پاکستان کرکٹ بورڈ احتسابی عمل سے ماورا کیوں
عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا سلسلہ کب تک چلے گا؟ عبدالقادر
DERA ISMAIL KHAN:
پاکستان کی تاریخ عظیم کرکٹرز سے بھری پڑی ہے، ان کھلاڑیوں نے دنیا بھرمیں نہ صرف ملک کی پہچان بنائی بلکہ اپنے منفرد کھیل سے ملک وقوم کی نیک نامی میں اضافہ بھی کیا، ان بڑے کرکٹرز میں ایک بڑا نام عبدالقادر کا ہے۔
گگلی ماسٹر کے نام سے عالمگیر شہرت رکھنے والے لیگ سپنرکو دنیا کے متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا، چیف سلیکٹرکی ذمہ داری نبھاتے ہوئے انہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009ء کے فاتح سکواڈ کا انتخاب بھی کیا، ایشیا کپ اور مختصر طرز کے عالمی کپ میں گرین شرٹس کی شرمناک شکستوں کے بعد اٹھنے والے طوفان کا رخ موڑنے کے لئے پی سی بی اور ٹیم مینجمنٹ میں تبدیلیوں اور تقرریوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے، ''ایکسپریس'' نے عبدالقادر سے ملکی کرکٹ کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے تفصیلی نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل ذیل میںکچھ یوں ہے۔
ایکسپریس: پاکستان کرکٹ ٹیم کی ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شرمناک شکستوں کا ذمہ دار آپ کس کو سمجھتے ہیں؟
عبدالقادر: پاکستان کرکٹ بورڈ میں بیٹھے عہدیداروں کی نیتیں ٹھیک نہیں ہیں، بورڈحکام بھی شائقین کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہیں جو سیاستدان اس ملک کی عوام کے ساتھ کرتے ہیں،جب بھی مسئلے مسائل جنم لیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ کمیٹیاں بنا دو اور پھر ان کمیٹیوں کی آڑ میں ایشوز کو دبا دیا جاتا ہے، وہ قومیںہی آگے بڑھتی ہیں جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں لیکن افسوس ہم نے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھنے کی بجائے وہی پرانی روش برقرار رکھی جس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں،اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو پی سی بی میں بادشاہت کا نظام راج ہے، عہدیدارآتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں، اپنے اہل خانہ اوردوستوں کونوازتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ کسی چیز کی ابتدا اور انتہاء بھی ہوتی ہے،قومی ٹیم زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ ہاری، بڑا افسوس ہوا کہ ہم نے گرین شرٹس کو کہاں چھوڑا تھا اور یہ اس کو کہاں لے آئے ہیں، بعدازاں رہی سہی کسر ورلڈ کپ 2015ء میں ٹیم کی شرمناک کارکردگی نے پوری کر دی، ہارنے کے بعد پی سی بی نے نیا ڈرامہ رچایا اور بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں حصہ لیا، اس سیریز میں بھی ہم کلین سویپ ہو گئے، پھر ایک ڈرامہ کیا گیا اور زمبابوے کی ترلے منتیں کرنا شروع کر دی گئیں،مہمان ٹیم کو 5 لاکھ ڈالر کے علاوہ متعدد مراعات کی پیشکش بھی کی گئی اور بعد میں سیریز کے مقابلے پاکستان کے مختلف شہروں میں کروانے کی بجائے صرف لاہور میں ہی کروا دیئے گئے، میں کہتا ہوں کہ بورڈ حکام سیاستدانوں کی طرح عوام کے سامنے سفید جھوٹ بولتے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایکسپریس: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دونوں میگا ایونٹس میں ٹیم کی ناکامیوں کے ذمہ دار چیف کوچ وقار یونس ہی تھے، اگر ایسا نہیں تو سارا نزلہ ان پر ہی کیوں گرایا گیا؟
