وزیراعظم کا قوم سے خطاب اور ملکی سیاسی صورتحال
پاناما پیپرز کے افشا کے بعد پاکستانی سیاست میں جو بھی ہلچل مچی ہے اس میں کوئی کمی آتی دکھائی نہیں دے رہی
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جمعہ کی شام ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اللہ کے بعد صرف عوام کو جوابدہ ہیں لہٰذا وہ عوام کے سامنے ایک اہم اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ انھوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھیں گے کہ وہ اس معاملہ کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیں تا کہ جو لوگ بہتان تراشیوں کی انتہاء پر اترے ہوئے ہیں وہ اس کام سے ہماری شفافیت کی انتہاء دیکھ لیں، اگر ان پر الزامات ثابت نہ ہوئے تو وہ لوگ جو روزانہ جھوٹے الزامات کا بازار گرم کرتے ہیں، قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگیں گے؟ اور کیا عوام انھیں معاف کر دیں گے؟
اس سوال کا جواب میں عوام پر چھوڑتا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاناما لیکس کو بنیاد بنا کر جو الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ 22 برس پرانے ہیں اور یہ وہی کیس ہیں جن کی پہلے چھان بین 90ء کی دہائی میں کی گئی اور اس کے بعد پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت نے باریک بینی سے ان کی چھان بین کی مگر اللہ کے فضل و کرم سے بدعنوانی تو دور کی بات ایک پائی کی غیر قانونی ٹرانزیکشن بھی ثابت نہیں کرسکے، کسی قسم کی کرپشن، کمیشن، کک بیکس کا مقدمہ نہیں بنا سکے لیکن اس کے باوجود میں ایک مرتبہ پھر خود کو اور اپنے پورے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں کیونکہ جمہوری اور مہذب ممالک میں یہی روایت ہے، ہمارے تمام اثاثوں کی تفصیلات انکم ٹیکس کے گوشواروں کی صورت میں ڈیکلیئرڈ ہیں۔
تحقیقات کے نتیجے میں مجھ پر کوئی الزام ثابت ہوا تو میں ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر گھر چلا جاؤں گا۔ ہم سے پائی پائی کا حساب پہلے بھی لیا گیا اور ہم آیندہ بھی حساب دیں گے، ذرا ان کا بھی حساب ہو جائے جو آج حساب مانگنے نکلے ہیں۔ ادھر وفاقی حکومت نے پاناما لیکس پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا ہے جس میں چیف جسٹس سے کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کی گئی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق وزارت قانون کے قائم مقام سیکریٹری کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط میں پاکستانی شہریوں کی پاناما سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود آف شور کمپنیوں، قرضوں کی معافی اور رقوم باہر بھجوانے کی تحقیقات کے لیے پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء کے تحت جوڈیشل کمیشن قائم کرنیکا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کمیشن کی سربراہی ترجیحی بنیادوں پر خود کریں، خط کے ساتھ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز بھی منسلک ہیں۔ ٹرمز آف ریفرنسز کی پہلی شِق کے مطابق مجوزہ جوڈیشل کمیشن تین افراد پر مشتمل ہوگا۔
سیکشن دو کے تحت کمیشن پاناما لیکس یا کسی اور ملک میں پاکستانی شہریوں اور پاکستانی نژاد افراد کی مبینہ آف شور کمپنیوں کا کھوج لگائے گا اور دیکھے گا کہ ملک کے موجودہ یا سابقہ عوامی نمایندوں میں سے کسی نے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنے یا اپنے اہلخانہ کے قرضے معاف تو نہیں کرائے؟ بدعنوانی، کمیشن لے کر یا ککس بیکس کے ذریعے مال بنا کر رقوم باہر تو منتقل نہیں کیں یا ان افراد نے ملک کے مروجہ قوانین تو نہیں توڑے؟ ٹرمز آف ریفرنس سیکشن دو میں اگر کوئی شخص ملوث نکلتا ہے تو پھر انکوائری کمیشن ذمے داریوں کا تعین کر کے سفارشات مرتب کریگا۔
