کچھ نہ ’’دوا‘‘ نے کام کیا
ٹرانسپورٹرز اور گیس اسٹیشن مالکان کی ہٹ دھرمی نے سی این جی کی قیمت میں کمی کے اثرات زائل کردیے۔
25 اکتوبر 2012 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر اوگرا نے سی این جی کی قیمتوں میں کمی کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔
جس کے تحت پنجاب اور سندھ میں سی این جی کی فی کلو قیمت میں 30.38 روپے کمی کر دی گئی۔ یوں سی این جی کی قیمت 85 روپے سے گھٹ کر 54 روپے 16 پیسے فی کلو ہوگئی۔ بعد کی ایک سماعت میں سپریم کورٹ نے 19 نومبر تک اِسی قیمت پر سی این جی کی فروخت کا حکم جاری کر دیا۔ یہ ایک یادگار فیصلہ تھا، جسے عوام کی جانب سے سراہا گیا۔
واضح رہے کہ کراچی کی سڑکوں پر موجود بیش تر رکشوں، ٹیکسیوں اور بسوں میں سی این جی ہی استعمال ہو رہی ہے۔ ایسے میں حکومتی اداروں کے علاوہ ٹرانسپورٹرز کی بھی یہ اخلاقی اور قانونی ذمے داری تھی کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کردیں۔ یاد رہے کہ پنجاب حکومت کے فوری اقدام کے طفیل سی این جی کی قیمت میں کمی کے دوسرے ہی روز پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے 15 سے 20 فی صد کم ہوگئے تھے۔ یہی کچھ خیبر پختون خواہ میں ہوا، جہاں صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اور اعلیٰ حکام نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے۔ بدقسمتی سے سندھ اور بلوچستان میں ایسا نہیں ہوسکا۔ شہر قائد کے ٹرانسپورٹرز کا موقف تھا کہ اُنھیں نئے کرایوں کی فہرستیں مہیا نہیں کی گئی ہیں۔
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا! یہ عام خیال ہے کہ اِس کا سبب صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ہیں، جو خود اِس کاروبار سے منسلک ہیں۔ غالباً اِسی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے میں کمی کے تعلق سے ہونے والا اجلاس ٹلتا رہا۔ خیر، تاخیر سے منعقد ہونے والا یہ اجلاس بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ اجلاس کے بعد ٹرانسپورٹرز نے یہ کہہ کر دامن چھڑا لیا کہ چھوٹی گاڑیوں کے کرایے کی فہرستیں تو مل گئی ہیں، مگر جب بڑی گاڑیوں کے کرایے کی فہرست ملے گئی، تب کرایے کم ہوں گے۔
بدقسمتی سے کراچی کی شہری تاحال اِس خوش خبری کے منتظر ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو لگ بھگ تین ہفتے گزر چکے ہیں، لیکن ٹرانسپورٹرز آج بھی منہ مانگے کرایے وصول کر رہے ہیں۔ سی این جی کی قیمت میں کمی سے اُن کا خرچا تو گھٹ گیا ہے، لیکن منافع دُگنا ہوگیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر سی این جی کی قیمتوں میں 30 روپے فی کلو اضافہ ہوجاتا، تب بھی کیا ٹرانسپورٹرز کرایوں میں اضافے کے لیے کسی فہرست کا انتظار کرتے؟ ماضی میں جب کبھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، ہم نے دیکھا کہ اگلے چند روز میں کرایے بڑھا دیے گئے۔ ایسا کئی بار ہوا کہ رات میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا، اور اگلے روز ٹرانسپورٹرز نے اجلاس بلوایا لیا، جس کے بعد مسافروں سے اضافی کرایہ وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
وہ زمانے لد گئے، جب گاڑیوں میں کرایے کی فہرست چسپاں کی جاتی تھی، رکشا اور ٹیکسی میں میٹر ہوتے تھے۔ اب ٹرانسپورٹرز کی اجارہ داری ہے۔ کرایے کی فہرست گاڑی میں لگانے کا رواج ختم ہوگیا ہے۔ اگر کوئی مسافر کرایے کی فہرست طلب کر لے، تو کنڈکٹر اور ڈرائیور اُس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ مار پیٹ سے بھی گریز نہیں کرتے، جس کے بعد بے چارہ مسافر کبھی فہرست دیکھنے کی معصوم خواہش کا اظہار نہیں کرتا۔ سی این جی کی قیمتوں میں حالیہ کمی کے بعد نادان مسافر یہ سوچنے لگے تھے کہ اِس اقدام سے اُنھیں فائدہ پہنچے گا، لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ جب سے سی این جی کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے، اِس بنیادی سہولت کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ عوام سی این جی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ کبھی سی این جی اسٹیشن بند ہوتا ہے، تو کبھی پریشر کی کمی اُن کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے۔ سی این جی اسٹیشن کے عملے کا رویہ بھی شہریوں کے ساتھ انتہائی غیرمناسب ہے۔ کیا یہ منافعے میں کمی کا دُکھ ہے، جس نے اُنھیں کاروباری رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے؟ شاید نہیں! سچ تو یہ ہے کہ قیمت میں کمی کے بعد اب سی این جی کی کھپت بڑھ گئی ہے۔ پہلے چند کلو سی این جی بھروانے والے، اب سلنڈر فُل کروانے کو ترجیح دیتے ہیں، کیوں کہ کسی بھی وقت، بغیر کسی اعلان کے اسٹیشن بند کیے جاسکتے ہیں۔ یہ افسوس ناک امر ہے کہ ایک جانب گھروں میں استعمال ہونی والی گیس کی فراہمی مسئلہ بن گئی ہے، وہیں ٹرانسپورٹرز سستی سی این جی کے مزے اڑا رہے ہیں۔
سندھ کے ٹرانسپورٹرز کو بھی پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے ٹرانسپورٹرز کے مانند عوام کے فائدہ کے لیے کرایے میں کمی کا فوری اعلان کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ کرایے میں کمی ٹرانسپورٹرز کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں، یہ تو فقط حکومت سے ملنے والی سہولت کو عوام تک منتقل کرنے کا معاملہ ہے۔ اگر صورت حال جوں کی توں رہتی ہے، تو عوام کے مصائب کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اِس وقت پانچ کلومیٹر تک کا کرایہ بارہ روپے مقرر ہے، اِسے کم کرکے دس روپے کیا جانا چاہیے۔ اسی کلیے کو برتتے ہوئے اگر نئے کرایوں کا اطلاق کیا جائے، تو عوام کو خاصا ریلیف ملے گا۔
صورت حال کچھ یوں ہے کہ سی این جی اسٹیشنز کی بندش کا عمل اذیت ناک حد تک بے ترتیب ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے صبح گھروں سے نکلنے والے شہریوں کو اِس بات کا قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ سڑکوں پرپبلک ٹرانسپورٹ ہوگی بھی یا نہیں۔ گیس اسٹیشن کی بندش کے عمل میں در آنے والی بے ترتیبی نے اُنھیں ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسائل میں گھرے عوام کو اگر کچھ ریلیف ملنے کا امکان پیدا ہوا ہے، تو ٹرانسپورٹرز اور حکومتی ادارے کیوں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے؟ کیوں اِس فیصلے کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ رہا، جب کہ ٹرانسپورٹرز کروڑوں روپے کا منافع کما رہے ہیں۔
یہ عام خیال ہے کہ حکومتی اداروں اور سی این جی اسٹیشن مالکان کی مرضی کے خلاف جاتے ہوئے سپریم کورٹ نے عوام کو ریلیف فراہم کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ، مبینہ طور پر انتقاماً عوام کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔
جہاں سی این جی اسٹیشن مالکان کا رویہ عجیب و غریب ہے، وہیں حکومتی اداروں کے رویے پر بھی حیرت ہوتی ہے، جو عوام دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ عوام صوبائی حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں اور منتخب نمایندوں سے سوال کرتے ہیں کہ استحصال کا یہ سلسلہ آخر کب تھمے گا۔ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں پر بھی بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے۔ اُنھیں چاہے کہ وہ عوام کے لیے آواز بلند کریں۔ کراچی میں سیاسی مقاصد کے لیے آئے روز ہڑتالیں ہوتی ہیں، اگر پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی نہیں کی جارہی، تو اِس پر احتجاج کیوں نہیں ہورہا؟
ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہر مسئلے کے لیے سپریم کورٹ کی طرف دیکھنے کے بجائے کچھ کام حکومت خود بھی کرے، تاکہ عوامی حکومت کہلانے کا حق ادا ہو!
