یعنی Keynote speaker تھے جن میں سے سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے انگریزی اور برادرم مسعود اشعر نے اردو میں خطاب کیا۔ اطلاعات کے مطابق حنا ربانی کھر کو تیاری کے لیے بہت کم وقت دیا گیا تھا چنانچہ ان کی گفتگو کا رخ باوجود کوشش کے بار بار ادب سے سیاست اور وہ بھی امور خارجہ کی طرف مڑ جاتا تھا جب کہ مسعود اشعر صاحب نے ہماری زندگیوں میں ادب کے مختلف النوع اثرات اور عملی طور پر ان طرح طرح کے دبائو کا بہت دلسوزی سے ذکر کیا جس کی وجہ سے ہمارا ادب ایسے بہت سے آسان سوالات کا جواب بھی نہیں دے پایا جن سے گزر کر پوری دنیا کے معاشرے ایک بہتر ذہنی فضا میں زندگی گزار رہے ہیں۔
افتتاحی تقریب کے اختتام پر جب ہم مندوبین کے لیے بنائے گئے خصوصی چائے خانے کی طرف جا رہے تھے تو یہ دیکھ کر مزید خوشی ہوئی کہ پاکستان کی مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے اہم نمایندوں کے ساتھ ساتھ اس میں قومی سطح کے اردو لکھاریوں کے ناموں پر بھی یادگاریں قائم کی گئی ہیں جن میں فیض احمد فیض' عبداللہ حسین اور پروین شاکر کے نام تو نظر سے گزرے ممکن ہے کچھ اور نام بھی ہوں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو کم از کم احمد ندیم قاسمی' انتظار حسین' اشفاق احمد' منیر نیازی' احمد فراز اور ممتاز مفتی کے ناموں پر تو فوری توجہ دینی چاہیے جب کہ دیگر اہم لوگوں کو یاد رکھنے کی بھی کوئی نہ کوئی صورت نکالی جا سکتی ہے۔
انڈیا سے بھی سیاسی تنائو کے باوجود چھ سات احباب پر مشتمل ایک وفد نے شرکت کی جن میں سے برادرم سیف محمود سے پہلے سے بالمشافہ ملاقات تھی لیکن اس تجدید ملاقات کا لطف بہت مختصر رہا کہ اسی رات ایک بڑے کلب میں مندوبین اور مہمانوں کے اعزاز میں دیے گئے کھانے کے دوران کوئی ایسی چیز کھائی گئی جس نے چند ہی گھنٹوں میں میرے ساتھ وہ کیا جو شاید نادر شاہ کی فوجوں نے دہلی کے لوگوں کے ساتھ بھی نہ کیا ہو گا اس قدر شدید فوڈپوائزننگ ہوئی کہ میرے لیے کھڑا ہونا بھی مشکل ہو گیا، سردی نہ ہونے کے باوجود کپکپی کا یہ عالم تھا کہ سارا جسم مسلسل کانپ رہا تھا اور باتھ روم کی یاترا کا دورانیہ مسلسل کم سے کم ہوتا جا رہا تھا، میں اپنی بیگم سمیت بیٹی اور داماد کے گھر ٹھہرا تھا تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزارا جا سکے مگر اس آفت نے سب کو پریشان کر کے رکھ دیا۔
ہر طرح کی دوائیاں اور ٹوٹکے آزمانے کے بعد قے کا سلسلہ تو رک گیا معدہ کی سول نافرمانی آیندہ 48 گھنٹے تک ختم نہ ہو سکی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں سوائے سترہ اپریل کے اختتامی سیشن کے کسی بھی پروگرام میں شرکت نہ کر سکا اور یہ آخری شرکت بھی بہت مشکل اور منتظمین کے مسلسل اصرار پر ممکن ہو سکی کہ انھوں نے میرا نام اختتامی سیشن کے Keynote اسپیکر کے طور پر پروگرام میں درج کر رکھا تھا۔
اتفاق سے یہاں بھی افتتاحی اجلاس والی صورت ہی دہرائی گئی کہ فرانس سے آئے ہوئے ادیب نے حنا ربانی کھر کی طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ پر بات کی جب کہ میرا موضوع اردو کلاسیکی شعرا کا سیاسی اور سماجی شعور رہا۔شاعرہ راشدہ ماہین نے جو وفاقی اردو یونی ورسٹی کی پروفیسر بھی ہیں کئی روز پہلے سے اپنی یونیورسٹی میں ایک مشاعرے کے لیے دعوت دے رکھی تھی جس کی صدارت ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے کرنا تھی سو طبیعت کی شدید خرابی کے باوجود وعدے کی پاسداری کرنا پڑی البتہ اتنا ضرور ہوا کہ میں فرمائش کرکے تقریباً ابتدا ہی میں کلام سنا کر وہاں سے چلا آیا جو کوئی پسندیدہ بات تو نہیں تھی لیکن بصورت دیگر میرے پاس مشاعرے میں شرکت سے معذرت کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا ۔