عبدالقادر: ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کپ میں ٹیم کی ناکامی کا ذمہ دار کسی کرکٹر کو نہیں سمجھتا بلکہ سارے کا سارا قصور پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہے، جب بورڈ حکام کسی کو لاتے ہیں تو یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اس کا کریکٹر کیا ہے، ملک وقوم کے لئے خدمات کیا ہیں اور ماضی میں اس پر کوئی داغ تو نہیں ہے، ان سب باتوں کی پرواہ کئے بغیر مخصوص کرکٹرز کی جب لاٹریاں نکالی جاتی ہیں تو افسوس ہوتا ہے، جو بھی چیئرمین بورڈ آتا ہے وہ باہر کے ملکوں کو ترجیح دینے والے کرکٹرز کے ہی ناز نخرے اٹھاتا ہے،خان محمد، وسیم راجہ اور مشتاق محمد انگلینڈ میں رہتے تھے، انہیں وہاں سے بلا کر بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ میں ذمہ داریاں دی گئیں، مدثر نذر، عاقب جاوید اور مشتاق احمد کو بڑے عہدوں سے نوازا گیا ، ہمارے بورڈ کے کرتا دھرتا یا تو گوری چمڑی سے مرعوب ہوتے ہیں یا بیرون ملک آباد قومی کرکٹرز کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں اور پھر ان لوگوں کو ہمارے سروں پر بٹھا دیا جاتاہے، میری نظر میں یہ بہت بڑا جرم ہے، بورڈ حکام سے پوچھتا ہوں کہ دوسرے ملکوں میں رہنے والے کرکٹرز کیا ماجد خان، جاوید میانداد، ظہیر عباس، وسیم باری، محسن خان، سرفراز نواز، محمد یوسف، عامر سہیل اور راشد لطیف سے بڑے کھلاڑی ہیں، اگر یہ کرکٹرز عہدیداروں کو اتنے ہی برے لگتے ہیں توان کے نام کے انکلوژر بھی ختم کر کے ان پر اپنے چہیتے کرکٹرز کے نام لکھوا لیں۔
ایکسپریس: آپ کی رائے میں قومی ٹیم کے لئے ملکی یا غیر ملکی میں سے زیادہ کونسا سا کوچ بہتر رہے گا؟
عبدالقادر: ماضی میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ غیر ملکی کوچ کا تجربہ بری طرح ناکام رہا ہے، سوچنے اور محسوس کرنے کی بات ہے کہ رچرڈ پائی بس، ڈیو واٹمور، جیف لاسن اور ڈیو واٹمور نے پاکستانی ٹیم کے ساتھ کوچنگ کی ذمہ داریاں نبھائیں اور پی سی بی سے پاؤنڈز اور ڈالرز میں رقوم وصول کیں، بھاری معاوضے لینے کے باوجود یہ کوچز عالمی سطح پر پاکستانی ٹیم کو ایک بھی تمغہ نہیں جتوا سکے، پاکستانی ٹیم نے1992 اور 2009 کے ورلڈ کپ جیتے، دونوں بار کوچ انتخاب عالم ہی تھے، جتنے گریٹ کرکٹرز پاکستان کی سرزمین نے پیدا کئے ہیں اس کے بعد بھی ہم نے ٹیم کے لئے کوچ باہر سے امپورٹ کرنا ہے تو یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے، میں تو کہتا ہوں کہ ایک ملک کے کوچ کو دوسرے ملک میں جا کر کوچنگ کی اجازت ہی نہیں ملنی چاہیے،جب ایک ملک کی فوج کا سپاہی یا آفیسر دوسرے ملک کی فوج میں شامل ہو کر جنگ نہیں لڑ سکتا، تو کرکٹ میں ایسا کیوں کیا جا رہا ہے، میرا مطالبہ ہے کہ آئی سی سی ایک دوسرے کے ملکوں میں جا کر کوچنگ کرنے کی پریکٹس کو بند کرے کیونکہ غیر ملکی کوچ کو صرف اور صرف پیسے سے غرض ہوتی ہے، اگر غیر ملکی کوچ ہی ناگزیر ہے تو یہ ذمہ داری ویسٹ انڈیز کے ویوین رچرڈ کو کیوں نہیں سونپ دی جاتی۔
ایکسپریس: ٹیم جب ہارتی ہے تو مہذب ملکوں کی ٹیموں کی طرح ہمارے کوچ اور کپتان شکست کی ذمہ داریاں قبول کرنے کی بجائے ملبہ ایک دوسرے پر کیوں ڈالتے ہیں؟
