بین الاقوامی فرانزک کمپنی کی شمولیت تک تحقیقاتی کمیشن قبول نہیں خورشید شاہ
آف شور کمپنیوں کا الزام ہم نے نہیں لگایا یہ عالمی معاملہ ہے، قائد حزب اختلاف
GUJRANWALA:
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہےکہ تحقیقاتی کمیشن میں بین الاقوامی فرانزک کمپنی کی شمولیت تک اسے نہیں مانیں گے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''جی فارغریدہ'' میں میزبان غریدہ فاروقی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ دنیا میں 2 ممالک کے وزرائےاعظم نے پاناما لیکس میں نام آنے پر استعفیٰ دیا لیکن اپوزیشن نے وزیراعظم سے استعفیٰ نہیں مانگا ہم نے صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ تحقیقاتی کمیشن پراس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گے جب تک بین الاقوامی فرانزک آڈٹ کمپنی کمیشن کا حصہ نہیں بنتی کیونکہ جج صاحبان کہتے ہیں کہ جس کے پاس ثبوت ہیں وہ لے آئے لیکن یہ الزام ہم نے نہیں لگایا یہ تو انٹرنیشنل آف شور کمپنیاں ہیں اور وہاں سے یہ معاملہ آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی حفاظت کل بھی کی تھی اور آگے بھی کرتے رہیں گے لیکن ہم سسٹم کو بہتر کرنا چاہتے ہیں کیوں اسی میں وزیراعظم اور اپوزیشن دونوں کو ہی جواب دینا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب پیپلزپارٹی کو تو کم از کم نہ کہیں کیوں کہ ہم نے تو پہلے دن سے ہی نواز حکومت کا ساتھ دیا ہے۔
دوسری جانب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وزیراعظم نوازشریف کے قوم سے خطاب پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے چیرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم کو اپنے مشورے پرعمل کرتے ہوئے استعفیٰ پیش کرنا چاہیے جب کہ انہیں ابھی پارلیمنٹ کےسامنے صفائی بھی پیش کرنی ہے۔
ادھر اپوزیشن رہنماؤں نے وزاعظم نوازشریف کی جانب سے چیف جسٹس کے ذریعے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کو اپنی کامیابی قراردیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''جی فار غریدہ'' میں میزبان غریدہ فاروقی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ چیف جسٹس کو خط لکھنا اور کمیشن بنانے کا اعلان کرنا عوام اور اپوزیشن کی کامیابی ہے تاہم چاہتے ہیں کہ باقی معاملات بھی اپوزیشن کی مشاورت سے حل ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ملک میں جاری کرپشن کے دوسرے معاملات پر کوئی بات نہیں کی جب کہ کرپشن کا خاتمہ پورے ملک کا مطالبہ ہے تاہم ہم کرپشن فری پاکستان کی مہم کو مزید تیز کریں گے۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ اگر کمیشن وجود میں آجاتا ہے اس کے سامنے وزیراعظم پیش ہوجاتے ہیں اور احتساب کے بعد دوبارہ بحال ہوجاتے ہیں تو ہم ان کو شاباش دیں گے کیونکہ ہماری ان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جس طرح پاکستان، وزیراعظم اور ان کے خاندان کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے وہ اخلاقی ساکھ دوبارہ بحال ہوجائے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا اعلان اپوزیشن جماعتوں کی پہلی کامیابی ہے کیونکہ پہلے خطاب میں وزیراعظم نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن کا کہا تھا تاہم اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا چیف جسٹس خط کا جواب کیا دیتے ہیں، خط کا متن کیا ہوگا، کمیشن کے اختیارات کیا ہوں گے اور ہمارا جو مطالبہ تھا کہ انٹرنیشل فرانزک ٹیم بھی اس کا حصہ ہو وہ اس میں شامل ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خط کے ٹی او آرز پرحکومت کو چاہیے تھا کہ اپوزیشن سے مشاورت کرے کیونکہ اگر ہماری مشاورت کے بغیر یہ ہوا ہے تو قابل قبول نہیں ہوگا، حکومت کو چاہیے کہ خط میں موجود ٹی آر اوز پر ہمارا مؤقف سنیں کیونکہ ٹی او آرز سارے کمیشن کی جان ہے لیکن اگر ٹی او آرز یک طرفہ ہیں تو ہمیں قبول نہیں ہوں گے کیونکہ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اس پر اپوزیشن کی رائے لی جائے گی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا پاکستان تحریک انصاف چاہتی ہے کہ شفاف تحقیقات ہوں اور تمام حقائق قوم کے سامنے آنے چاہئیں، جس کے اثاثے ہیں وہ سب سامنے آنا چاہئیں، اور اس کے علاوہ جس جس نے قوم کا خزانہ خالی کیا ہے ان سب کا احتساب ہونا چاہیے۔
اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کا بنیادی طور پر چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا ہی مطالبہ تھا جو پورا ہوگیا اور ہمارا بھی روز اول سے یہی مؤقف تھا کہ غیر جانبدار تحقیقاتی کمیشن بننا چاہیے تاہم تمام اپوزیشن کی جماعتیں آپس میں ملاقات کرکے اس کا جائزہ بھی لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی پہلی غلطی تھی کہ بغیر کسی سے مشاورت کے اعلان کردیا اور اب ٹی آر اوز میں بھی سب کا مؤقف لینا چاہیے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا ہےکہ تحقیقاتی کمیشن میں بین الاقوامی فرانزک کمپنی کی شمولیت تک اسے نہیں مانیں گے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''جی فارغریدہ'' میں میزبان غریدہ فاروقی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ دنیا میں 2 ممالک کے وزرائےاعظم نے پاناما لیکس میں نام آنے پر استعفیٰ دیا لیکن اپوزیشن نے وزیراعظم سے استعفیٰ نہیں مانگا ہم نے صرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ تحقیقاتی کمیشن پراس وقت تک مطمئن نہیں ہوں گے جب تک بین الاقوامی فرانزک آڈٹ کمپنی کمیشن کا حصہ نہیں بنتی کیونکہ جج صاحبان کہتے ہیں کہ جس کے پاس ثبوت ہیں وہ لے آئے لیکن یہ الزام ہم نے نہیں لگایا یہ تو انٹرنیشنل آف شور کمپنیاں ہیں اور وہاں سے یہ معاملہ آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی حفاظت کل بھی کی تھی اور آگے بھی کرتے رہیں گے لیکن ہم سسٹم کو بہتر کرنا چاہتے ہیں کیوں اسی میں وزیراعظم اور اپوزیشن دونوں کو ہی جواب دینا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میاں صاحب پیپلزپارٹی کو تو کم از کم نہ کہیں کیوں کہ ہم نے تو پہلے دن سے ہی نواز حکومت کا ساتھ دیا ہے۔
دوسری جانب سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر وزیراعظم نوازشریف کے قوم سے خطاب پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے چیرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم کو اپنے مشورے پرعمل کرتے ہوئے استعفیٰ پیش کرنا چاہیے جب کہ انہیں ابھی پارلیمنٹ کےسامنے صفائی بھی پیش کرنی ہے۔
ادھر اپوزیشن رہنماؤں نے وزاعظم نوازشریف کی جانب سے چیف جسٹس کے ذریعے تحقیقاتی کمیشن کے قیام کو اپنی کامیابی قراردیا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام ''جی فار غریدہ'' میں میزبان غریدہ فاروقی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ چیف جسٹس کو خط لکھنا اور کمیشن بنانے کا اعلان کرنا عوام اور اپوزیشن کی کامیابی ہے تاہم چاہتے ہیں کہ باقی معاملات بھی اپوزیشن کی مشاورت سے حل ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ملک میں جاری کرپشن کے دوسرے معاملات پر کوئی بات نہیں کی جب کہ کرپشن کا خاتمہ پورے ملک کا مطالبہ ہے تاہم ہم کرپشن فری پاکستان کی مہم کو مزید تیز کریں گے۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ اگر کمیشن وجود میں آجاتا ہے اس کے سامنے وزیراعظم پیش ہوجاتے ہیں اور احتساب کے بعد دوبارہ بحال ہوجاتے ہیں تو ہم ان کو شاباش دیں گے کیونکہ ہماری ان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر جس طرح پاکستان، وزیراعظم اور ان کے خاندان کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے وہ اخلاقی ساکھ دوبارہ بحال ہوجائے۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا اعلان اپوزیشن جماعتوں کی پہلی کامیابی ہے کیونکہ پہلے خطاب میں وزیراعظم نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن کا کہا تھا تاہم اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا چیف جسٹس خط کا جواب کیا دیتے ہیں، خط کا متن کیا ہوگا، کمیشن کے اختیارات کیا ہوں گے اور ہمارا جو مطالبہ تھا کہ انٹرنیشل فرانزک ٹیم بھی اس کا حصہ ہو وہ اس میں شامل ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خط کے ٹی او آرز پرحکومت کو چاہیے تھا کہ اپوزیشن سے مشاورت کرے کیونکہ اگر ہماری مشاورت کے بغیر یہ ہوا ہے تو قابل قبول نہیں ہوگا، حکومت کو چاہیے کہ خط میں موجود ٹی آر اوز پر ہمارا مؤقف سنیں کیونکہ ٹی او آرز سارے کمیشن کی جان ہے لیکن اگر ٹی او آرز یک طرفہ ہیں تو ہمیں قبول نہیں ہوں گے کیونکہ ہم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اس پر اپوزیشن کی رائے لی جائے گی۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا پاکستان تحریک انصاف چاہتی ہے کہ شفاف تحقیقات ہوں اور تمام حقائق قوم کے سامنے آنے چاہئیں، جس کے اثاثے ہیں وہ سب سامنے آنا چاہئیں، اور اس کے علاوہ جس جس نے قوم کا خزانہ خالی کیا ہے ان سب کا احتساب ہونا چاہیے۔
اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کا بنیادی طور پر چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا ہی مطالبہ تھا جو پورا ہوگیا اور ہمارا بھی روز اول سے یہی مؤقف تھا کہ غیر جانبدار تحقیقاتی کمیشن بننا چاہیے تاہم تمام اپوزیشن کی جماعتیں آپس میں ملاقات کرکے اس کا جائزہ بھی لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی پہلی غلطی تھی کہ بغیر کسی سے مشاورت کے اعلان کردیا اور اب ٹی آر اوز میں بھی سب کا مؤقف لینا چاہیے۔