کاغذی ڈالر کا شکنجہ اور قیدی ممالکدوسرا حصہ

یاد رہے دسمبر 1923 کو فرانسیسی کرنسی فرانک 20.00 ایک ڈالر تھا

k_goraya@yahoo.com

یاد رہے دسمبر 1923 کو فرانسیسی کرنسی فرانک 20.00 ایک ڈالر تھا۔ اس قرضے کے لینے کے بعد فرانس کی کرنسی دسمبر 1924 تک 18.867 فرانک کا ایک ڈالر کے برابر کردی گئی تھی۔ امریکا قرضے میں جکڑ کر ایک طرف سود لے رہا تھا، دوسری طرف امریکی اشیا ان ملکوں کو نفع لے کر فروخت کر رہا تھا۔

1919 سے 1923 تک بیلجیم نے امریکا سے ایک ارب 43 کروڑ 5 لاکھ 43 ہزار ڈالر کا قرضہ لیا تھا جس کا سودا الگ تھا۔ کتاب "Currencies After the War By League of Nations 1920" کے صفحہ 190 پر دیے گئے تجارتی اعداد و شمار کے مطابق امریکی 1914 میں ایکسپورٹ 2364.579148 ملین ڈالر تھی۔ 1919 میں 7224.744785 ملین ڈالر ہوگئی۔ ایکسپورٹ میں 206فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔

کتاب یورپین کرنسی اینڈ فنانس حصہ اول کے صفحہ 219 پر ڈنمارک کی کرنسی Kroner اگست 1914 کو 3.75 کرونار کا ایک ڈالر تھا۔ دسمبر 1914 کو 4.02 کرونار کا ڈالر، دسمبر 1917 کو 3.28 کرونار کا ڈالر، دسمبر 1918 کو 3.78 کرونار کا ڈالر، دسمبر 1919 کو 5.20 کرونار کا ڈالر، دسمبر 1920 کو 6.46کرونار کا ڈالر (فروری 1920 کو 6.944 کرونار کا ڈالر، نومبر 1920 کو 7.662 کرونار کا ڈالر ہوگیا تھا)۔

متذکرہ کتاب حصہ دوم کے صفحہ 94 کے مطابق ڈنمارک کی حکومت نے 1920 سے 1925 تک کے دوران امریکا سے کرنسی کی قیمت ڈالر کے مقابلے سے گرنے سے روکنے کے لیے 17 کروڑ ڈالر اور برطانیہ سے 97 لاکھ پونڈ اسٹرلنگ کا قرضہ لیا تھا۔ دسمبر 1920 کو کرونار 6.46 کا ایک ڈالر تھا۔ قرضے لینے کے بعد دسمبر 1921 میں 4.98 کرونار ایک ڈالر کا کردیا گیا تھا۔

برطانوی سامراج، فرانسیسی، جرمنی، پرتگالی، ترکی، نیدرلینڈ، یہ ممالک کسی نہ کسی طرح سامراجی ممالک تھے۔ ان کے زیر اثر نو آبادیاں تھیں، ان تمام نے اپنی اپنی نوآبادیوں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھا۔ وہاں کے وسائل کو لوٹا۔ اپنے اپنے ملکوں کو غلام بھی منتقل کیے، لیکن امریکی سامراج کے لوٹنے کا میکنزم ان سب سے مختلف تھا اور یہ تمام سامراجی ممالک امریکی سامراجی میکنزم کے شکنجے میں جکڑے گئے۔ امریکی مالیاتی '' کاغذی ڈالر میکنزم'' کے سامنے سب سے بڑا سامراجی ملک برطانیہ بھی زمین پر گرگیا۔ امریکی مالیاتی زنجیروں میں قید ہوکر امریکی غلام بن گیا۔ جب پورا یورپ امریکی مالیاتی شکنجے میں قید کرلیا گیا تو امریکا نے ان قیدیوں کے لیے باقاعدہ ایک مالیاتی جیل خانہ قائم کرلیا تھا۔

EEF ادارے کے قائم کرنے کے بعد مالیاتی آپریشن اس ادارے کی کمیٹی کرنے لگی جو امریکی تھی۔ امریکی کاغذی ڈالر دوران جنگ امریکا نے بڑی تیزی سے یورپی ملکوں کے مالیاتی سسٹم میں داخل کردیے تھے۔ کتاب یورپین کرنسی اینڈ فنانس حصہ دوم صفحہ 285 پر سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے اگست 1919 سے اپریل 1924 تک امریکا سے 11 کروڑ17 لاکھ ڈالر کا قرضہ لیا تھا۔

