جب سنگ تراش نے مجسمے سے شادی کی
محبت کی دیوی ایفرودیت، سنگ تراش پگمالین اور Galatea نامی مجسمے کی انوکھی داستان
یہ یونان کی ایک قدیم کہانی ہے، جس میں پگمالین نامی ایک سنگ تراش کا قصہ بیان کیا گیا ہے جو جزیرۂ قبرص پر رہا کرتا تھا۔ اسے عورتوں سے سخت الجھن ہوتی تھی، اس لیے وہ ان سے دور ہی رہتا تھا۔ قبرص میں اس دور میں محبت کی دیوی ایفرودیت بھی رہتی تھی۔ ایفرودیت نے پگمالین کے دل میں محبت کی جوت کچھ اس طرح جگائی کہ پگمالین عورتوں سے زیادہ عرصے دور نہ رہ سکا۔ ہوا یوں کہ پگمالین نے اپنی سنگ تراشی کی مہارت دکھاتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے ایک عورت کا مجسمہ تراشا تھا جو اتنا حسین تھا کہ خود پگمالین اس مجسمے کے عشق میں مبتلا ہوگیا۔
جزیرۂ قبرص آج کے دور کے ترکی اور شام سے زیادہ دور واقع نہیں ہے۔ اس سرزمین کے بیچوں بیچ فلک بوس پہاڑ کھڑے ہیں جن کی برف پوش چوٹیاں دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ یہ پورا علاقہ سرسبز اور طویل درختوں سے بھرا ہوا ہے۔ دور قدیم میں یہ خطہ محبت کی دیوی ایفرودیت کے حوالے سے بہت مشہور ہوا تھا۔ یہاں Paphos نامی ساحلی شہر کے کھنڈرات بھی واقع ہیں جو اصل میں اس شہر کی پناہ گاہ ہے جہاں لوگ خطرات سے بچنے کے لیے پناہ لیتے تھے۔ اگر یہاں کھڑے ہوکر بہت دھیان اور توجہ سے سمندر کا نظارہ کیا جائے تو آپ کو ایک حسین و جمیل عورت دکھائی دے گی جو سمندر کی سطح پر ہلکورے کھاتے جھاگوں کے درمیان ایک گھونگے پر سوار نظر آئے گی۔ یہ عورت سمندر کے پانی پر ہمیشہ اسی جگہ تیرتی رہتی ہے۔
یہ صدیوں پرانی کہانی ہے جب پگمالین نامی ایک شخص نے قبرص کے لوگوں کو محبت کا ایک انوکھا سبق پڑھایا تھا۔ یہ سنگ تراش عام طور سے دیوی، دیوتاؤں اور بڑے بڑے مشہور سورماؤں کے مجسمے تیار کرتا تھا۔ پگمالین جزیرے پر بہت زیادہ آتا جاتا رہتا تھا۔ وہ اپنے کام میں بہت ماہر تھا۔ کہتے تھے کہ پتھر اس کے ہاتھوں میں آکر موم کی طرح پگھل جاتا تھا اور اسے وہ جس طرح چاہتا، تراش لیتا تھا۔ اہل قبرص اس کی ہنرمندی کی بہت تعریف کرتے تھے، اس کے تیار کردہ مجسموں کو دیکھنے والوں کا کہنا تھا کہ انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان میں ابھی جان پڑجائے گی اور یہ ابھی بول پڑیں گے۔
لیکن پگمالین کی عجیب و غریب عادات تھیں۔ وہ عورتوں کے سائے سے بھی بچتا تھا اور ہر ممکن حد تک ان سے دور رہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ عورتیں حاسد، شکی، جھگڑالو اور خود پسند ہوتی ہیں، اپنی تعریف سننا پسند کرتی ہیں۔اس کا کہنا تھا کہ زندگی گزارنے کے لیے عورت کی کوئی ضرورت نہیں، اگر اچھی زندگی گزارنی ہے تو پوری زندگی فن اور آرٹ یعنی سنگ تراشی کے لیے وقف کردینی چاہیے۔ وہ اتنا ماہر سنگ تراش تھا کہ اگر کسی جیتے جاگتے انسان کو پیڈسٹل پر کھڑا کردیتا تو وہ بھی مجسمہ بن جاتا تھا۔