عبدالقادر: کرکٹ میںکوچ کا کوئی کردار نہیں ہوتا، میرا پی سی بی حکام سے سوا ل ہے کہ سالہا سال سے کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو بھی کیا کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے؟یہ پیسے کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، میں اگر چیئرمین پی سی بی ہوتا تو ٹیم کے ساتھ کوئی کوچ ہی نہ رکھتا کیونکہ ٹیم کے ساتھ جب کوچ ہوتا ہے تونت نئے مسائل جنم لیتے ہیں، انٹرنیشنل ایونٹس یا سیریز میں ہارنے کی صورت میں شکست کا ملبہ کوچ کپتان پر گراتا ہے اور کپتان کوچ کو قصور وار قرار دیتا ہے، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور ایشیا کپ میں ٹیم کی شکستوں کی ذمہ داری کسی نے قبول نہ کی، چور مچائے شور کی آوازیں ہم تک پہنچیں، کوچ نے کپتان، کپتان نے کوچ، شہریار خان نے نجم سیٹھی اور نجم سیٹھی نے شہریار خان کو قصور وار قرار دیا، میری تجویز ہے کہ کوچ کا عہدہ ختم کر کے تمام اختیارات کپتان کو ہی سونپتے ہوئے کہاجائے کہ جیت کا کریڈٹ اگر تمہیں ملے گا تو ہار کی ذمہ داری بھی قبول کرنی پڑے گی، کوچ کو ملنے والا بھاری معاوضہ ڈومیسٹک کرکٹ کی بہتری اور سابق کرکٹرز، امپائرز اورگراؤنڈ سٹاف کی فلاح وبہبود پر خرچ ہونا چاہیے، عبدالرحمن بخاطر کی آج بھی اس لئے عزت کرتا ہوں کہ انہوں نے میرا بینیفٹ میچ کروایا جس کی وجہ سے مجھے50 ہزار ڈالر کی رقم میسر آئی، بخاطر نے میری طرح اور بھی ان گنت کرکٹرز کے بینیفٹ میچ کروائے جس کی وجہ سے ان کے مالی حالات میں بہتری آئی۔
ایکسپریس: پی سی بی نے انضمام الحق کو چیف سلیکٹر مقرر کیا ہے، آپ اس فیصلے کو کیسا دیکھتے ہیں؟
عبدالقادر: میری رائے میں چیف سلیکٹر اسی کو ہونا چاہیے جس نے کم ازکم 50 ٹیسٹ میچز کھیلے ہوں۔ اور اس معیار پرانضمام الحق پورا اترتے ہیں، ان کی زندگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کرکٹ کے زمانے میں ہی ان کا رجحان مذہب کی طرف ہو گیا، یہ بھی بڑا کام ہے جس کی میں ان کو شاباش بھی دیتا ہوں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ مذہبی رجحان کے باوجود دوسرے کرکٹرز کی طرح ان کی دولت، عزت،شہرت اور میڈیا میں رہنے کی خواہش ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی ہے، اگر انہوں نے متقی اور پرہیز گاروں کا راستہ اپنا لیا تھا تو سعید انور، سعیداحمد اور ذوالقرنین کی طرح کیوں نہیں بن گئے۔پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ پی سی بی عہدیداران داغی بندوں کو پسند کرتے ہیں، جسٹس قیوم رپورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شاید انضمام الحق ہی بچتے تھے ان کو بھی بورڈ میں لے لیا گیا ہے۔ شہریار خان نے خود اپنی کتاب میں اوول ٹیسٹ تنازع کا ذمہ دار انضمام الحق کی ضد اور ہٹ دھرمی کو قرار دیا ، اعجاز بٹ نے اپنی رپورٹ میں انہیں ڈکٹیٹر قرار دیا،جب کسی بندے پر اتنے داغ ہوں توپھر اسے چیف سلیکٹر کی ذمہ داری کیسے سونپی جا سکتی ہے، بہتر ہوتا کہ کسی کو بھی سلیکشن کمیٹی کا سربراہ بنانے سے پہلے شہریار خان اپنی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیتے اور دلچسپی رکھنے والے کرکٹرز کے انٹرویو کر کے پوچھتے تمہارا منشور کیا ہے، کھلاڑیوں کا انتخاب کن کن پیمانوں پر کرو گے۔
ایکسپریس: اطلاعات ہیں کہ چیئرمین پی سی بی شہریارخان آپ کو بورڈ میں ذمہ داری دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