اس قرضے پر 8 فیصد شرح سود سالانہ ادا کیا گیا۔ قرض لینے کے بعد سوئٹزرلینڈ کی کرنسی فرانک کی قیمت میں اضافہ کردیا گیا۔ یہاں پر یہ بتادینا ضروری سمجھتا ہوں کہ متحارب ملکوں میں نفرت انگیزی سے ایک دوسرے کی کرنسیوں میں تجارت رک جانے سے تیسری کرنسی ''کاغذی ڈالر'' نے اس خلا کو سونے کی ضمانت دکھا کر پر کردیا تھا۔ یورپ میں اور خود برطانیہ میں پونڈ کی ڈیمانڈ کم ہونے پر 1920 میں برطانوی پونڈ ڈالر کے مقابلے میں 3.33 ڈالر کے عوض آگیا تھا۔ کیونکہ ڈالر کی مانگ میں برطانیہ کے تاجروں نے اضافہ کردیا تھا۔

جرمنی سامراج جنگ سے قبل جرمنی کی کرنسی مارک Mark جنوری 1914 کو 4.217 مارک کا ڈالر تھا (محوری گروپ کا لیڈر تھا ) کتاب یورپین کرنسی اینڈ فنانس حصہ اول کے صفحے 536-38 کے مطابق جرمنی کی کرنسی مارک کی قیمت نومبر 1918 تک اوسطاً 7.418 مارک کا ڈالر تھا۔ اور امریکی صدر ولسن نے جنوری 1918 کو چودہ نکات جنگ بندی کے لیے پیش کیے تھے۔ جرمنی نے 11 نومبر 1918 کو جنگ بند کردی تھی۔ اس کے بعد اتحادیوں نے جرمن نو آبادیاں چھین لی تھیں۔ جنگ بندی کے بعد جرمنی کرنسی کی قیمت میں ذلت آمیز کمی کی گئی۔


دسمبر 1918 کو جرمنی 8.333 مارک کا ڈالر تھا۔ دسمبر 1919 کو 47.619 مارک کا ڈالر دسمبر 1920 کو 72.992 مارک کا ڈالر، دسمبر 1921 کو 188.679 مارک ڈالر، دسمبر 1922 کو 10000.00 مارک کا ڈالر، دسمبر 1923 کو 44 کھرب 5 ارب 28 کروڑ 63 لاکھ 44 ہزار مارک کا ایک ڈالر کردیا گیا۔ معاہدہ ورسائی Treaty of Verssailles کے تحت جرمنی سے نو آبادیاں چھین لی گئیں۔ جرمنی کو چین، تھائی لینڈ (سیام) لائبیریا، مصر، مراکش، خاص تجارتی حقوق حاصل تھے، وہ چھین لیے گئے۔

لگسمبرگ کو جرمن کسٹم یونین سے نکال کر بیلجیم کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔ جرمنی کی فوجی قوت ختم کردی گئی۔ اس کے بعد جب جرمنی کو مکمل کمزور کردیا گیا تو امریکا نے جرمن مارک کی کرنسی Rechsmark بناکر اس کرنسی اکتوبر 1924 کو 4.201 Rechsmark کا ایک ڈالر کردیا گیا۔ اسی طرح اتحادیوں نے سینٹ جرمن معاہدہ Treaty of St. Tex Germany کیا۔ یہ معاہدہ آسٹریا ہنگری کے درمیان کیا گیا۔ یوہیمیا مورایا، آسٹرین سلیشیا پر مشتمل ایک نیا ملک چیکو سلواکیہ کے نام سے بنایا گیا۔ ہنگری کو الگ ملک بنادیا گیا۔

اور نیا ملک یوگو سلاویہ بنایا گیا۔ جرمنی کی آبادی 1914 میں دو کروڑ تھی۔ جنگ کے بعد صرف ساٹھ لاکھ رہ گئی تھی۔ ہنگری، بلغاریہ اور ترکی کو بھی نوآبادیوں سے محروم کردیا گیا۔ حجاز کی برائے نام ریاست بناکر اس پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا۔ فلسطین، عراق، اردن پر برطانوی سامراج نے قبضہ کرلیا۔ شام پر فرانس نے قبضہ کرلیا۔ پولینڈ کو آزاد ملک تسلیم کرلیا گیا۔ چیکو سلواکیہ، یوگوسلاویہ، لیتھونیا، اسٹونیا، لٹویا کے نام سے نئے ممالک بنائے گئے۔ آسٹریا اور ہنگری کو الگ الگ ملک بنادیا گیا۔