اپنی پوری کوشش کے باوجود پگمالین خود کو عورتوں سے دور نہ رکھ سکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے تراشے ہوئے مجسموں کی اکثر خریدار عورتیں ہی ہوا کرتی تھیں جو اپنے لیے دیوی دیوتاؤں کے مجسمے پسند کرنے اس کے اسٹوڈیو میں آتی رہتی تھیں۔عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں دیوی دیوتاؤں کے مجسموں کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے اکثر خواتین ایسے مجسمے خریدنے پگمالین کے پاس آتی تھیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے جسمانی خطوط کو بہ غور دیکھتا تھا، تاکہ بعد میں مجسمے بناتے وقت انہیں ذہن میں رکھ سکے اور اس تجربے سے فائدہ اٹھاسکے۔
ایک رات کا ذکر ہے کہ پگمالین سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹا تو ایفرودیت بہ ذات خود اس کے سامنے نمودار ہوگئی اور اس سے کہا:''سنو پگمالین! اگر تم کسی عورت سے محبت کرنے سے انکار کرتے ہو تو گویا میری توہین کرتے ہو اور میں یہ برداشت نہیں کروں گی۔ اس گاؤں میں متعدد حسین و جمیل عورتیں ہیں، تم ان میں سے کسی سے شادی کرلو، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو پھر میں خود ہی تمہارے لیے کوئی مناسب عورت چن لوں گی۔ بولو کیا کہتے ہو!''
پگمالین کو یہ سن کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ ایک دیوی اسے شادی کرنے کا حکم دے رہی ہے۔ یہ حکم نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے گویا موت کا پروانہ تھا۔ اگر وہ دیوی کی حکم عدولی کرتا تو بڑی مشکل میں پھنس جاتا، اس لیے اس نے کچھ سوچنے کے بعد بڑی عاجزی سے دیوی کی خدمت میں عرض کیا:''اے دیوی! شادی کرنے سے پہلے میں اپنی زندگی کا سب سے عظیم اور سب سے بڑا شاہ کار تیار کرنا چاہتا ہوں۔ اے دیوی! مجھے اتنا وقت دے دے کہ میں تجھ جیسا ایک بے مثال مجسمہ بنادوں، یہ زندگی اور حسن سے بھرپور مجسمہ میری زندگی کا حاصل ہوگا جو میں تیری نذر کرسکوں گا۔ اگر میں نے شادی کرلی تو یہ کام نہیں کرسکوں گا، کیوں کہ اس مجسمے کے حسن اور خوب صورتی کو دیکھ کر میری بیوی اس سے حسد کرنے لگے گی جس سے میرا کام متاثر ہوجائے گا۔''ایفرودیت خوشامد پسند تو تھی ہی، اس نے سنگ تراش کی بات سن کر اسے اجازت دیتے ہوئے کہا:''ٹھیک ہے تو میرا مجسمہ تیار کر، میں اس کا بے چینی سے انتظار کروں گی، مگر یہ کام مکمل کرتے ہی تجھے شادی کرنی ہوگی، یہ میرا حکم ہے۔''
صبح ہوتے ہی پگمالین بندرگاہ پہنچا اور وہاں ایک سوداگر سے کہا کہ میرے لیے افریقا سے بہترین قسم کا ہاتھی دانت منگوادو۔ میں اس کی منہ مانگی قیمت ادا کروں گا۔ وہ جانتا تھا کہ افریقا سے ہاتھی دانت آنے میں کئی ماہ لگیں گے، جب ہاتھ دانت آگیا تو اس نے دیوی کے مختلف انداز کے چھوٹے چھوٹے مجسمے بنانے شروع کردیے۔ ایک رات ایفرودیت اس کے خواب میں آئی اور اس سے اپنے کام میں دیر کرنے کی شکایت کی تو پگمالین نے جواب دیا:''فن اور آرٹ کبھی جلدی میں نہیں کیا جاتا، اس میں اچھا خاصا وقت لگتا ہے۔ یہ صبر آزما کام ہے۔'' اس کا جواب سن کر دیوی چپ ہوگئی۔ اس طرح ایک سال گزر گیا، پگمالین اپنے کام میں تاخیر کرتا رہا اور ایفرودیت سے بہانے پر بہانے بناتا رہا۔ اس کے بعد اس نے ایک لائف سائز مجسمہ بنانے کا ایسا زبردست کام شروع کیا جو دیکھنے میں بالکل حقیقی لگے۔ سنگ تراش نے اس مجسمے کو ہر لحاظ سے بالکل پرفیکٹ بنانے کا ارادہ کررکھا تھا۔ ہاتھی دانت کی سطح برف کی طرح سفید بنائی گئی تھی۔ اس کا حسن اس قدر بے مثال تھا کہ شاید اصل عورت کا بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اسے دیکھنے پر ایسا لگتا تھا جیسے یہ ابھی بول پڑے گی۔
پگمالین نے مجسمے کی آنکھوں کو نیلا رنگ دیا جس میں دن کی روشنی دکھائی دیتی تھی۔ اس کے بالوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے باد نسیم اس کے بالوں کو ہلکورے دے رہی ہے۔ اس کے ادھ کھلے ہونٹ بے نظیر تھے۔ لگتا تھا کہ اب بولی، مگر وہ اپنی جگہ ساکت تھی۔ سنگ تراش اپنے اس شاہ کار کو دیکھ کر خوشی سے پاگل ہوا جارہا تھا۔ اسے اپنی تخلیق پر حقیقت کا گمان ہورہا تھا۔ پھر اس نے یہ جاننے کے لیے مجسمے کا ہاتھ پکڑکر بھی دیکھا کہ کیا وہ واقعی ہاتھی دانت سے بنایا گیا ہے یا کہیں واقعی گوشت پوست کی عورت تو نہیں ہے۔
پگمالین جانتا تھا کہ وہ حقیقت میں عورت نہیں، بل کہ ہاتھی دانت سے تیار کیا ہوا ایک مجسمہ ہے۔ پھر اس نے جذبات سے مغلوب ہوکر اس مجسمے کے ماتھے پر پیار کیا تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے جواب میں مجسمے نے بھی اسے پیار کیا ہے۔ پھر اس نے مجسمے سے باتیں کیں، اس کے حسن کی تعریف کی تو اسے ایسا لگا جیسے جواب میں بھی مجسمے نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔سنگ تراش نے مجسمے کے لیے اس کی پسند کے بہت سے قیمتی تحفے بھی خریدے۔ اس نے اپنے ''شاہ کار'' کے لیے خالص چاندی اور عنبر سے نفیس اور نازک زیورات بھی تیار کیے۔ اس نے ایک پیاری سی انگوٹھی مجسمے کی انگلی میں پہنائی اور اسے خوش نما رنگوں سے تیار کردہ لباس بھی زیب تن کرائے، یہاں تک کہ اس نے اپنے محبوب مجسمے کے لیے ایک پیارا سا پالتو پرندہ بھی خریدا جو اس کی عدم موجودگی میں مجسمے کے ساتھ رہتا تھا۔ پھر پگمالین نے اس مجسمے کو بستر پر لٹادیا، اس کے سر کے نیچے ایک نرم و ملائم تکیہ بھی رکھ دیا۔ جب سنگ تراش نے اس سے بات شروع کی تو اسے Galatea کہہ کر مخاطب کیا۔ اس طرح اس نے اپنے شاہ کار کو ایک نام بھی دے دیا تھا۔
ایفرودیت یہ سب دیکھ رہی تھی اور سنگ تراش کی عقل پر ہنس رہی تھی کہ جو شخص ساری زندگی عورتوں سے دور رہا، وہ کس طرح ایک خیالی یا تصوراتی عورت کے عشق میں گرفتار ہوگیا تھا۔ آج ایفرودیت کو اپنی طاقت یعنی عورت کی طاقت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ وہ یہ سوچ سوچ کر خوش ہورہی تھی کہ میری طاقت باقی تمام دیوی دیوتاؤں سے کہیں زیادہ ہے۔ چناں چہ اس نے اہل قبرص کو جشن منانے کا حکم دیا۔ لوگوں نے گلیوں اور سڑکوں پر گانے گائے، رقص کیا ۔ یہ موقع غنیمت جانتے ہوئے پگمالین نے ایفرودیت کے حضور جھک کر دعا کی:
''اے با اختیار ایفرودیت! میں نے اپنے لیے لڑکی پسند کرلی ہے، میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ میرا تیار کیا ہوا مجسمہ ہے۔ تو اس بے جان مجسمے میں جان ڈال دے، میں اس کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں کرسکتا۔''ایفرودیت نے دیکھ لیا تھا کہ اب پگمالین بدل چکا ہے۔ اس کے دل میں محبت کی جوت جاگ چکی تھی اور یہ ایفرودیت کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ چناں چہ اس نے مندر میں روشن آگے کے شعلوں کو تیز کردیا اور خوشی سے ناچنے لگی۔ پگمالین سمجھ گیا کہ ایفرودیت نے اس کی دعا سن لی ہے، چناں چہ وہ اپنے گھر کی طرف دوڑا، گھر کے اندر وہ حسین و جمیل مجسمہ پہلے کی طرح ساکت اور بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ یہ دیکھ کر مایوسی سے سنگ تراش کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس نے مجسمے کا دودھیا سفید ہاتھ پکڑا اور اسے احترام سے تھپکنے لگا۔اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کی جلد نرم ہورہی ہے، وہ اب دودھیا سفید کے بجائے گلابی رنگت اختیار کررہی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مجسمے کے اندر زندگی کی حرارت پیدا ہورہی تھی۔ پھر مجسمے نے اپنا سر پیچھے کی طرف جھکایا تو اس کے لمبے بال اس کے کندھوں پر گرے۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور حرکت پیدا ہوئی اور منہ بھی کھل گیا۔ آخر پگمالین کا تیار کردہ مجسمہ زندہ ہوگیا تھا۔ بلاشبہہ یہ پگمالین کی بہت بڑی جیت تھی، وہ محبت کے ہاتھوں مفتوح ہوگیا تھا۔
اس کے بعد پگمالین نے اپنے اس مجسمے سے جسے اس نے Galatea کا نام دیا تھا، شادی کرلی۔ مگر شادی کے بعد اسے احساس ہوا کہ اب وہ پرفیکٹ نہیں رہی تھی، کیوں کہ کوئی بھی زندہ انسان کبھی پرفیکٹ نہیں ہوتا، پرفیکٹ ہونا تو صرف مجسموں کے نصیب میں ہوتا ہے۔ لیکن Galatea بہت حسین تھی اور یہی پگمالین کے لیے کافی تھا۔ انہوں نے خوشیوں سے بھرپور زندگی گزاری۔ ایک سال بعد ان کے ہاں ایک پیارا سا بیٹا بھی پیدا ہوا۔ انہوں نے اسے Paphos کا نام دیا، وقت گزرنے کے ساتھ ہی اس جزیرے کا نام اس بچے کے نام پر Paphos ہی پڑگیا۔
یہ ہے وہ قدیم اساطیری کہانی جس پر بعد میں آئرلینڈ کے شہرۂ آفاق رائٹر جارج برنارڈ شا نے Pygmalion نامی ایک ڈراما بھی لکھا تھا، لیکن درحقیقت وہ ڈراما کسی مجسمے کے بارے میں نہیں تھا، بل کہ ایلزا ڈولٹل نامی ایک انگریز لڑکی کے بارے میں تھا۔ ایک مہذب اور شریف آدمی نے اس لڑکی کو آداب اخلاق اور تہذیب و شائستگی سکھا کر اسے ایک بے مثال اور شریف خاتون کے روپ میں ڈھالا تھا جس کے نتیجے میں وہ عورت اس کے فن اور ہنرمندی کا بہترین نمونہ ثابت ہوئی تھی۔ بعد میں اس ڈرامے کو غنائیہ شکل دی گئی اور اس کا عنوان ''مائی فیئر لیڈی'' رکھا گیا۔ اس میں آڈرے ہپ برن اور ریکس ہیریسن نے کام کیا تھا۔
