پاکستان بدل رہا ہے
بھلا آپ بتائیےکہ کب ایسا ہوا کہ ہے کہ حاضر سروس 12 اعلی فوجی افسران کو ایک ساتھ کرپشن کےالزام میں برطرف کردیا گیا ہو؟
یہ ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ جب سربراہ پاک فوج جنرل راحیل شریف نے کرپشن کے خلاف بات کی تو ہر پتھر کے نیچے سے الگ الگ قسم کے تجزیہ کار پھدک پھدک کے باہر آئے اور اِس بیان کی اپنے دماغ اور سوچ کے مطابق تشریح شروع کردی۔ کسی نے کہا کہ یہ حکمرانوں کے خلاف فوج کا فیصلہ ہے تو کسی نے اس بیان کو کرپشن کے خلاف ان کے موقف کی فتح قرار دے دیا۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یہ منطق لے کر آئے کہ جب تک کرپشن میں ملوث فوجیوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی اُس وقت تک حکمرانوں کے خلاف کارروائی کو وہ ناانصافی قرار دیں گے۔
ویسے تو یہ باتیں کرنے والے کسی بھی اہمیت کے قابل نہیں تھے، لیکن اِس کے باوجود جنرل راحیل شریف نے آج بڑا فیصلہ کیا، ایسا فیصلہ جو پاکستان کی تاریخ میں ایک نمایاں اور خاص مقام رکھتا ہے۔ بھلا آپ بتائیے کہ کب ایسا ہوا کہ ہے کہ حاضر سروس 12 اعلی فوجی افسران کو ایک ساتھ کرپشن کے الزام میں برطرف کردیا گیا ہو۔ کرپشن کے الزام میں برطرف 12 میں سے 8 افسران کی تصدیق ہوئی ہے جن کی برطرفیاں پاک فوج کی داخلی تحقیقات کی روشنی میں عمل میں لائی گئی ہیں۔ برطرف کئے گئے افسران میں اعلیٰ ترین افسر لیفٹیننٹ جنرل عبیداللہ خٹک اور میجرجنرل اعجاز شاہد بھی شامل ہیں جب کہ دیگر افسران میں 6 بریگیڈیئرز، 3 کرنل اور ایک میجر شامل ہیں۔ ذرائع نے کرپشن کے الزام میں برطرف 8 افسران کی تصدیق کی ہے جن میں لیفٹیننٹ جنرل عبیداللہ خٹک اور میجر جنرل اعجاز شاہد سمیت بریگیڈیئر سیف اللہ، بریگیڈیئر اسد شہزادہ، بریگیڈیئر عامر، بریگیڈیئر رشید، کرنل حیدر اور میجر نجیب شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بریگیڈیئر حیدر اوربریگیڈیئر آصف کو بھی کرپشن کے الزامات پر برطرف کردیا گیا ہے تاہم ان افسران کے حوالے سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
جنرل راحیل شریف کے دور کی یہ کوئی پہلی خصوصیت ہرگز نہیں ہے بلکہ اگر آپ کو یاد ہو تو گزشتہ برس 5 اگست کو نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی اسکینڈل) میں کرپشن کے الزام ثابت ہونے پر 2 ریٹائرڈ فوجی افسران کو سزا سنا دی گئی تھی جس کے تحت ایک میجر جنرل (ر) کو ملازمت سے برطرف کرکے ان سے تمام اعزازات اور مراعات واپس لے لی گئیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں یہ کہا گیا تھا کہ این ایل سی میں کرپشن کا الزام ثابت ہونے پر پاک فوج کے افسر میجرجنرل (ریٹائرڈ) خالد ظہیر اختر کوملازمت سے برطرف کرکے ان کے رینک، میڈل ،اعزازات،ایوارڈز اور پنشن سمیت تمام مراعات واپس لے لی گئی تھی جب کہ لیفٹینٹ جنرل(ر) افضل مظفر کے خلاف بھی سخت کارروائی کی گئی تھی۔
پھر ضرب عضب اور کراچی آپریشن کی کامیابی کا سہرا بھی جنرل راحیل شریف کے سر ہی تو جاتا ہے کہ بالعموم پورے ملک اور بالخصوص کراچی میں کئی عرصے بعد اس حد تک امن ضرور ہوچکا ہے کہ لوگ گھر سے نکلتے ہوئے خوفزدہ نہیں ہوتے، ورنہ وہ وقت ہمیں آج بھی یاد ہے جب کراچی میں ایک ہی دن میں درجنوں افراد کو موت کی نیند سلادیا جاتا تھا۔ ملک بھر میں لوگوں کو دھماکوں کی عادت تو اس حد تک ہوچکی تھی کہ اگر کسی دن کہیں دھماکہ نہ ہو لوگ حیرانگی سے ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ یار آج کوئی دھماکا نہیں ہوا۔