پولینڈ متذکرہ کتاب حصہ دوم کے صفحہ 353-55 سے لیے اعداد و شمار کے مطابق کرنسی پولش مارک 1919 میں 13.333 پولش مارک کا ڈالر تھا۔ 1921 تک 3194.888 پولش مارک کا ڈالر، 1923 کو 42 لاکھ 73 ہزار 5 سو 4 پولش مارک کا ڈالر تھا۔ اپریل 1924 کو 87 لاکھ 71 ہزار 9 سو 30 پولش مارک کا ڈالر ہوگیا تھا۔ جون 1924 کو پولینڈ کی نئی کرنسی بنائی گئی۔

زولٹی 5.184 کا ایک ڈالر کردیا گیا تھا۔ پولینڈ نے 1919 سے 1924 تک امریکا سے 90 کروڑ 85 لاکھ 84 ہزار 4 سو 26 ڈالر کا قرضہ لیا۔ برطانیہ سے ایک کروڑ81 لاکھ 81 ہزار 7 سو 95 پونڈ اسٹرلنگ کا قرضہ لیا۔ فرانس سے بھاری مقدار میں کرنسی فرانک کا قرضہ لیا۔ اٹلی سے بھاری مقدار میں کرنسی لیرا کا قرضہ لیا۔ نیدرلینڈ اور ناروے، ڈنمارک اور سوئیڈن سے بھی قرضہ لیا۔ روس کی کرنسی روبل جنوری 1914 کو 1.937 روبل کا ڈالر تھا۔ دسمبر 1915 کو روبل 3.2 کا ڈالر، دسمبر 1916 کو 3.359 روبل کا ڈالر، اکتوبر 1917 انقلاب کے بعد 7.692 روبل کا ڈالر اور روس جنگ سے الگ ہوگیا تھا۔

امریکا 1914 سے 1924 تک تمام یورپی ملکوں کے مالیاتی سسٹم پر قابض ہوچکا تھا اور 20.67 ڈالر فی اونس دکھا کر تمام ملکوں میں بے تحاشا کاغذی ڈالر داخل کردیے تھے۔

کتاب "The Course and Phases of the World Economic Depression by League of Nations. Geneva 1931" کے صفحہ 31-32 پر درج ہے کہ امریکا نے 1924 سے 1929 تک کاغذی ڈالر (سرمایہ) یورپی ملکوں کو ایکسپورٹ کیا۔ یہ کاغذی ڈالر 2864.0 ملین ڈالر تھے۔ برطانیہ نے کاغذی ڈالر میں بیرونی ملکوں میں سرمایہ کاری کی تھی۔ کیونکہ پونڈ اسٹرلنگ یورپ میں جنگ کے بعد ناقابل قبول ہوچکا تھا۔ برطانیہ ایک طرف امریکا سے قرض در قرض لے رہا تھا دوسری طرف امریکی ڈالر کی اپنی زیر اثر یورپی ملکوں میں سرمایہ کاری کر رہا تھا۔ 1923 سے 1929 تک برطانیہ نے کاغذی ڈالر 3133.0 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی۔

کاغذی ڈالر امپورٹ کرنے والے ملکوں میں جاپان نے 1924سے 1928 تک 504.0 ملین کاغذی ڈالر امپورٹ کیے اور 1929 میں جاپان نے 25.0 ملین ڈالر امریکا کو واپس کردیے۔ آسٹریا نے 1303.0 ملین کاغذی ڈالر امپورٹ کیے تھے۔ ارجنٹائن نے 536.0 ملین کاغذی ڈالر امپورٹ کیے اور جرمنی نے 1924 سے 1929 تک 4130.0 ملین کاغذی ڈالر امپورٹ کیے تھے۔ یاد رہے کہ کاغذی ڈالروں کے بدلے ان ملکوں نے امریکا کو سونا یا پھر اشیا فروخت کی تھیں۔ ان سب کا ٹوٹل 6448.0 ملین کاغذی ڈالر تھا۔

(جاری ہے)
Load Next Story