جزیرۂ قبرص آج کے دور کے ترکی اور شام سے زیادہ دور واقع نہیں ہے۔ اس سرزمین کے بیچوں بیچ فلک بوس پہاڑ کھڑے ہیں جن کی برف پوش چوٹیاں دیکھنے والوں کو دعوت نظارہ دیتی ہیں۔ یہ پورا علاقہ سرسبز اور طویل درختوں سے بھرا ہوا ہے۔ دور قدیم میں یہ خطہ محبت کی دیوی ایفرودیت کے حوالے سے بہت مشہور ہوا تھا۔ یہاں Paphos نامی ساحلی شہر کے کھنڈرات بھی واقع ہیں جو اصل میں اس شہر کی پناہ گاہ ہے جہاں لوگ خطرات سے بچنے کے لیے پناہ لیتے تھے۔ اگر یہاں کھڑے ہوکر بہت دھیان اور توجہ سے سمندر کا نظارہ کیا جائے تو آپ کو ایک حسین و جمیل عورت دکھائی دے گی جو سمندر کی سطح پر ہلکورے کھاتے جھاگوں کے درمیان ایک گھونگے پر سوار نظر آئے گی۔ یہ عورت سمندر کے پانی پر ہمیشہ اسی جگہ تیرتی رہتی ہے۔
یہ صدیوں پرانی کہانی ہے جب پگمالین نامی ایک شخص نے قبرص کے لوگوں کو محبت کا ایک انوکھا سبق پڑھایا تھا۔ یہ سنگ تراش عام طور سے دیوی، دیوتاؤں اور بڑے بڑے مشہور سورماؤں کے مجسمے تیار کرتا تھا۔ پگمالین جزیرے پر بہت زیادہ آتا جاتا رہتا تھا۔ وہ اپنے کام میں بہت ماہر تھا۔ کہتے تھے کہ پتھر اس کے ہاتھوں میں آکر موم کی طرح پگھل جاتا تھا اور اسے وہ جس طرح چاہتا، تراش لیتا تھا۔ اہل قبرص اس کی ہنرمندی کی بہت تعریف کرتے تھے، اس کے تیار کردہ مجسموں کو دیکھنے والوں کا کہنا تھا کہ انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان میں ابھی جان پڑجائے گی اور یہ ابھی بول پڑیں گے۔
لیکن پگمالین کی عجیب و غریب عادات تھیں۔ وہ عورتوں کے سائے سے بھی بچتا تھا اور ہر ممکن حد تک ان سے دور رہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ عورتیں حاسد، شکی، جھگڑالو اور خود پسند ہوتی ہیں، اپنی تعریف سننا پسند کرتی ہیں۔اس کا کہنا تھا کہ زندگی گزارنے کے لیے عورت کی کوئی ضرورت نہیں، اگر اچھی زندگی گزارنی ہے تو پوری زندگی فن اور آرٹ یعنی سنگ تراشی کے لیے وقف کردینی چاہیے۔ وہ اتنا ماہر سنگ تراش تھا کہ اگر کسی جیتے جاگتے انسان کو پیڈسٹل پر کھڑا کردیتا تو وہ بھی مجسمہ بن جاتا تھا۔
اپنی پوری کوشش کے باوجود پگمالین خود کو عورتوں سے دور نہ رکھ سکا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے تراشے ہوئے مجسموں کی اکثر خریدار عورتیں ہی ہوا کرتی تھیں جو اپنے لیے دیوی دیوتاؤں کے مجسمے پسند کرنے اس کے اسٹوڈیو میں آتی رہتی تھیں۔عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں دیوی دیوتاؤں کے مجسموں کی ضرورت ہوتی ہے، اسی لیے اکثر خواتین ایسے مجسمے خریدنے پگمالین کے پاس آتی تھیں اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے جسمانی خطوط کو بہ غور دیکھتا تھا، تاکہ بعد میں مجسمے بناتے وقت انہیں ذہن میں رکھ سکے اور اس تجربے سے فائدہ اٹھاسکے۔
ایک رات کا ذکر ہے کہ پگمالین سونے کے لیے اپنے بستر پر لیٹا تو ایفرودیت بہ ذات خود اس کے سامنے نمودار ہوگئی اور اس سے کہا:''سنو پگمالین! اگر تم کسی عورت سے محبت کرنے سے انکار کرتے ہو تو گویا میری توہین کرتے ہو اور میں یہ برداشت نہیں کروں گی۔ اس گاؤں میں متعدد حسین و جمیل عورتیں ہیں، تم ان میں سے کسی سے شادی کرلو، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو پھر میں خود ہی تمہارے لیے کوئی مناسب عورت چن لوں گی۔ بولو کیا کہتے ہو!''
