خلا میں سبزیاں اورپھل اگانے کیلیے روبوٹک سسٹم متعارف
اس اہم ترین ایجاد کو ’’اسپاٹ‘‘ کا نام دیا ہے جو بغیر مٹی کے ہائیڈروپونک پوڈ میں سبزیاں اور پھل اگا سکتا ہے۔
خلا میں خلا بازوں کے لیے مخصوص کھانا ہوتا ہے اور ان کے لیے اپنی پسند کی غذا کا انتخاب مشکل ہوجاتا ہے لیکن اب ایک طالب علم نے مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ایسا روبوٹک سسٹم متعارف کرا دیا ہے جس کی مدد سے ایک ہی بار پانی کا استعمال کرکے خلا میں پھل اور سبزیاں اگائی جاسکیں گی۔
امریکی یونیورسٹی آف کلو ریڈو کی ایک انتہائی ذہین طالب علم جو اپنی ایجادات کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں انہوں نے خلا بازوں کے لیے ایسا سسٹم متعارف کرایا ہے جس کے استعمال سے سبزیاں اور پھل اگانا ایک آسان کام ہوگیا ہے جب کہ اس کے لیے نہ تو کھاد اور نہ ہی مٹی کی ضرورت ہوگی بلکہ کنکر اور ریت میں بھی سبزیوں کو اگایا جا سکے گا۔
امریکی طالب علم نے اپنی اس اہم ترین ایجاد کو ''اسپاٹ'' کا نام دیا ہے جو کہ بغیر مٹی کے ہائیڈروپونک پوڈ میں سبزیاں اور پھل اگا سکتا ہے، اس سسٹم میں نیوٹرینٹ بھرپور واٹر فلٹر لگا ہوتا ہے اور یہ سسٹم باغ میں موجود سبزیوں اور پھلوں کا معائنہ کرتا رہتا ہے اور خلا باز کو اس کی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں رہے گی اور اپنے کام پر توجہ دے گا۔
اس مصنوعی ذہانت والے روبوٹک سسٹم میں پیدا ہونے والے پودوں میں ایسا سینسر لگایا گیا ہے جو ہر وقت ہر پودے کو درکارضروری وسائل، پانی کا لیول اور درجہ حرارت، پی ایچ لیول اور نمی کے تناسب کا کا جائزہ لیتا رہتا ہے، اس ''اے آئی'' سسٹم کو ''اے گی کیو'' کا نام دیا گیا ہے جو پودوں سے متعلق معلومات ہر وقت خلا بازوں کو پہنچاتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس سسٹم سے خلا باز اس بات سے بھی آگاہ رہتے ہیں کہ کون سا پودا درست نہیں بڑھ رہا ہے یا پھر بے جان ہو رہا ہے یا پھر اسے کم پانی مل رہا ہے جس پر سسٹم الرٹ بھیج دیتے ہیں۔
طالب علم اور ناسا کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت وہ ناسا کے ساتھ مل کر ریموٹ کنٹرول گاڑی روگر بنائے گا جو خلا میں اس مصنوعی باغ کی نگرانی کرے گی اور اس کی ویڈیوز خلا بازوں کو بھیجتی رہے گی۔
واضح رہے کہ موجودہ سسٹم میں خلا بازوں کو سبزیاں وغیرہ اگانے کے لیے بار بار پانی تبدیل کرنا پڑتا ہے لیکن اس نئی ایجاد سے اس کی ضرورت نہیں۔
امریکی یونیورسٹی آف کلو ریڈو کی ایک انتہائی ذہین طالب علم جو اپنی ایجادات کی وجہ سے کافی شہرت رکھتے ہیں انہوں نے خلا بازوں کے لیے ایسا سسٹم متعارف کرایا ہے جس کے استعمال سے سبزیاں اور پھل اگانا ایک آسان کام ہوگیا ہے جب کہ اس کے لیے نہ تو کھاد اور نہ ہی مٹی کی ضرورت ہوگی بلکہ کنکر اور ریت میں بھی سبزیوں کو اگایا جا سکے گا۔
امریکی طالب علم نے اپنی اس اہم ترین ایجاد کو ''اسپاٹ'' کا نام دیا ہے جو کہ بغیر مٹی کے ہائیڈروپونک پوڈ میں سبزیاں اور پھل اگا سکتا ہے، اس سسٹم میں نیوٹرینٹ بھرپور واٹر فلٹر لگا ہوتا ہے اور یہ سسٹم باغ میں موجود سبزیوں اور پھلوں کا معائنہ کرتا رہتا ہے اور خلا باز کو اس کی دیکھ بھال کی ضرورت نہیں رہے گی اور اپنے کام پر توجہ دے گا۔
اس مصنوعی ذہانت والے روبوٹک سسٹم میں پیدا ہونے والے پودوں میں ایسا سینسر لگایا گیا ہے جو ہر وقت ہر پودے کو درکارضروری وسائل، پانی کا لیول اور درجہ حرارت، پی ایچ لیول اور نمی کے تناسب کا کا جائزہ لیتا رہتا ہے، اس ''اے آئی'' سسٹم کو ''اے گی کیو'' کا نام دیا گیا ہے جو پودوں سے متعلق معلومات ہر وقت خلا بازوں کو پہنچاتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس سسٹم سے خلا باز اس بات سے بھی آگاہ رہتے ہیں کہ کون سا پودا درست نہیں بڑھ رہا ہے یا پھر بے جان ہو رہا ہے یا پھر اسے کم پانی مل رہا ہے جس پر سسٹم الرٹ بھیج دیتے ہیں۔
طالب علم اور ناسا کے درمیان ایک معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت وہ ناسا کے ساتھ مل کر ریموٹ کنٹرول گاڑی روگر بنائے گا جو خلا میں اس مصنوعی باغ کی نگرانی کرے گی اور اس کی ویڈیوز خلا بازوں کو بھیجتی رہے گی۔
واضح رہے کہ موجودہ سسٹم میں خلا بازوں کو سبزیاں وغیرہ اگانے کے لیے بار بار پانی تبدیل کرنا پڑتا ہے لیکن اس نئی ایجاد سے اس کی ضرورت نہیں۔