ٹرمز آف ریفرنس کے تحت مجوزہ انکوائری کمیشن کو ضابطہ دیوانی قانون مجریہ 1908ء کے تحت کسی بھی شخص کو طلب کرنے اور گواہوں پر جرح کرنے کا اختیار حاصل ہو گا، اس اختیار کے تحت کمیشن ٹیکس اور اکاؤنٹس کے شعبے کے ماہرین کو طلب کر کے حلف نامہ پر ان کا بیان ریکارڈ کر سکے گا، کمیشن کو تمام سرکاری دستاویزات تک رسائی کا اختیار حاصل ہو گا اور کسی بھی عدالت یا سرکاری شعبے سے دستاویزات منگوانے کا مجاز ہوگا۔
انکوائری کمیشن کو ضابطہ فوجداری کے تحت بھی اختیارات حاصل ہوں گے، پریذائیڈنگ افسر کو کسی بھی شخص کو جن کا عہدہ گزیٹڈ افسر سے کم نہیں ہو گا، اپنا نمایندہ مقرر کر نے اور انکوائری کے لیے درکار کسی بھی قسم کی دستاویزات کو قبضے میں لینے کا اختیار حاصل ہو گا۔ یہ گزیٹڈ افسران متعلقہ مواد کے حصول کے لیے کسی بھی عمارت یا جگہ پر داخل ہو کر متعلقہ مواد یا دستاویزات کو سیل بھی کر سکیں گے۔ انکوائری کمیشن کی کارروائی کو تعزیرات پاکستان کے تحت عدالتی کارروائی کی حیثیت حاصل ہو گی اور تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے کے پابند ہونگے۔
پاناما پیپرز کے افشا کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دوسری بار قوم سے خطاب کیا ہے۔ بہرحال اس معاملے میں پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ وزیراعظم کی تقریر کے بعد حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ان معاملات کی تحقیقات کے لیے خط تحریر کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے پر آگے کیا ہوتا ہے۔ بہرحال پاناما پیپرز کے افشا کے بعد پاکستانی سیاست میں جو بھی ہلچل مچی ہے اس میں کوئی کمی آتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تحریک انصاف نے حکومت کا تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیشن مسترد کر دیا ہے۔ وہ اس معاملے پر سڑکوں پر آنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ مختلف سیاسی رہنماؤں سے مشاورت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز حکومت اور اپوزیشن مل کر طے کریں۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان میں سیاست تصادم کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ فریقین ہوش مندی کا مظاہرہ کریں اور متنازعہ معاملات کو حل کرنے کا کوئی قابل قبول حل تلاش کریں۔
اس سوال کا جواب میں عوام پر چھوڑتا ہوں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاناما لیکس کو بنیاد بنا کر جو الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ 22 برس پرانے ہیں اور یہ وہی کیس ہیں جن کی پہلے چھان بین 90ء کی دہائی میں کی گئی اور اس کے بعد پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت نے باریک بینی سے ان کی چھان بین کی مگر اللہ کے فضل و کرم سے بدعنوانی تو دور کی بات ایک پائی کی غیر قانونی ٹرانزیکشن بھی ثابت نہیں کرسکے، کسی قسم کی کرپشن، کمیشن، کک بیکس کا مقدمہ نہیں بنا سکے لیکن اس کے باوجود میں ایک مرتبہ پھر خود کو اور اپنے پورے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں کیونکہ جمہوری اور مہذب ممالک میں یہی روایت ہے، ہمارے تمام اثاثوں کی تفصیلات انکم ٹیکس کے گوشواروں کی صورت میں ڈیکلیئرڈ ہیں۔