پگمالین کو یہ سن کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ ایک دیوی اسے شادی کرنے کا حکم دے رہی ہے۔ یہ حکم نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے گویا موت کا پروانہ تھا۔ اگر وہ دیوی کی حکم عدولی کرتا تو بڑی مشکل میں پھنس جاتا، اس لیے اس نے کچھ سوچنے کے بعد بڑی عاجزی سے دیوی کی خدمت میں عرض کیا:''اے دیوی! شادی کرنے سے پہلے میں اپنی زندگی کا سب سے عظیم اور سب سے بڑا شاہ کار تیار کرنا چاہتا ہوں۔ اے دیوی! مجھے اتنا وقت دے دے کہ میں تجھ جیسا ایک بے مثال مجسمہ بنادوں، یہ زندگی اور حسن سے بھرپور مجسمہ میری زندگی کا حاصل ہوگا جو میں تیری نذر کرسکوں گا۔ اگر میں نے شادی کرلی تو یہ کام نہیں کرسکوں گا، کیوں کہ اس مجسمے کے حسن اور خوب صورتی کو دیکھ کر میری بیوی اس سے حسد کرنے لگے گی جس سے میرا کام متاثر ہوجائے گا۔''ایفرودیت خوشامد پسند تو تھی ہی، اس نے سنگ تراش کی بات سن کر اسے اجازت دیتے ہوئے کہا:''ٹھیک ہے تو میرا مجسمہ تیار کر، میں اس کا بے چینی سے انتظار کروں گی، مگر یہ کام مکمل کرتے ہی تجھے شادی کرنی ہوگی، یہ میرا حکم ہے۔''
صبح ہوتے ہی پگمالین بندرگاہ پہنچا اور وہاں ایک سوداگر سے کہا کہ میرے لیے افریقا سے بہترین قسم کا ہاتھی دانت منگوادو۔ میں اس کی منہ مانگی قیمت ادا کروں گا۔ وہ جانتا تھا کہ افریقا سے ہاتھی دانت آنے میں کئی ماہ لگیں گے، جب ہاتھ دانت آگیا تو اس نے دیوی کے مختلف انداز کے چھوٹے چھوٹے مجسمے بنانے شروع کردیے۔ ایک رات ایفرودیت اس کے خواب میں آئی اور اس سے اپنے کام میں دیر کرنے کی شکایت کی تو پگمالین نے جواب دیا:''فن اور آرٹ کبھی جلدی میں نہیں کیا جاتا، اس میں اچھا خاصا وقت لگتا ہے۔ یہ صبر آزما کام ہے۔'' اس کا جواب سن کر دیوی چپ ہوگئی۔ اس طرح ایک سال گزر گیا، پگمالین اپنے کام میں تاخیر کرتا رہا اور ایفرودیت سے بہانے پر بہانے بناتا رہا۔ اس کے بعد اس نے ایک لائف سائز مجسمہ بنانے کا ایسا زبردست کام شروع کیا جو دیکھنے میں بالکل حقیقی لگے۔ سنگ تراش نے اس مجسمے کو ہر لحاظ سے بالکل پرفیکٹ بنانے کا ارادہ کررکھا تھا۔ ہاتھی دانت کی سطح برف کی طرح سفید بنائی گئی تھی۔ اس کا حسن اس قدر بے مثال تھا کہ شاید اصل عورت کا بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اسے دیکھنے پر ایسا لگتا تھا جیسے یہ ابھی بول پڑے گی۔
