جب ہنسانے والا ہی رلا گیا
اے اللہ معین اختر نے عمر بھر لوگوں کو خوش رکھا تو بھی انہیں اپنے یہاں ہمیشہ خوش رکھنا۔
آج 22 اپریل کو معین اختر کو ہم سے جدا ہوئے پانچ سال بیت گئے۔ معین اختر نے مخصوص انداز گفتگو اور چٹکلوں سے لاکھوں لوگوں کے دلوں پر راج کیا، اور یہ انہی کا کمال تھا کہ وہ گھٹن زدہ ماحول میں بھی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے تھے۔
24 دسمبر 1950ء کو شہر قائد کراچی میں پیدا ہوئے معین اختر نے لڑکپن میں ہی شوبز کی دنیا میں اپنا مقام بنایا اور ہر بڑے اداکار کی طرح معین اختر کی بھی فنی درسگاہ ریڈیو پاکستان کراچی ہی رہی۔ معین اختر نے اپنے 45 سالہ کیرئیر میں ہزاروں کردار ادا کئے۔ گلوکاری کا شوق بھی زمانہ جوانی سے رہا جس کی تسکین کی خاطر کئی گانے بھی گائے۔ اسٹیج ڈراموں میں اکثر بہت شوق سے 'کوکو کورینا' کے بول والا نغمہ گایا کرتے تھے۔ طنز و مزاح کے علاوہ کسی بھی شخص کی پیروڈی کرنے میں کمال رکھتے تھے۔
معروف لکھاری انور مقصود کے ساتھ ان کے ٹی وی شوز بہت مقبول ہوئے۔ اسٹیج ڈراموں کے علاوہ کئی ٹی وی سیریل میں اپنی اداکاری کے جوہر دیکھائے۔ ان کے مقبول ترین ڈراموں اور پروگراموں میں روزی، لوز ٹاک، آنگن ٹیڑھا، عید ٹرین، اسٹوڈیو ڈھائی، اسٹوڈیو پونے تین، ففٹی ففٹی، ہاف پلیٹ، سچ مچ شامل ہیں۔ معین اختر نے ہنستے ہنساتے قہقہوں کی گونجوں میں اس معاشرے میں پھیلی برائیوں اور کئی سماجی اور معاشرتی مسائل کی جانب حکمرانوں کی توجہ مبذول کرائی۔ ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز اور ستارہ حسن کارکردگی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ معین اختر نجی محفلوں میں بھی ایسے جملے کس دیا کرتے تھے جس کی بازگشت حکومتی ایوانوں میں بھی سنائی دیتی تھی۔
معین اختر نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا صرف پاکستان میں نہیں منوایا بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی ان کے بے شمار مداح ہیں۔ کئی پروگراموں میں ان کی دلیپ کمار کی پیروڈی کو بہت پسند کیا گیا۔
22 اپریل 2011ء کو شوبز کی دنیا کا یہ چمکتا دمکتا ستارہ ہمیشہ کے لئے بجھ ہوگیا۔ ان کے انتقال کی خبر نے پورے پاکستان کو سوگوار کردیا، اور آج بھی جب اُن کی یاد آتی ہے تو اُن کا کام دیکھ کر پہلے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے پھر دل سوگوار ہوجاتا ہے کہ اب وہ ہم میں نہیں ہیں۔ معین اختر شوبز کی دنیا کا ایک چمکتا ستارہ ہونے کے ساتھ درویش صفت انسان بھی تھے۔ ان کے انتقال کے بعد اداکار لہری کے علاوہ ایسے بے شمار نام سامنے آئے جن کی معین اختر اپنی حیات میں مالی معاونت کیا کرتے تھے، لیکن کمال یہ تھا کہ کسی تیسرے اس بات کی خبر تک نہیں ہونے دی۔
شہر کراچی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے قدرے محفوظ علاقے ملیر کینٹ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ معین اختر کے جنازے میں شامل تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی اداکار کے جنازے میں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نہیں دیکھی تھی۔ جنازہ دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ گویا پورا شہر امڈ آیا ہو۔
آج معین اختر قائد اعظم انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ ان کی قبر آج بھی کچی ہے، میں جب بھی ان کی قبر پر جاتا ہوں تو ان کی مغفرت کی دعا کے ساتھ یہ الفاظ ضرور کہتا ہوں اے اللہ معین اختر نے عمر بھر لوگوں کو خوش رکھا تو بھی انہیں اپنے یہاں ہمیشہ خوش رکھنا۔
ساتھ ساتھ حکومت پاکستان سے بھی درخواست کرونگا کہ معین اختر کے نام سے ایک اکیڈمی کو قیام عمل میں لایا جائے جہاں نئے آنے والے اداکاروں کی رہنمائی کی جاسکے۔ ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آج بھی فیلڈ میں بہت سے اداکار موجود ہیں، لیکن معین اختر جیسا کوئی نہیں، لیکن اگر اُن کے رہنما اصولوں کو اپناتے ہوئے نئے فنکاروں کی تربیت کی جائے تو یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں ایسے روشن ستارے نظر آئیں جن میں ہمیں معین اختر کی جھلک نظر آسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