آج اٹھائے جانے والے قدم کے بعد اب ہر کوئی جمہوری حکمرانوں پر طنز کررہا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب تک حکمرانوں کو صرف یہی ایک اُمید تھی کہ جب بھی اُن کے خلاف کارروائی شروع کی جائے گی تو لوگ یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہونگے کہ صرف غیر فوجیوں کو کیوں سزا ملتی ہے، اور پاکستان کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اُمید نہیں تھی کہ ایسا بھی کبھی ہوسکے گا، لیکن اب لوگوں کے ملک لوٹنے والے افراد کی حمایت میں بولنے کے لیے کچھ نہیں۔ اگر کل رات تک کچھ لوگ ایسے تھے جو کرپشن کے الزامات کے بعد میاں صاحب اور اُن کی پارٹی کی حمایت کررہے تھے تو آج وہ بھی منہ بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کیونکہ لیفٹیننٹ جنرل، میجر جنرل اور بریگیڈئیر کے خلاف کارروائی کوئی آسان کام نہیں۔
اتنی باتیں کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے، اور مزید کسی مشکل فیصلے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ جس راہ پر ہمیں چلنا چاہیے وہ کہیں کھو گئی ہے اور ہم گزشتہ 68 برسوں سے اُس کے برخلاف چل رہے ہیں، لیکن آج کے فیصلے کے بعد یہ اُمید ضرور ہوچلی ہے کہ شاید ہمیں وہ راہ مل گئی ہے۔ اگرچہ وہ دور ہے، لیکن اگر ہم نے اُس راہ کی طرف چلنا شروع کردیا تو یقین کیجیے کہ وہ وقت دور نہیں جب معاملات خرابی کے بجائے حسن و خوبی سے حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔
اگر حل پوچھا جائے تو ہمارے نزدیک ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں فوج، عدلیہ اور سیاست سے ایسے افراد لیے جائیں جن کی پوری زندگی شرافت اور دیانتداری و ایمانداری کی نذر ہوگئی، نہ انہوں نے کبھی کوئی مالی مفاد لیا اور نہ لینے دیا۔ اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ ہمارے ہر ادارے ایسے لوگوں کی بھرمار ہے، لیکن بدقسمتی سے ان کو کھل کر کام کرنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ بس پھر اس کمیٹی سے ایسے تمام لوگوں کی تحقیقات کروائی جائے جن پر پیسہ کھانے یا ملک لوٹنے کا الزام ہے، کیونکہ شاید اب ہمارے پاس یہ آخری موقع ہے، اگر یہ بھی ضائع کردیا گیا تو پھر کوئی بھی نہیں بچا سکے گا۔ شاید پھر ہمیں احساس ہو کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، جو ہر کسی کو نہیں ملا کرتی، اور جب نعمت کی ناشکری کی جائے تو سزا ملتی ہے، لازمی ملتی ہے، اور وہ سزا ہمیں بھی ملے گی کہ خدا کی جانب سے ملنے والی نعمت 'پاکستان' کے ساتھ ہم سب نے ملکر ظلم کیا۔
[poll id="1076"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ویسے تو یہ باتیں کرنے والے کسی بھی اہمیت کے قابل نہیں تھے، لیکن اِس کے باوجود جنرل راحیل شریف نے آج بڑا فیصلہ کیا، ایسا فیصلہ جو پاکستان کی تاریخ میں ایک نمایاں اور خاص مقام رکھتا ہے۔ بھلا آپ بتائیے کہ کب ایسا ہوا کہ ہے کہ حاضر سروس 12 اعلی فوجی افسران کو ایک ساتھ کرپشن کے الزام میں برطرف کردیا گیا ہو۔ کرپشن کے الزام میں برطرف 12 میں سے 8 افسران کی تصدیق ہوئی ہے جن کی برطرفیاں پاک فوج کی داخلی تحقیقات کی روشنی میں عمل میں لائی گئی ہیں۔ برطرف کئے گئے افسران میں اعلیٰ ترین افسر لیفٹیننٹ جنرل عبیداللہ خٹک اور میجرجنرل اعجاز شاہد بھی شامل ہیں جب کہ دیگر افسران میں 6 بریگیڈیئرز، 3 کرنل اور ایک میجر شامل ہیں۔ ذرائع نے کرپشن کے الزام میں برطرف 8 افسران کی تصدیق کی ہے جن میں لیفٹیننٹ جنرل عبیداللہ خٹک اور میجر جنرل اعجاز شاہد سمیت بریگیڈیئر سیف اللہ، بریگیڈیئر اسد شہزادہ، بریگیڈیئر عامر، بریگیڈیئر رشید، کرنل حیدر اور میجر نجیب شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بریگیڈیئر حیدر اوربریگیڈیئر آصف کو بھی کرپشن کے الزامات پر برطرف کردیا گیا ہے تاہم ان افسران کے حوالے سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