تحقیقات کے نتیجے میں مجھ پر کوئی الزام ثابت ہوا تو میں ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر گھر چلا جاؤں گا۔ ہم سے پائی پائی کا حساب پہلے بھی لیا گیا اور ہم آیندہ بھی حساب دیں گے، ذرا ان کا بھی حساب ہو جائے جو آج حساب مانگنے نکلے ہیں۔ ادھر وفاقی حکومت نے پاناما لیکس پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا ہے جس میں چیف جسٹس سے کمیشن تشکیل دینے کی درخواست کی گئی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق وزارت قانون کے قائم مقام سیکریٹری کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط میں پاکستانی شہریوں کی پاناما سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود آف شور کمپنیوں، قرضوں کی معافی اور رقوم باہر بھجوانے کی تحقیقات کے لیے پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 1956ء کے تحت جوڈیشل کمیشن قائم کرنیکا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کمیشن کی سربراہی ترجیحی بنیادوں پر خود کریں، خط کے ساتھ کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز بھی منسلک ہیں۔ ٹرمز آف ریفرنسز کی پہلی شِق کے مطابق مجوزہ جوڈیشل کمیشن تین افراد پر مشتمل ہوگا۔
سیکشن دو کے تحت کمیشن پاناما لیکس یا کسی اور ملک میں پاکستانی شہریوں اور پاکستانی نژاد افراد کی مبینہ آف شور کمپنیوں کا کھوج لگائے گا اور دیکھے گا کہ ملک کے موجودہ یا سابقہ عوامی نمایندوں میں سے کسی نے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنے یا اپنے اہلخانہ کے قرضے معاف تو نہیں کرائے؟ بدعنوانی، کمیشن لے کر یا ککس بیکس کے ذریعے مال بنا کر رقوم باہر تو منتقل نہیں کیں یا ان افراد نے ملک کے مروجہ قوانین تو نہیں توڑے؟ ٹرمز آف ریفرنس سیکشن دو میں اگر کوئی شخص ملوث نکلتا ہے تو پھر انکوائری کمیشن ذمے داریوں کا تعین کر کے سفارشات مرتب کریگا۔
ٹرمز آف ریفرنس کے تحت مجوزہ انکوائری کمیشن کو ضابطہ دیوانی قانون مجریہ 1908ء کے تحت کسی بھی شخص کو طلب کرنے اور گواہوں پر جرح کرنے کا اختیار حاصل ہو گا، اس اختیار کے تحت کمیشن ٹیکس اور اکاؤنٹس کے شعبے کے ماہرین کو طلب کر کے حلف نامہ پر ان کا بیان ریکارڈ کر سکے گا، کمیشن کو تمام سرکاری دستاویزات تک رسائی کا اختیار حاصل ہو گا اور کسی بھی عدالت یا سرکاری شعبے سے دستاویزات منگوانے کا مجاز ہوگا۔
انکوائری کمیشن کو ضابطہ فوجداری کے تحت بھی اختیارات حاصل ہوں گے، پریذائیڈنگ افسر کو کسی بھی شخص کو جن کا عہدہ گزیٹڈ افسر سے کم نہیں ہو گا، اپنا نمایندہ مقرر کر نے اور انکوائری کے لیے درکار کسی بھی قسم کی دستاویزات کو قبضے میں لینے کا اختیار حاصل ہو گا۔ یہ گزیٹڈ افسران متعلقہ مواد کے حصول کے لیے کسی بھی عمارت یا جگہ پر داخل ہو کر متعلقہ مواد یا دستاویزات کو سیل بھی کر سکیں گے۔ انکوائری کمیشن کی کارروائی کو تعزیرات پاکستان کے تحت عدالتی کارروائی کی حیثیت حاصل ہو گی اور تمام متعلقہ وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کے ساتھ تعاون کرنے کے پابند ہونگے۔
پاناما پیپرز کے افشا کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے دوسری بار قوم سے خطاب کیا ہے۔ بہرحال اس معاملے میں پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ وزیراعظم کی تقریر کے بعد حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ان معاملات کی تحقیقات کے لیے خط تحریر کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے پر آگے کیا ہوتا ہے۔ بہرحال پاناما پیپرز کے افشا کے بعد پاکستانی سیاست میں جو بھی ہلچل مچی ہے اس میں کوئی کمی آتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تحریک انصاف نے حکومت کا تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیشن مسترد کر دیا ہے۔ وہ اس معاملے پر سڑکوں پر آنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ مختلف سیاسی رہنماؤں سے مشاورت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز حکومت اور اپوزیشن مل کر طے کریں۔ یوں دیکھا جائے تو پاکستان میں سیاست تصادم کی طرف بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ فریقین ہوش مندی کا مظاہرہ کریں اور متنازعہ معاملات کو حل کرنے کا کوئی قابل قبول حل تلاش کریں۔