عبدالقادر: میں شہریار خان کی بڑی عزت کرتا ہوں، میںان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ انگلینڈ میں پاکستان کے سفیر تھے، لیکن میری رائے میں شہریارکو چیئرمین شپ کی دوسری اننگز نہیں کھیلنی چاہیے تھی، بورڈ میں دوبارہ آنے سے ان کی عمر بھر کی عزت اور نیک نامی داؤ پر لگی ہوئی ہے، بورڈ میں موجود عہدیدار ان کے ساتھ وہی شطرنج والا کھیل کھیل رہے ہیں اور وہ بورڈ میں شٹل کاک بنے ہوئے ہیں، پی سی بی کے تمام تر اختیارات نجم سیٹھی کے پاس ہیں لیکن ٹیم کی شکستوں اور بورڈ کے خراب معاملات کا ذمہ دار شہریار خان کو ٹھہرایا جاتا ہے۔جب تک نجم سیٹھی کرکٹ بورڈ میں ہیں، میں کوئی بھی عہدہ کسی بھی صورت قبول نہیں کروں گا، اگر وہ 10 سال تک بھی بورڈ میں رہے اور مجھے آفرزہوتیں رہیں توہر بار میرا جواب انکار کی صورت میں ہی ہوگا، سچ پوچھا جائے تو میں نے ہی انکار نہیں کیا بلکہ جاوید میانداد، سرفراز نواز، عامر سہیل ، محسن خان، راشد لطیف اور محمد یوسف بھی بورڈ میں کام کرنے سے معذرت کر چکے ہیں۔
ایکسپریس:پاکستان میں لیگ سپن کا شعبہ زوال پذیر ہے، آپ قومی ڈیوٹی سمجھتے ہوئے میدان میں کیوں نہیں آتے؟
عبدالقادر: میں آج جو کچھ بھی ہوں، اس ملک کی بدولت ہوں، اس ملک کے لئے کوئی بھی ذمہ داری نبھانا اعزاز کی بات سمجھتا ہوں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کو شاید میری ضرورت ہی نہیں ہے،کسی عہدیدار نے رابطہ نہیں کیاکہ آپ ہماری نظر میں ہیں چاہتے ہیں کہ اپنا سپن بولنگ کا تجربہ ملکی کرکٹ کی بہتری کے لئے وقف کریں، بورڈ کا لاڈلہ مشتاق احمد ہے جس کی بار بار لاٹریاں نکالی جاتی ہیں،ادب کا مقام یہ بھی ہے کہ جب مشتاق احمد کو آفرز ہوتی ہیں تو وہ کہیں کہ عبدالقادر اس جاب کے ساتھ زیادہ بہتر انصاف کر سکتے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح کے کرکٹرز اپنی باری کا انتظار کیوں نہیں کرتے۔
ایکسپریس:آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے گھر سے احتساب کا سلسلہ شروع کیا، آپ کی رائے میں آرمی افسروں اور سیاستدانوں کی طرح پی سی بی میں موجود ذمہ داروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے؟
عبدالقادر:میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے تاریخ میں پہلی بار اپنے ہی گھر سے احتساب کا آغاز کیا اور الزام ثابت ہونے پر افسروں سے مراعات واپس لے کرانہیں نوکریوں سے برطرف کیا، اب سیاستدانوں کے احتساب کی بھی بازگشت سنائی دینا شروع ہو گئی ہے، جب ہر طرف احتساب کا عمل شروع ہو گیا ہے توپاکستان کرکٹ بورڈ میں اس کا آغاز کیوں نہیں ہوتا،عہدیداروں کی ڈگریاں چیک کیوں نہیں ہوتیں، ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شکستوں کی وجوہات معلوم کیوں نہیں کی جاتیں، یہ کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ کس کس کی پرچی پر بورڈ میںکن کن کو پرکشش معاوضوں پر نوکریاں دی گئیں،جن لوگوں نے بادشاہت کی اور بورڈ کے خزانے کو بری طرح نقصان پہنچایا، ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیوں نہیں کیا جاتا،میری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ اگر کوئی اور نہیں تو آپ ہی از خود نوٹس لے لیں تاکہ کرکٹ کو تباہی سے مزید بچایا جا سکے۔
ایکسپریس: پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم میں بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟
عبدالقادر: مجھے پاکستان میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جوحکومت اور بورڈ میں موجود مضبوط لابی کے ہوتے ہوئے آزادانہ فیصلہ کر سکے، اس صورت حال سے نکلنے کے لئے میری ایک تجویز ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں دو گورے لے آؤ، ایک کو شہریار ، دوسرے کو نجم سیٹھی کی جگہ بٹھا دو، یہ ایسی شخصیات ہوں جن کو ایڈمنسٹریشن کا بھی تجربہ ہو اور وہ کرکٹ کے امور سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہوں،اب بھی کہتا ہوں کہ جن لوگوں نے ملکی کرکٹ کے ساتھ کھلواڑ کیا،انہیں سزائیں ضرور ملنی چاہئیں۔
