پاناما لیکس کی عالمگیر وباء

یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ حالات معمول کے مطابق ہیں، پاناما لیکس میں جن امرا اور طاقتور لوگوں کے ناموں کا ذکر آیا ہے

SWAT:
یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ حالات معمول کے مطابق ہیں، پاناما لیکس میں جن امرا اور طاقتور لوگوں کے ناموں کا ذکر آیا ہے وہ اب دنیا بھر میں اپنے بچائو کی تدبیریں ڈھونڈ رہے ہیں۔ پاکستان میں قائم کیے جانے والے تحقیقاتی کمیشن عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ ان کی تحقیقات کے نتائج اخفائے راز میں رکھے جاتے ہیں تاآنکہ خود ہی ان کا کسی طرح افشا نہ ہو جائے۔

( مثال کے طور پر ایبٹ آباد اور حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹیں) 1954ء میں قائم کیے جانے والے جسٹس منیر کمیشن اور 1951ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کی تحقیقات بھی ابھی تک صیغہ راز میں ہیں۔ ان تاریخی واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے میاں نواز شریف نے 2ہفتے قبل اپنے طبی معائنے کے لیے لندن جانے سے پہلے جس عدالتی کمیشن کا اعلان کیا وہ آخر کیا حل پیش کر سکے گا؟ میں نے امریکا میں فارنسک آڈٹ کے ایک نامور ماہر حیدر مہدی سے نواز شریف کے قائم کردہ کمیشن کے حوالے سے استفسار کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ میاں نواز شریف الزام کی زد میں ہیں لیکن ان کے قصور کو دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ کسی عدالت میں ثابت کیا جانا قطعاً ناممکن ہے۔

ان کے خلاف کوئی قانونی شہادت حاصل کرنا بھی تقریباً نا ممکن ہے جس کے دستاویزی ثبوت کسی عدالت میں اور نہ ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کسی ٹریبونل میں پیش کر کے ان پر فرد جرم عائد کرائی جا سکتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ صاف بچ نکلیں گے۔ ان کو اخلاقی پہلو کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں۔ ان کا سارا زور قانونی پہلو پر ہے۔ ان کے لندن جانے کی اصل وجہ قانونی گنجائش تلاش کرنا تھا۔

ہم ہر روز اسی قسم کے مقدمات سے نمٹتے ہیں جن میں کرپشن' خورد برد' سرکاری فنڈز کا غلط استعمال اور ان آف شور جنت میں رکھے گئے اثاثوں کے بارے میں غور و خوض کرتے ہیں لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے آہنی دیوار سے سر ٹکرایا جائے۔ ہماری طاقتور حیثیت اور اعلیٰ تربیت یافتہ ماہرین جن میں کہ میں خود بھی شامل ہوں اور مجھ سے بھی بہتر لوگ موجود ہیں جو بہترین قانونی اصطلاحات کے ہتھوڑوں کے ساتھ اس پتھریلی دیوار کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹیکس چھپانے والی ان جنتوں میں جو قانونی روکاوٹیں اور پیچیدگیاں کھڑی کر رکھی ہیں ان کو بہترین امریکی تفتیش کار بھی نہیں دور کر سکتے۔

بین الاقوامی طور پر جانے اور مانے ہوئے ماہر کا مزید کہنا تھا '' زرداری کے خلاف مسلم لیگ ن کی دو مرتبہ حکمرانی اور فوجی حکومت اپنے ایک اقتدار کوئی بھی چیز ثابت نہیں کر سکی، حتی کہ موصوف صدر پاکستان بن گئے جنہوں نے رحمان ملک کو اپنا وزیر داخلہ بنا لیا۔ اسحاق ڈار نے نواز شریف کی منی لانڈرنگ کے بارے میں 45 صفحات پر مشتمل کتابی صورت میں جو بیان لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرایا اسے عدالت نے مسترد کر دیا کیونکہ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا انھوں نے یہ بیان دبائو کے تحت دیا ہے۔


نواز شریف کا احتساب صرف فوج ہی کر سکتی ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ وہ ایسا کرے گی۔ جب حکومت کے خزانے سے بہت بھاری رقوم نکال لی جاتی ہیں اور اس میں غیرقانونی دولت بھی شامل کر دی جاتی ہے تو اس طرح رائے عامہ کو زیر کر لیا جاتا ہے۔ چنانچہ اعلیٰ عدلیہ اور آرمی ممکن ہے ایک پیج پر ہوں لیکن اس معاملے میں ان کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔

آخر قومی احتساب بیورو (نیب) کیا کر رہا ہے؟ نیب کی حالیہ تحقیقات بہت شفاف اور تیر بہدف تھیں کیونکہ تحقیقات کے لیے جس اہلیت کی ضرورت ہوتی ہے وہ نیب کے پاس موجود ہے جب کہ اسے فارنسک آڈٹ کے لیے کسی کی اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کے تحت چیئرمین نیب کو اختیار ہوتا ہے کہ -1 سیکشن 18(بی)(iii) کے تحت سوئوموٹو ایکشن لیتے ہوئے کسی بھی معاملے کی تحقیقات کر سکے۔ -2 سکیشن 21 کے تحت قانونی مدد حاصل کرنے کے لیے غیرملکی اختیارات کا بھی استعمال کر سکتا ہے۔