جنرل راحیل شریف کے دور کی یہ کوئی پہلی خصوصیت ہرگز نہیں ہے بلکہ اگر آپ کو یاد ہو تو گزشتہ برس 5 اگست کو نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی اسکینڈل) میں کرپشن کے الزام ثابت ہونے پر 2 ریٹائرڈ فوجی افسران کو سزا سنا دی گئی تھی جس کے تحت ایک میجر جنرل (ر) کو ملازمت سے برطرف کرکے ان سے تمام اعزازات اور مراعات واپس لے لی گئیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں یہ کہا گیا تھا کہ این ایل سی میں کرپشن کا الزام ثابت ہونے پر پاک فوج کے افسر میجرجنرل (ریٹائرڈ) خالد ظہیر اختر کوملازمت سے برطرف کرکے ان کے رینک، میڈل ،اعزازات،ایوارڈز اور پنشن سمیت تمام مراعات واپس لے لی گئی تھی جب کہ لیفٹینٹ جنرل(ر) افضل مظفر کے خلاف بھی سخت کارروائی کی گئی تھی۔
پھر ضرب عضب اور کراچی آپریشن کی کامیابی کا سہرا بھی جنرل راحیل شریف کے سر ہی تو جاتا ہے کہ بالعموم پورے ملک اور بالخصوص کراچی میں کئی عرصے بعد اس حد تک امن ضرور ہوچکا ہے کہ لوگ گھر سے نکلتے ہوئے خوفزدہ نہیں ہوتے، ورنہ وہ وقت ہمیں آج بھی یاد ہے جب کراچی میں ایک ہی دن میں درجنوں افراد کو موت کی نیند سلادیا جاتا تھا۔ ملک بھر میں لوگوں کو دھماکوں کی عادت تو اس حد تک ہوچکی تھی کہ اگر کسی دن کہیں دھماکہ نہ ہو لوگ حیرانگی سے ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ یار آج کوئی دھماکا نہیں ہوا۔
آج اٹھائے جانے والے قدم کے بعد اب ہر کوئی جمہوری حکمرانوں پر طنز کررہا ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب تک حکمرانوں کو صرف یہی ایک اُمید تھی کہ جب بھی اُن کے خلاف کارروائی شروع کی جائے گی تو لوگ یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہونگے کہ صرف غیر فوجیوں کو کیوں سزا ملتی ہے، اور پاکستان کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اُمید نہیں تھی کہ ایسا بھی کبھی ہوسکے گا، لیکن اب لوگوں کے ملک لوٹنے والے افراد کی حمایت میں بولنے کے لیے کچھ نہیں۔ اگر کل رات تک کچھ لوگ ایسے تھے جو کرپشن کے الزامات کے بعد میاں صاحب اور اُن کی پارٹی کی حمایت کررہے تھے تو آج وہ بھی منہ بند کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کیونکہ لیفٹیننٹ جنرل، میجر جنرل اور بریگیڈئیر کے خلاف کارروائی کوئی آسان کام نہیں۔
اتنی باتیں کرنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے، اور مزید کسی مشکل فیصلے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ جس راہ پر ہمیں چلنا چاہیے وہ کہیں کھو گئی ہے اور ہم گزشتہ 68 برسوں سے اُس کے برخلاف چل رہے ہیں، لیکن آج کے فیصلے کے بعد یہ اُمید ضرور ہوچلی ہے کہ شاید ہمیں وہ راہ مل گئی ہے۔ اگرچہ وہ دور ہے، لیکن اگر ہم نے اُس راہ کی طرف چلنا شروع کردیا تو یقین کیجیے کہ وہ وقت دور نہیں جب معاملات خرابی کے بجائے حسن و خوبی سے حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔
اگر حل پوچھا جائے تو ہمارے نزدیک ایک ہی حل ہے اور وہ یہ کہ ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں فوج، عدلیہ اور سیاست سے ایسے افراد لیے جائیں جن کی پوری زندگی شرافت اور دیانتداری و ایمانداری کی نذر ہوگئی، نہ انہوں نے کبھی کوئی مالی مفاد لیا اور نہ لینے دیا۔ اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ ہمارے ہر ادارے ایسے لوگوں کی بھرمار ہے، لیکن بدقسمتی سے ان کو کھل کر کام کرنے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی۔ بس پھر اس کمیٹی سے ایسے تمام لوگوں کی تحقیقات کروائی جائے جن پر پیسہ کھانے یا ملک لوٹنے کا الزام ہے، کیونکہ شاید اب ہمارے پاس یہ آخری موقع ہے، اگر یہ بھی ضائع کردیا گیا تو پھر کوئی بھی نہیں بچا سکے گا۔ شاید پھر ہمیں احساس ہو کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، جو ہر کسی کو نہیں ملا کرتی، اور جب نعمت کی ناشکری کی جائے تو سزا ملتی ہے، لازمی ملتی ہے، اور وہ سزا ہمیں بھی ملے گی کہ خدا کی جانب سے ملنے والی نعمت 'پاکستان' کے ساتھ ہم سب نے ملکر ظلم کیا۔
[poll id="1076"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