پاکستان کی تاریخ عظیم کرکٹرز سے بھری پڑی ہے، ان کھلاڑیوں نے دنیا بھرمیں نہ صرف ملک کی پہچان بنائی بلکہ اپنے منفرد کھیل سے ملک وقوم کی نیک نامی میں اضافہ بھی کیا، ان بڑے کرکٹرز میں ایک بڑا نام عبدالقادر کا ہے۔
گگلی ماسٹر کے نام سے عالمگیر شہرت رکھنے والے لیگ سپنرکو دنیا کے متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا، چیف سلیکٹرکی ذمہ داری نبھاتے ہوئے انہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2009ء کے فاتح سکواڈ کا انتخاب بھی کیا، ایشیا کپ اور مختصر طرز کے عالمی کپ میں گرین شرٹس کی شرمناک شکستوں کے بعد اٹھنے والے طوفان کا رخ موڑنے کے لئے پی سی بی اور ٹیم مینجمنٹ میں تبدیلیوں اور تقرریوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے، ''ایکسپریس'' نے عبدالقادر سے ملکی کرکٹ کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے تفصیلی نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل ذیل میںکچھ یوں ہے۔
ایکسپریس: پاکستان کرکٹ ٹیم کی ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شرمناک شکستوں کا ذمہ دار آپ کس کو سمجھتے ہیں؟
عبدالقادر: پاکستان کرکٹ بورڈ میں بیٹھے عہدیداروں کی نیتیں ٹھیک نہیں ہیں، بورڈحکام بھی شائقین کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہیں جو سیاستدان اس ملک کی عوام کے ساتھ کرتے ہیں،جب بھی مسئلے مسائل جنم لیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ کمیٹیاں بنا دو اور پھر ان کمیٹیوں کی آڑ میں ایشوز کو دبا دیا جاتا ہے، وہ قومیںہی آگے بڑھتی ہیں جو اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں لیکن افسوس ہم نے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سیکھنے کی بجائے وہی پرانی روش برقرار رکھی جس کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں،اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو پی سی بی میں بادشاہت کا نظام راج ہے، عہدیدارآتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں، اپنے اہل خانہ اوردوستوں کونوازتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ کسی چیز کی ابتدا اور انتہاء بھی ہوتی ہے،قومی ٹیم زمبابوے کے خلاف ٹیسٹ ہاری، بڑا افسوس ہوا کہ ہم نے گرین شرٹس کو کہاں چھوڑا تھا اور یہ اس کو کہاں لے آئے ہیں، بعدازاں رہی سہی کسر ورلڈ کپ 2015ء میں ٹیم کی شرمناک کارکردگی نے پوری کر دی، ہارنے کے بعد پی سی بی نے نیا ڈرامہ رچایا اور بنگلہ دیش کے خلاف سیریز میں حصہ لیا، اس سیریز میں بھی ہم کلین سویپ ہو گئے، پھر ایک ڈرامہ کیا گیا اور زمبابوے کی ترلے منتیں کرنا شروع کر دی گئیں،مہمان ٹیم کو 5 لاکھ ڈالر کے علاوہ متعدد مراعات کی پیشکش بھی کی گئی اور بعد میں سیریز کے مقابلے پاکستان کے مختلف شہروں میں کروانے کی بجائے صرف لاہور میں ہی کروا دیئے گئے، میں کہتا ہوں کہ بورڈ حکام سیاستدانوں کی طرح عوام کے سامنے سفید جھوٹ بولتے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایکسپریس: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دونوں میگا ایونٹس میں ٹیم کی ناکامیوں کے ذمہ دار چیف کوچ وقار یونس ہی تھے، اگر ایسا نہیں تو سارا نزلہ ان پر ہی کیوں گرایا گیا؟
