تہذیبی نرگسیت

رفیق اختر جنھیں ہم پیار سے ’’جوگی‘‘ کہا کرتے تھے اپنے آبائی علاقے گوجرخاں چلے گئے

Amjadislam@gmail.com

KARACHI:
آج سے 48 برس قبل جب میں ایم اے او کالج لاہور میں اردو کا استاد مقرر ہوا تو میرے ابتدائی دور کے ساتھیوں میں ڈاکٹر نسیم ریاض بٹ، پروفیسر احمد رفیق اختر، ڈاکٹر خالد آفتاب، اسد ملک، دلدار پرویز بھٹی اور عطاء الحق قاسمی کے ساتھ ساتھ انگریزی کے شعبے کے استاد مبارک سید بھی تھے جو ایک خوش کلام نوجوان اور انقلابی فکر کے حامل شاعر اور دانشور تھے اور اس زمانے کی مروجہ اصطلاح کے مطابق ''سرخے'' کہلاتے تھے بہت جلد ہم ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور ان کی تحریک پر کئی ایس کتابیں میرے مطالعے پر آئیں جنھوں نے آگے چل کر زندگی، سماج اور ادب کے بارے میں میرے بہت سے رویوں اور نظریات کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا پھر ہوا یوں کہ میں 1975ء میں ڈیپوٹیشن پر پنجاب آرٹس کونسل میں چلا گیا اور کچھ عرصے کے بعد پروفیسر احمد رفیق اختر اور مبارک حیدر نے بھی ایم اے او کالج کو اپنی اپنی وجوہات کی بنا پر خیرباد کہہ دیا۔

رفیق اختر جنھیں ہم پیار سے ''جوگی'' کہا کرتے تھے اپنے آبائی علاقے گوجرخاں چلے گئے اور آج ایک صاحب طرز ادیب مقرر اور روحانی فلسفی کے حوالے سے ملک گیر بلکہ بین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں جب کہ مبارک حیدر سین سے بالکل آؤٹ ہو گئے۔ چند برس بعد ایک اتفاقی ملاقات کے دوران پتہ چلا کہ انھوں نے ملازمت چھوڑ کر کوئی بزنس شروع کر دیا ہے اس کے بعد پھر رابطہ منقطع ہو گیا۔ یہاں تک کہ کوئی ایک ہفتہ قبل فیس بک پر کسی نے ان کی بی بی سی اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو کا کچھ حصہ لوڈ کیا جس میں انھوں نے اپنی کتاب ''تہذیبی نرگسیت'' کے حوالے سے کچھ ایسی عمدہ اور خیال افروز باتیں کی ہیں کہ نہ صرف ان سے ایک طرح کی تجدید ملاقات ہو گئی بلکہ ایک بہت اہم اور قدرے مختلف موضوع پر ایسی عالمانہ اور دانشورانہ گفتگو بھی سننے کا موقع ملا جس کا رواج اب کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور دراصل اسی گفتگو میں اٹھائے گئے نکات آج اس کام کا موضوع اور محرک بنے ہیں۔ ''تہذیبی نرگسیت'' کیا ہے اور اس کا ہم مسلمانوں کے معاشروں اور طرز فکر سے کیا تعلق ہے۔ آئیے مبارک حیدر ہی سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

تہذیبی نرگسیت کا لفظ سوشیالوجی یا سائیکالوجی میں استعمال نہیں ہوتا لیکن یہ ہے کہ نرگسیت کا جو تصور ہے یہ نفسیات والوں کے ہاں پہلے سے موجود ہے۔ یہ اجتماعی بھی ہو سکتا۔ یہ انفرادی ایک آدمی کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر ایک پوری تہذیب مجھے نظر آتی ہے اپنے ملک میں اپنے مسلمانوں میں جس میں شدید جارحانہ نوعیت کی نرگسیت پائی جاتی ہے اس کا نام میں نے تہذیبی نرگسیت رکھا ہے میں نے اس کتاب میں بتایا ہے کہ ہم مسلمان اس تکبر اور مغالطے میں مبتلا ہیں کہ ہم دنیا کے سب سے اچھے لوگ ہیں ہم نے دنیا کو تہذیب سکھائی ہے، دنیا بیک ورڈ ہے اس کو آداب نہیں آتے۔

