ریکو ڈکبلوچستان حکومت مقدمہ ٹھیک نہیںلڑرہیسپریم کورٹ
غیرسنجیدہ رویے پربرہمی،مقدمے کے نتائج عالمی سرمایہ کاری کیلیے اہم ہونگے،ریمارکس
سپریم کورٹ نے ریکوڈک کیس میں بلوچستان حکومت کی عدم دلچسپی اور غیر سنجیدہ رویے پر بر ہمی کا اظہارکیا ہے اور وفاقی سیکرٹری پٹرولیم اوراٹارنی جنرل کومعاونت کی ہدایت کی ہے۔
چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ریکوڈک کیس کی سماعت میں جب عالمی ثالثی ٹربیونل میں پیش کی گئی دستاویزات کے بارے میں چند سوالات اٹھائے تو بلوچستان حکومت کے وکیل احمر بلال صوفی ان کا جواب نہیں دے سکے جس پر عدالت نے ناراضی کا اظہارکیا ۔چیف جسٹس نے کہا کسی کواس مقدمے کی اہمیت کا اندازہ نہیں، سمجھ نہیں آتا بلوچستان حکومت کا رویہ اتنا غیر ذمے دارانہ کیوں ہے۔چیف جسٹس نے کہا اس مقدمے کے نتائج پاکستان میں عالمی سرمایہ کاری کیلیے بہت اہم ہونگے۔
درخواست گزارکے وکیل رضا کاظم نے بتایا 1993میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اٹھارتی کے جس چیئرمین نے جوائنٹ وینچرکے معاہدے پر دستخط کیے انھیں بدعنوانی کے الزام میں سزا ہو چکی ہے، عدالت اس بات کا جائزہ لے کہ کیا حکومت بلوچستان اور ٹی سی سی کے درمیان معاہدہ قانونی تھااور معاہدہ غیر قانونی تھا تو پھر اس کے بعد ہونے والی تمام پیشرفت غیر قانونی ہے،عدالت کو معدنیات،عوامی مفاد اور آئین میں دیے گئے اختیارکا جائزہ لینا پڑے گا۔احمر بلال صوفی نے کہا کہ حکومت بلوچستان عالمی ثالثی عدالت میں اس لیے گئی کیونکہ وہاں درخواست گزاروںکیلیے میدان کھلا نہیںچھوڑنا چاہ رہے تھے،میرٹ پرکیس حکومت کے حق میں ہے۔رضا کاظم نے کہا یہ قومی دولت ہے لیکن بلوچستان حکومت ثالثی ٹربیونل میں مقدمہ ٹھیک نہیں لڑ رہی جس کی وجہ سے کیس بہت پیچیدہ ہوگیا ۔چیف جسٹس نے فاضل وکیل کوکہا آپ کی معاونت سے اس کیس کو بہت آسان بنا دیںگے۔
چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ریکوڈک کیس کی سماعت میں جب عالمی ثالثی ٹربیونل میں پیش کی گئی دستاویزات کے بارے میں چند سوالات اٹھائے تو بلوچستان حکومت کے وکیل احمر بلال صوفی ان کا جواب نہیں دے سکے جس پر عدالت نے ناراضی کا اظہارکیا ۔چیف جسٹس نے کہا کسی کواس مقدمے کی اہمیت کا اندازہ نہیں، سمجھ نہیں آتا بلوچستان حکومت کا رویہ اتنا غیر ذمے دارانہ کیوں ہے۔چیف جسٹس نے کہا اس مقدمے کے نتائج پاکستان میں عالمی سرمایہ کاری کیلیے بہت اہم ہونگے۔
درخواست گزارکے وکیل رضا کاظم نے بتایا 1993میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اٹھارتی کے جس چیئرمین نے جوائنٹ وینچرکے معاہدے پر دستخط کیے انھیں بدعنوانی کے الزام میں سزا ہو چکی ہے، عدالت اس بات کا جائزہ لے کہ کیا حکومت بلوچستان اور ٹی سی سی کے درمیان معاہدہ قانونی تھااور معاہدہ غیر قانونی تھا تو پھر اس کے بعد ہونے والی تمام پیشرفت غیر قانونی ہے،عدالت کو معدنیات،عوامی مفاد اور آئین میں دیے گئے اختیارکا جائزہ لینا پڑے گا۔احمر بلال صوفی نے کہا کہ حکومت بلوچستان عالمی ثالثی عدالت میں اس لیے گئی کیونکہ وہاں درخواست گزاروںکیلیے میدان کھلا نہیںچھوڑنا چاہ رہے تھے،میرٹ پرکیس حکومت کے حق میں ہے۔رضا کاظم نے کہا یہ قومی دولت ہے لیکن بلوچستان حکومت ثالثی ٹربیونل میں مقدمہ ٹھیک نہیں لڑ رہی جس کی وجہ سے کیس بہت پیچیدہ ہوگیا ۔چیف جسٹس نے فاضل وکیل کوکہا آپ کی معاونت سے اس کیس کو بہت آسان بنا دیںگے۔