عبدالقادر: ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کپ میں ٹیم کی ناکامی کا ذمہ دار کسی کرکٹر کو نہیں سمجھتا بلکہ سارے کا سارا قصور پاکستان کرکٹ بورڈ کا ہے، جب بورڈ حکام کسی کو لاتے ہیں تو یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اس کا کریکٹر کیا ہے، ملک وقوم کے لئے خدمات کیا ہیں اور ماضی میں اس پر کوئی داغ تو نہیں ہے، ان سب باتوں کی پرواہ کئے بغیر مخصوص کرکٹرز کی جب لاٹریاں نکالی جاتی ہیں تو افسوس ہوتا ہے، جو بھی چیئرمین بورڈ آتا ہے وہ باہر کے ملکوں کو ترجیح دینے والے کرکٹرز کے ہی ناز نخرے اٹھاتا ہے،خان محمد، وسیم راجہ اور مشتاق محمد انگلینڈ میں رہتے تھے، انہیں وہاں سے بلا کر بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ میں ذمہ داریاں دی گئیں، مدثر نذر، عاقب جاوید اور مشتاق احمد کو بڑے عہدوں سے نوازا گیا ، ہمارے بورڈ کے کرتا دھرتا یا تو گوری چمڑی سے مرعوب ہوتے ہیں یا بیرون ملک آباد قومی کرکٹرز کے ناز نخرے اٹھاتے ہیں اور پھر ان لوگوں کو ہمارے سروں پر بٹھا دیا جاتاہے، میری نظر میں یہ بہت بڑا جرم ہے، بورڈ حکام سے پوچھتا ہوں کہ دوسرے ملکوں میں رہنے والے کرکٹرز کیا ماجد خان، جاوید میانداد، ظہیر عباس، وسیم باری، محسن خان، سرفراز نواز، محمد یوسف، عامر سہیل اور راشد لطیف سے بڑے کھلاڑی ہیں، اگر یہ کرکٹرز عہدیداروں کو اتنے ہی برے لگتے ہیں توان کے نام کے انکلوژر بھی ختم کر کے ان پر اپنے چہیتے کرکٹرز کے نام لکھوا لیں۔
ایکسپریس: آپ کی رائے میں قومی ٹیم کے لئے ملکی یا غیر ملکی میں سے زیادہ کونسا سا کوچ بہتر رہے گا؟
عبدالقادر: ماضی میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ غیر ملکی کوچ کا تجربہ بری طرح ناکام رہا ہے، سوچنے اور محسوس کرنے کی بات ہے کہ رچرڈ پائی بس، ڈیو واٹمور، جیف لاسن اور ڈیو واٹمور نے پاکستانی ٹیم کے ساتھ کوچنگ کی ذمہ داریاں نبھائیں اور پی سی بی سے پاؤنڈز اور ڈالرز میں رقوم وصول کیں، بھاری معاوضے لینے کے باوجود یہ کوچز عالمی سطح پر پاکستانی ٹیم کو ایک بھی تمغہ نہیں جتوا سکے، پاکستانی ٹیم نے1992 اور 2009 کے ورلڈ کپ جیتے، دونوں بار کوچ انتخاب عالم ہی تھے، جتنے گریٹ کرکٹرز پاکستان کی سرزمین نے پیدا کئے ہیں اس کے بعد بھی ہم نے ٹیم کے لئے کوچ باہر سے امپورٹ کرنا ہے تو یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے، میں تو کہتا ہوں کہ ایک ملک کے کوچ کو دوسرے ملک میں جا کر کوچنگ کی اجازت ہی نہیں ملنی چاہیے،جب ایک ملک کی فوج کا سپاہی یا آفیسر دوسرے ملک کی فوج میں شامل ہو کر جنگ نہیں لڑ سکتا، تو کرکٹ میں ایسا کیوں کیا جا رہا ہے، میرا مطالبہ ہے کہ آئی سی سی ایک دوسرے کے ملکوں میں جا کر کوچنگ کرنے کی پریکٹس کو بند کرے کیونکہ غیر ملکی کوچ کو صرف اور صرف پیسے سے غرض ہوتی ہے، اگر غیر ملکی کوچ ہی ناگزیر ہے تو یہ ذمہ داری ویسٹ انڈیز کے ویوین رچرڈ کو کیوں نہیں سونپ دی جاتی۔
ایکسپریس: ٹیم جب ہارتی ہے تو مہذب ملکوں کی ٹیموں کی طرح ہمارے کوچ اور کپتان شکست کی ذمہ داریاں قبول کرنے کی بجائے ملبہ ایک دوسرے پر کیوں ڈالتے ہیں؟