جس کے تحت پنجاب اور سندھ میں سی این جی کی فی کلو قیمت میں 30.38 روپے کمی کر دی گئی۔ یوں سی این جی کی قیمت 85 روپے سے گھٹ کر 54 روپے 16 پیسے فی کلو ہوگئی۔ بعد کی ایک سماعت میں سپریم کورٹ نے 19 نومبر تک اِسی قیمت پر سی این جی کی فروخت کا حکم جاری کر دیا۔ یہ ایک یادگار فیصلہ تھا، جسے عوام کی جانب سے سراہا گیا۔
واضح رہے کہ کراچی کی سڑکوں پر موجود بیش تر رکشوں، ٹیکسیوں اور بسوں میں سی این جی ہی استعمال ہو رہی ہے۔ ایسے میں حکومتی اداروں کے علاوہ ٹرانسپورٹرز کی بھی یہ اخلاقی اور قانونی ذمے داری تھی کہ وہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کردیں۔ یاد رہے کہ پنجاب حکومت کے فوری اقدام کے طفیل سی این جی کی قیمت میں کمی کے دوسرے ہی روز پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے 15 سے 20 فی صد کم ہوگئے تھے۔ یہی کچھ خیبر پختون خواہ میں ہوا، جہاں صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اور اعلیٰ حکام نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے۔ بدقسمتی سے سندھ اور بلوچستان میں ایسا نہیں ہوسکا۔ شہر قائد کے ٹرانسپورٹرز کا موقف تھا کہ اُنھیں نئے کرایوں کی فہرستیں مہیا نہیں کی گئی ہیں۔
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا! یہ عام خیال ہے کہ اِس کا سبب صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ہیں، جو خود اِس کاروبار سے منسلک ہیں۔ غالباً اِسی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایے میں کمی کے تعلق سے ہونے والا اجلاس ٹلتا رہا۔ خیر، تاخیر سے منعقد ہونے والا یہ اجلاس بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ اجلاس کے بعد ٹرانسپورٹرز نے یہ کہہ کر دامن چھڑا لیا کہ چھوٹی گاڑیوں کے کرایے کی فہرستیں تو مل گئی ہیں، مگر جب بڑی گاڑیوں کے کرایے کی فہرست ملے گئی، تب کرایے کم ہوں گے۔
بدقسمتی سے کراچی کی شہری تاحال اِس خوش خبری کے منتظر ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو لگ بھگ تین ہفتے گزر چکے ہیں، لیکن ٹرانسپورٹرز آج بھی منہ مانگے کرایے وصول کر رہے ہیں۔ سی این جی کی قیمت میں کمی سے اُن کا خرچا تو گھٹ گیا ہے، لیکن منافع دُگنا ہوگیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر سی این جی کی قیمتوں میں 30 روپے فی کلو اضافہ ہوجاتا، تب بھی کیا ٹرانسپورٹرز کرایوں میں اضافے کے لیے کسی فہرست کا انتظار کرتے؟ ماضی میں جب کبھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، ہم نے دیکھا کہ اگلے چند روز میں کرایے بڑھا دیے گئے۔ ایسا کئی بار ہوا کہ رات میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا، اور اگلے روز ٹرانسپورٹرز نے اجلاس بلوایا لیا، جس کے بعد مسافروں سے اضافی کرایہ وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
وہ زمانے لد گئے، جب گاڑیوں میں کرایے کی فہرست چسپاں کی جاتی تھی، رکشا اور ٹیکسی میں میٹر ہوتے تھے۔ اب ٹرانسپورٹرز کی اجارہ داری ہے۔ کرایے کی فہرست گاڑی میں لگانے کا رواج ختم ہوگیا ہے۔ اگر کوئی مسافر کرایے کی فہرست طلب کر لے، تو کنڈکٹر اور ڈرائیور اُس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ مار پیٹ سے بھی گریز نہیں کرتے، جس کے بعد بے چارہ مسافر کبھی فہرست دیکھنے کی معصوم خواہش کا اظہار نہیں کرتا۔ سی این جی کی قیمتوں میں حالیہ کمی کے بعد نادان مسافر یہ سوچنے لگے تھے کہ اِس اقدام سے اُنھیں فائدہ پہنچے گا، لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔
ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ جب سے سی این جی کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے، اِس بنیادی سہولت کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے۔ عوام سی این جی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ کبھی سی این جی اسٹیشن بند ہوتا ہے، تو کبھی پریشر کی کمی اُن کی زندگی اجیرن کر دیتی ہے۔ سی این جی اسٹیشن کے عملے کا رویہ بھی شہریوں کے ساتھ انتہائی غیرمناسب ہے۔ کیا یہ منافعے میں کمی کا دُکھ ہے، جس نے اُنھیں کاروباری رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے؟ شاید نہیں! سچ تو یہ ہے کہ قیمت میں کمی کے بعد اب سی این جی کی کھپت بڑھ گئی ہے۔ پہلے چند کلو سی این جی بھروانے والے، اب سلنڈر فُل کروانے کو ترجیح دیتے ہیں، کیوں کہ کسی بھی وقت، بغیر کسی اعلان کے اسٹیشن بند کیے جاسکتے ہیں۔ یہ افسوس ناک امر ہے کہ ایک جانب گھروں میں استعمال ہونی والی گیس کی فراہمی مسئلہ بن گئی ہے، وہیں ٹرانسپورٹرز سستی سی این جی کے مزے اڑا رہے ہیں۔
سندھ کے ٹرانسپورٹرز کو بھی پنجاب اور خیبر پختون خواہ کے ٹرانسپورٹرز کے مانند عوام کے فائدہ کے لیے کرایے میں کمی کا فوری اعلان کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ کرایے میں کمی ٹرانسپورٹرز کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں، یہ تو فقط حکومت سے ملنے والی سہولت کو عوام تک منتقل کرنے کا معاملہ ہے۔ اگر صورت حال جوں کی توں رہتی ہے، تو عوام کے مصائب کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اِس وقت پانچ کلومیٹر تک کا کرایہ بارہ روپے مقرر ہے، اِسے کم کرکے دس روپے کیا جانا چاہیے۔ اسی کلیے کو برتتے ہوئے اگر نئے کرایوں کا اطلاق کیا جائے، تو عوام کو خاصا ریلیف ملے گا۔
صورت حال کچھ یوں ہے کہ سی این جی اسٹیشنز کی بندش کا عمل اذیت ناک حد تک بے ترتیب ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے صبح گھروں سے نکلنے والے شہریوں کو اِس بات کا قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ سڑکوں پرپبلک ٹرانسپورٹ ہوگی بھی یا نہیں۔ گیس اسٹیشن کی بندش کے عمل میں در آنے والی بے ترتیبی نے اُنھیں ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسائل میں گھرے عوام کو اگر کچھ ریلیف ملنے کا امکان پیدا ہوا ہے، تو ٹرانسپورٹرز اور حکومتی ادارے کیوں اپنا کردار ادا نہیں کر رہے؟ کیوں اِس فیصلے کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ رہا، جب کہ ٹرانسپورٹرز کروڑوں روپے کا منافع کما رہے ہیں۔
یہ عام خیال ہے کہ حکومتی اداروں اور سی این جی اسٹیشن مالکان کی مرضی کے خلاف جاتے ہوئے سپریم کورٹ نے عوام کو ریلیف فراہم کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ، مبینہ طور پر انتقاماً عوام کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔
جہاں سی این جی اسٹیشن مالکان کا رویہ عجیب و غریب ہے، وہیں حکومتی اداروں کے رویے پر بھی حیرت ہوتی ہے، جو عوام دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ عوام صوبائی حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں اور منتخب نمایندوں سے سوال کرتے ہیں کہ استحصال کا یہ سلسلہ آخر کب تھمے گا۔ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں پر بھی بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے۔ اُنھیں چاہے کہ وہ عوام کے لیے آواز بلند کریں۔ کراچی میں سیاسی مقاصد کے لیے آئے روز ہڑتالیں ہوتی ہیں، اگر پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی نہیں کی جارہی، تو اِس پر احتجاج کیوں نہیں ہورہا؟
ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہر مسئلے کے لیے سپریم کورٹ کی طرف دیکھنے کے بجائے کچھ کام حکومت خود بھی کرے، تاکہ عوامی حکومت کہلانے کا حق ادا ہو!