پگمالین نے مجسمے کی آنکھوں کو نیلا رنگ دیا جس میں دن کی روشنی دکھائی دیتی تھی۔ اس کے بالوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے باد نسیم اس کے بالوں کو ہلکورے دے رہی ہے۔ اس کے ادھ کھلے ہونٹ بے نظیر تھے۔ لگتا تھا کہ اب بولی، مگر وہ اپنی جگہ ساکت تھی۔ سنگ تراش اپنے اس شاہ کار کو دیکھ کر خوشی سے پاگل ہوا جارہا تھا۔ اسے اپنی تخلیق پر حقیقت کا گمان ہورہا تھا۔ پھر اس نے یہ جاننے کے لیے مجسمے کا ہاتھ پکڑکر بھی دیکھا کہ کیا وہ واقعی ہاتھی دانت سے بنایا گیا ہے یا کہیں واقعی گوشت پوست کی عورت تو نہیں ہے۔
پگمالین جانتا تھا کہ وہ حقیقت میں عورت نہیں، بل کہ ہاتھی دانت سے تیار کیا ہوا ایک مجسمہ ہے۔ پھر اس نے جذبات سے مغلوب ہوکر اس مجسمے کے ماتھے پر پیار کیا تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے جواب میں مجسمے نے بھی اسے پیار کیا ہے۔ پھر اس نے مجسمے سے باتیں کیں، اس کے حسن کی تعریف کی تو اسے ایسا لگا جیسے جواب میں بھی مجسمے نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔سنگ تراش نے مجسمے کے لیے اس کی پسند کے بہت سے قیمتی تحفے بھی خریدے۔ اس نے اپنے ''شاہ کار'' کے لیے خالص چاندی اور عنبر سے نفیس اور نازک زیورات بھی تیار کیے۔ اس نے ایک پیاری سی انگوٹھی مجسمے کی انگلی میں پہنائی اور اسے خوش نما رنگوں سے تیار کردہ لباس بھی زیب تن کرائے، یہاں تک کہ اس نے اپنے محبوب مجسمے کے لیے ایک پیارا سا پالتو پرندہ بھی خریدا جو اس کی عدم موجودگی میں مجسمے کے ساتھ رہتا تھا۔ پھر پگمالین نے اس مجسمے کو بستر پر لٹادیا، اس کے سر کے نیچے ایک نرم و ملائم تکیہ بھی رکھ دیا۔ جب سنگ تراش نے اس سے بات شروع کی تو اسے Galatea کہہ کر مخاطب کیا۔ اس طرح اس نے اپنے شاہ کار کو ایک نام بھی دے دیا تھا۔
ایفرودیت یہ سب دیکھ رہی تھی اور سنگ تراش کی عقل پر ہنس رہی تھی کہ جو شخص ساری زندگی عورتوں سے دور رہا، وہ کس طرح ایک خیالی یا تصوراتی عورت کے عشق میں گرفتار ہوگیا تھا۔ آج ایفرودیت کو اپنی طاقت یعنی عورت کی طاقت کا اندازہ ہوگیا تھا۔ وہ یہ سوچ سوچ کر خوش ہورہی تھی کہ میری طاقت باقی تمام دیوی دیوتاؤں سے کہیں زیادہ ہے۔ چناں چہ اس نے اہل قبرص کو جشن منانے کا حکم دیا۔ لوگوں نے گلیوں اور سڑکوں پر گانے گائے، رقص کیا ۔ یہ موقع غنیمت جانتے ہوئے پگمالین نے ایفرودیت کے حضور جھک کر دعا کی:
''اے با اختیار ایفرودیت! میں نے اپنے لیے لڑکی پسند کرلی ہے، میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور وہ لڑکی کوئی اور نہیں بلکہ میرا تیار کیا ہوا مجسمہ ہے۔ تو اس بے جان مجسمے میں جان ڈال دے، میں اس کے علاوہ کسی اور سے محبت نہیں کرسکتا۔''ایفرودیت نے دیکھ لیا تھا کہ اب پگمالین بدل چکا ہے۔ اس کے دل میں محبت کی جوت جاگ چکی تھی اور یہ ایفرودیت کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ چناں چہ اس نے مندر میں روشن آگے کے شعلوں کو تیز کردیا اور خوشی سے ناچنے لگی۔ پگمالین سمجھ گیا کہ ایفرودیت نے اس کی دعا سن لی ہے، چناں چہ وہ اپنے گھر کی طرف دوڑا، گھر کے اندر وہ حسین و جمیل مجسمہ پہلے کی طرح ساکت اور بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ یہ دیکھ کر مایوسی سے سنگ تراش کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس نے مجسمے کا دودھیا سفید ہاتھ پکڑا اور اسے احترام سے تھپکنے لگا۔اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کی جلد نرم ہورہی ہے، وہ اب دودھیا سفید کے بجائے گلابی رنگت اختیار کررہی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مجسمے کے اندر زندگی کی حرارت پیدا ہورہی تھی۔ پھر مجسمے نے اپنا سر پیچھے کی طرف جھکایا تو اس کے لمبے بال اس کے کندھوں پر گرے۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور حرکت پیدا ہوئی اور منہ بھی کھل گیا۔ آخر پگمالین کا تیار کردہ مجسمہ زندہ ہوگیا تھا۔ بلاشبہہ یہ پگمالین کی بہت بڑی جیت تھی، وہ محبت کے ہاتھوں مفتوح ہوگیا تھا۔
اس کے بعد پگمالین نے اپنے اس مجسمے سے جسے اس نے Galatea کا نام دیا تھا، شادی کرلی۔ مگر شادی کے بعد اسے احساس ہوا کہ اب وہ پرفیکٹ نہیں رہی تھی، کیوں کہ کوئی بھی زندہ انسان کبھی پرفیکٹ نہیں ہوتا، پرفیکٹ ہونا تو صرف مجسموں کے نصیب میں ہوتا ہے۔ لیکن Galatea بہت حسین تھی اور یہی پگمالین کے لیے کافی تھا۔ انہوں نے خوشیوں سے بھرپور زندگی گزاری۔ ایک سال بعد ان کے ہاں ایک پیارا سا بیٹا بھی پیدا ہوا۔ انہوں نے اسے Paphos کا نام دیا، وقت گزرنے کے ساتھ ہی اس جزیرے کا نام اس بچے کے نام پر Paphos ہی پڑگیا۔
یہ ہے وہ قدیم اساطیری کہانی جس پر بعد میں آئرلینڈ کے شہرۂ آفاق رائٹر جارج برنارڈ شا نے Pygmalion نامی ایک ڈراما بھی لکھا تھا، لیکن درحقیقت وہ ڈراما کسی مجسمے کے بارے میں نہیں تھا، بل کہ ایلزا ڈولٹل نامی ایک انگریز لڑکی کے بارے میں تھا۔ ایک مہذب اور شریف آدمی نے اس لڑکی کو آداب اخلاق اور تہذیب و شائستگی سکھا کر اسے ایک بے مثال اور شریف خاتون کے روپ میں ڈھالا تھا جس کے نتیجے میں وہ عورت اس کے فن اور ہنرمندی کا بہترین نمونہ ثابت ہوئی تھی۔ بعد میں اس ڈرامے کو غنائیہ شکل دی گئی اور اس کا عنوان ''مائی فیئر لیڈی'' رکھا گیا۔ اس میں آڈرے ہپ برن اور ریکس ہیریسن نے کام کیا تھا۔