عبدالقادر: کرکٹ میںکوچ کا کوئی کردار نہیں ہوتا، میرا پی سی بی حکام سے سوا ل ہے کہ سالہا سال سے کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو بھی کیا کوچنگ کی ضرورت ہوتی ہے؟یہ پیسے کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، میں اگر چیئرمین پی سی بی ہوتا تو ٹیم کے ساتھ کوئی کوچ ہی نہ رکھتا کیونکہ ٹیم کے ساتھ جب کوچ ہوتا ہے تونت نئے مسائل جنم لیتے ہیں، انٹرنیشنل ایونٹس یا سیریز میں ہارنے کی صورت میں شکست کا ملبہ کوچ کپتان پر گراتا ہے اور کپتان کوچ کو قصور وار قرار دیتا ہے، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی اور ایشیا کپ میں ٹیم کی شکستوں کی ذمہ داری کسی نے قبول نہ کی، چور مچائے شور کی آوازیں ہم تک پہنچیں، کوچ نے کپتان، کپتان نے کوچ، شہریار خان نے نجم سیٹھی اور نجم سیٹھی نے شہریار خان کو قصور وار قرار دیا، میری تجویز ہے کہ کوچ کا عہدہ ختم کر کے تمام اختیارات کپتان کو ہی سونپتے ہوئے کہاجائے کہ جیت کا کریڈٹ اگر تمہیں ملے گا تو ہار کی ذمہ داری بھی قبول کرنی پڑے گی، کوچ کو ملنے والا بھاری معاوضہ ڈومیسٹک کرکٹ کی بہتری اور سابق کرکٹرز، امپائرز اورگراؤنڈ سٹاف کی فلاح وبہبود پر خرچ ہونا چاہیے، عبدالرحمن بخاطر کی آج بھی اس لئے عزت کرتا ہوں کہ انہوں نے میرا بینیفٹ میچ کروایا جس کی وجہ سے مجھے50 ہزار ڈالر کی رقم میسر آئی، بخاطر نے میری طرح اور بھی ان گنت کرکٹرز کے بینیفٹ میچ کروائے جس کی وجہ سے ان کے مالی حالات میں بہتری آئی۔
ایکسپریس: پی سی بی نے انضمام الحق کو چیف سلیکٹر مقرر کیا ہے، آپ اس فیصلے کو کیسا دیکھتے ہیں؟
عبدالقادر: میری رائے میں چیف سلیکٹر اسی کو ہونا چاہیے جس نے کم ازکم 50 ٹیسٹ میچز کھیلے ہوں۔ اور اس معیار پرانضمام الحق پورا اترتے ہیں، ان کی زندگی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کرکٹ کے زمانے میں ہی ان کا رجحان مذہب کی طرف ہو گیا، یہ بھی بڑا کام ہے جس کی میں ان کو شاباش بھی دیتا ہوں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ مذہبی رجحان کے باوجود دوسرے کرکٹرز کی طرح ان کی دولت، عزت،شہرت اور میڈیا میں رہنے کی خواہش ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی ہے، اگر انہوں نے متقی اور پرہیز گاروں کا راستہ اپنا لیا تھا تو سعید انور، سعیداحمد اور ذوالقرنین کی طرح کیوں نہیں بن گئے۔پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ پی سی بی عہدیداران داغی بندوں کو پسند کرتے ہیں، جسٹس قیوم رپورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شاید انضمام الحق ہی بچتے تھے ان کو بھی بورڈ میں لے لیا گیا ہے۔ شہریار خان نے خود اپنی کتاب میں اوول ٹیسٹ تنازع کا ذمہ دار انضمام الحق کی ضد اور ہٹ دھرمی کو قرار دیا ، اعجاز بٹ نے اپنی رپورٹ میں انہیں ڈکٹیٹر قرار دیا،جب کسی بندے پر اتنے داغ ہوں توپھر اسے چیف سلیکٹر کی ذمہ داری کیسے سونپی جا سکتی ہے، بہتر ہوتا کہ کسی کو بھی سلیکشن کمیٹی کا سربراہ بنانے سے پہلے شہریار خان اپنی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیتے اور دلچسپی رکھنے والے کرکٹرز کے انٹرویو کر کے پوچھتے تمہارا منشور کیا ہے، کھلاڑیوں کا انتخاب کن کن پیمانوں پر کرو گے۔
ایکسپریس: اطلاعات ہیں کہ چیئرمین پی سی بی شہریارخان آپ کو بورڈ میں ذمہ داری دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