ہم نے ہندوؤں کو تہذیب سکھائی اب ہم مغرب کو سکھائیں۔ دنیا گندی ہے اور ہم بے عیب ہیں۔ پاکستان کے میڈیا میں سب مل کر دنیا کو لتاڑتے رہتے ہیں۔ آخری سچائی صرف ہمارے پاس ہے اور دنیا جھوٹ ہی جھوٹ ہے اس بیماری کی جڑ خارجی دنیا میں ہماری اجتماعی پرفارمنس کا بہت کم تر سطح پر ہونا ہے۔ ترقی کرنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے جب کہ جھوٹا انتخاب ایک بیک ڈور ہے۔ ہم لوگ محنت نہیں کرتے، اپنی پرفارمنس کو درست اور بہتر کرنے کے بجائے اس کا الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔


اس کا علاج یہ ہے کہ ہم اپنی تہذیب کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں اور ہمارے دانشور ایک منفی اور جارحانہ جنون کو غیر ملکی سازشوں کا رونا رونے کے بجائے اپنے عمل کو درست کریں اور لوگوں کو اس طرف لائیں، مذہب کو کوئی نہیں بتا رہا یہ ہے اور رہے گا لیکن اس میں عقل کو بھی شامل کریں اور اپنے روزمرہ کے معاملات اور دنیاوی سوالات کے جواب اس عقل کے ذریعے سے حاصل کریں جو ہمیں عطا کی گئی ہے۔ ہم اپنے بچوں کی صحیح دینی تربیت نہیں کر رہے اور انھیں بے علمی اور تشدد کی طرف دھکیل رہے ہیں اور انھیں اپنی تاریخ کا کامیاب دور تو دکھاتے ہیں مگر اپنے زوال اور ناکامی کی وجوہات سمجھانے کے بجائے انھیں ایک منفی اور شکست خوردہ نظریہ حیات کی بھول بھلیوں میں بے آسرا چھوڑ دیتے ہیں۔

یہ مبارک حیدر کے اصل الفاظ نہیں ہیں میں نے صرف ان کا خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے تا کہ یہ سمجھا جا سکے کہ تہذیبی نرگیست کے بنیادی عناصر کیا ہں، یہ کس طرح کے طرز فکر سے جنم لیتی اور فروغ پاتی ہے اس کی وجہ سے کس طرح ہم بطور ایک قوم اور معاشرے کے ''پدرم سلطان بود'' والی فضا میں سانس لینا اور مستقبل کی بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا چاہتے ہیں اور جو کوئی اس نیند میں خلل ڈالے اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں اور ایک لمحے کے لیے اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ ماضی میں اگر ہمارا افتخار تھا تو وہ ان لوگوں اور ان کی تخلیقی فکر اور محنت کے باعث تھا جنھوں نے اس کو زندگی دی تھی اس بات کو اقبال نے یوں بھی کہا ہے کہ

تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو

نرگسیت! جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں یونانی اساطیر سے لی گئی ایک ترکیب اور اصلاح ہے جسے آج کی زبان میں خود پرستی یا آپ اپنی محبت میں گرفتار ہونا بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ انفرادی سطح پر تقریباً ہر انسان میں یہ ''نرگیسیت'' کسی نہ کسی حد اور شکل میں پائی جاتی ہے لیکن جب کوئی معاشرہ یا انسانی گروہ پورے کا پورا اس ''صحرائے زیاں'' کا مسافر بن جائے تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے کہ ہمیں کیمرے اور بچوں اور عورتوں کی موجودگی میں گندی اور غلیظ زبان استعمال کرنے والے کچھ مذہبی ٹھیکیدار تو گوارہ ہو جاتے ہیں مگر جاوید احمد غامدی اور اس نوع کے دیگر روشن خیال علمائے دین کو ہم ان کے وطن کی ہوا میں سانس تک لینے سے روک دیتے ہیں۔

ہمارے ہر طرح کے مدرسے اور معاشرہ مل کر جہالت اور دہشت گردی سے تو سمجھوتہ کر لیتے ہیں مگر محنت، کوشش اور ذاتی اصلاح کو گناہ قرار دے دیتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہم غامدی صاحب یا مبارک حیدر کی ہر بات سے اتفاق کریں لیکن ان پر غور کرنے اور سوچنے میں تو شاید کوئی حرج نہیں۔
Load Next Story