-3 جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمز (JITs) این اے او کی دفعہ27 کے تحت قائم کر سکتا ہے اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) بھی بنا سکتا ہے تا کہ منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت بین الاقوامی تحقیقاتی ماہرین کی مدد حاصل کی جا سکے جس کے لیے ایف بی آر' ایف آئی اے' پولیس اور نیب کے تحت بین الاقوامی قانون کی فرموں کی ٹیمیں قائم کر سکے اور ان کے ذریعے نجی سطح پر تحقیقات کرا سکے۔ -4 پاناما لیکس میں جن افراد کی نشاندہی کی گئی ہے ان کو ایپلی کیشن کلاز (سیکسن4) جس کو سیکشن9 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے جو کہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ مقدمہ دفعہ14 کے تحت چلایا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر ملزم اپنے اکائونٹ کے بارے میں تسلی بخش بیان دینے میں ناکام ہو جائے یا اپنی آمدنی کے ذرایع نہ بتا سکے تو عدالت یہ فرض کر لے گی کہ ملزم کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کا مرتکب ہوا ہے۔

ٹیکس نادہندگی اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں جو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمیں قائم کی جاتی ہیں وہ مقدمات مختلف عدالتوں کو بھیج دیے جاتے ہیں تا کہ ان کا موثر طور پر فیصلہ کیا جا سکے۔ بین الاقوامی باہمی سمجھوتے کے مطابق منی لانڈرنگ اور ٹیکس نادہندگی کے مقدمات کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جب کہ ان مقدمات میں دیگر الزامات بھی شامل ہوتے ہیں۔ انھیں ثابت کرنا آسان نہیں ہوتا جو کہ ایف ایم یو اور مختلف بینکوں یا منی چینجرز کی وساطت سے بھیجے گئے ہوں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان دیگر بینکوں کے معاملات کا جائزہ لیتا ہے جس کے لیے دبئی کو ٹرانزٹ پوائنٹ تصور کرتے ہوئے زرمبادلہ کی آمدورفت کو دیکھا جاتا ہے۔ یو اے ای کے حکام نے انسداد منی لانڈرنگ یونٹ کو مزید اختیارات دیکر اسے بہت طاقتور بنا دیا ہے جو وہاں پہنچنے والی غیرقانونی دولت کو دیکھ لیتا ہے۔

کرپشن پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے ایک حقیقی اور براہ راست خطرہ ہے۔ اب پاکستانی قوم کے لیے یہ زندگی بھر کا سنہری موقع ہے کہ وہ ملک سے غیرقانونی طور پر باہر جانے والی دولت کا سراغ لگا سکیں اور اس کے سہولت کاروں کو شناخت کر سکیں۔ انٹرنیشنل کنسوریشم آف انویسٹی گیٹوجرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کے مطابق پاناما پیپرز نہ مقامی ہیں اور نہ ہی داخلی بصورت دیگر انھیں اب تک ردی کی ٹوکری میں پھینکا جا چکا ہوتا۔ آخر پاکستانی میڈیا کے جو ادارے آئی سی آئی جے کے ذریعے لیک شدہ اعدادوشمار حاصل کر رہے ہیں انھیں ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے تا کہ وہ اس پر نظرثانی کر سکیں۔ کوئی بھی جو کرپشن میں ملوث ہوتا ہے یا (یا کسی صورت میں اس سے معاونت کرتا ہے) اس کو غداری کا مرتکب ٹھہرایا جانا چاہیے اور اسی سزا کا مستوجب قرار دیا جانا چاہیے۔

آرمی چیف نے حالیہ بیان میں کرپشن اور احتساب کے حوالے سے حتمی عدم برداشت کی جو بات کی ہے اور بلا استثنیٰ سب کے احتساب کا جو عزم ظاہر کیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ راحیل شریف نے خود احتسابی کے ذریعے ایک بے حد شاندار مثال قائم کر دی ہے جس میں کہ حاضر سروس سینئر افسروں کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ ان میں ایک لیفٹیننٹ جنرل' ایک میجر جنرل بھی شامل ہے ۔ آخر ہمارے فوجی جوان میدان میں نہایت شاندار قربانیاں دے رہے ہیں تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کرپٹ لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتے رہیں؟ جمہوریت کی آڑ لے کر کھلے عام اور جان بوجھ کر معاشرے کو مجرمانہ سرگرمیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کیا رضا ربانی کے آئین کے بارے میں بیان کو آنکھیں بند کر کے تسلیم کر لیا جائے جس میں صرف آرٹیکل 6کو اہمیت دی گئی ہے جب کہ کرپشن کا کوئی ذکر ہی نہیں اور کیا قوم کے لیے صرف ایک فرض نبھانا ہی کافی ہے اور اخلاقی طور پر جو ضروری ہے وہ نہ کیا جائے؟
Load Next Story