24 دسمبر 1950ء کو شہر قائد کراچی میں پیدا ہوئے معین اختر نے لڑکپن میں ہی شوبز کی دنیا میں اپنا مقام بنایا اور ہر بڑے اداکار کی طرح معین اختر کی بھی فنی درسگاہ ریڈیو پاکستان کراچی ہی رہی۔ معین اختر نے اپنے 45 سالہ کیرئیر میں ہزاروں کردار ادا کئے۔ گلوکاری کا شوق بھی زمانہ جوانی سے رہا جس کی تسکین کی خاطر کئی گانے بھی گائے۔ اسٹیج ڈراموں میں اکثر بہت شوق سے 'کوکو کورینا' کے بول والا نغمہ گایا کرتے تھے۔ طنز و مزاح کے علاوہ کسی بھی شخص کی پیروڈی کرنے میں کمال رکھتے تھے۔
معروف لکھاری انور مقصود کے ساتھ ان کے ٹی وی شوز بہت مقبول ہوئے۔ اسٹیج ڈراموں کے علاوہ کئی ٹی وی سیریل میں اپنی اداکاری کے جوہر دیکھائے۔ ان کے مقبول ترین ڈراموں اور پروگراموں میں روزی، لوز ٹاک، آنگن ٹیڑھا، عید ٹرین، اسٹوڈیو ڈھائی، اسٹوڈیو پونے تین، ففٹی ففٹی، ہاف پلیٹ، سچ مچ شامل ہیں۔ معین اختر نے ہنستے ہنساتے قہقہوں کی گونجوں میں اس معاشرے میں پھیلی برائیوں اور کئی سماجی اور معاشرتی مسائل کی جانب حکمرانوں کی توجہ مبذول کرائی۔ ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں ستارہ امتیاز اور ستارہ حسن کارکردگی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ معین اختر نجی محفلوں میں بھی ایسے جملے کس دیا کرتے تھے جس کی بازگشت حکومتی ایوانوں میں بھی سنائی دیتی تھی۔
معین اختر نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا صرف پاکستان میں نہیں منوایا بلکہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی ان کے بے شمار مداح ہیں۔ کئی پروگراموں میں ان کی دلیپ کمار کی پیروڈی کو بہت پسند کیا گیا۔
22 اپریل 2011ء کو شوبز کی دنیا کا یہ چمکتا دمکتا ستارہ ہمیشہ کے لئے بجھ ہوگیا۔ ان کے انتقال کی خبر نے پورے پاکستان کو سوگوار کردیا، اور آج بھی جب اُن کی یاد آتی ہے تو اُن کا کام دیکھ کر پہلے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے پھر دل سوگوار ہوجاتا ہے کہ اب وہ ہم میں نہیں ہیں۔ معین اختر شوبز کی دنیا کا ایک چمکتا ستارہ ہونے کے ساتھ درویش صفت انسان بھی تھے۔ ان کے انتقال کے بعد اداکار لہری کے علاوہ ایسے بے شمار نام سامنے آئے جن کی معین اختر اپنی حیات میں مالی معاونت کیا کرتے تھے، لیکن کمال یہ تھا کہ کسی تیسرے اس بات کی خبر تک نہیں ہونے دی۔
شہر کراچی کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے قدرے محفوظ علاقے ملیر کینٹ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ معین اختر کے جنازے میں شامل تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی اداکار کے جنازے میں لوگوں کی اتنی بڑی تعداد نہیں دیکھی تھی۔ جنازہ دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ گویا پورا شہر امڈ آیا ہو۔
آج معین اختر قائد اعظم انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ ان کی قبر آج بھی کچی ہے، میں جب بھی ان کی قبر پر جاتا ہوں تو ان کی مغفرت کی دعا کے ساتھ یہ الفاظ ضرور کہتا ہوں اے اللہ معین اختر نے عمر بھر لوگوں کو خوش رکھا تو بھی انہیں اپنے یہاں ہمیشہ خوش رکھنا۔
ساتھ ساتھ حکومت پاکستان سے بھی درخواست کرونگا کہ معین اختر کے نام سے ایک اکیڈمی کو قیام عمل میں لایا جائے جہاں نئے آنے والے اداکاروں کی رہنمائی کی جاسکے۔ ایسا اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آج بھی فیلڈ میں بہت سے اداکار موجود ہیں، لیکن معین اختر جیسا کوئی نہیں، لیکن اگر اُن کے رہنما اصولوں کو اپناتے ہوئے نئے فنکاروں کی تربیت کی جائے تو یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں ایسے روشن ستارے نظر آئیں جن میں ہمیں معین اختر کی جھلک نظر آسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