عبدالقادر: میں شہریار خان کی بڑی عزت کرتا ہوں، میںان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ انگلینڈ میں پاکستان کے سفیر تھے، لیکن میری رائے میں شہریارکو چیئرمین شپ کی دوسری اننگز نہیں کھیلنی چاہیے تھی، بورڈ میں دوبارہ آنے سے ان کی عمر بھر کی عزت اور نیک نامی داؤ پر لگی ہوئی ہے، بورڈ میں موجود عہدیدار ان کے ساتھ وہی شطرنج والا کھیل کھیل رہے ہیں اور وہ بورڈ میں شٹل کاک بنے ہوئے ہیں، پی سی بی کے تمام تر اختیارات نجم سیٹھی کے پاس ہیں لیکن ٹیم کی شکستوں اور بورڈ کے خراب معاملات کا ذمہ دار شہریار خان کو ٹھہرایا جاتا ہے۔جب تک نجم سیٹھی کرکٹ بورڈ میں ہیں، میں کوئی بھی عہدہ کسی بھی صورت قبول نہیں کروں گا، اگر وہ 10 سال تک بھی بورڈ میں رہے اور مجھے آفرزہوتیں رہیں توہر بار میرا جواب انکار کی صورت میں ہی ہوگا، سچ پوچھا جائے تو میں نے ہی انکار نہیں کیا بلکہ جاوید میانداد، سرفراز نواز، عامر سہیل ، محسن خان، راشد لطیف اور محمد یوسف بھی بورڈ میں کام کرنے سے معذرت کر چکے ہیں۔
ایکسپریس:پاکستان میں لیگ سپن کا شعبہ زوال پذیر ہے، آپ قومی ڈیوٹی سمجھتے ہوئے میدان میں کیوں نہیں آتے؟
عبدالقادر: میں آج جو کچھ بھی ہوں، اس ملک کی بدولت ہوں، اس ملک کے لئے کوئی بھی ذمہ داری نبھانا اعزاز کی بات سمجھتا ہوں لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کو شاید میری ضرورت ہی نہیں ہے،کسی عہدیدار نے رابطہ نہیں کیاکہ آپ ہماری نظر میں ہیں چاہتے ہیں کہ اپنا سپن بولنگ کا تجربہ ملکی کرکٹ کی بہتری کے لئے وقف کریں، بورڈ کا لاڈلہ مشتاق احمد ہے جس کی بار بار لاٹریاں نکالی جاتی ہیں،ادب کا مقام یہ بھی ہے کہ جب مشتاق احمد کو آفرز ہوتی ہیں تو وہ کہیں کہ عبدالقادر اس جاب کے ساتھ زیادہ بہتر انصاف کر سکتے ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ اس طرح کے کرکٹرز اپنی باری کا انتظار کیوں نہیں کرتے۔
ایکسپریس:آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے گھر سے احتساب کا سلسلہ شروع کیا، آپ کی رائے میں آرمی افسروں اور سیاستدانوں کی طرح پی سی بی میں موجود ذمہ داروں کا بھی احتساب ہونا چاہیے؟
عبدالقادر:میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے تاریخ میں پہلی بار اپنے ہی گھر سے احتساب کا آغاز کیا اور الزام ثابت ہونے پر افسروں سے مراعات واپس لے کرانہیں نوکریوں سے برطرف کیا، اب سیاستدانوں کے احتساب کی بھی بازگشت سنائی دینا شروع ہو گئی ہے، جب ہر طرف احتساب کا عمل شروع ہو گیا ہے توپاکستان کرکٹ بورڈ میں اس کا آغاز کیوں نہیں ہوتا،عہدیداروں کی ڈگریاں چیک کیوں نہیں ہوتیں، ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں شکستوں کی وجوہات معلوم کیوں نہیں کی جاتیں، یہ کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ کس کس کی پرچی پر بورڈ میںکن کن کو پرکشش معاوضوں پر نوکریاں دی گئیں،جن لوگوں نے بادشاہت کی اور بورڈ کے خزانے کو بری طرح نقصان پہنچایا، ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیوں نہیں کیا جاتا،میری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ اگر کوئی اور نہیں تو آپ ہی از خود نوٹس لے لیں تاکہ کرکٹ کو تباہی سے مزید بچایا جا سکے۔
ایکسپریس: پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم میں بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے؟
عبدالقادر: مجھے پاکستان میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جوحکومت اور بورڈ میں موجود مضبوط لابی کے ہوتے ہوئے آزادانہ فیصلہ کر سکے، اس صورت حال سے نکلنے کے لئے میری ایک تجویز ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں دو گورے لے آؤ، ایک کو شہریار ، دوسرے کو نجم سیٹھی کی جگہ بٹھا دو، یہ ایسی شخصیات ہوں جن کو ایڈمنسٹریشن کا بھی تجربہ ہو اور وہ کرکٹ کے امور سے بھی گہری واقفیت رکھتے ہوں،اب بھی کہتا ہوں کہ جن لوگوں نے ملکی کرکٹ کے ساتھ کھلواڑ کیا،انہیں سزائیں ضرور ملنی چاہئیں۔